Mufradat-ul-Quran - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا : کہ نہ تُقْسِطُوْا : انصاف کرسکوگے فِي : میں الْيَتٰمٰى : یتیموں فَانْكِحُوْا : تو نکاح کرلو مَا : جو طَابَ : پسند ہو لَكُمْ : تمہیں مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں مَثْنٰى : دو ، دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ : اور چار، چار فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تمہیں اندیشہ ہو اَلَّا : کہ نہ تَعْدِلُوْا : انصاف کرسکو گے فَوَاحِدَةً : تو ایک ہی اَوْ مَا : یا جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : لونڈی جس کے تم مالک ہو ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَلَّا : کہ نہ تَعُوْلُوْا : جھک پڑو
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝ 0 ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝ 0 ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۝ 3 ۭ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ قسط الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن/ 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات/ 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء/ 35] . ( ق س ط ) القسط ( اسم ) ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس/ 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن/ 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات/ 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء/ 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ نكح أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی [ النور/ 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] إلى غير ذلک من الآیات . ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور/ 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ عدل العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما . والعَدْلُ ضربان : مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك . وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» . ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ، العدل دو قسم پر ہے عدل مطلق جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ دوم عدل شرعی جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ عول عَالَهُ وغاله يتقاربان . العَوْلُ يقال فيما يهلك، والعَوْلُ فيما يثقل، يقال : ما عَالَكَ فهو عَائِلٌ لي ومنه : الْعَوْلُ ، وهو ترک النّصفة بأخذ الزیادة . قال تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَلَّا تَعُولُوا[ النساء/ 3] ، ومنه : عَالَتِ الفریضة : إذا زادت في القسمة المسمّاة لأصحابها بالنّصّ ، والتَّعْوِيلُ : الاعتماد علی الغیر فيما يثقل، ومنه : العَوْلُ وهو ما يثقل من المصیبة، فيقال : ويله وعَوْلَهُ ومنه : العِيَالُ ، الواحد عَيِّلٌ لما فيه من الثّقل، وعَالَهُ : تحمّل ثقل مؤنته، ومنه قوله عليه السلام : «ابدأ بنفسک ثمّ بمن تَعُولُ» وأَعَالَ : إذا کثر عِيَالُهُ ( ع و ل ) عالہ وغالہ کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن الغول کا لفظ اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ جو انسان کو ہلاک کر ڈالے اور العول ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو انسان کو گرانبار کر دے اور اس کے بوجھ تلے وہ دب جائے محاورہ ہے ۔ مالک فھو عائلی : کہ جو تجھ پر بار ہے وہ مجھ پر بھی گراں بار ہے اسی سے عول ہے جس کے معنی حق استحقاق سے زیادہ لے کر بےانصافی کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ذلِكَ أَدْنى أَلَّا تَعُولُوا[ النساء/ 3] اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے ۔ اور اسی عالت الفریضۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی ترکہ کی تقسیم کے وقت وارثوں کے مقررہ حصے دینے کے بعد کچھ مال بچ جانیکے ہیں التعویل کے معنی کسی مشکل کام میں دوسروں پر اعتماد کرنے کے ہیں اسی سے عول ہے جس کے معنی بھاری مصیبت کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ ویلہ وعولہ ہائے اس کی مصیبت اور اسی سے العیال یعنی وہ افراد جن کے بوجھ کے نیچے دبا ہوا ہو اس کا مفرد عیل ہے عالہ اس نے فلاں کے اخراجات کا بوجھ اٹھا یا اسی کا فرمان ہے کہ پہلے اپنی ذلت پر خرچ کرو اور پھر ان پر جن کے اخراجات تمہارے ذمہ ہیں اعال الرجل وہ آدمی کثیر العیال ہوگیا ۔
Top