Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 23
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا
وَقَدِمْنَآ : اور ہم آئے (متوجہ ہونگے) اِلٰى : طرف مَا عَمِلُوْا : جو انہوں نے کیے مِنْ عَمَلٍ : کوئی کام فَجَعَلْنٰهُ : تو ہم کردینگے نہیں هَبَآءً : غبار مَّنْثُوْرًا : بکھرا ہوا (پراگندہ)
اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو انکو اڑتی خاک کردیں گے
وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝ 23 قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے هبا هَبَا الغبار يَهْبُو : ثار وسطع، والهَبْوَة کا لغبرة، والهَبَاء : دقاق التّراب وما نبت في الهواء فلا يبدو إلّا في أثنا ضوء الشمس في الكوّة . قال تعالی: فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] ، فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة/ 6] . ( ھ ب و ) ھبا ( ن ) الغبار کے معنی غبار کے اڑنے اور فضا میں پھیل جانے کے ہیں اور ھبرۃ ( بر وزن غبرۃ اور ھباء کے معنی غبار یا ان باریک ذرات کے ہیں جو کمرے کے اندر رو شندان سے دھوپ کی کر نیں اندرپڑتے سے اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور ان کو ( اس طرح رائگاں کردیں گے جیسے بکھری ہوئی دھول فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة/ 6] تو ( پہاڑ ایسے ) ہوجائیں گے ( جیسے ذرے پڑے ہوئے اڑ رہے ہیں ۔ نثر نَثْرُ الشیء : نشره وتفریقه . يقال : نَثَرْتُهُ فَانْتَثَرَ. قال تعالی: وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار/ 2] ويسمَّى الدِّرْع إذا لُبِسَ نَثْرَةً ، ونَثَرَتِ الشاةُ : طَرَحَتْ من أنفها الأَذَى، والنَّثْرَة : ما يَسِيلُ من الأنف، وقد تسمَّى الأنفُ نَثْرَةً ، ومنه : النَّثْرَة لنجم يقال له أنْفُ الأسد، وطَعَنَهُ فَأَنْثَرَهُ : أَلْقَاه علی أنفه، والاسْتِنْثَارُ : جعل الماء في النَّثْرة . ( ن ث ر ) نثر الشئیء کے معنی کسی چیز کو بکھیر نے اور پرا گندہ کردینے کے ہیں ۔ یہ نثر تہ ( ض ) کا مصدر ہے اور انتثر ( انفعال ) کے معنی بکھر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار/ 2] اور جب تارے جھڑ پڑیں ۔ اور پہنی ہوئی زرہ کو نثرۃ کہا جاتا ہے ۔ نثرت الشاۃ بکری کا چھینک کر فضلہ باہر پھینکنا اور چھینک سے جو فضلہ ناک سے بہہ نکلتا ہے اسے بھی نثرۃ کہا جاتا ہے کبھی نثرۃ کا لفظ ناک پر بھی بولا جاتا ہے اسی سے نثرۃ ایک ستارہ کا نام ہے جسے انف الاسد کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ طعنہ فانتثر اسے نیزہ مارا تو وہ ناک کے بل گر پڑا ۔ الا ستنتا ر ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑنا ۔
Top