Mufradat-ul-Quran - Al-An'aam : 94
وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ١ۚ وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَكٰٓؤُا١ؕ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق جِئْتُمُوْنَا : آگئے تم ہمارے پاس فُرَادٰي : تنہا۔ اکیلے كَمَا : جیسا کہ خَلَقْنٰكُمْ : پیدا کیا تھا ہم نے تم کو اَوَّلَ : پہلی مَرَّةٍ : بار وَّتَرَكْتُمْ : اور چھوڑ آئے تھے تم مَّا : جو خَوَّلْنٰكُمْ : دیا ہم نے تم کو وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ : اپنی پیٹھوں کے پیچھے وَمَا نَرٰي : اور نہیں ہم دیکھتے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ شُفَعَآءَكُمُ : تمہارے سفارشیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جو زَعَمْتُمْ : گمان کیا کرتے تھے تم۔ زعم رکھتے تھے تم اَنَّهُمْ : بیشک وہ فِيْكُمْ : تم میں شُرَكٰٓؤُا ۭ : شریک ہیں لَقَدْ تَّقَطَّعَ : البتہ تحقیق کٹ گئے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان سے وَضَلَّ : اور گم ہوگیا عَنْكُمْ : تم سے مَّا كُنْتُمْ : وہ جو تھے تم تَزْعُمُوْنَ : تم گمان کیا کرتے
اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے اور جو (مال و متاع) ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے۔ اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے شفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم خیال کرتے تھے کہ وہ تمہارے (شفیع اور ہمارے) شریک ہیں۔ (آج) تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے اور جو دعوے تم کیا کرتے تھے سب جاتے رہے۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِكُمْ۝ 0ۚ وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا۝ 0ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝ 94ۧ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ فرد الفَرْدُ : الذي لا يختلط به غيره، فهو أعمّ من الوتر وأخصّ من الواحد، وجمعه : فُرَادَى. قال تعالی: لا تَذَرْنِي فَرْداً [ الأنبیاء/ 89] ، أي : وحیدا، ويقال في اللہ : فرد، تنبيها أنه بخلاف الأشياء کلّها في الازدواج المنبّه عليه بقوله : وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، وقیل : معناه المستغني عمّا عداه، كما نبّه عليه بقوله : غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ [ آل عمران/ 97] ، وإذا قيل : هو مُنْفَرِدٌ بوحدانيّته، فمعناه : هو مستغن عن کلّ تركيب وازدواج تنبيها أنه مخالف للموجودات کلّها . وفَرِيدٌ: واحد، وجمعه فُرَادَى، نحو : أسير وأساری. قال : وَلَقَدْ جِئْتُمُونا فُرادی [ الأنعام/ 94] . (ر د ) الفرد ( اکیلا ) اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دوسری نہ ملائی گئی ہو یہ لفظ وتر ( طاق ) سے عام اور واحد سے خاص ہے اس کی جمع فراد ی ہے قرآن میں ہے : ۔ لا تَذَرْنِي فَرْداً [ الأنبیاء/ 89] پروردگار ( مجھے اکیلا نہ چھوڑ ۔ اور اللہ تعالیٰ کے متعلق فرد کا لفظ بولنے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ وہ تنہا ہے اس کے بر عکس باقی اشیار جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہیں جس پر کہ آیت وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں ۔ میں تنبیہ پائی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اللہ کے فرد ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں سے بےنیاز ہے جیسا کہ آیت : ۔ غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ [ آل عمران/ 97] اہل عالم سے بےنیاز ہے ۔ میں اس پر تبنبیہ کی ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ اپنی واحدنیت میں منفرد ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ ذات ہر قسم کی ترکیب اور مجانست سے مبرا ہے اور جملہ موجودات کے بر عکس ہے ۔ اور فرید کے معنی واحد یعنی اکیلا اور تنہا کے ہیں اس کی جمع فراد ی آتی ہے جیسے اسیر کی جمع اساریٰ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ جِئْتُمُونا فُرادی [ الأنعام/ 94] اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے ہمارے پاس آئے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ مَرَّةً مَرَّةً ومرّتين، كفَعْلَة وفَعْلَتين، وذلک لجزء من الزمان . قال : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] ، وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] ، سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ، وقوله : ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] . مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔ خول قوله تعالی: وَتَرَكْتُمْ ما خَوَّلْناكُمْ وَراءَ ظُهُورِكُمْ [ الأنعام/ 94] ، أي : ما أعطیناکم، والتّخویل في الأصل : إعطاء الخَوَل، وقیل :إعطاء ما يصير له خولا، وقیل : إعطاء ما يحتاج أن يتعهّده، من قولهم : فلان خَالُ مَالٍ ، وخَايِلُ مالٍ ، أي : حسن القیام به . والخَال : ثوب يعلّق فيخيّل للوحوش، والخَال في الجسد : شامة فيه . ( خ و ل ) التخویل ( تفعیل ) کے اصل معنی خول یعنی ایسی چیزیں عطا کرنے کے ہیں جو انسان کو خول کا کام دے اور بقول بعض ایسی چیزیں عطا کرنا جن کی نگہداشت کی ضرورت پڑے ۔ مال کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی فلاں مال کی خوب نگہداشت کرنے والا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَتَرَكْتُمْ ما خَوَّلْناكُمْ وَراءَ ظُهُورِكُمْ [ الأنعام/ 94] اور جو امال ومتاع ) ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ چھوڑ آئے ۔ اور الخال اس کپڑے کو کہا جاتا ہے جو وحسنی جانوروں کو ڈرانے کے لئے کھیت میں لٹکا دیا جاتا ہے ۔ نیز خال کے معیل تل یعنی بدن پر سیاہ نشان کے بھی آتے ہیں ۔ وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ ظهر الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] ( ظ ھ ر ) الظھر کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنیںُ تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔
Top