Mutaliya-e-Quran - Al-Israa : 54
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا
رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يَرْحَمْكُمْ : تم پر رحم کرے وہ اَوْ : یا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُعَذِّبْكُمْ : تمہیں عذاب دے وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے تمہیں بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر وَكِيْلًا : داروغہ
تمہارا رب تمہارے حال سے زیادہ واقف ہے، وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے دے اور اے نبیؐ، ہم نے تم کو لوگوں پر حوالہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے
[رَبُّكُمْ : تم لوگوں کا رب ] [اَعْلَمُ : سب سے زیادہ جاننے والا ہے ] [بِكُمْ : تم لوگوں کو ] [ان : اگر ] [يَّشَاْ : وہ چاہے گا ] [يَرْحَمْكُمْ : تو وہ رحم کرے گا تم لوگوں پر ] [اَوْ : یا ] [ان : اگر ] [يَّشَاْ : وہ چاہے گا ] [يُعَذِّبْكُمْ : تو وہ عذاب دے گا تم لوگوں کو ] [وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : اور ہم نے نہیں بھیجا آپ ﷺ کو ] [عَلَيْهِمْ : ان پر ] [وَكِيْلًا : کوئی نگہبان (بنا کر)] نوٹ۔ 1: زیر مطالعہ آیت۔ 54 میں دعوت کے معاملے میں مومنین اور پیغمبر ﷺ کی ذمہ داری کی حد واضح فرما دی۔ فرمایا کہ یہ خدا ہی کو معلوم ہے کہ کون رحمت کا مستحق ہے اور وہ ہدایت پا کر رحمت کا مستحق ہوگا اور کون عذاب کا مستحق ہے اور وہ گمراہی پر جمے رہ کر عذاب کا مستحق ٹھہرے گا۔ پیغمبر اور اس کے ساتھیوں پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ سب کو مومن بنادیں۔ ان پر ذمہ داری صرف حق پہنچا دینے کی ہے۔ ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے۔ (تدبر قرآن) اس میں یہ بھی ہدایت ہے کہ اہل ایمان کی زبان پر کبھی اپنے دعوے نہیں آنے چائیں کہ ہم جنتی ہیں اور فلاں شخص یا گروہ دوزخی ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن اور ان کے حال و مستقبل سے واقف ہے۔ اسی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس پر رحمت فرمائے اور کسے عذاب دے۔ انسان اصولی طور پر تو یہ کہنے کا مجاز ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے کس قسم کے انسان رحمت کے مستحق ہیں اور کس قسم کے انسان عذاب کے مستحق ہیں مگر یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں شخص کو عذاب دیا جائے گا اور فلاں شخص کو بخشا جائے گا۔ (تفہیم القرآن)
Top