Mutaliya-e-Quran - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے
[وَلَا تَــقْفُ : اور تو پیچھے مت پڑ ] [مَا : اس کے ] [لَيْسَ لَكَ : نہیں ہے تیرے لئے (یعنی تیرے پاس)] [بِهٖ : جس کا ] [عِلْمٌ: کوئی علم ] [ان : یقینا ] [السَّمْعَ : سماعت ] [وَالْبَصَرَ : اور بصارت ] [وَالْفُؤَادَ : اور دل (یعنی نفقّہ)] [كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ : ان کے سب ہیں (کہ)] [كَان : ہے ] [عَنْهُ : اس (ہر ایک) کے بارے میں ] [مَسْــــُٔــوْلًا : پوچھا جانے والا ] ترکیب : (آیت۔ 36) اَلسَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ ، یہ سب اِنَّ کے اسم ہیں۔ اس کے آگے پورا جملہ کُلُّ اُولٍّگکَ کَانَ عَنْہُ مَسَئُوْلًا۔ اِنَّ کی خبر ہے۔ اس جملہ میں کُلُّ اُولٍّگکَ مرکب اضافی کَانَ کا اسم ہے جبکہ مَسْئُوْلًا اس کی خبر ہے۔ اس میں اِنَّ کے تینوں اسم یعنی اَلسَّمْعَ ۔ اَلْبَصَرَ اور اَلْفُؤَادَ کی طرف اشارہ ہے اس لئے اسم اشارہ اُولٍّگکَ جمع کا صیغہ آیا ہے لیکن عَنْہُ میں جمع کی ضمیر عَنْھُمْ کے بجائے واحد ضمیر عَنْہُ آئی ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہر ایک صلاحیت کے بارے میں الگ الگ پوچھا جائے گا۔ نوٹ۔ 1: آیت۔ 36، میں لفظ ” علم “ اپنے اصطلاحی اور لغوی، دونوں مفہوموں کا جامع ہے۔ (آیت۔ 16:56، نوٹ۔ 1) اس کا مطلب یہ ہے کہ ایی عقائد اور نظریات کو اختیار نہ کرے جن کی سند قرآن و حدیث میں نہ ہو۔ زندگی کے معاملات میں جن اوامر اور نواہی کی سند قرآن و حدیث میں ہو ان کے خلاف نہ کرے۔ دیگر معاملات میں قابل اعتبار معلومات کے بغیر محض ظن اور گمان کی بنیاد پر نہ تو کوئی رائے قائم کرے اور نہ ہی کوئی فیصلہ یا اقدام کرے۔ نوٹ۔ 2: زندگی کے تمام معاملات میں کوئی رائے قائم کرنے یا فیصلہ کرنے کا جو Process ہے، اس کی وضاحت آیت۔ 7:179، نوٹ۔ 2، میں کی جا چکی ہے۔ اس کو دوبارہ پڑھ لیں۔ زیر مطالعہ آیت۔ 36، میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے کہ فیصلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں دے کر انسان کو دنیا کی امتحان گاہ میں بھیجا، ان کے متعلق پوچھا جائے گا کہ ان کو استعمال بھی کیا تھا یا محض اندھی تقلید پر ہی زندگی بسر کرتے رہے اور اگر استعمال کیا تھا تو کس مقصد کے لئے استعمال کیا تھا۔ نوٹ۔ 3: آیت۔ 36 میں الفاظ آئے ہیں ” عَنْہُ مَسْئُوْلًا “ عام طور پر اس کا مطلب بیان کیا گیا ہے کہ کان، آنکھ اور دل سے پوچھا جائے گا لیکن استادِ محترم حافظ احمد یار صاحب کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سَئَلَ زَیْدًا کا مطلب ہے اس نے زید سے پوچھا۔ جبکہ سَئَلَ عَنْ زَیْدٍ کا مطلب ہے اس نے زید کے بارے میں پوچھا۔ اس لحاظ سے مذکورہ الفاظ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ مذکورہ صلاحیتوں سے نہیں بلکہ ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ترجمہ میں اور اوپر نوٹ۔ 2، میں ہم نے حافظ صاحب کی رائے کو اختیار کیا ہے۔
Top