Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mufradat-ul-Quran - Al-An'aam : 165
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖ٘ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠ ۧ
وَهُوَ
: اور وہ
الَّذِيْ
: جس نے
جَعَلَكُمْ
: تمہیں بنایا
خَلٰٓئِفَ
: نائب
الْاَرْضِ
: زمین
وَرَفَعَ
: اور بلند کیے
بَعْضَكُمْ
: تم میں سے بعض
فَوْقَ
: پر۔ اوپر
بَعْضٍ
: بعض
دَرَجٰتٍ
: درجے
لِّيَبْلُوَكُمْ
: تاکہ تمہیں آزمائے
فِيْ
: میں
مَآ اٰتٰىكُمْ
: جو اس نے تمہیں دیا
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكَ
: تمہارا رب
سَرِيْعُ
: جلد
الْعِقَابِ
: سزا دینے والا
وَاِنَّهٗ
: اور بیشک وہ
لَغَفُوْرٌ
: یقیناً بخشے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے۔ تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بیشک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشے والا مہربان (بھی) ہے۔
وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ 0 ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ 0 ۡ ۖ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 165 ۧ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔ رفع الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ( رع ) الرفع کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] (و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ درج الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] ( د ر ج ) الدرجۃ : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدراد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزالہ رفیع یعنی بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة/ 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وسمي التکليف بلاء من أوجه : - أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء . - والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] . - والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر . والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» . وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء/ 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال/ 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان/ 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت/ 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها ( ب ل ی ) بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة/ 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء/ 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال/ 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان/ 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت/ 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] . اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
Top