Mualim-ul-Irfan - Nooh : 21
قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّهُمْ عَصَوْنِیْ وَ اتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْهُ مَالُهٗ وَ وَلَدُهٗۤ اِلَّا خَسَارًاۚ
قَالَ نُوْحٌ : کہا نوح نے رَّبِّ : اے میرے رب اِنَّهُمْ عَصَوْنِيْ : بیشک انہوں نے میری نافرمانی کی وَاتَّبَعُوْا : اور پیروی کی مَنْ لَّمْ : اس کی جو نہیں يَزِدْهُ : اضافہ کیا اس کو مَالُهٗ : اس کے مال نے وَوَلَدُهٗٓ : اور اس کی اولاد نے اِلَّا خَسَارًا : مگر خسارے میں
نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا اے پروردگار بیشک انہوں نے میری نافرمانی کی ہے۔ اور ان لوگوں نے اتباع کیا ان کا جن کے مال اور اولاد نے ان کے لیے سوائے خسارے کے کچھ زیادہ نہ کیا۔
گزشتہ سے پیوستہ : سورة نوح میں بنوت اور رسالت ، طریقہ تبلیغ ، توحید اور قیامت کا ذکر ہے اور بنیادی عقائد ہیں تو گویا اس سورة میں منکرین توحید کا رد ، مشرکوں اور کافروں کی مذمت اور ساتھ ساتھ جزائے عمل کا بیان ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر ہے۔ اس میں اس پیغام کا بیان ہے جو انہوں نے اپنی قوم تک پہنچایا ، یعنی عبادت صرف اللہ کی کرو ، اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ دنیا و آخرت کا فائدہ اسی میں ہے۔ مگر حضرت نوح (علیہ السلام) کے اتنا لمبا عرصہ تبلیغ کرنے اور مصائب و تکا لیف اٹھانے کے باوجود بہت کم لوگ ایمان لائے۔ وہی ستر آدمی جو کشتی پر سوار ہوئے۔ باقی ساری قوم ایمان سے خالی گئی۔ آخر کار نوح (علیہ السلام) نے تنگ آکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کی۔ کہ مولا کریم میں نے اپنی قوم کو صبح اور شام دعوت دی ، برملا دعوت دی۔ علی الاعلان دعوت دی اور پوشیدہ طور پر دعوت دی مگر یہ ایمان نہ لائے۔ اس کے بعد ان دلائل توحید کا ذکر کیا جو انسان کے اپنے وجود سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض خارجی دنیا سے متعلق ہیں مگر قوم پر کوئی اثر نہ ہوا۔ آیت زیر درس میں قوم کی نافرمانی اور دولت مند لوگوں کے اتباع کا ذکر ہے۔ نام اور لقب : مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا نام عبدالغفار تھا ، اور نوح لقب تھا۔ نوح کا لفظ نوحہ کے مادے سے ہے جس کا معنی رونا اور گریہ وزاری کرنا ہے۔ چونکہ نوح (علیہ السلام) السلام قوم کی حالت زار پر کثرت سے روتے رہے ، نوحہ کرتے رہے۔ لہذا ان کا لقب نوح پڑگیا۔ اتباع رسول فرض ہے : تمام انبیاء کرام کا یہ فرض منصبی رہا ہے کہ وہ قوم کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تبلیغ اسی سے ڈرائیں اور اپنے اتباع کا حکم کریں۔ جسیا کہ نوح (علیہ السلام) نے بھی کیا اور قوم کو دعوت دی۔ اسی طرح ہر قوم کا فرض ہے کہ وہ اپنے بنی کا اتباع کرے۔ خود قرآن پاک کا ارشاد ہے۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت کی۔ کیونکہ نبی خود نہیں آتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتا ہے۔ اس لیے اسکی مطلق اطاعت بھی لازم ہے۔ وہ خدا کا نائب ہوتا ہے۔ اس کا مطیع اور فرمانبردار ہوتا ہے۔ اللہ کی اطاعت بھی لازم ہے ۔ وہ خدا کا نائب ہوتا ہے۔ اس کا مطیع اور فرمانبردار ہوتا ہے۔ اللہ کی اطاعت اس لیے کہ وہ مالک و معبود ہے۔ اور نبی کی اطاعت اس لیے کہ وہ خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ لہذا نبی کی اطاعت سے سرتابی کرنے والا کافر ہوتا ہے۔ عام صلحاء اور اولیاء علما کی اطاعت سے انکار کرنے ولا کافر نہیں ہوتا۔ مگر ان کی اطاعت اس لیے کرنی پڑتی ہے کہ وہ تبلیغ رسالت کرتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنے باپ سے کہہ دیا تھا۔ اے میرے باپ ! میری بات مان لے ، میں تجھے سیدھا راستہ دکھاتا ہوں کہ صراط مستقیم میرے پاس ہے۔ اس ضمن میں اپنے باپ پر واضح کیا کہ میں یہ اس لیے کہتا ہوں کہ میرے پاس اس کا علم ہے ۔ یعنی قطعی اور یقینی علم سوائے نبی کے کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ اس لیے نبی کی اطاعت مطلقاََفرض ہوتی ہے۔ باقیوں کی اطاعت فرض نہیں ہے۔ صاحب مال و دولت کا اتباع : الغرض حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہے ہیں ک میری قوم نے میرا اتباع کرنے کی بجائے۔ یعنی میری قوم نے ان لوگوں کا اتباع کیا جن کے مال اور اولاد نے انہیں سوائے خسارے کے کچھ نہ پہنچایا۔ یعنی میرا کہا ماننے کی بجائے دولتمندوں ، رئیسوں اور صاحب مال و اولاد کا اتباع کیا۔ جس طرح انہوں نے کہا اسی طرح میری قوم نے کیا۔ اور اس طرح غلط روشن پر چل نکلے۔ اگرچہ مال و داولاد کی کثرت ایک نعمت ہے ۔ مگر اکثر وبیشتر اللہ تعالیٰ نے غافل کرنے کا ذریعہ بھی ہے آخرت کو فراموش کرنے کا ایک قومی سبب ہے۔ دنیا کے اکثر متمولین نے غرور وتکبر کے ساتھ یہی کہا۔ ہمارا مال اور اولاد زیادہ ہے۔ ہمیں کون پوچھنے والا ہے کون سزا دینے والا ہے۔ جیسا کہ پچھلی سورة میں گذر چکا ہے۔ یہ بدبخت ریئس محض اس لیے انکار کرتا ہے ک اللہ نے اسے مال اور اولاد دے رکھا ہے۔ ولید بن مغیرہ کے دس بیٹے تھے۔ آگے بھی آئے گا۔ جب بیٹے مجلس میں حاضر ہوتے تھے تو بڑی رونق ہوتی تھی۔ حدیث شریف میں ایک دوسرے شخص ابوالرجال کا ذکر آتا ہے ۔ اس کے بھی دس جوان بیٹے تھے۔ مجلس میں آتے تھے۔ مشاورت میں حصہ لیتے تھے۔ صلح وجنگ میں شریک ہوتے تھے۔ اور وہ اس پر اتراتا تھا۔ تو گویا اولاد کی کثرت اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ بہت کم لوگ جو مال و اولاد کی کثرت کے باوجود اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں کوئی خال خال ہی ایسا ملے گا۔ ورنہ نوہزار نو سا ننانوے مغرور ہی ہونگے۔ سرمایہ دارانہ اور اشترا کی نظام معیشت : وہ مال جس کی بدولت لوگ تکبر کرتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا مرہون منت ہے اور یہ نظام ہی سب سے بڑی مصیبت ہے جس میں ن مال جمع کرنے پر کوئی پابندی ہے اور نہ خرچ کرنے میں ۔ جس ذریعے سے چاہو مال کمائو۔ اس میں حلا ل و حرام کی کوئی تمیز نہیں اسی طرح جس کام میں چاہو خرچ کرو۔ کوئی رکاوٹ نہیں ۔ سود کی کمائی ہو یا شراب کے ٹھیکہ کی ، خنزیر کی تجارت ہو یا تھیٹر کی آمدنی۔ اس میں کوئی پابندی نہیں خرچ کرنے میں حقوق العباد کی پروا نہیں ، یتامیٰ و مساکین کا خیال نہیں۔ زکوٰۃ اور صدقہ خیرات ک طرف توجہ نہیں ، محض اپنی عیش و عشرت سے غرض ہے۔ یہ اسی سرمایہ دادرانہ نظام کی لائی ہوئی لعنت ہے۔ اشترا کی نظام معیشت بھی ویسا ہی لعنتی ہے جیسے روس ، چین اور ویت نام کا نظام ۔ وہ تو آسمانی شریعت کو مانتے ہی نہیں۔ وہ تو خدا کی ہستی کا ہی انکار کرتے ہٰں۔ ان کا تو یاجوج ماجوج نظریہ ہے کہ زمین والوں کو ہم نے مغلوب کردیا ہے اور اب آسمان والے کو مارتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا کی وحدانیت کا عقیدہ مذہبی لوگوں نے اپنا کام چلانے کے لیے ایجاد کیا ہے۔ سٹالن کے کلام میں موجود ہے کہ خدا کا عقیدہ ہوا ہے۔ اور ہم اس ہوے کو مٹان چاہتے ہیں۔ الغرض شترا کی اور سرمایہ دارانہ دونوں نظام لعنت ہیں۔ اسلام کا نظام معیشت ہی فطری نظام ہے ۔ جو کمانے اور خرچ کرنے میں حلال و حرام کی تمیز سکھاتا ہے۔ سوسائٹی کے اعضائے فاسدہ : شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اعضائے فاسدہ کو کاٹنا ضروری ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو آدمی چوتھی دفعہ چوری کرے اسے قتل کردو۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں یہ ٹھیک ہے اور یہ تعزیراََ قتل ہے ۔ ایک دفعہ ، دو دفعہ ، تین دفعہ ، اب جو باز نہیں آتا ، اسے شوٹ کر دو ۔ یہ سوسائٹی لے لیے پھوڑا ہے۔ اگر اس کو باقی رکھا گیا تو سارے جسم کو خراب کریگا۔ لہذا ہر عقلمند ڈاکٹر اسے کاٹ دینے کا ہی مشورہ دیگا۔ جس طرح کسی انسانی جسم کا پائوں یا ران یا بازو کاٹنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی طرح سوسائٹی کے عضو فاسد کو بھی ختم کرنا ضروری ہے ۔ تاکہ باقی سوسائٹی میں گندگی نہ پھیلنے پائے آج کا ایران والے بھی یہی کچھ تو کر رہے ہیں۔ یہ منشیات کی سمگلنگ کرنے والے بھنگ ، چرس ، شراب کا کاروبار کرنے والے ، پچیس تیس آدمی اڑادیے کہ یہ باز نہیں آتے تھے۔ سوسائٹی کے لیے بمنزلہ ناسور تھے ۔ انہوں نے کمائی میں حلال و حرام کی پروا نہیں کی ، انہیں باقی نہیں رہنا چاہیے۔ لائسنس یافتہ رنڈیاں : سرمایہ داری نظام میں اسی قبیل کا ایک دوسرا ذریعہ معاش ہے۔ رنڈیاں لائسنس لے کر چکلے میں بیٹھ جاتی ہیں۔ حکومت خود پرستی کرتی ہے۔ اسے آمدنی سے غرض ہے۔ چاہے کسی راستے سے آئے۔ امام حبلی (رح) نے سیرت میں لکھا ہے کہ پہلی صدی کے آخر تک مسلمانوں کے زیر تسلط کسی بھی علاقے میں کوئی بھی قحبہ خانہ نہیں تھا۔ مسلمان آدھی دنیا سے زیادہ حصے پر چھائے ہوئے تھے ، مگر کسی جگہ کوئی ایک لائسنس یافتہ رنڈی نہیں تھی۔ برخلاف اس کے انگریز کے زمانے میں یہاں پچھتر فیصد کنجریاں مسلمان تھیں۔ کلکتہ ، بمبئی ، مصر ہر جگہ یہ لعنت مسلمان عورتوں نے اپنے گلے میں ڈال رکھی تھی۔ ایران کا تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔ وہ شیعہ ہیں اور متعہ کرلیتے ہیں۔ ہندو ہو ، سکھ ہو سب کے سب متعہ کرلیتے ہیں۔ پیسہ کمانے سے غرض ہے ، حلال کی کوئی تمیز نہیں ۔ اس نظام کی یہی خصوصیت ہے۔ حلال و حرام کی تمیز : حضور ﷺ نے فرمایا۔ اللہ سے ڈرو اور طلب رزق میں صحیح راستے پر چلو۔ برے راستے کے کمانا حرام ہے۔ ایسی کمائی میں برکت نہیں ہوگی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ اس سے صدقہ و خیرات منظور نہیں ہوگا اور آگے جہنم کا تو شہ نبے گا۔ مند احمد کی روایت میں ہے کہ حرام مال چھوڑ جانا ، جہنم کے راستے کا تو شہ ہے۔ کپڑا حرام مال سے پہنا نماز قبول نہیں ہوگی۔ خوراک حرام مال سے کھائی دعا قبول نہیں ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ مفتی اور قاضی نماز کی ادائیگی کا فتویٰ دے دیں مگر قبولیت دوسری چیز ہے۔ اگر غسل کرکے جسم اور پاک کپڑے کے ساتھ نماز ادا کی گئی تو مفتی یہ تو نہیں کہے گا کہ نماز ادا نہیں ہوئی۔ مگر نماز کا مقبول ہونا اور چیز ہے۔ ابو دردا ؓ کہتے ہیں۔ کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میری یہ دو رکعت نماز بارگاہ الہٰی میں قبول ہوگئی ہے تو بخدا میرے نزدیک یہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ کیونکہ قبولیت کا معیار یہ ہے کہ مقبول اس کی ہوگی جو متقی ہوگا۔ کفر و شرک سے بچنے والا اور خدا سے ڈرنے والا ہوگا۔ شادی بیاہ کی رسوم : جس طرح طلب رزق میں جائز ناجائز کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اسی طرح خرچ کرنے میں بھی کسی بات کی پروا نہیں کی جاتی۔ دولت مند لہو لعب میں مشغول ہیں ، رسومات پر بلاوجہ بھاری رقوم خرچ کر رہے ہیں۔ پچھلے جمعہ میں ایک بزرگ نے بتایا کہ ایک منگنی کی رسم میں چالیس جوڑے کپڑے تو برادری کے لوگوں کو دئے ہیں اور دن جوڑے قسم کے خاص عورتوں کو یے گئے۔ اور کھاناصرف نو دیگیں پکائی گئیں۔ یہ صرف منگنی ہے۔ اور شادی پر کیا ہوگا۔ یہ ہمارے ملک کا رواج ہے۔ دولت مند کے ہاں شادی ہوتی ہے۔ مکانات روشن ہوتے ہیں۔ سینکڑوں قمقمے جلتے ہیں۔ کیا یہ اسراف و تبذیر نہیں کیا اس پر لعنت نہیں برستی۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسروں کے لیے مشکلات پید کی جارہی ہیں۔ دیکھا دیکھی دوسرے بھی رسومات کی ادائیگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ نتیجہ سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ نہیں ۔ یہ محاورہ بالکل درست ہے۔ ” مال حرام بود بجائے حرام رفت “ حرام کی کمائی حرام کے راستے ہی خرچ ہوگی۔ کھیل تماشے میں جائے گی۔ جوئے اور شراب میں جائے گی۔ یا فحاشی کے کاموں میں صرف ہوگی۔ فوتیدگی کی رسوم : اسی طرح مرنے کی رسومات میں بھی بےجا اسراف کیا جاتا ہے ۔ یہ تیجا ہے۔ یہ دسواں ہے ، یہ چالیسواں ہے ، مردہ چاہے عذاب میں مبتلا ہوجائے ، رسوم ادا ہونی چاہئیں۔ ہمارے ملنے والے ایک صاحب نے بیان کیا کہ ایک شخص کی لاہور میں شادی ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد بیوی ایک چھوٹا بچہ چھوڑ کر فو ت ہوگئی۔ بیچارہ عذاب میں مبتلا ہوگیا۔ تین دن کے بعد جانے لگا کہ کوئی مزدوری کروں ، بچے کی پرورش بھی ذمے ہے۔ تو ساس اور سسر کہنے لگے ، الو کے پٹھے ! کدھر جاتے ہو ، اگے چہلم آرہا ہے ، وہ کون کرے گا۔ اس کے لیے رقم ادا کرکے جائو ، بیچارے کے پاس کچھ نہیں تھا۔ ناچار کھر کے برتن بیچ کر تین سوروپے سسرال والوں کو دیے تاکہ چہلم کی رسم ادا کرسکیں تب کہیں جا کر اسکی جان چھوٹی اور محنت مزدوری کے لیے جاسکا۔ یہ ہے مال و دولت جس نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ مال اچھا ساتھی ہے : ہاں تو ذکر یہ ہو رہا تھا کہ مال و دولت کی محبت میں انسان کس حد تک اپنے مالک سے دور ہوجاتا ہے۔ مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ یہی مال ایک اچھا ساتھی بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مال اس شخص کے لیے اچھا ساتھی ہے۔ جو اللہ اور اس کے بندوں کا حق ادا کرتا ہے۔ ورنہ یہی مال و بال جان ہے۔ حضور ﷺ خانہ کعبہ کی دیوار کے سامنے بیٹھے تھے حضرت ابوذر غفاری ؓ آئے۔ آپ نے فرمایا جو لوگ دنیا میں بہت مال و دولت رکھتے تھے۔ کل قیامت کو ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوگا۔ ہاں جس نے دائیں بائیں ہر طرف حقوق ادا کئے ، وہ وہاں بھی دولت مند ہوں گے۔ ورنہ عام طور پر آج کا دولت مند کل کا قلاش ہوگا۔ اس نے حقوق ادا نہیں کئے۔ دولت عیاشی اور فحاشی میں لٹائی۔ کمائی بھی ناجائز طریقے سے کی۔ خرچ بھی ناجائز کیا۔ اسلامی نظام معیشت : اسلامی نظام میں کمانے پر بھی پابندی ہے۔ اور خرچ کرنے پر بھی۔ اسلام حرام ذرائع سے مال اکٹھا کرنے سے منع کرتا ہے۔ اور حلال ذرائع کی ترغیب دیتا ہے۔ جب حلال راستے سے مال آجائے تو پھر سارے حقوق اد کرو۔ اسکے بعد جو بچ رہے اسے اپنے مصرف میں لائو ، کوئی جائداد خریدو ، کوئی اور چیز خریدو ، تمہارے لیے مباح ہے۔ اور اگر حقوق ادا نہیں کئے صرف دولت جمع ہی کرتے رہے بیلنس برابر کرتے رہے۔ ذرائع آمدنی کی حلت و حرمت کا خیال نہیں کیا تو پھر خرچ کرنے میں کون سی پابندی قبول کرو گے۔ بلڈنگ بازی پر خرچ ہوگا۔ ایک ایک بلڈنگ کے نقشہ تیار کرنے پر ستر ستر ہزار کی رقم اٹھ رہی ہے۔ کیا یہ اسراف و تنذیر کی حد نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حکومت ہماری راہنمائی کررہی ہے۔ وہ خود سربفلک عمارات کی تعمیر میں لگی ہوئی ہے۔ قصر صدارت کی تعمیر پر پنتالیس کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اب اندازہ لگائو ک اسلام کا نام لینے والی مملکت میں قصر صدارت پر اٹھنے والے اس قدر بھاری اخراجات کہاں تک جائز ہیں۔ وفاقی سیکریڑیٹ کی تعمیر پر۔ اربوں روپے خرچ کیے گئے۔ اس کی تزئین کے لیے ستر ستر ہزار روپے کی قالین عمارات کے راستوں پر بچھے ہوئے ہیں۔ جن پر لوگ جوتوں سمیت چلتے ہیں ۔ خدا کا غضب ، اس قدر اسراف جس ملک کے اسی فیصد لوگوں کو دو وقت کی پیٹ بھر کر روٹی بھی نصیب نہ ہو ، صرف بیس فیصد لوگوں کے پاس کوئی توازن یا وسائل ہیں اس ملک میں اتنا عالیشان قصر صدارت اور سیکریڑیٹ بنانا کہاں جائز ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ قریش کو زمین نہیں خردینے دیتے تھے کہ تم لوگوں کے لیے برا نمونہ قائم کر وگے۔ لہذا ضرورت سے زیادہ ضروریات زندگی مت حاصل کرو۔ الغرض موجودہ زمانے کے سرمایہ دارانہ نظام اور اشترا کی نظام معیشت دونوں باطل ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حاملین خدا کی ہستی کو مانتے ہوئے ، انجیل کو برحق تسلیم کرتے ہوئے اس نظام باطل کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جس میں چند آدمی عیش کرتے ہیں۔ اور دوسرے غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ اشترا کی نظام انکار خدا اور انکار شریعت کی بنا پر لعنتی ہے۔ اسلامی نظام معیشت ہی واحد نظام ہے جو آمد و خرچ کے حدو مقرر کرکے مخلوق خد ا کے درمیان توازن قائم رکھتا ہے۔ معیار اتباع : آیت زیر درس میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی اس بنیادی خامی کی شکایت کی ہے جس کی رو سے انہوں نے مال و دولت کے زعم میں مبتلا ہو کر نبی کے اتباع کے بجائے سرمایہ دارانہ ذہنیت کا اتباع کیا۔ عرض کیا اے میرے پروردگار انہوں نے میری نافرمانی کی اور ان لوگوں کا اتباع کیا جن کے مال و اولاد نے سوائے خسارے کے کچھ فائدہ نہ کیا۔ مال و دولت والے لوگوں نے اپنے مال کی بدولت غلط نمونے قائم کئے رسومات باطلہ پر عمل پیرا رہے۔ دوسروں کو بھی اسی راستے پر چلاتے رہے انہوں نے نبی کے اتباع کے بجائے مال و دولت کو قابل تقلید جانا۔ کہتے تھے نبی کے پاس کیا ہے جو ہم اس ک ی پیروی کریں۔ یہ انسان ہو کر نبوت کا دعوے ٰ کرتا ہے نہ اس کے پاس مال و دولت ہے ، نہ کوٹھی ہے ، نہ فوج ہے ، نہ باغات ہیں ، ہم اس کا اتباع کیوں کریں۔ اتباع تو ان لوگوں کا ہونا چاہیے جن کے پاس یہ سارے لوازمات موجود ہیں۔ تو گویا نوح (علیہ السلام) کے عدم اتباع کی وجہ یہ تھی اور اس قوم کا معیار اتباع نبوت کے بجائے سرمایہ تھا۔ اس آیت میں نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور یہ شکایت پیش کی۔
Top