Mufradat-ul-Quran - Al-Israa : 92
اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ قَبِیْلًاۙ
اَوْ : یا تُسْقِطَ : تو گرادے السَّمَآءَ : آسمان كَمَا زَعَمْتَ : جیسا کہ تو کہا کرتا ہے عَلَيْنَا : ہم پر كِسَفًا : ٹکڑے اَوْ تَاْتِيَ : یا تو لے آوے بِاللّٰهِ : اللہ کو وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے قَبِيْلًا : روبرو
یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا لاؤ یا خدا اور فرشتوں کو (ہمارے) سامنے لے آؤ۔
اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا 92۝ۙ سقط السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران : السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع . ( س ق ط ) السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔ زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنیںُ تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔ كسف كُسُوفُ الشمس والقمر : استتارهما بعارض مخصوص، وبه شبّه كُسُوفُ الوجه والحال، فقیل : كَاسِفُ الوجه وكَاسِفُ الحال، والکِسْفَةُ : قطعة من السّحاب والقطن، ونحو ذلک من الأجسام المتخلخلة الحائلة، وجمعها كِسَفٌ ، قال : وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم/ 48] ، فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء/ 92] وکسفا «1» بالسّكون . فَكِسَفٌ جمع كِسْفَةٍ ، نحو : سدرة وسِدَرٍ. وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور/ 44] . قال أبو زيد : كَسَفْتُ الثّوب أَكْسِفُهُ كِسْفاً :إذا قطعته قطعا «2» ، وقیل : كَسَفْتُ عرقوب الإبل، قال بعضهم : هو كَسَحْتُ لا غيرُ. ( ک س) کسوف الشمش والقمر کے معنی ہیں سورج یا چاند کا کیس خاص عارض سے مستور یعنی گہن میں آجانا کے ہیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر چہرہ یا حالت کے خراب ہونے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے کا سف الوجھہ یا کا سف الحال ۔ الکسفۃ کے معنی بادل روئی یا اس قسم کے دوسرے متخلخل اجسام کے ٹکڑے کے ہیں اس کی جمع کسف آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً [ الروم/ 48] اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لاکر گراؤ أَوْ تُسْقِطَ السَّماءَ كَما زَعَمْتَ عَلَيْنا كِسَفاً [ الإسراء/ 92] یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے لاکر گراؤ ۔ ایک قرات میں کسفا بسکون سین ہے اور کسف کا واحد کسفۃ ہے جیسے سدرۃ وسدرۃ اور فرمایا : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان سے عذاب کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ابو ذید نے کہا ہے کسفت الثوب ( ج ) کسفا کے معنی کپڑے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہیں بعض نے کسفت عر قوب الابل بھی کہا ہے جس کے معنی اونٹ کی کونچ کاٹ دینے کے ہیں لیکن ) بعض ایک لغت کے نزدیک اس معی میں صرکسحت ہی استعمال ہوتا ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ (1) قَبِيلُ والقَبِيلُ : جمع قَبِيلَةٍ ، وهي الجماعة المجتمعة التي يقبل بعضها علی بعض . قال تعالی: وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء/ 92] ، أي : جماعة جماعة . وقیل : معناه كفيلا . من قولهم : قَبلْتُ فلانا وتَقَبَّلْتُ به، أي : تكفّلت به، وقیل مُقَابَلَةً ، أي : معاینة، ويقال : فلان لا يعرف قَبِيلًا من دبیر أي : ما أَقْبَلَتْ به المرأة من غزلها وما أدبرت به . القبیل یہ قبیلہ کی جمع ہے یعنی وہ جماعت جو ایک دوسرے پر متوجہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] تمہاری قو میں اور قبیلے بنائے ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء/ 92] اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبیل بمعنی کفیل یعنی ضامن کے ہے اور یہ قبلت فلانا وتتبلت بہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ضامن بننے کے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے معنی مقابلہ یعنی معائنہ کئے ہیں ۔ مثل مشہور ہے : ۔ وہ عورت کے اگلے اور پچھلے سوت میں تمیز نہیں کرسکتا یعنی بیوقوف ہے ۔
Top