Mutaliya-e-Quran - Al-Hijr : 61
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلُوْنَۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آئے اٰلَ لُوْطِ : لوط کے گھر والے الْمُرْسَلُوْنَ : بھیجے ہوئے (فرشتے)
پھر جب یہ فرستادے لوطؑ کے ہاں پہنچے
[فَلَمَا : پھر جب ] [ جَاۗءَ : آئے ] [ اٰلَ لُوْطِۨ: آلِ لوظ (علیہ السلام) کے پاس ] [ الْمُرْسَلُوْنَ : بھیجے ہوئے (فرشتے)] نوٹ۔ 1: فرشتوں کا یہ کہنا کہ ہم اس چیز کے ساتھ آئے ہیں جس میں یہ شک کرتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم وہ عذاب لے کر آئے ہیں جس سے آپ (علیہ السلام) اپنی قوم کو ڈراتے رہے ہیں لیکن وہ برابر شک میں ہی پڑے رہے۔ (تدبر قرآن) نوٹ۔ 2: حضرت لوط (علیہ السلام) کو اپنے گھر والوں کے پیچھے چلنے کی ہدایت اس غرض سے کی گئی تھی کہ ان میں سے کوئی ٹھہرنے نہ پائے۔ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کی ہدایت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پلٹ کر دیکھتے ہی تم پتھر کے ہو جائو گے، جیسا کہ بائبل میں بیان ہوا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے کی آوازیں اور شوروغل سن کر تماشا دیکھنے کے لئے نہ ٹھہر جانا۔ یہ نہ تماشا دیکھنے کا وقت ہے اور نہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا۔ ایک لمحہ بھی اگر تم نے معذب قوم کے علاقے میں دم لے لیا تو بعید نہیں کہ تمہیں بھی اس ہلاکت کی بارش سے کوئی گزند پہنچ جائے (تفہیم القرآن) روایات میں آتا ہے کہ جب کبھی رسول اللہ ﷺ کو معذب قوموں کی بستیوں پر سے گزرنے کا اتفاق پیش آتا تو آپ ﷺ وہاں سے تیزی سے گزر جاتے اور دوسروں کو بھی اسی کی ہدایت فرماتے۔ (تدبر قرآن)
Top