Mufradat-ul-Quran - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی۔
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا 36؀ وقف يقال : وَقَفْتُ القومَ أَقِفُهُمْ وَقْفاً ، ووَاقَفُوهُمْ وُقُوفاً. قال تعالی: وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات/ 24] ومنه استعیر : وَقَفْتُ الدّارَ : إذا سبّلتها، والوَقْفُ : سوارٌ من عاج، وحمارٌ مُوَقَّفٌ بأرساغه مثلُ الوَقْفِ من البیاض، کقولهم : فرس مُحجَّل : إذا کان به مثلُ الحَجَل، ومَوْقِفُ الإنسانِ حيث يَقِفُ ، والمُوَاقَفَةُ : أن يَقِفَ كلُّ واحد أمره علی ما يَقِفُهُ عليه صاحبه، والوَقِيفَةُ : الوحشيّة التي يلجئها الصائد إلى أن تَقِفَ حتی تصاد . ( و ق) وقعت القوم ( ض) وقفا ر ( متعدی ) لوگوں کو ٹھہر انا اور دقفو ا وقو قا لازم ٹھہر نا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات/ 24] اور ان کو ٹھہرائے رکھو کہ ان سے کچھ پوچھنا ہے اور سی سے بطور استعارہ وقفت الدار آتا ہے جس کے معنی مکان کو وقف کردینے ہیں ۔ نیز الوقف کے معنی ہاتھی دانت کا کنگن بھی آتے ہیں اور حمار موقف اس گدھے کو کہتے ہیں جس کی کلائوں پر کنگن جیسے سفید نشان ہوں جیسا کہ فرس محجل اس گھوڑے کا کہا جاتا ہے جس کے پاؤں میں حجل کی طرح سفیدی ہو ۔ مرقف الانسان انسان کے ٹھہرنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور الموافقتہ کا مفہوم یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے معاملہ کو اسی چیز پر روک دے جس پر کہ دوسرے نے روکا ہے ۔ ( ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑا ہونا ) الوقیفتہ بھگا یا ہوا شکار جو شکاری کے تعاقب سے عاجز ہوکر ٹھہر جائے ۔ یہاں تک کہ وہ اسے شکار کرلے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. (ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔
Top