Mufradat-ul-Quran - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 26؀ۚ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے صلل أصل الصَّلْصَالِ : تردُّدُ الصّوتِ من الشیء الیابس، ومنه قيل : صَلَّ المسمارُ «3» ، وسمّي الطّين الجافّ صَلْصَالًا . قال تعالی: مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] ، مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، والصُّلْصَلَةُ : بقيّةُ ماءٍ ، سمّيت بذلک لحکاية صوت تحرّكه في المزادة، وقیل : الصَّلْصَالُ : المنتن من الطین، من قولهم : صَلَّ اللحمُ ، قال : وکان أصله صَلَّالٌ ، فقلبت إحدی الّلامین، وقرئ : (أئذا صَلَلْنَا) «1» أي : أنتنّا وتغيّرنا، من قولهم : صَلَّ اللّحمُ وأَصَلَّ. ( ص ل ل ) اصل میں صلصان کے معنی کسی خشک چیز سے آواز آنا کے ہیں اسی سے صل المسار کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی میخ کو کسی چیز میں ٹھونکنے سے آواز پیدا ہونا کے ہیں اور ( گھنگنے والی ) خشک مٹی کو بھی صلصال کہاجاتا ہے قرآن میں ہے : مِنْ صَلْصالٍ كَالْفَخَّارِ [ الرحمن/ 14] ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی مٹی سے مِنْ صَلْصالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] کھنکنے والی خشک مٹی یعنی سنے ہوئے گارے سے ۔ اور صلصلۃ کے معنی باقی ماندہ پانی کے میں کیونکہ مشکیزہ میں باقی ماندہ پانی کے ہلنے سے کھنکناہٹ کی آواز پیدا ہوتی ہے بعض نے کہا ہے کہ صلصان کے معنی سڑی ہوئی مٹی کے ہیں اور یہ صل اللحم سے مشتق ہے جس کے معنی گوشت کے بدبودار ہوجانے کے ہیں صلصان اصل میں صلال ہے ایک لام کو صاد سے بدل دیا گیا ہے اور آیت کریمہ :(أئذا صَلَلْنَا) کیا جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے ۔ میں ایک قرات صللنا بھی ہے یعنی جب ہم گل سٹر گئے اور یہ صل اللحم واصل کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ حماء ۔ گارا۔ کیچڑ۔ الحمی سے حماء مادہ۔ الحمأ سیاہ بدبودار مٹی۔ احما تھا۔ میں نے اسے کیچڑ سے بھر دیا۔ اور جگہ قرآن میں ہے عین حمئۃ۔ سیاہ بدبودار۔ کیچڑ والا چشمہ۔ مسنون وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» . سنن اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔
Top