Mufradat-ul-Quran - Al-An'aam : 39
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُكْمٌ فِی الظُّلُمٰتِ١ؕ مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُ١ؕ وَ مَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَ : اور الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات صُمٌّ : بہرے وَّبُكْمٌ : اور گونگے فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے مَنْ : جو۔ جس يَّشَاِ : چاہے اللّٰهُ : اللہ يُضْلِلْهُ : اسے گمراہ کردے وَمَنْ يَّشَاْ : اور جسے چاہے يَجْعَلْهُ : اسے کردے (چلادے) عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں (اسکے علاوہ) اندھیرے میں (پڑے ہوئے) جس کو خدا چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھے راستے پر چلا دے۔
وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا صُمٌّ وَّبُكْمٌ فِي الظُّلُمٰتِ۝ 0ۭ مَنْ يَّشَاِ اللہُ يُضْلِلْہُ۝ 0ۭ وَمَنْ يَّشَاْ يَجْعَلْہُ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝ 39 كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے صمم الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ، ( ص م م ) الصمم کے معیم حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ بكم قال عزّ وجلّ : صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة/ 18] ، جمع أَبْكَم، وهو الذي يولد أخرس، فكلّ أبكم أخرس، ولیس کل أخرس أبكم، قال تعالی: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 76] ، ويقال : بَكِمَ عنالکلام : إذا ضعف عنه لضعف عقله، فصار کالأبكم . ( ب ک م ) الابکم ۔ پیدائشی گونگا اور اخرس عام گونگے کو کہے ہیں لہذا ابکم عام اور اخرس خاص ہے قرآن میں ہے ۔ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 76] اور خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں گونگا اور دوسرے کی ملک ( ہے دبے اختیار وناتوان ) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اور ابکم کی جمع بکم آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اور جو شخص ضعف عقلی کے سبب گفتگو نہ کرسکے اور گونگے کی طرح چپ رہے تو اس کے متعلق بکم عن الکلام کہا جاتا ہے یعنی وہ کلام سے عاجز ہوگیا ۔ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ ( ضل)إِضْلَالُ والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ. والضّرب الثاني : أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] ، وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين : أحدهما أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ. والثاني من إِضْلَالِ اللهِ : هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] . الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سد ہے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
Top