بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا اور دعوت الہٰی الحق کا یوں حکم دیا کہ اپنی قوم کو ڈرا ئو بیشتر اس کے کہ ان کے پاس دکھ دینے والا عذاب آجائے۔
کوائف اور مضامین : اس سے پہلی سورة معراج تھی جس میں زیادہ تر قیامت کا ذکر تھا ، تاہم ضمناََ توحید و رسالت کا بیان بھی تھا۔ اس سورة کا نام حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس دعوت الیٰ الحق اور دعوت توحید کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنی قوم کو دی اس دعوت کے مختلف طریقے اور اس کاروائی کا بیان ہے جو نوح (علیہ السلام) نے اس سلسلہ میں سرانجام دی گویا دعوت الی الحق کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ سابقہ سورة سے ربط۔ گزشتہ سورة میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو صبر جمیل کی نصیت فرمائی۔ کفار و مشرکین آپ کی طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتے تھے۔ ٹھٹا اور تمسخر کرتے تھے۔ آپ کے گرد گردہ در گر وہ جمع ہو کر آپ کی دعوت کی تکذیب کرتے تھے۔ قیامت کا انکار کرتے تھے۔ اور کہتے تھے اگر یہ برحق ہے تو پھر آتی کیوں نہیں۔ نہایت بیہودہ باتیں کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نبی (علیہ السلام) آپ انکی ایذاء رسانی پر صبر و استقلال کا مظاہرکریں ، تنگ دل نہ ہوں وقت آنے پر اس کو ضرور سزا ملے گی۔ آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ اس سورة میں حضرت نوح (علیہ السلام) کوا س صبر جمیل کے نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے جس کی تلقین اللہ تعالیٰ نے سابقہ سورة میں حضور ﷺ کو کی۔ فرمایا کہ دعوت الی الحق اور دعوت الی التوحید کے سلسلہ میں جس قدر صبر حضرت نوح (علیہ السلام) نے کیا ، کسی اور کو میسر نہیں آیا۔ لہذا اس جگہ ان کی دعوت کی تفصیلات اور ایذا رسانی پر صبر کا ذکر کے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بطور نمونہ پیش کیا۔ کہ اے نبی (علیہ السلام) آپ بھی صبر کریں ہم ان سے ضرور بدلہ لیں گے۔ حضر ت آدم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک۔ حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کی آٹھویں یا دسویں پشت میں ہیں۔ ان سے پہلے حضرت ادریس (علیہ السلام) اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے شیست (علیہ السلام) کے متعلق مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ بھی نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی جس طرح آدم (علیہ السلام) پر ان کے علاوہ اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی مبعوث فرمایا ہو تو اس کا ذکر نہیں ملتا۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا نام اخنوح تھا۔ وہ بھی آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے تیسرے یا چوتھے نمبر پر تھے۔ آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے زمانے کے درمیان اکثر لوگوں کا اعتقاد اچھا تھا۔ مگر نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں آکر بگڑ گیا۔ اور انہوں نے شرک کو اختیار کرلیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے باپ المک یا ملک انکو شر ک سے منع کیا کرتے تھے۔ پھر حضرت نوح (علیہ السلام) کا وقت آیا اللہ تعالیٰ نے انہیں صاحب شریعت نبی اور رسول بنا کر معبوث فرمایا ۔ اس سے پہلے حضرت ادریس (علیہ السلام) کا جو ذکر ملتا ہے۔ ان پر بھی اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ جس میں اکثر احکام ایسے تھے جن کا تعلق دنیا کی آبادی سے تھا۔ عقیدہ تو موجود تھا اس کے علاوہ شریعت کے کوئی خاص احکام نہیں تھے۔ تفسیر مدارک والے لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے کپڑے سینے کی سوئی اور مشین حضرت ادریس (علیہ السلام) نے ایجاد کی ا ن پر کئی صحیفے نازل ہوئے۔ جن میں دنیا کی آباد کاری کے احکام تھے۔ مگر حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں لوگوں میں شرک پیدا ہوگیا تھا۔ جس کا ذکر اس سورة کے دوسرے رکوع میں آتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے حالات زندگی : حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ قرآن پاک کی دیگر بہت سی سورتوں میں ضمناََ آتا ہے۔ مگر یہ سورة پوری حضرت نوح (علیہ السلام) کے حالات پر مشتمل ہے۔ دو نبی ایسے ہیں کہ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے مکمل طور پر الگ الگ سورة میں فرمایا۔ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر اس سورة میں اور حضرت یوست (علیہ السلام) کا ذکر سورة یوسف میں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں بنوت عطا ہوئی۔ اس کے بعد آپ نو سو پچاس برس تک اپنی قوم کو تبلیغ فرماتے رہے سورة عنکبوت میں ہے۔ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم میں پچاس کم ہزار سال ٹھہرے رہے۔ اور لوگوں کو حق کی دعوت دیتے رہے۔ اس دوران میں نوح (علیہ السلام) کے ساتھ بڑے بڑے واقعات پیش آئے۔ سورة بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے نوح (علیہ السلام) ہمارا بڑا شکر گزار بندہ تھا کوئی ایسی ایذا نہیں جو ان کو نہ پہنچی ہو۔ قولی فعلی ، عملی ، مارپیٹ ہر طرح سے ان کو تکلیف دی گئی۔ مگر انہوں نے ہر مصیبت کو صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ اس زمانے میں صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر ہی لمبی نہ تھی بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دور و سے پہلے اکثر لوگوں نے لمبی عمریں پائی ہیں۔ تین تین ، چار چار ، پانچ پانچ سو سال عمر کے لوگ تھے مگر نوح (علیہ السلام) کی عمر ایک ہزار پچاس سال تھی۔ چالیس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطافرمائی۔ نو سو پچاس سال آپ تبلیغ کرتے رہے۔ اس کے بعد مشہور تاریخی طوفان نوح آیا ، یہ طوفان در رجب سے لیکر دس محرم تک مسلسل چھ ماہ تک قائم رہا اور آپ اتنے عرصہ کشتی میں سوار رہے۔ اتنا لمبا عرصہ تبلیغ کے نتیجے میں صرف ستر آدمی ایمان لائے جن میں چند عورتیں بھی تھیں۔ اور یہی لوگ کشتی میں سوار ہوئے۔ اور اس طوفان کی زد سے محفوظ رہے۔ اس طوفان کا حال سورة ہو د کے دو رکوع میں بیان کیا گیا ہے۔ بائیبل اور تورات میں بھی اس طوفان سے متعلق روایات ملتی ہیں۔ طوفان کی اس قدر کیفیت تو قرآن پاک میں بھی موجود ہے کہ اللہ نے زمین سے پانی کو ابلنے کا حکم دیا تھا۔ اور اوپر سے بارش بھی برسائی تھی۔ مگر طوفان کی مدت کا ذکر نہیں ملتا۔ البتہ تورات کی روایت میں میعاد کا ذکر کیا گیا ہے۔ اوپر سے مسلسل موسلا دھار شدید قسم کی بارش برس رہی تھی اور نیچے سے زمین کو پانی اگلنے کا حکم تھا اور یہ سلسلہ پورے چالیس دن جاری رہا۔ یہاں اگر بارہ گھنٹے یا چوبیس گھنٹے مسلسل بارش ہو تو کیا حالت ہوتی ہے اور جہاں مسلسل چالیس روز تک اوپر سے بارش اور نیچے سے پانی ابلتا رہا ہو ۔ وہاں کی بستیوں کا کیا حال ہوگا۔ تورات کی روایت کے مطابق پانی بلند ترین پہاڑی سے بھی تیس فٹ اونچا چلا گیا تھا۔ کیا طوفان ساری دنیا آیا تھا : اس سلسلے میں دو روایتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ طوفان ساری دنیا پر آیا تھا۔ اس سے کوئی خطہ زمین نہیں بچا تھا۔ دوسری روایت یہ بھی ہے ک اس زمانے میں ساری دنیا پر آبادی ہی نہیں تھی۔ طوفان صرف اس علاقے میں آیا تھا جس علاقے میں انسانی آبادی موجود تھی۔ طوفان تھمنے کے بعد نوح (علیہ السلام) ساٹھ سال تک دنیا میں موجود رہے تو اس طرح نوح (علیہ السلام) کی عمر مبارک ایک ہزار پچاس سال بنتی ہے۔ اس سے زیادہ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مگر زیادہ مشہور یہی ہے کہ چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ نو سو پچاس سال وعظ کیا اور ساٹھ سال طوفان کے بعد اس دنیا میں قیام کیا اس طرح آپ کی عمر ایک ہزار پچاس سال ہوئی۔ پہلے صاحب شریعت رسول : بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ قیامت کے روز جب لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس سفارش کے لیے جائیں گے تو ان الفاظ سے آپ کو خطاب کریں گے۔ یعنی اے نوح (علیہ السلام) آپ اہل زمین کی طرف سب سے پہلے رسول ہیں۔ آپ سفارش کریں کہ اللہ تعالیٰ حساب کتاب شروع کریں ہم بڑی تکلیف میں ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ مجھ سے کوتاہی ہوگئی تھی۔ اگر باز پرس ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دونگا۔ دوسروں کے پاس جائو۔ گویا اس طرح وہ لوگوں کو ٹال دیں گے۔ الغرض حضرت نوح (علیہ السلام) اہل زمین کی طرف پہلے صاحب شریعت رسول تھے۔ اور ایسے رسول کہ جن کی قوم کو تبلیغ کی حجت پوری ہونے پر سزا دی گئی۔ اس سے پہلے نہ کوئی مستقل شریعت تھی اور نہ ہی کسی قوم کو سزا دی گئی۔ پورے سال کے روزے : جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) اور حضرت شیث (علیہ السلام) کے ادوار میں صرف دنیا کی آباد کاری کے قوانین تھے۔ کوئی مستقل شریعت نہیں تھی ۔ البتہ نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں شریعت کا نفاذ ہوا ۔ مثلا مشہور ہے کہ آپ کے زمانے میں پورے سال کے روزے فرض تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ بہت زیادہ جسمانی طاقت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں روحانیت پیدا کرنے کے لیے سال بھر کے روزے مقرر فرمائے۔ مگر انہوں نے حضر نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو رد کردیا۔ عوج بن عتق : اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے نہایت اختصار کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت آپ کی قوم کے انکار اور طوفان کی صورت میں عذاب کا ذکر فرمایا ہے۔ اس طوفان میں کافروں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا قصے کہانیوں کی کتابوں میں آتا ہے کہ ایک شخص عوج بن عنق کو زندہ رکھا گیا۔ یہ بھی کافر تھا اور اونچے قد کا آدمی تھا ۔ یہ پانی میں نہیں ڈوبا تھا۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے زندہ رکھا تاکہ بعد میں آنے والے لوگوں کو بتا سکے کہ ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا حشر ہوا تھا۔ بعض اوقات مجرموں کو سزا دی جاتی ہے تو کسی کو چھوڑ بھی دیا جاتا ہے۔ تاکہ یہ دوسروں کو جاکر بتائے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا۔ بہرحال یہ تاریخی روایتوں میں بیان آتا ہے۔ قرآن و حدیث یا کوئی اور معتبر روایات نہیں ملتی۔ واللہ علم ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ غلط ہے یا صحیح ، ممکن ہے خدا کی قدرت سے ایسا ہی ہوا ہو۔ جیسے دجال اور خضر (علیہ السلام) کے حیرت انگیز واقعات ملتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بھی عبرت کے لیے زندہ رکھا ہو۔ صحیح بات اتنی ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے تمام کافروں کو ہلاک کردیا تھا۔ صرف وہی بچے تھے جو حضر ت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے تھ۔ اور پھر انہیں کی اولاد سے نسل انسانی قائم رہی۔ اس لیے اس اعتبار سے حضرت نوح کو آدم ثانی کہا جاتا ہے۔ موجودہ نسل انسانی حضرۃ نوح کی اولاد سے ہے : کشتی نوح میں جو ستر آدمی سوار تھے۔ ان کی اولاد بھی آگے نہیں چلی حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے سام ، حام ، اور یافت تھے ، اس وقت جتنی بھی انسانی نسل دنیا میں موجود ہے ، یہ ان تین خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تمام عرب قبائلی ، اور ہندوستان پاکستان وغیرہ کے باشندے سامی نسل سے ہیں ۔ حبشہ والے اور ارد گرد کے افریقی ممالک کے لوگ حام کی اولاد ہیں ، اسی طرح روسی اور یورپی ممالک کے باشندے تیسرے بیٹے یافت کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہرحال حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو دعوت حق دی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تس کی دی حضرت نوح (علیہ السلام) کا نمونہ پیش کرکے صبر جمیل کی تلقین کی کہ جس طرح نوح نے صبر تحمل سے کام لیا اسی طرح آپ بھی صبر کریں اور تسلی رکھیں۔ حضرت نوح کی بعثت اور انذار : سورۃ کے ابتداء میں فرمایا ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ آپ سی قوم اور خاندان کے فرد تھے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول بنایا۔ وحی نازل فرمائی۔ شریعت عطا کی اور دعوت الی الحق کا یوں حکم دیا کہ آپ اپنی قوم کو ڈرائیں ، انہیں خواب غفلت سے جگائیں پیشتر اس کے کہ ان کے پاس دکھ دینے والا عذاب آجائے عذاب سے مراد وہی طوفان ہے۔ کہ طوفان آنے سے پہلے پہلے آپ ان کو خوف دلائیں ۔ گویا یہ اللہ کی طرف سے انذار کا حکم تھا۔ نبیوں کی تعلیم میں بشارت اور انذار دونوں چیزیں داخل ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہر نبی مبشر اور منذر ہوا کرتا ہے۔ وہ اہل ایمان کی خوش خبری بھی دیتے ہیں۔ اور نافرمانوں کو ڈراتے بھی ہیں۔ یہاں پر حضرت نوح (علیہ السلام) کو انذار کا حکم دیا جا رہا ہے۔ کہ آپ ان کو ڈرائیں شاید یہ راہ راست پر آجائیں۔ انداز کا تقدم : بعض اوقات انذار کو تقدم حاصل ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات بشارت کا ذکر پہلے کیا جاتا ہے۔ حضور نبی ﷺ کے متعلق بھی سورة مدثر میں آتا ہے۔ یعنی اے نبی کریم ! آپ اٹھ کھڑے ہوں اور ان کو آنے والے برے وقت کے خطرناک نتائج سے ڈرائیں ، یہاں پر نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا جار ہا ہے کہ اپنی قوم کو ڈرائیں۔ انذار کو مقدم لانے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اکثر انسان برائی میں ہی مبتلا ہوتے ہیں۔ لہذا ان کی اکثریت کی مناسبت سے انذار کو مقدم رکھا گیا۔ کہ آپ ان کو ڈرائیں کہ کفر وشرک کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اگاہ ہو جائو۔ خبردار ہو جائو معصیت اور نافرمانی قابل مواخذہ ہے اپنے آپ کو بچالو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے سب سے پہلے یہی دعوت لوگوں کو دی۔ اس مقام پر اس دعوت کا ذکر نہایت اختصار کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دوسری سورتوں میں دوسرے واقعات تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی تعلیم : اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم پاکر نوح (علیہ السلام) نے قوم سے یوں خطاب کیا اے میری قوم کے لوگو ! میں تم کو کھول کر ڈرسناے والا ہوں۔ کہ اگر کفر و شرک سے باز نہیں آئو گے تو اس کا بہت برا نتیجہ سامنے آئے گا۔ لہذا سنبھل جائو۔ سورة یونس میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے لوگو ! میں جو بات کہتا ہوں خوب سمجھ لو تمہارے معاملے میں کوئی اشتباہ والی بات نہیں ہونی چاہیے۔ میں تمہیں صاف صاف کہتا ہوں صرف اللہ کی عبادت کرو۔ خد ا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں خد ا کے سوا کوئی نہیں صرف ایک ہی ہے۔ اسی کی عبادت کرو۔ میر ا پیغام اور میری تعلیم یہی ہے۔ اور نیز یہ کہ اسی سے ڈرو کیونکہ اگر اس کا خوف دل میں ہوگا تو معصیت سے بچ جائو گے۔ اور میری بات مانو ، میری اطاعت کرو۔ کیونکہ نبی کی اطاعت فرض ہے۔ اور صرف یہی بات نجا ت کا ذریعہ ہے۔ کہ اللہ کی عبادت کرو اور میری اطاعت کرو۔ مافوق الاسباب استمداد غیر اللہ سے شرک ہے : اسی سورة کے دوسرے رکوع میں آتا ہے ۔ کہ یہ لوگ خاص قسم کے شرک میں مبتلا تھے۔ اور وہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کی روحوں سے امداد طلب کرتے تھے۔ حالانکہ مافوق الاسباب استمداد مانگنا شرک ہے۔ مافوق الاسباب امداد کرنا صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ امداد اسی سے طلب کی جاسکتی ہے۔ اللہ کے سوا کسی کو طاقت نہیں کہ اسباب کے دائرے سے باہر کسی کی امداد کرسکے۔ غائبانہ امداد نہ کوئی فرشتہ کرسکتا ہے۔ نہ جن نہ انسان ، نہ بھوت اور نہ کوئی ظاہری اور باطنی چیز۔ لہذا اسی بنا پر قوم نوح شرک میں مبتلا تھی جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ عبادت صرف اللہ ہی کی روا ہے : حکم ہوا کہ اے لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو۔ ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کو یہی نصیحت کی اے لوگو ! صرف اللہ کی عباد ت کرو۔ اللہ کے ماسوا کوئی خالق ، مالک ، مدبر ، مربی ، مستحق عبادت مدد کرنے والا ، نافع وضار نہیں ہے۔ یہ تمام اختیارات صرخدا تعالیٰ کے پاس ہں۔ باقی ساری مخلوق عابد ہے۔ مقرب سے مقرب ہستی بھی عبادت پر ہی فخر کرسکتی ہے۔ میں بھی اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں تم بھی اسی کی عبادت کرو۔ مقربین فرشتے حتی کہ جبرائیل (علیہ السلام) بھی اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ عبادت الہٰی کا صلہ : فرمایا اگر اللہ کی عبادت کرو گے ، اسی سے ڈرو گے اور میری اطاعت کرو گے۔ تو اللہ تعالیٰ تمہاری کئی غلطیاں معاف کردے گا۔ یہاں پر من سے مراد بعض غلطیاں ہیں ، ساری غلطیاں معاف نہیں ہوتیں۔ اگر حقوق اللہ میں کوتاہی ہوئی ہے تو معافی مانگنے سے اور استغفار کرنے سے اللہ معاف فرمادیتے ہیں۔ اور اگر غلطی حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق میں ہے۔ تو متعلقہ بندے ہی معاف کرسکتے ہیں۔ ورنہ معافی نہیں ہوگی۔ اسی لیے فرمایا کہ تمہاری کچھ غلطیاں معاف فرمادے گا۔ اور تمہیں مقررہ وقت تک مہلت دے گا۔ اس وقت تک جو اس کی مصلحت میں مقرر ہے۔ زیادہ سے زیادہ طبعی عمر تک کہ جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو پھر اس میں تاخیر نہیں ہوتی خواہ وہ وقت سزا کے لیے مقرر ہو یا جزا کے لیے فرمایا۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر اس میں تاخیر نہیں ہوتی خواہ وہ وقت سز کے لیے مقرر ہو یا جزا کے لیے ۔ فرمایا جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر ٹلتا نہیں۔ پورا ہو کر رہتا ہے۔ اگر تمہیں عقل و شعور اور سمجھ ہے تو یاد رکھو وہ وقت آنے والا ہے۔ حضرت نوح کی شب و روز دعوت : اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ڈرایا ، تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ نے تبلیغ کے وہ تمام طریقے اختیار کئے جو اس سورة میں اور دوسرے مقامات پر مذکورہ ہیں مگر سینکڑوں سال کی محنت کے باوجود وہ قوم راہ راست پر نہ آئی۔ آخر تھک ہار کر حضرت نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں دعا کی اے پروردگار ! میں نے اپنی قوم کو شب و روز مسلسل دعوت دی مگر میری دعوت نے ان لوگوں کے یے کوئی اضافہ نہیں کیا۔ سوائے بھاگنے کے ۔ یعنی یہ لوگ میری دعوت سے راہ فرار ہی اختیار کرتے رہے ہیں تاکہ ا ن کے کان میں کلمہ خیر کی آواز تک نہ پڑے۔ میں نے جتنا زیادہ ان کو پکارا ، یہ اتنا ہی بگڑے۔ یہاں پر لیل و نہار کا لفظ بتا رہا ہے کہ تبلیغ حق کا فریضہ ادا کرنے کے لیے دن کا ہونا ہی شرط نہیں بلکہ رات وار دن جب بھی موقع میسر آئے تو یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اسی لیے میں نے شب و روز ایک در دیا ، ہر آن ان کی دعوت الی الحق دی ، زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا۔ کیونکہ جو کسی کا م میں متفکر ہوتا ہے۔ وہ کسی خاص وقت یعنی دن یا رات کا انتظار نہیں کرتا۔ بلکہ جب بھی موقع ملے اپنا فرض سر انجام دیتا رہتا ہے۔ میں نے ان کو جس قدر نرمی کے ساتھ بلایا یہ اتنے ہی سخت ہوگئے۔ اے مولا کریم ! میں نے ان کو دن کو تبلیغ کی ، رات کو تبلیغ کی ، ان کو عام مجمعے میں بھی بلایا اور تنہائی میں بھی بات کی خوشی کے موقع پر بھی توجہ دلائی اور غمی کے حال میں بھی ان کی راہنمائی کی کوشش کی مگر انہوں نے میری ایک نہیں مانی۔ انہوں نے سوائے بھاگنے کے اور کچھ نہیں کیا۔ دعوت حق سے بیزاری : اورجب بھی میں نے ان کو بلایا تاکہ اے پروردگار تو ان کی بخشش فرمادے۔ یہ ایمان قبول کرلیں اور توحید کی اختیار کرلیں۔ میری دعوت کا مقصد یہی تھا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں تاکہ نوح (علیہ السلام) کی کوئی بات ان کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔ اور اپنے کپڑے سمیٹنے لگے۔ کپڑے سمیٹنے کا مقصد کسی کام سے اپنے آپ کو الگ کرلینا ہے کہ یہاں سے کھسک جائو کسی کی بات نہ سنو۔ کپڑے سمیٹنے کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کان انگلیوں سے بند نہ ہوتے ہوں تو ان میں کپڑا ٹھونس لیا جائے تاکہ کسی صورت بات کان میں نہ پڑجائے۔ یا کپڑا اوپر ڈال لینا تاکہ رکاوٹ بن جائے اور بات کان تک نہ پہنچ سکے۔ اگر اس سے مراد یہ کپڑا اوڑھ کر لیٹ جانالیا جائے تو یہ بھی بیزاری کا اظہار ہے۔ نفر ت کرنا ہے بھاگنے کی کوشش ہے۔ یہ ساری باتیں اس میں آجاتی ہیں۔ باطل عقیدے پر اصرار ، اور تکبر : فرمایا کہ انہوں نے کان بند کرلینے پر ہی اکتفا نہیں کیا ، بلکہ انہوں نے اصرار کیا اور ضد کی کہ ہم تو اپنا عقیدہ نہیں چھوڑیں گے۔ اور جس کی پرستش ہم کرتے ہیں اس کو ترک نہیں کریں گے۔ گویا انہوں نے کفر و شرک پر اصرار کیا ۔ بلکہ اس کے علاوہ انہوں نے بڑا تکبر کیا۔ سورة ہود میں ہے کہ وہ نوح (علیہ السلام) کو کہتے تھے۔ تو بیوقوف آدمی ہے۔ جو خواہ مخواہ ہمیں ایسی باتیں کرتا ہے۔ سورة اعراف میں ہے کہتے تھے کہ تیرے جیسا بیوقوف آدمی ہی ایسی باتیں کرتا ہے کہ صرف ایک خدا کی پرستش کرو ، اپنے بزرگوں کو چھوڑدو ، ان کی روحانیت سے استمداد نہ کرو۔ تو ہمیں اپنے طریقے سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے۔ ہم تیری بات نہیں سنتے تو عقل مند آدمی نہیں ہے۔ حضر ت نوح (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں فرمایا۔ اے میری قوم کے لوگو ! میں بیوقوف نہیں ہوں۔ خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، تم غلطی پر ہو اور بیجا اصرار کر رہے ہو۔ تکبر کر رہے ہو۔ اور یہ تکبری ہی کا اظہار تھا کہ یعنی تیرے پیچھے لگنے والے تو ہمارے کمی کمین لوگ ہیں۔ فلاں چوہدری نے نہیں مانا ، فلاں خانصا حب نے تسلیم نہیں کیا۔ فلاں سردار نے تمہاری دعوت کو قبول نہیں کیا۔ صرف چند مزدور پیشہ لوگ تیرے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ جن کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہی ان کا تکبر تھا ۔ حالانکہ ابتداء میں انبیاء کے متبع ہمیشہ کمزور لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ سارے نبیوں کی تاریخ یہی ہے۔ بڑے لوگ بعد میں مجبور ہو کر اسلام قبول کرتے ہیں۔
Top