Mufradat-ul-Quran - Al-Hijr : 29
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ
فَاِذَا : پھر جب سَوَّيْتُهٗ : میں اسے درست کرلوں وَنَفَخْتُ : اور پھونکوں فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِيْ : اپنی روح سے فَقَعُوْا : تو گر پڑو تم لَهٗ : اس کے لیے سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرتے ہوئے
جب اسکو (صورت انسانیہ میں) درست کرلوں اور اس میں اپنی (بےبہا چیز یعنی) روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گرپڑنا۔
فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ 29؀ سوا الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( نخ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ روح الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] ( رو ح ) الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔ وقع الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] ، ( و ق ع ) الوقوع کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔ إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )
Top