Mutaliya-e-Quran - Al-Israa : 71
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ١ۚ فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓئِكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
يَوْمَ : جس دن نَدْعُوْا : ہم بلائیں گے كُلَّ اُنَاسٍ : تمام لوگ بِاِمَامِهِمْ : ان کے پیشواؤں کے ساتھ فَمَنْ : پس جو اُوْتِيَ : دیا گیا كِتٰبَهٗ : اسکی کتاب بِيَمِيْنِهٖ : اس کے دائیں ہاتھ میں فَاُولٰٓئِكَ : تو وہ لوگ يَقْرَءُوْنَ : پڑھیں گے كِتٰبَهُمْ : اپنا اعمالنامہ وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور نہ وہ ظلم کیے جائیں گے فَتِيْلًا : ایک دھاگے کے برابر
پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اُس وقت جن لوگوں کو ان کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنا کارنامہ پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا
[يَوْمَ : جس دن ] [نَدْعُوْا : ہم بلائیں گے ] [كُلَّ اناسٍۢ: ہر گروہ کو ] [بِاِمَامِهِمْ : ان کے ریکارڈ کے ساتھ ] [فَمَنْ : پس وہ جس کو ] [اُوْتِيَ : دی گئی ] [كِتٰبَهٗ : اس کی کتاب ] [بِيَمِيْنِهٖ : اس کے داہنے ہاتھ میں ] [فَاُولٰۗىِٕكَ : تو وہ لوگ ] [يَقْرَءُوْنَ : پڑھیں گے ] [كِتٰبَهُمْ : اپنی کی کتاب ] [وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ] [فَتِيْلًا : کسی دھاگے برابر بھی ] نوٹ۔ 1: آیت نمبر۔ 2:78 کی لغت میں ہم بتا چکے ہیں کہ قرآن مجید میں لفظ ” امام “ تین معانی میں استعمال ہوا ہے۔ (1) راستہ، (2) ریکارڈ اور (3) پیشوا۔ ہم نے جو بھی دوچار تفاسیر دیکھی ہیں ان سب نے زیر مطالعہ آیت۔ 71 میں بِاِمَامِھِمْ کا ترجمہ کیا ہے۔ ” ان کے امام : سرداروں : پیشوائوں کے ساتھ۔ “ ابن کثیر کے مترجم نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔ لیکن ابن کثیر (رح) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ امام سے مراد یہاں نبی ہیں۔ ہر امت قیامت کے دن اپنے نبی کے ساتھ بلائی جائے گی۔ ابن زید کہتے ہیں یہاں امام سے مراد کتاب خدا ہے جو ان کی شریعت کے بارے میں اتری تھی۔ ابن جریر اس تفسیر کو بہت پسند فرماتے ہیں اور اسی کو مختار کہتے ہیں۔ مجاہد کہتے ہیں اس سے مراد ان کی کتابیں ہیں۔ ممکن ہے کتاب سے مراد یا تو احکام کی کتاب خدا ہو یا نامۂ اعمال ہو۔ چناچہ ابن عباس ؓ اس سے اعمال نامہ مراد لیتے ہیں۔ ابو العالیہ، حسن اور ضحاک بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ تر ترجیح والا قول ہے۔ ابن کثیر (رح) کی اس تفسیر کی بنیاد پر ہم نے بِاِمَامِھِمْ کا ترجمہ کیا ہے ” ان کے ریکارڈ کے ساتھ۔ “ نوٹ۔ 2: مخالفین نے رسول اللہ ﷺ کے آگے یہ تجویز پیش کی کہ اگر فلاں فلاں احکام میں ترمیم کردیں تو ہم یہ دعوت قبول کرلیتے ہیں پھر ہم اور آپ ﷺ گہرے دوست بن کر رہیں گے۔ آپ ﷺ کے لئے یہ بڑا ہی سخت مرحلہ تھا۔ ایک طرف اللہ کے احکام تھے جن میں ایک نطقہ کے برابر بھی آپ ﷺ ترمیم کرنے کے مجاز نہ تھے۔ دوسری طرف آپ ﷺ اپنی قوم کے ایمان کی شدید خواہش رکھتے تھے اور کسی ایسے موقع کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے تھے جس سے قوم کے ایمان کی راہ پر پڑنے کی امید بندھتی ہو۔ اس صورتحال نے آپ ﷺ کو تذبذب میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نازک مرحلے میں اپنے پیغمبر کی دستگیری فرمائی اور آپ ﷺ کو تذبذب سے نکال کر صحیح شاہراہ پر کھڑا کردیا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ نبی کے معصوم ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس کو کوئی تذبذب کی حالت پیش نہیں آتی یا کوئی غلط میلان اس کے دل میں فطور نہیں کرتا بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اوّل تو اس کا میلان کبھی جانبِ نفس نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ خیر کی جانب ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ جانبِ خیر میں بھی اگر وہ کوئی ایسا قدم اٹھاتا نظر آتا ہے جو صحیح نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کو بچا لیتا ہے اور صحیح سمت میں اس کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔ (تدبر قرآن)
Top