Mufradat-ul-Quran - Al-Baqara : 283
وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ١ؕ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ١ؕ وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ١ؕ وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر وَّلَمْ : اور نہ تَجِدُوْا : تم پاؤ كَاتِبًا : کوئی لکھنے والا فَرِھٰنٌ : تو گرو رکھنا مَّقْبُوْضَةٌ : قبضہ میں فَاِنْ : پھر اگر اَمِنَ : اعتبار کرے بَعْضُكُمْ : تمہارا کوئی بَعْضًا : کسی کا فَلْيُؤَدِّ : تو چاہیے کہ لوٹا دے الَّذِي : جو شخص اؤْتُمِنَ : امین بنایا گیا اَمَانَتَهٗ : اس کی امانت وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا تَكْتُمُوا : اور تم نہ چھپاؤ الشَّهَادَةَ : گواہی وَمَنْ : اور جو يَّكْتُمْهَا : اسے چھپائے گا فَاِنَّهٗٓ : تو بیشک اٰثِمٌ : گنہگار قَلْبُهٗ : اس کا دل وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْم : جاننے والا
اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز لکھنے والا مل نہ سکے) تو (کوئی چیز) رہن باقبضہ رکھ کر) قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے اور دیکھنا شہادت کو مت چھپانا جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ۝ 0 ۭ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ۝ 0 ۭ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۝ 0 ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۝ 0 ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝ 283 ۧ سفر السَّفْرُ : كشف الغطاء، ويختصّ ذلک بالأعيان، نحو : سَفَرَ العمامة عن الرّأس، والخمار عن الوجه، وسَفْرُ البیتِ : كَنْسُهُ بِالْمِسْفَرِ ، أي : المکنس، وذلک إزالة السَّفِيرِ عنه، وهو التّراب الذي يكنس منه، والإِسْفارُ يختصّ باللّون، نحو : وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] ، أي : أشرق لونه، قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] ، و «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» »من قولهم : أَسْفَرْتُ ، أي : دخلت فيه، نحو : أصبحت، وسَفَرَ الرّجل فهو سَافِرٌ ، والجمع السَّفْرُ ، نحو : ركب . وسَافَرَ خصّ بالمفاعلة اعتبارا بأنّ الإنسان قد سَفَرَ عن المکان، والمکان سفر عنه، ومن لفظ السَّفْرِ اشتقّ السُّفْرَةُ لطعام السَّفَرِ ، ولما يوضع فيه . قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] ( سر ) السفر اصل میں اس کے معنی کشف غطاء یعنی پردہ اٹھانے کے ہیں اور یہ اعیان کے ساتھ مخصوص ہے جیسے سفر العمامۃ عن الراس اس نے سر سے عمامہ اتارا دیا ۔ سعر عن الوجہ چہرہ کھولا اور سفر البیت کے معنی گھر میں جھاڑو دینے اور کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے ہیں اور جھاڑو کو مسفرۃ اور اس گرد و غبار کو سفیر کہا جاتا ہے جو جھاڑو دے کر دور کی جاتی ہے ۔ الاسفار ( افعال ) یہ الوان کے ساتھ مختص ہے یعنی کسی رنگ کے ظاہر ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] اور قسم ہے صبح کی جب روشن ہو ۔ اور فرمایا : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے ۔ اور حدیث «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» صبح خوب روشن ہونے کے بعد نماز پڑھا کرو تو زیادہ ثواب ملے گا ۔ میں اسفروا اسفرت کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روشنی میں داخل ہونے کے ہیں جیسے اصبحت ( میں صبح میں داخل ہوا ) سفر الرجل اس نے سفر کیا اور سافر ( مسافر ) کی جمع سفر آتی ہے جیسے راکب کی جمع رکب رد علی ہذا القیاس ) اور سافر کے معنی ہیں اس نے سفر کیا یہ خاص کر باب مفاعلۃ سے آتا ہے گویا اس میں جانبین یعنی وطن اور آدمی کے ایک دوسرے سے دور ہونے کے معنی کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ اور سفر سے ہی سفرۃ کا لفظ مشتق ہے جس کے معنی طعام سفر یا توشہ دان ہیں جس میں سفری کھانا رکھا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ رَهِينٌ الرَّهْنُ : ما يوضع وثیقة للدّين، والرِّهَانُ مثله، لکن يختصّ بما يوضع في الخطاروأصلهما مصدر، يقال : رَهَنْتُ الرَّهْنَ ورَاهَنْتُهُ رِهَاناً ، فهو رَهِينٌ ومَرْهُونٌ. ويقال في جمع الرَّهْنِ : رِهَانٌ ورُهُنٌ ورُهُونٌ ، وقرئ : فَرُهُنٌ مقبوضة وفَرِهانٌ وقیل في قوله : كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر/ 38] ، إنه فعیل بمعنی فاعل، أي : ثابتة مقیمة . وقیل : بمعنی مفعول، أي : كلّ نفس مقامة في جزاء ما قدّم من عمله . ولمّا کان الرّهن يتصوّر منه حبسه استعیر ذلک للمحتبس أيّ شيء کان، قال : بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر/ 38] ، ورَهَنْتُ فلانا، ورَهَنْتُ عنده، وارْتَهَنْتُ : أخذت الرّهن، وأَرْهَنْتُ في السِّلْعة، قيل : غالیت بها، وحقیقة ذلك : أن يدفع سلعة تقدمة في ثمنه، فتجعلها رهينة لإتمام ثمنها . ( ر ھ ن ) الرھن ( گروی رکھی ہوئی چیز ) اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جو قرض میں بطور ضمانت رکھ لی جائے اور یہی معنی رھان کے ہیں لیکن رھان خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی مقابلہ میں شرط کے طور پر رکھ لی جائے اصل میں یہ دونوں لفظ مصدر ہیں جیسے رھنت الرھن وراھنتہ رھانا اور رھین اور مرھون : صیغہ صفت ہیں اور رھن کی جمع رھان رھن اور رھون آتی ہے اور آیت : ۔ فرھن مقبوضۃ : تو کچھ رہن قبضہ میں رکھ لو ۔ میں ایک قراءت فَرُهُنٌ مقبوضة بھی ہے اور آیت كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر/ 38] ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ رھینۃ فعیل بمعنی فاعل سے ہے اور اس کے معنی ثابت اور قائم رہنے والی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فعیل بمعنی مفعول سے ہے اور اس کے معنی ہیں کہ ہر شخص اپنے گزشتہ اعمال کی پاداش میں رکا رہے گا ۔ پھر رھن میں چونکہ حبس ( روکنے ) کے معنی پائے جاتے ہیں اس لئے کبھی مجازا رھن یعنی مطلق کسی چیز کو روکنے کے آجاتا ہے ۔ جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے ۔ رھنت فلانا رھنت عنده کے معنی کسی کے پاس گروی رکھنے کے ہیں اور ارتھنت ( افتعال ) کے معنی گروی لینے کے ۔ اور ارھنت ( افعال ) فی السلعۃ کے معنی بعض نے سامان تجارت کو گراں فروخت کرنا کئے ہیں اصل میں اس کے معنی بیعانہ کے طور پر کچھ سامان دے دینے کے ہیں ۔ جو قیمت ادا کرنے تک بطور ضمانت بائع کے پاس رہتا ہے ۔ قبض القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، ( ق ب ض ) القبض ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ أدى الأداء : دفع الحق دفعةً وتوفیته، كأداء الخراج والجزية وأداء الأمانة، قال اللہ تعالی: فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمانَتَهُ [ البقرة/ 283] ، إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها [ النساء/ 58] ، وقال : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، وأصل ذلک من الأداة، تقول : أدوت بفعل کذا، أي : احتلت، وأصله : تناولت الأداة التي بها يتوصل إليه، واستأديت علی فلان نحو : استعدیت ( ا د ی ) الاداء کے معنی ہیں یکبارگی اور پورا پورا حق دے دینا ۔ چناچہ خراج اور جزیہ کے دے دینے اور امانت کے واپس کردینے کو اداء کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ (1{ فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ }( سورة البقرة 283) تو امانت دار کو چاہیے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے ۔ (1{ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا } ( سورة النساء 58) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے حوالہ کردیا کرو ۔ (1{ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ }( سورة البقرة 178) اور پسندیدہ طریق سے خون بہا اسے پورا پورا ادا کرنا ۔ اصل میں یہ اداۃ سے ہے محاورہ ہے ادوت تفعل کذا ۔ کسی کام کے لئے حیلہ اور تدبیر کرنا اصل میں اس کے معنی اداۃ ( کسی چیز ) کو پکڑنے کے ہیں جس کے ذریعہ دوسری چیز تک پہنچا جاسکے ۔ أمانت أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) امانت ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ كتم الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] ، ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
Top