Mufradat-ul-Quran - Al-Hijr : 72
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
لَعَمْرُكَ : تمہاری جان کی قسم اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَفِيْ : البتہ میں سَكْرَتِهِمْ : اپنے نشہ يَعْمَهُوْنَ : مدہوش تھے
(اے محمد ﷺ تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش (ہو رہے) تھے۔
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ 72؀ عمر والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔ سكر السُّكْرُ : حالة تعرض بيت المرء وعقله، وأكثر ما يستعمل ذلک في الشّراب، وقد يعتري من الغضب والعشق، ولذلک قال الشاعر : 237- سکران : سکر هوى، وسکر مدامة «2» ومنه : سَكَرَاتُ الموت، قال تعالی: وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق/ 19] ، والسَّكَرُ : اسم لما يكون منه السّكر . قال تعالی: تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل/ 67] ، والسَّكْرُ : حبس الماء، وذلک باعتبار ما يعرض من السّدّ بين المرء وعقله، والسِّكْرُ : الموضع المسدود، وقوله تعالی: إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا [ الحجر/ 15] ، قيل : هو من السَّكْرِ ، وقیل : هو من السُّكْرِ ( س ک ر ) الکرس ۔ اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان اور اس کی عقل کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اس کا عام استعمال شراب کی مستی پر ہوتا ہے اور کبھی شدت غضب یا غلبہ یا غلبہ عشق کی کیفیت کو سکر سے تعبیر کرلیا جاتا ہے اسی لئے شاعر نے کہا ہے ( 231 ) سکران ھوی وسکر مدامۃ نشے دو ہیں ایک نشہ محبت اور دوسرا نشہ شراب اور اسی سے سکرت الموت ( موت کی بیہوشی ) ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق/ 19] اور موت کی بےہوشی کھولنے کو طاری ہوگئی ۔ السکرۃ ( بفتح السین والکاف ) نشہ آور چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل/ 67] کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق رکھا تے ہو ) اور شراب سے انسان اور اس کی عقل کے درمیان بھی چونکہ دیوار کی طرح کوئی چیز حائل ہوجاتی ہے اس اعتبار سے سکر کے معنی پانی کو بند لگانے اور روکنے کے آجاتے ہیں اور اس بند کو جو بانی روکنے کے لئے لگایا جائے سکر کہا جاتا ہے ( یہ فعل بمعنی مفعول ہے ) اور آیت : ۔ إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا[ الحجر/ 15] کہ ہماری آنکھیں مخمور ہوگئی ہیں ۔ میں سکرت بعض کے نزدیک سک سے ہے اور بعض نے سکرا سے لیا ہے اور پھر سکر سے سکون کے معنی لے کر پر سکون رات کو لیلۃ ساکرۃ کہا جاتا ہے ۔ عمه الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] . ( ع م ہ ) العمۃ کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔
Top