Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 12
اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ
اَلَا : سن رکھو إِنَّهُمْ : بیشک وہ هُمُ الْمُفْسِدُونَ : وہی فساد کرنے والے وَلَٰكِنْ : اور لیکن لَا يَشْعُرُونَ : نہیں سمجھتے
خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے
[ اَلَآ : خبردار رہو ] [ اِنَّھُمْ : بیشک یہ لوگ ] [ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ : ہی نظم بگاڑنے والے ہیں ] [ وَلٰكِنْ : اور لیکن ] [ لَّا يَشْعُرُوْنَ : یہ لوگ ادراک حاصل نہیں کرتے ] نوٹ 4 : اَلَآ۔ ایک لفظ ہے اور یہ کلمہ تنبیہ ہے اسی لحاظ سے اس کے مختلف ترجمے کیے جاتے ہیں مثلا، سنو۔ آگاہ ہوجاؤ، خبردار ہو۔ وغیرہ ۔ کبھی حرف استفہام أ اور لا نافیہ ساتھ آتے ہیں تب بھی الا بنتا ہے جس کے معنی ہیں کیا نہیں ان دونوں میں فرق عبارت کے مفہوم سے کیا جاتا ہے۔ نوٹ 5 ۔ لٰكِنْ : اور لکنَّ کے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں کے معنی ہیں لیکن۔ البتہ ان کے استعمال میں فرق ہے لکن اسم اور فعل دونوں پر آتا ہے اور غیر عامل ہے یعنی یہ اپنے اسم یا فعل مضارع میں کوئی اعرابی تبدیلی نہیں لاتا جبکہ لکن فعل پر نہیں آتا بلکہ صرف اسم پر آتا ہے اور یہ اپنے اسم کو نصب دیتا ہے۔ نوٹ 6: انسانوں کے ایک مخصوص گروہ کے رویہ اور کردار کی نشان دہی کا سلسلہ گزشتہ آیات سے شروع ہوا تھا جو ابھی جاری ہے۔ اس کا آغاذ آیت نمبر 8 میں ومن الناس من یقول کے الفاظ سے ہوا تھا اب نوٹ کریں کہ آیت زیر مطالعہ میں واذا قیل لھم کے الفاظ میں ھم کی ضمیر اسی انسانی گروہ کے لیے آئی ہے یہ کردار ہر دور اور ہر معاشرہ میں پایا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اذ قیل کہنے کے بجائے اذا قیل کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ نوٹ 7: کسی بھی نظریہ یا عقیدہ کو ماننے والوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کا زبانی اقرار تو کرتے ہیں لیکن یقین نہیں رکھتے ایسے ہی لوگ پھر اس نظریہ کے نظام میں تبدیلی کی مہم چلاتے ہیں لیکن یہ کام وہ لوگ اصلاح کے نام پر کرتے ہیں۔
Top