Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَابْعَثْ : اور بھیج فِيهِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِنْهُمْ : ان میں سے يَتْلُوْ : وہ پڑھے عَلَيْهِمْ : ان پر آيَاتِکَ : تیری آیتیں وَ : اور يُعَلِّمُهُمُ : انہیں تعلیم دے الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْحِكْمَةَ : حکمت وَيُزَكِّيهِمْ : اور انہیں پاک کرے اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو الْعَزِيزُ : غالب الْحَكِيمُ : حکمت والا
اور اے رب، ان لوگوں میں خود انہیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھا ئیو، جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے"
(رَبَّــنَا : اے ہمارے ربّ ) (وَابْعَثْ : اور تو بھیج) (فِیْھِمْ : ان میں ) (رَسُوْلًا : ایک ایسا رسول) (مِّنْھُمْ : ان ) (میں سے یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ : جو پڑھ کر سنائے ان کو) (اٰیٰتِکَ : تیری آیات) (وَیُعَلِّمُھُمُ : اور جو تعلیم دے ان کو) (الْکِتٰبَ : کتاب کی) (وَالْحِکْمَۃَ : اور حکمت کی) (وَیُزَکِّیْھِمْ : اور جو تزکیہ کرے ان کا) ( اِنَّکَ : بیشک تو اَنْتَ الْعَزِیْزُ : ہی تو بالادست ) (الْحَکِیْمُ : حکمت والا ہے) ع ز ز عَزَّ (ض) عِزًّا : مغلوبیت سے محفوظ ہونا ‘ سخت ہونا۔ عَزَّ (ن) عَزًّا : کسی پر غالب آنا ۔ { وَعَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِ ۔ } (صٓ) ” اور وہ غالب آیا مجھ پر بات میں۔ “ عِزٌّ: مصدر کے علاوہ اسم ذات بھی ہے۔ مغلوبیت سے حفاظت ‘ پناہ ‘ مدد ۔ { وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِھَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَھُمْ عِزًّا ۔ } (مریم) ” اور ان لوگوں نے بنایا اللہ کے علاوہ ایک الٰہ تاکہ وہ ہو ان کے لئے ایک پناہ۔ “ عِزَّۃٌ (اسم ذات) : (1) سختی ‘ بےجا خود داری ‘ گھمنڈ (2) غلبہ ‘ عزت۔ { بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَّشِقَاقٍ ۔ } (صٓ) ” جن لوگوں نے کفر کیا وہ گھمنڈ اور مخالفت کرنے میں ہیں۔ “ { مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا ط } (فاطر :10) ” جو چاہا کرتا ہے عزت کو ‘ تو عزت کُل کی کُل اللہ کے لئے ہی ہے “۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو عزت اللہ تعالیٰ سے حاصل نہ ہو وہ سراسر ذلت ہے (مفردات) ۔ عَزِیْزٌ ج اَعِزَّۃٌ : فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ (1) سخت ‘ بھاری ‘ گراں (2) غالب ‘ بالادست (جس کے اختیارات پر کوئی تحدیدات (limitations) نہ ہوں) { لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ }(التوبۃ :128) ” آچکا ہے تمہارے پاس ایک رسول ﷺ تم میں سے ‘ گراں ہے اس پر وہ جس سے تم لوگ مشکل میں پڑو۔ “{ اَذِلَّــۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ز } (المائدۃ :54) ” نرم ہیں مؤمنوں پر ‘ سخت ہیں کافروں پر۔ “ { اِنَّہٗ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ } (العنکبوت) ” بیشک وہی بالادست حکمت والا ہے۔ “ اَعَزُّ : افعل التفضیل ہے۔ زیادہ سخت ‘ زیادہ عزت والا۔ { لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّط } (المنافقون :8) ” لازماً نکالے گا زیادہ عزت والا اس میں سے زیادہ ذلت والے کو۔ “ عُزّٰی : فُعْلٰی کے وزن پر افعل التفضیل کا مؤنث ہے۔ زیادہ سخت۔ زیادہ عزت والی۔ ” اَلْعُزّٰی “ ایک بت کا نام۔ { اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی }(النجم) ” کیا تم نے دیکھا لات اور عزیٰ کو (بتوں کے نام) ؟“ اَعَزَّ (افعال) اِعْزَازًا : کسی کو عزت دینا۔ { وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط } (آل عمران :26) ” اور تو عزت دیتا ہے اس کو جس کو تو چاہتا ہے اور تو ذلت دیتا ہے اس کو جس کو تو چاہتا ہے ‘ تیرے ہاتھ میں کُل خیر ہے۔ “ عَزَّزَ (تفعیل) تَعْزِیْزًا : کسی کو سخت کرنا ‘ قوت دینا۔ { اِذْ اَرْسَلْنَا اِلَیْھِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْھُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ } (یٰسٓ:14) ” جب ہم نے بھیجا ان کی طرف دو کو تو ان لوگوں نے جھٹلایا دونوں کو ‘ تو ہم نے تقویت دی تیسرے سے۔ “ ترکیب : فعل امر ” اِبْعَثْ “ کا مفعول ” رَسُوْلًا “ ہے۔ فِیْھِمْ میں ھُمْ کی ضمیر کا مرجع اُمَّۃ ہے۔ پھر امت میں اگرچہ تاء تانیث لگی ہے ‘ لیکن چونکہ معنی مذکر ہے اس لئے ضمیر مذکر ” ھُمْ “ کی لوٹائی گئی۔ رَسُوْلاً نکرہ موصوفہ ہے ‘ صفت ” مِنْھُمْ “ ہے۔ تقدیر عبارت ” یَتْلُوْ رَسُوْلًاکَائِنًا مِّنْھُمْ ۔ عَلَیْھِمْ “ سے لے کر ” یُزَکِّیْھِمْ “ تک یا تو صفت ہے یا حال ہے۔ ” یَتْلُوْا “ ” یُعَلِّمُ “ اور ” یُزَکِّیْ “ تینوں افعال مضارع ہیں ‘ لیکن یہ دعا میں آئے ہیں ‘ اس لئے ترجمہ میں اس کا لحاظ کرنا ہوگا۔ نوٹ (1) : آج کے دور میں ہمارے لئے اس آیت میں کیا راہنمائی ہے ‘ اس کو سمجھ لیں۔” یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ “ میں قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا شامل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو احکام ‘ ہدایات اور ترغیبات دی ہیں ‘ ان سے اللہ تعالیٰ کی حقیقی مرضی اور منشا کیا ہے ‘ حضور ﷺ اس کی تعلیم دے گئے ہیں ‘ اس لئے تعلیم کتاب میں ہمارے لئے احادیث کو بھی سمجھ کر پڑھنا شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام میں کیا حکمت مضمر ہے ‘ یعنی ان احکام کے ” کیوں اور کیسے “ کی وضاحت بھی حضور ﷺ اور صحابہ کرام کر گئے ہیں ‘ جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ ان احکام پر ہمارے عمل کرنے یا نہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں نہ کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کمی ہوتی ہے ‘ بلکہ یہ احکام صرف اور صرف انسان کی عارضی اور دائمی ‘ دونوں زندگیوں کی بھلائی کے لئے دیئے گئے ہیں۔ یہ حقیقت اگر ذہن نشین ہوجائے تو پھر ان احکام پر عمل کرنا ہلکا اور آسان ہوجاتا ہے۔ اس لئے تعلیم حکمت میں ہمارے لئے سیرت اور آثار صحابہ کا مطالعہ شامل ہے۔ نوٹ (2) : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی دعا کے الفاظ نقل کئے ہیں۔ آگے چل کر تین مقامات (البقرۃ :151 ۔ آل عمران :164 ۔ الجمعۃ :2) پر اس دعا کی قبولیت کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہی الفاظ کو دہرایا ہے ‘ البتہ ان کی ترتیب میں ایک تبدیلی کی ہے جو غور طلب ہے۔ حضرت ابراہیم کی دعا میں ترتیب یہ ہے : (1) تلاوتِ آیات ‘ (2) تعلیم کتاب ‘ (3) تعلیم حکمت اور (4) تزکیہ۔ دعا کی قبولیت کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب رکھی ہے : (1) تلاوتِ آیات ‘ (2) تزکیہ ‘ (3) تعلیم کتاب اور (4) تعلیم حکمت۔ مذکورہ تبدیلی پر غور کرنے سے جو بات سامنے آتی ہے اسے سمجھ لیں۔ ایسے عقائد و نظریات جو اس کائنات کی صداقتوں پر مبنی نہ ہوں ‘ انسان کے اندرحُبِّ دنیا اور پھر حُبِّ عاجلہ کو جنم دیتے ہیں ‘ جس کے نتیجے میں پھر انسان اپنی فطرت کی پکار کا گلا گھونٹنا شروع کردیتا ہے۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے انسان کے سامنے وہ عقائد و نظریات آتے ہیں جو اس کائنات کی صداقتوں پر مبنی ہیں۔ ان سے انسان کی فطرت کی پکار کو تقویت حاصل ہوتی ہے ‘ جس کے نتیجے میں اس کے اندر تقویٰ کا جذبہ ابھرتا ہے اور پروان چڑھتا ہے۔ یہ اصل تزکیہ ہے اور اس کا ذریعہ قرآن مجید ہے۔ تقویٰ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا معلوم کرنے کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔ پھر زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کے لئے مطلوبہ قوت عمل بھی تقویٰ کا جذبہ ہی فراہم کرتا ہے۔ اس طرح انسان اللہ کے احکام پر عمل کرنا شروع کردیتا ہے ‘ خواہ ان کی حکمت اس کی سمجھ میں آئی ہو یا نہ آئی ہو۔ اس لئے تعلیم کتاب کو تزکیہ کے بعد اور تعلیم حکمت سے پہلے رکھا گیا ہے۔ تعلیم حکمت ایک اضافی سہولت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے۔ جیسے آخرت پر ایمان اور یقین ہوتے ہوئے حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے اطمینانِ قلب کی درخواست کی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا ۔ (دیکھئے البقرۃ :260) اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اپنے اعمال کی جواب دہی اور نتائج کے لئے انسان پر حجت اس کی عقل نہیں بلکہ اس کی فطرت ہے ‘ جس کے ساتھ اسے اس امتحان گاہ میں بھیجا جاتا ہے۔ فطرت کے ساتھ اسے عقل بھی دی جاتی ہے اور قرآن مجید عقل کی نفی نہیں کرتا ‘ البتہ وہ ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھتا ہے۔ اور قرآن نے عقل کو فطرت کے ماتحت رکھا ہے۔ نوٹ (3) : ایک رائے یہ ہے کہ اس آیت میں حضور ﷺ کے مقصد بعثت کا بیان ہے۔ لیکن میرا ذہن اس رائے کو ترجیح دیتا ہے کہ اس آیت میں آپ ﷺ کے مقصد بعثت کو پورا کرنے کا طریقۂ کار (Modus Operendi) کا بیان ہے ‘ جبکہ آپ ﷺ کے مقصد بعثت کا بیان التوبۃ :33‘ الفتح :28‘ اور الصف :9 میں آیا ہے۔
Top