Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری وہ نعمت، جس سے میں نے تمہیں نواز ا تھا، اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی
(یٰــبَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ : اے اسرائیل (علیہ السلام) کے بیٹو) (اذْکُرُوْا : تم لوگ یاد کرو ) (نِعْمَتِیَ : میری نعمت کو ) (الَّتِیْ : جس کو کہ) (اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کیا ) (عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر) ( وَاَ نِّیْ : اور یہ کہ ) (فَضَّلْتُـکُمْ : میں نے فضیلت دی تم لوگوں کو) (عَلَی الْعٰلَمِیْنَ : سب جہانوں پر ) یٰــبَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ ۔ ” یَا “ حرفِ ندا ” بَنِیْ “ منادیٰ مضاف ‘ علامت نصب ” یاء “ ہے ‘ کیونکہ یہ ملحق بجمع مذکر سالم ہے۔ ” ابْنٌ“ کی اصل ” بَنَــوٌ“ بر ورزن ” فَعَلٌ“ ہے ۔ ناقص واوی ہے اور دلیل یہ ہے کہ اس کا مصدر ” بُنُوَّۃٌ “ ہے۔ اس کی جمع مکسر ” اَبْنَائٌ “ اور جمع سلامت ” بُنُوْنَ “ آتی ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اس کا لام کلمہ بجائے ” واؤ“ کے ” یائ “ ہے اور یہ ناقص یائی ہے۔ اور یہ مشتق ہے بَنٰی یَبْنِیْ بِنَائً بمعنی وضع الشی ٔ ‘ علی الشیء سے ۔ چونکہ ” ابن “ فرع ہونے کی بناء پر موضوع اور ” اَبٌ ‘ ‘ اصل ہونے کی بناء پر موضوع علیہ ہے۔ باقی رہا اس کے مصدر کا ” بُنُوَّۃٌ “ کے وزن پر آنا تو یہ اس کے ناقص واوی ہونے کی دلیل نہیں ‘ کیونکہ فَتٰی جو ناقص یائی ہے اس کا مصدر بھی ” فُتُوَّۃٌ “ کے وزن پر آتا ہے۔ ” اسرائیل “ اسباب منع صرف میں سے علمیت اور عجمہ ہونے کی بنا پر غیر منصرف ہے ۔ اس کے مختلف تلفظ ہیں : ” اسرائیل ‘ سراییل ‘ اسرائیل ‘ اسرال اور اسرائین۔ اسی انداز کی آیت کریمہ چونکہ پہلے گزر چکی ہے اس لئے ترکیب کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
Top