Mutaliya-e-Quran - Al-Hijr : 33
قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ
قَالَ : اس نے کہا لَمْ اَكُنْ : میں نہیں ہوں لِّاَسْجُدَ : کہ سجدہ کروں لِبَشَرٍ : انسان کو خَلَقْتَهٗ : تو نے اس کو پیدا کیا مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھکھناتا ہوا مِّنْ : سے حَمَاٍ : سیاہ گارا مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اس نے کہا "میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اِس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے"
[قَالَ : اس نے کہا ] [لَمْ اَكُنْ : میں نہیں تھا ] [ لِاَسْجُدَ : کہ میں سجدہ کروں ] [لِبَشَرٍ : کہ میں سجدہ کروں ] [خَلَقْتَهٗ : تو نے تخلیق کیا جس کو ] [مِنْ صَلْصَالٍ : ایسی کھنکتی مٹی سے جو ] [ مِّنْ حَمَا مَّسْنُوْنٍ : گیلے گارے سے ہے ] (ص ل ل) [صلیلا : (ص) (1) کسی چیز کا آواز کرنا۔ (2) کسی چیز کا سڑنا۔] [صلال : فعال کے وزن پر صفت ہے (قرآن مجید میں اس کے ایک لام کو ص میں بدل کر صلصال لکھا گیا ہے) ۔ سڑی ہوئی خشک مٹی جو بجتی ہے یعنی آواز کرتی ہے۔ زیر مطالعہ آیت۔ 26 ۔] (ح م ع) [حما : (ف): کنویں سے کیچڑ نکالنا۔ ] [حما : اسم ذات بھی ہے۔ کیچڑ۔ گارا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 26 ۔] [حمئۃ : دلدل۔ حتی اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حملۃ (یہاں تک کہ جب وہ پہنچے سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر تو انھوں نے پایا کہ وہ غروب ہوتا ہے ایک دلدل والے چشمے میں) 18:86 ۔] نوٹ۔ 1: یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا، جیسا کہ نئے دور کے ڈارون سے متاثر کچھ مفسرین قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ اس کی تخلیق کی ابتدا براہ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے جن کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالِ مِّنْ حَمَاِ مَّسْنُوْنِ کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی۔ (فتہیم القرآن)
Top