Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 132
وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُ١ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَؕ
وَوَصّٰی : اور وصیت کی بِهَا : اس کی اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم بَنِيهِ : اپنے بیٹے وَيَعْقُوْبُ : اور یعقوب يٰبَنِيَّ : اے میرے بیٹو اِنَّ اللہ : بیشک اللہ اصْطَفَی : چن لیا لَكُمُ : تمہارے لئے الدِّينَ : دین فَلَا : پس نہ تَمُوْتُنَّ : مرناہرگز اِلَّا وَاَنْتُمْ : مگر تم مُسْلِمُوْنَ : مسلمان
اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوبؑ اپنی اولاد کو کر گیا اس نے کہا تھا کہ: "میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا"
( وَوَصّٰی : اور تاکید کی ( ( بِھَآ : اس کی ( ( اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم (علیہ السلام) نے ( ( بَنِیْہِ : اپنے اپنے بیٹوں کو ( ( وَیَعْقُوْبُ : اور یعقوب (علیہ السلام) نے ( (یٰـبَنِیَّ : اے میرے بیٹو ! ( ( اِنَّ اللّٰہَ : بیشک اللہ نے ( (اصْطَفٰی : چنا ( ( لَــکُمُ : تم لوگوں کے لئے ( (الدِّیْنَ : اس دین کو ( (فَـلَا تَمُوْتُنَّ : تو تم لوگ ہرگز نہ مرنا ( (اِلاَّ وَ : مگر اس حال میں کہ ( (اَنْتُمْ : تم لوگ ( ( مُّسْلِمُوْنَ : فرمانبرداری کرنے والے ہو ( و ص ی وَصٰی (ض) وَصْیًا : کسی چیزکا کسی چیز سے پیوستہ ہونا ‘ جیسے گھاس ایک دوسرے میں گتھی ہوتی ہے۔ کسی کام کے لئے کسی بات کا پیوستہ ہونا یعنی تاکید ہونا۔ وَصِیَّۃٌ : فَعِیْلَۃٌ کا وزن ہے۔ تاکید ‘ وصیت۔ { فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ } (النسائ :11) ” تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے وصیت کے بعد ‘ اس نے وصیت کی جس کی ‘ یا قرض کے بعد۔ “ اَوْصٰی (افعال) اِیْصَائً : کسی بات یا کام کی تاکید کرنا ‘ وصیت کرنا۔ { وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰــوۃِ وَالزَّکٰــوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا ۔ } (مریم) ” اور اس نے تاکید کی مجھ کو نماز اور زکوٰۃ کی جب تک میں ہوں زندہ۔ “ مُوْصٍ (اسم الفاعل) : تاکید کرنے والا ‘ وصیت کرنے والا۔ { فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا } (البقرۃ :182) ” تو جو خوف کرے وصیت کرنے والے سے طرفداری کا یا گناہ کا۔ “ وَصّٰی (تفعیل) تَوْصِیَۃً : تاکید کرنا ‘ وصیت کرنا ۔ { وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ } (لقمان :14) ” اور ہم نے تاکید کی انسان کو اس کے والدین کے لئے۔ “ تَوَاصٰی (تفاعل) تَوَاصِیًا : باہم ایک دوسرے کو تاکید کرنا ۔ { وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ } (العصر :3) ” اور ان لوگوں نے باہم تاکید کی حق کی اور باہم تاکید کی صبر کی۔ “ ترکیب : ” اِبْرٰھٖمُ “ اور ” یَعْقُوْبُ “ کی رفع بتارہی ہے کہ یہ دونوں ” وَصّٰی “ کے فاعل ہیں۔ ” بِھَا “ کی ضمیر آیت 130 کے لفظ ” مِلَّۃِ “ کے لئے ہے جبکہ ” بَنِیْہِ “ مفعول ہے۔ ” اَلدِّیْنَ “ پر لام تعریف ہے۔ ” وَاَنْتُمْ “ کا وائو حالیہ ہے۔ نوٹ (1) : لفظ ” بَنِیْہِ “ کو سمجھ لیں۔ ” اِبْنٌ“ کی جمع حالت رفع میں ” بَنُوْنَ “ اور نصب و جر میں ” بَنِیْنَ “ آتی ہے۔ مفعول ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں یہ ” بَنِیْنَ “ تھا۔ پھر مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا تو ” بَنِیْہِ “ استعمال ہوا۔ یہ بھی نوٹ کریں کہ حالانکہ یہ دو فاعلوں کا مفعول ہے لیکن پھر بھی اس کے مضاف الیہ کے طور پر تثنیہ کی ضمیر ” ھُمَا “ کے بجائے واحد کی ضمیر ” ہُ “ آئی ہے۔ اس سے یہ راہنمائی ملتی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے اور حضرت یعقوبنے اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی۔ ترجمہ میں اس بات کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے اس جانب بھی اشارہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے تین یا تین سے زیادہ بیٹے تھے۔
Top