Mutaliya-e-Quran - Al-Israa : 56
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا
قُلِ : کہ دیں ادْعُوا : پکارو تم الَّذِيْنَ : وہ جن کو زَعَمْتُمْ : تم گمان کرتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَلَا يَمْلِكُوْنَ : پس وہ اختیار نہیں رکھتے كَشْفَ : دور کرنا الضُّرِّ : تکلیف عَنْكُمْ : تم سے وَ : اور لَا : نہ تَحْوِيْلًا : بدلنا
اِن سے کہو، پکار دیکھو اُن معبودوں کو جن کو تم خدا کے سوا (اپنا کارساز) سمجھتے ہو، وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں
[قُلِ : آپ ﷺ کہئے ] [ادْعُوا : تم لوگ پکارو ] [الَّذِينَ : ان کو جن کا ] [زَعَمْتم : تمہیں زعم ہے ] [مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے علاوہ ] [فَلَا يَمْلِكُوْنَ : تو وہ لوگ اختیار نہیں رکھتے ] [كَشْفَ الضُّرِّ : تکلیف کو کھولنے کا ] [عَنْكُمْ : تم لوگوں سے ] [وَلَا تَحْوِيْلًا : اور نہ ہی بدلنے کا ] نوٹ۔ 3: آیت۔ 56 سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کچھ اختیار حاصل نہیں ہے۔ نہ کوئی دوسرا کسی مصیبت کو ٹال سکتا ہے، نہ کسی بری حالت کو اچھی حالت سے بدل سکتا ہے۔ اس طرح کا اعتقاد خدا کے سوا جس ہستی کے بارے میں رکھا جائے، وہ ایک مشرکانہ عقیدہ ہے۔ آیت۔ 57 کے الفاظ خود گواہی دے رہے ہیں کہ مشرکین کے جن معبودوں اور فریاد رسوں کا یہاں ذکر ہے ان سے مراد پتھر کے بت نہیں ہیں، بلکہ یا تو فرشتے ہیں یا گزرے ہوئے زمانے کے برگزیدہ انسان ہیں۔ مطلب صاف صاف یہ ہے کہ انبیاء ہوں یا اولیاء یا فرشتے، کسی کو بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ تمہاری دعائیں سنے اور تمہاری مدد کو پہنچے۔ تم حاجت روائی کے لئے ان کو وسیلہ بنا رہے ہو، اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ خود اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور قرب حاصل کرنے کے وسائل ڈھونڈ رہے ہیں۔ (تفہیم القرآن)
Top