Mualim-ul-Irfan - Nooh : 8
ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًاۙ
ثُمَّ : پھر اِنِّىْ : بیشک میں دَعَوْتُهُمْ : میں نے پکارا ان کو جِهَارًا : اعلانیہ
بیشک پھر میں نے ان کو برملا دعوت دی۔
گذشتہ سے پیوستہ : پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ کا ذکر فرمایا ہے کہ کسی طرح انہوں نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ دوسرے رکوع میں مشرکین کے شرک اور اس کی مختلف صورتوں کا ذکر ہے اور آکر میں پھر منکرین کے لیے سز کی دعا ہے۔ الغرض اس سورة میں نوح (علیہ السلام) کو بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ کہ انہوں نے کس طرح لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچایا۔ اور ان کی طرف سے دی گئی ایذائوں اور پریشانیوں کو کس طرح برداشت کیا۔ اس سورة میں حجرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ کے پانچ طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے در س میں اس پانچ میں سے دو طریقوں یعنی رات اور دن کی تبلیغ کا بیان آچکا ہے اور آئندہ باقی طریقوں کا ذکر ہے۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) اور ان کے پیرو کار خدا کا پیغام اور اس کی وحدانیت کی تعلیم انہیں پانچ طریقوں سے دیتے رہے ہیں۔ حضر ت نوح (علیہ السلام) نے یہ سارے طریقے سینکڑوں سال تک اپنی قوم پر آزمائے مگر سوائے ان ستر آدمیوں کے جو کشتی پر سوار ہوئے ، اور کوئی ایمان نہ لایا سورة ہود میں ارشاد ربانی ہے۔ یعنی اے نوح ! تمہاری قوم میں سے سوائے ان ستر لوگوں کے جو ایمان لا چکے ، اور کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے۔ اس کے بعد جب اپنی قوم سے بالکل مایوس ہوگئے توا للہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا فرمائی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے تبلیغ کے سلسلے میں جس قدر محنت کی ، اس کی تفصیل اسی دعا کے اندر ہی۔ آرہی ہے جیسا کہ پہلے درس میں گذر چکا ہے آپ نے اپنی قوم کو دن کو بھی دعوت دی اور رات کو بھی دعوت دی مگر وہ بھاگئے رہے۔ اب آگے دوسرے ذرائع تبلیغ کا ذکر آرہا ہے۔ برملا دعوت : دعوت الی الحق کا تیسرا طریقہ آپ نے یہ بتایا کہ پھر میں نے ان کو برملا دعوت دی۔ تبلیغ کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ بعض اوقات برملا دعوت موثر ثابت ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کی سوچ اس قسم کی ہوتی ہے کہ اگر ان کو فرداََ فرداََ کوئی بات سمجھائی جائے تو وہ شبہات میں مبتلا ہوجائے ہیں کہ کیا بات ہے۔ ہمیں اکیلے کیوں بتلایا جارہا ہے۔ کہیں اس میں کوئی فاسد غرض نہ ہو۔ ا س بات کا ذکر برملا کیوں نہیں کیا جارہا۔ تو اس لیے نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی قوم کو برملا بھی دعوت دی۔ جیسا کہ سورة یونس میں ہے اے لوگو ! میری بات صاف صف سمجھ لو ، اس کے بعد تمہارے دلوں میں شک و شبہ تاریکی نہیں رہنی چاہیے۔ میر ی دعوت واضح ہے یعنی عبادت صر فاللہ کی کرو۔ اسی سے ڈرو اور میری بات مانو۔ الغرض نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم پر برملا دعوت کی حجت بھی پوری کردی۔ کیونکہ رات کی دعوت میں گھر میں اکیلے آدمی اور علیحدگی کا تصور پایا جاتا ہے۔ اور جہاں میں عام مجمع کا علی الاعلان دعوت مقصود ہے ۔ جو جو طریقے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اختیار کئے ، وہ سارے طریقے حضور ﷺ نے بھی استعمال فرمائے۔ یعنی رات کو بھی تبلیغ کی ، دن کو بھی ، عام مجالس میں بھی کی ، بازاروں اور منڈیوں میں دعوت دی ، عام اجتماعات میں خدا کا پیغام سنایا۔ علی الاعلان دعوت : دعوت کا چوتھا طریقہ یہ بیان کیا کہ پھر میں نے ان کو علی الاعلان دعوت دی۔ علی الاعلان سے مراد ہے ڈونڈی پٹوا کر۔ جیسے کوئی اہم معاملہ ہو تو ڈونڈی پٹوائی جاتی ہے۔ اعلان کروایا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت نوح (علیہ السلام) نے ڈونڈی پٹوا کر اعلان کے ذریعے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ کہ خبردار ہو جائو ، پھر نہ کہنا کہ ہمیں پتہ نہ چلا اب کان کھول کر اللہ کا پیغام سن لو ، مگر پھر بھی قوم پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پوشیدہ طور پر دعوت : بعض لوگ نفسیاتی ، بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی بات علی الاعلان کی جائے یا ان کی کسی خامی کا برملا اظہار کیا جائے تو وہ برا مان جاتے ہیں۔ نصیحت نہیں پکڑتے۔ اسی حجت کو پورا کرنے کے لیے اے مولا کریم ! میں نے ان کو پو شیدہ طور پر بھی دعوت توحید دی۔ امام احمد (رح) کے متعلق مشہو رہے کہ ایک دفعہ انہوں نے لمبی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ ایک بےسمجھ آدمی آیا کہنے لگا ایک مسئلہ دریافت کرتا ہوں کہ حضور ﷺ نے ایسی لمبی ٹوپی پہنی تھی ؟ یہ بات اس نے عام مجلس میں کی تاکہ امام صاحب کی خفت ہوجائے اور آپ مجمع میں رسوا ہوں۔ اس بری نیت سے سوال کیا۔ تو اس کے جواب میں امام صاحب نے فرمایا تو نے نصیحت کی ہے یا رسوا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی یہ سوال برملا کرکے تم کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہو۔ الغرض برملا بات میں بعض اوقات خفت اٹھانا پڑتی ہے۔ لہذا حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو پوشیدہ طور پر بھی تبلیغ کرکے انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ تبلیغ کے پانچ اصول : الغرض حضرت نوح (علیہ السلام) نے غرض کا کیا کہ یا اللہ ! میں نے دعوت الی الحق اور تبلیغ دین کے تمام طریقے استعمال کرلیے میں نے ان کو رات کو بھی دعوت دی اور دن کی بھی دعوت دی۔ شب و روز میں جب بھی موقع ملا میں نے تیرا پیغام پہنچانے میں سستی نہیں کی ۔ پھر ان کو برملا مجالس میں بھی سمجھایا۔ اور علی الاعلان بھی خدا کا پیغام پہنچایا۔ میں نے ان کو تنہائی میں فرداََ فرداََ بھی تیرا پیغام سنایا مگر ان کو کوئی اثر نہیں ہوا۔ تبلیغ کے یہ اصول ہر زمانے میں کار آمد ہیں : تبلیغ کے یہ پانچ اصول ہر زمانے کے ہر مبلغ کے لیے کار آمد ہیں۔ اگر کسی کو رات کو موقع ملتا ہے تو رات کو تبلیغ کا فریضہ سرا نجام دے۔ خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچائے۔ مگر اس زمانے میں رات کے وقت تو ساری دنیا کھیل تماشے میں مصروف ہوتی ہے۔ چار رات کفار و مشرکین کے علاوہ کلمہ گو بھی اسی رد میں بہ رہے ہیں۔ لہو و لعب میں مصروف رہتے ہیں۔ عبادت کو ن کرتا ہے۔ اور تبلیغ کون کرتا ہے۔ دن کے وقت لوگوں کی اکثریت پیٹ کی ضروریات میں لگی رہتی ہے۔ ایسے کتنے آدمی ہوں گے جو محض رضائے الٰہی کے لیے لوگوں تک دین پہنچائیں جسے سمجھ کر نجات حاصل کرسکیں۔ حصور ِ روزگار معیشت ، ملازمت ، محنت یہ سب چیزیں جائز ہیں۔ مگر نوح انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم ضرورت کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ جس سے لوگ فلاح پائیں۔ لاوڈ سپیکر کا غلط استعمال : اب راتوں کو ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے۔ کیا یہ تبلیغ ہو رہی ہے۔ لاوڈ سپیکر ایک نئی مصیبت آگئی ہے۔ رات کو اس پر صلوٰۃ وسلام شروع کردیا۔ یا مخالفوں کو کچلنے کے لیے برا بھلا کہنے لگے۔ نغمہ بازی یا گانا بجانا شروع کردیا۔ یہ کون سی تبلیغ ہے۔ کوئی پنجابی غزل ہو رہی ہے۔ کوئی اردو نغمہ گا رہا ہے ، کوئی کچھ کر رہا ہے کوئی کچھ کر رہا ہے۔ اس سے کون سی اصلاح ہوتی ہے۔ کسی کے ذہن میں کوئی اچھی بات تو اترتی نہیں۔ جب اترے گی بری بات ہی اترے گی۔ کیونکہ تبلیغ تو مقصد ہی نہیں ، محض اپنے فرقے اور اپنی پارٹی کی حمایت مقصود ہے یا پھر پیٹ پر روزی مطلوب ہے۔ عرب کہتے تھے دوسروں کو برا بھلا کہنے میں زندگی ہے لہذا بعض لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے روزی ہی علمائے دیوبند کو گالیاں دینے میں رکھی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید (رح) کو دو سو سال ہوگئے ہیں۔ مگر آج تک لوگ انہیں گالیاں دے کر روزی کھار ہے ہیں۔ تبلیغ کا کوئی پروگرام نہیں بس مخالفین کو گالیاں دو اور اپنا پیٹ بھرو۔ یہ تو ضمناََ بات آگئی تھی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں تبلیغ کا کوئی معقول طریقہ ہی نہیں ہے۔ اگر لاوڈ سپیکر استعمال کرنا ہے تو کوئی اچھی بات تو کرو ۔ یہ کون سی نیکی ہے کہ لائوڈ سپیکر کھول کر دوسروں کی نمازیں خراب کرو۔ ادھر نماز ہو رہی ہے ۔ ادھر وہ درس دے رہے ہیں۔ ایک مسجد میں درس ہور ہا ہے۔ اور دس بیس مسجدوں میں نمازیں خراب ہو رہی ہیں۔ کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ عبادت میں خلل : حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ پڑوسی کو مت ستائو۔ چہ جائیکہ کہ عبادت کے اندر لوگوں کو ستایا جائے۔ بعض اوقات لاوڈ سپیکر کے غر غر کی آواز ایسی آتی ہے کہ نمازوں کے دوران پتہ ہی نہیں کہ امام کیا پڑھ رہا ہے اور مقتدی کیا سن رہے ہیں۔ رکوع و سجود میں گڑ بڑ ہوجاتی ہے۔ یہ کوئی نیکی نہیں بلکہ مصیبت ہے۔ یہ لوگ عذاب میں مبتلا ہیں۔ کیا خاک ترقی کی ہے۔ کوئی نماز نہیں پڑھ سکتا ۔ کوئی تلاوت نہیں کرسکتا۔ دن میں بھی ہور ہا ہے۔ رات کو بھی بارہ بجے تک جاری ہے۔ کیا دعوت لیل و نہار کا یہی مقصد تھا۔ کہ دوسروں کی عبادت میں خلل ڈالا جائے۔ گانا بجا ناہو اور گالیاں دی جائیں۔ دن کو پیٹ کا دھندا ہے اور رات کو لہو ولعب میں مبتلا ہیں۔ عناد و تعصب دین نہیں : جب کہیں جلسہ ہوتا ہے۔ برمال تقریرہوتی ہے ، تو وہاں بھی یہی چیز ہے جس طرح ممکن ہو مخالفین کو ذلیل کرو۔ خدا راضی ہو یا نہ ہو۔ مگر اپنی پارٹی اور اپنے فرقہ کو قائم رکھو۔ کسی کو فائدہ ہو یا نہ ہو کسی کے عقیدے کے خلاف ہو یا حق میں کوئی جائے جہنم میں ، تم اپنے مطلب پورے کرو۔ یہ سمجھتے ہیں کہ دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ یاد رکھو تعصب اور عناد کوئی دین نہیں۔ حضور ﷺ نے اخلاق حسنہ کی تعلیم دی ہے۔ وہ شخص کاہل الایمان نہیں ، جو پڑوسیوں کو ستاتا ہے۔ یہ نماز کے دوران بھی شور کر رہے ہیں۔ یہ کون سادین ہے۔ نمازی کے آگے سے گزر ناسخت گناہ ہیـ تبوک کے واقعہ میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص آگے سے گزر گیا۔ نماز میں خلل واقع ہوگیا۔ آپ نے اس کے لیے بدعا فرمائی کہ خدا کرے تو اپنی ٹانگوں سے چل نہ سکے۔ وہ آدمی لنگڑا ہوگیا تھا۔ اس نے حضور ﷺ کو ایذا پہنچائی تھی۔ مرتے دم تک ٹھیک نہ ہوا۔ یہ روایت ابو دائود میں موجود ہے۔ نمازی کے آگے سے گزرنے والا مسئلہ بھی اہم ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کوئی شخص چالیس سال یا چالیس دن تک کھڑا رہے تو یہ اس کے لیے نمازی کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہے۔ ہاں اس طرح نمازی کی نماز میں فرق نہیں آئے گا۔ البتہ گزرنے والا گہنگار ہوگا۔ نماز ہوجائے گی۔ اسی لیے اگر جگہ میں نماز پڑھ رہا ہے تو آگے سترہ رکھنے کا حکم ہے تاکہ نماز سکون کی ساتھ ادا کی جاسکے۔ دین قیامت تک قائم رہے گا : کے مطابق دین کا ایک طریقہ علی الاعلان بھی ہے مگر یہاں تبلیغ کی بجائے لہو ولعب ، فحاشی اور عریانی کا اعلان ہوتا ہے۔ ٹانگے کے پیچھے سینما کا اشتہار باندھ کر فہاشی پھیلائی جارہی ہے۔ تبلیغ دین کا اعلان کون کرتا ہے۔ کیا حکومت یہ فریضہ انجام دے رہی ہے۔ دین ایک سچی حقیقت ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے دین قیامت تک مٹے گا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو کھڑا کرتا رہے گا۔ جو دین پر خود بھی قائم رہیں گے اور دعوت بھی دیتے رہیں گے ۔ مخالفوں کی ایذائیں بھی برداشت کرے ہیں ، یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ مگر اس زمانے میں حکومتیں کیا کر رہی ہیں ، پارٹیاں کیا کررہی ہیں۔ کس بات کا اعلان کر رہے ہیں۔ اسی طرح کے مصداق پوشیدہ طور پر تبلیغ کا کیا حق ادا کر رہے ہیں۔ اسوہ حسنہ پر عمل کا فقدان : بہرحال تبلیغ کے یہ پانچوں طریقے نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم پر آزمائے۔ اور ان کا ذکر اپنی دعا میں کیا۔ یہی پانچ طریقے تمام امتوں پر لاگو ہیں۔ مگر کیا آج کا مسلمان ان پر عمل در آمد کر رہا ہے۔ مناسب تو یہ تھا کہ کے مطابق مسلمان ساری دنیا میں کلمہ حق کا اعلان قبول کیوں نہیں کرتے۔ حضور ﷺ کا اسوہ حسنہ عبادت میں پکڑو۔ نکاح طلاق میں پکڑو۔ سیاست میں پکڑو۔ اگر حضور ﷺ کا طور طریقہ سب سے افضل ہے تو پھر اس پر عمل کیون نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے۔ وزیر اکٹھے ہوئے اسلام کی سربلندی کی باتیں ہوئیں۔ پندرھویں صدی ہجری کی تقریباََ کا اعلان ہوا۔ ان تقریبات سے کس قدر فائدہ ہوا ۔ جب کہ اسلام کے اصولوں پر عمل ہی نہیں ہے۔ عقیدہ درست نہیں ہے۔ دماغوں میں کفر و شرک بھرا ہوا ہے۔ بدعملی اور عیاشی کا دور دورہ ہے۔ فحاشی پائی جاتی ہے۔ لہو دلعب میں مبتلا ہیں۔ مگر زبان سے کہتے ہے کہ اسلام سچا مذہب ہے اگر واقعی سچا مذہب ہے تو پھر اس پر عمل کرکے کیوں نہیں دکھاتے۔ قول وفعل میں تضاد : برناڈ شا بڑی مشہور انگریز شخصیت ہوئی ہے۔ و ہ اسلام کی بڑی تعریف کیا کرتا تھا۔ مولوی ظفرعلی مرحوم لندن گئے۔ برناڈ شا سے ملاقات ہوئی تو اس نے اسلام کی بڑی تعریف کی۔ ظفر علیخان جذباتی آدمی تو تھے ہی ، کہنے لگے اگر اسلام ایسا سچا دین ہے تو پھر تم اسلام قبول کیوں نہیں کرلیتے۔ برناڈ شانے مولوی صاحب کو ڈانٹ دیا کہ تم مجھے اسلا م کی دعوت دیتے ہو۔ پہلے خود اسلام پر کار بدن ہو کر آئو۔ تمہارا خود اسلام پر عمل نہیں ہے۔ مجھے کیا دعوت دیتے ہو۔ میں تم سے اسلام کو زیادہ جانتا ہوں۔ پہلے صحابہ کرام ؓ جیسے بن کر آئو۔ پھر مجھے دعوت دنیا۔ تمہارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ اسلام کے نام پر الحاد کی تبلیغ : مسلمانوں کا فرض تھا کہ وہ ساری دنیا میں توحید کا اعلان کرتے۔ اسلام کی دعوت دیتے مگر اب تو کوئی اعلان بھی نہیں کرسکتا۔ بیرونی ممالک میں وفد جاتے ہیں طلباء بھی جاتے ہیں۔ مگر لہود لعب کے لیے ، شراب نوشی ، اور رنڈی بازی کے لیے ۔ یہ دوسروں کو کیا ٹھیک کریں گے۔ خود رگ و ریشے میں یہودیت ، نصرانیت ، اور الحاد بسا ہوا ہے۔ نام مسلمانوں جیسے ہوتے ہیں۔ کام سارا یہود انصاری اور الحاد کا کرتے ہیں۔ وہاں سے کیا سیکھ کر آتے ہیں۔ یہ کیا اعلان کریں گے۔ پوشیدہ طور پر بھی وہی دعوت دے گا۔ جس کے دل میں کوئی ہمدردی ہے اور جسے اپنے دین کی حقانیت پر یقین ہے کہ اس سے بہتر کوئی دین نہیں ہم اگر کسی کو سمجھائیں گے کسی کا بھلا کریں گے۔ تو ہمیں بھی فائدہ پہنچے گا۔ آپ ان کی نصیحت کریں خواہ ان کو فائدہ دے یا نہ دے۔ آپ کو ہر حالت میں یہ نصیحت فائدہ پہنچائیگی۔ آپ کے فریضہ ادا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں درجات بلند ہوں گے۔
Top