Mufradat-ul-Quran - Al-Furqaan : 50
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا١ۖ٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ : اور تحقیق ہم نے اسے تقسیم کیا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : مگر كُفُوْرًا : ناشکری
اور ہم نے اس (قرآن کی آیتوں) کو طرح طرح کے لوگوں میں بیان کیا تاکہ نصیحت پکڑیں مگر بہت سے لوگوں نے انکار کے سوا قبول نہ کیا
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰہُ بَيْنَہُمْ لِيَذَّكَّرُوْا۝ 0ۡۖ فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا۝ 50 صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔
Top