Mufradat-ul-Quran - Al-Israa : 84
قُلْ كُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ١ؕ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِیْلًا۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : ہر ایک يَّعْمَلُ : کام کرتا ہے پر عَلٰي : پر شَاكِلَتِهٖ : اپنا طریقہ فَرَبُّكُمْ : سو تمہارا پروردگار اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ هُوَ : کہ وہ کون اَهْدٰى : زیادہ صحیح سَبِيْلًا : راستہ
کہہ دو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے راستے پر ہے۔
قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِهٖ ۭ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِيْلًا 84؀ۧ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے شكل الْمُشَاكَلَةُ في الهيئة والصّورة، والنّدّ في الجنسيّة، والشّبه في الكيفيّة، قال تعالی: وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْواجٌ [ ص/ 58] ، أي : مثله في الهيئة وتعاطي الفعل، والشِّكْلُ قيل : هو الدّلّ ، وهو في الحقیقة الأنس الذي بين المتماثلین في الطّريقة، ومن هذا قيل : الناس أَشْكَالٌ وألّاف «3» ، وأصل الْمُشَاكَلَةُ من الشَّكْل . أي : تقييد الدّابّة، يقال شَكَلْتُ الدّابّةَ. والشِّكَالُ : ما يقيّد به، ومنه استعیر : شَكَلْتُ الکتاب، کقوله : قيدته، ودابّة بها شِكَالٌ: إذا کان تحجیلها بإحدی رجليها وإحدی يديها كهيئة الشِّكَالِ ، وقوله : قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء/ 84] ، أي : علی سجيّته التي قيّدته، وذلک أنّ سلطان السّجيّة علی الإنسان قاهر حسبما بيّنت في الذّريعة إلى مکارم الشّريعة «1» ، وهذا کما قال صلّى اللہ عليه وسلم : «كلّ ميسّر لما خلق له» «2» . والْأَشْكِلَةُ : الحاجة التي تقيّد الإنسان، والْإِشْكَالُ في الأمر استعارة، کالاشتباه من الشّبه . ( ش ک ل ) المشاکلۃ کے معنی شکل و صورت میں مشابہ ہونے کے ہیں اور شبہ کے معنی جنس میں شریک ہونے کے ہیں اور شبہ کے معنی کیفیت میں مماثلث کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَآخَرُ مِنْ شَكْلِهِ أَزْواجٌ [ ص/ 58] اور اس طرح کے اور بہت سے ( عذاب ہوں گے ) میں ہیئت اور تعاطی فعل کے لحاظ سے مماثلث مراد ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ شکل کے معنی دل یعنی عورت کے نازو انداز کے ہیں لیکن اصل میں اس نسبت کو کہتے ہیں دوہم مشرب وہم پیشہ شخصوں میں پائی جاتی ہے ۔ چناچہ اسی سے محاورہ ہے ۔ الناس اشکال والاف کہ لوگ باہم مشابہ اور الفت والے ہیں ۔ اصل میں مشاکلۃ شکل سے ہے اور شکلت الدابۃ کے معنی ہیں میں نے جانور کی ٹانگیں ( شکال سے ) باندھ دیں اور شکال اس رسی کو کہتے ہیں جس سے اس کی ٹانگیں باندھ دی جاتی ہیں پھر اس سے استعارہ کے طور پر فیدت الکتاب کی طرح شکلت الکتاب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کتاب کو اعراب لگانے کے ہیں ۔ دابۃ بھا شکال وہ جانور جس کے ایک اگلے اور ایک پچھلے پاؤں میں شکال یعنی پائے بند کی طرح سفیدی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ [ الإسراء/ 84] کہو کہ ہر ایک اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ یعنی اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہے جو اسے پائے بند کئے ہوئے ہے کیونکہ فطرت انسان پر سلطان قاہر کی طرح غالب رہتی ہے جیسا کہ ہم اپنی کتاب الذریعۃ الٰی مکارم الشریعۃ میں بیان کرچکے ہیں ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے ( 199) «كلّ ميسّر لما خلق له» ( فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ) والْأَشْكِلَةُ حاجت جو انسان کو پابند کردے اور الاشکال کے معنی ( بطور استعارہ ) کسی کام کے پیچیدہ ہوجانے کے ہیں ۔ جیسا کہ اشتتباہ کا لفظ شبۃ سے مشتق ہے اور مجازا کسی امر کے مشتبہ ہونے پر بولاجاتا ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔
Top