Mufradat-ul-Quran - Al-Hijr : 9
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
اِنَّا : بیشک نَحْنُ : ہم نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا الذِّكْرَ : یاد دہانی (قرآن) وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے لَحٰفِظُوْنَ : نگہبان
بیشک یہ (کتاب) نصیحت ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ۝ إِنَّ وأَنَ إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة/ 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة/ 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات . وأَنْ علی أربعة أوجه : الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت . والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق . والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص/ 6] أي : قالوا : امشوا . وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة/ 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان/ 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية/ 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر/ 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد ( ان حرف ) ان وان ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ { إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ } ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ { إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ } ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔ ( ان ) یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا { فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ } ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ { وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ } ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ } ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا } ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا } ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) { إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ } ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) { إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ } ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ، حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ [ البقرة/ 238] وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] ، وَالْحافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحافِظاتِ [ الأحزاب/ 35] ، كناية عن العفّة، حافِظاتٌ لِلْغَيْبِ بِما حَفِظَ اللَّهُ [ النساء/ 34] ، أي : يحفظن عهد الأزواج عند غيبتهن بسبب أنّ اللہ تعالیٰ يحفظهنّ ، أي : يطّلع عليهنّ ، وقرئ : بِما حَفِظَ اللَّهُ «1» بالنصب، أي : بسبب رعایتهن حقّ اللہ تعالیٰ لا لریاء وتصنّع منهن، وفَما أَرْسَلْناكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظاً [ الشوری/ 48] ، أي : حافظا، کقوله : وَما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ [ ق/ 45] ، وَما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ [ الأنعام/ 107] ، فَاللَّهُ خَيْرٌ حافِظاً [يوسف/ 64] ، وقرئ : حفظا «2» أي : حفظه خير من حفظ غيره، وَعِنْدَنا كِتابٌ حَفِيظٌ [ ق/ 4] ، أي : حافظ لأعمالهم فيكون حَفِيظٌ بمعنی حافظ، نحو قوله تعالی: اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ [ الشوری/ 6] ، أو معناه : محفوظ لا يضيع، کقوله تعالی: عِلْمُها عِنْدَ رَبِّي فِي كِتابٍ لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى [ طه/ 52] ، والحِفَاظ : المُحَافَظَة، وهي أن يحفظ کلّ واحد الآخر، وقوله عزّ وجل : وَالَّذِينَ هُمْ عَلى صَلاتِهِمْ يُحافِظُونَ [ المؤمنون/ 9] ، فيه تنبيه أنهم يحفظون الصلاة بمراعاة أوقاتها ومراعاة أركانها، والقیام بها في غاية ما يكون من الطوق، وأنّ الصلاة تحفظهم الحفظ الذي نبّه عليه في قوله : إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشاءِ وَالْمُنْكَرِ [ العنکبوت/ 45] ، والتَحَفُّظ : قيل : هو قلّة الغفلة «3» ، وحقیقته إنما هو تكلّف الحفظ لضعف القوة الحافظة، ولمّا کانت تلک القوة من أسباب العقل توسّعوا في تفسیر ها كما تری. والحَفِيظَة : الغضب الذي تحمل عليه المحافظة أي : ما يجب عليه أن يحفظه ويحميه . ثم استعمل في الغضب المجرّد، فقیل : أَحْفَظَنِي فلان، أي : أغضبني . ( حظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ [ البقرة/ 238] سب نمازیں ۔۔ پورے التزام گے ساتھ ادا کرتے رہو ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْحافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحافِظاتِ [ الأحزاب/ 35] اور اپنے ستر کی حفاظت کرنیوالے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں میں حفظ فرج غفلت اور پاکدامنی ۔۔ سے کنایہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ حافِظاتٌ لِلْغَيْبِ بِما حَفِظَ اللَّهُ [ النساء/ 34] اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں ( مال و آبرو کی ) خبر داری کرتی ہیں (4 ۔ 34) کے معنی یہ ہیں کہ اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں ان کے عہد کی حفاظت کرتی ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے ۔ اور ایک قرآت میں حفظ اللہ اللہ پر نصب کے ساتھ ہے اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق کی نگہبانی کے لئے حفاظت کرتی ہیں نہ کہ کسی قسم کی ریاکاری اور تصنع کے طور پر ۔ اور آیت کریمہ :۔ توا سے پیغمبر تمہیں ہم نے انکا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ۔ میں حفیظ بمعنی حافظ یعنی نگہبان کے ہیں جیسا ک :۔ وَما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ [ ق/ 45] اور وما أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ [ الأنعام/ 107] میں فعال اور فعیل بمعنی فاعل ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَاللَّهُ خَيْرٌ حافِظاً [يوسف/ 64] تو خدا ہی بہتر نگہبان ہے ۔ میں ایک قراءت حفظا ہے یعنی اس کی حفاظت دوسروں سے بہتر ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛َ وَعِنْدَنا كِتابٌ حَفِيظٌ [ ق/ 4] اور ہمارے پاس تحریری یاد داشت بھی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کتاب ان کے اعمال کی حفاظت کرنے والی ہے تو یہاں بھی حفیظ بمعنی حافظ ہے جیسا کہ : اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ [ الشوری/ 6] میں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حفیظ بمعنی محفوظ ہو یعنی وہ کتاب ضائع نہیں ہوگی ۔ جیسے فرمایا : ۔ عِلْمُها عِنْدَ رَبِّي فِي كِتابٍ لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى [ طه/ 52] المحافظۃ والحفاظ ( مفاعلہ ) ایک دوسرے کی حفاظت کرنا اور آیت کریمہ ؛۔ وَالَّذِينَ هُمْ عَلى صَلاتِهِمْ يُحافِظُونَ [ المؤمنون/ 9] اپنی نماز کی خبر رک تھے ہیں ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ وہ نمازوں کے اوقات اور اس کے ارکان کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کی پابندی کرتے ہیں ۔ اور نماز ان کی حفاظت کرنی ہے ۔ یعنی وہ انہیں بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے جیسے فرمایا :۔ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشاءِ وَالْمُنْكَرِ [ العنکبوت/ 45] کچھ شک نہیں کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے ۔ التحفظ ۔ ( تفعل ) بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی عقل کی کمی کے ہیں اور اصل میں اس کے معنی قوت حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے تکلیف سے کسی چیز کو یاد کرنے کے ہیں ۔ اور قوت حافظہ چونکہ اسباب عقل سے ہے اس لئے اس کی تفسیر میں لوگوں نے وسعت سے کام لیا ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے ۔ الحفیظۃ کے اصل معنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے غصہ اور حمیت سے کام لینے کے ہیں ۔ پھر یہ لفظ محض غصہ کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے کہا جاتا ہے ۔ احفظنی فلان ۔ یعنی فلاں نے مجھے غصہ دلایا ۔
Top