Mualim-ul-Irfan - Nooh : 10
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ
فَقُلْتُ : پھر میں نے کہا اسْتَغْفِرُوْا : بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنے رب سے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ غَفَّارًا : بخشنے والا ہے
پھر میں نے انہیں کہا اپنے رب سے استغفار کرو ، بیشک وہ بہت بخشش کرنے والا ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ : یہ سورة نوح ہے۔ اور ان دروس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے تھک ہار کر بار گاہ الہٰی میں پیش کی کہ یعنی اے پروردگار میں نے پانی قوم کو شب و روز دعوت دی مگر میرے بلانے پر وہ اور زیادہ بھاگنے لگے۔ انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور کپڑے سمیٹ لیے ، اصرار ، اور تکبر کیا۔ میں نے ان کو برملا بھی دعوت دی اور پوشیدہ طور پر بھی نصیحت کی۔ اعلی الاعلان بھی تبلیغ حق کی مگر انہوں نے میری کسی بات کو نہیں مانا۔ استغفار کی ترغیب : آخر میں میں نے انہیں یہ بھی کہا اپنے رب سے استغفار کرو۔ معافی مانگو کیونکہ وہ بہت بخشش کرنے والا ہے۔ استغفار کا معنی بخشش مانگنا۔ ڈھانپ لینا پردہ پوشی کرنا ہے۔ مطلب یہ کہ تم ایمان قبول کرلو ، تو اللہ تعالیٰ تمہاری کوتاہیوں کو معاف کردیں گے۔ کفرو شرک کو چھوڑ دو کیونکہ ان کی موجودگی میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ جب کفرو شرک سے باز آجائو گے تو بخشش کے اہل بن جائو گے اللہ تعالیٰ تمہاری باقی تمام کو تاہیوں سے درگزر فرمادیگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے اسلام لانے سے سابقہ کو تاہیاں معاف ہوجاتی ہیں۔ اسلام لانے سے پہلے کتنا بھی بڑا مجرم ہو مگر جبوہ کفر وشرک سے مجتنب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ تو اس کی سابقہ تمام کوتاہیاں معاف ہوجاتی ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اپنے رب سے معافی مانگو۔ وہ بڑا بخشنے والا ہے تمہیں معاف فرما دے گا۔ استغفار کی برکات : فرمایا اگر تم ستغفار کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ آسمان کو چھوڑدیگا کہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے۔ اور بڑھادے گا تمہارے لیے مال اور اولاد اور تمہارے لیے باغات کے پھل تیار کر دے گا۔ اور تمہارے لیے نہریں بنا دیگا۔ یہ تمام چیزیں تمہیں میسر آجائیں کر دے گا۔ اور تمہارے لیے نہریں بنا دیگا۔ یہ تمام چیزیں تمہیں میسر آجائیں گی۔ بشرطیکہ تم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لو۔ بارش کے لیے استغفار : بار ش کے باب میں بھی ایسا ہی آتا ہے بارش رک جائے قحط پڑجائے تو استغفار کیا جائے ایک دفع لوگوں نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا ۔ قحط سالی ہے۔ بارش نہیں ہو رہی ہے تو آپ نے استغفار کیا اور لوگوں سے بھی استغفار کرنے کو کہا ۔ کسی نے کہا کہ حضور ﷺ نے استغفار کیا ہے اور کی تعلیم دی ہے۔ تو اس کا کیا مطلب ہے تو آپ نے یہی آیت پڑھی۔ امام ابوحنیفہ ؓ فرماتے ہیں استسقا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان خدا سے گناہوں کی معافی مانگے۔ اور دعا کرے کہ مولا کریم ! ہماری کوتاہیاں معاف فرما دے اور اس کے نتیجے میں ہم پر اپنی رحمت نازل فرما۔ نماز استسقاء کی حقیقت : یہ عام طریقہ ہے کہ جب بارش نہ ہو رہی ہو تو کھلے میدان میں نکل کر دو رکعت نماز استسقاء ادا کی جاتی ہے۔ اور اسکے بعد بارش کی دعا کی جاتی ہے تاہم استسقاء کی حقیقت اتنی ہے کہ گناہوں کی معافی طلب ک جائے ۔ اگر دو نفل پڑھ لییے جائیں تو فہا ، اگر نفل نہ بھی پڑھے جائیں تو یہ ضروری نہیں ہیں۔ یہ مستجات میں ہے۔ مقصد استغفار اور دعا ہے۔ بعض اوقات فرض نماز کے بعد بارش کے لیے دعا کرلی جاتی ہے۔ حضور ﷺ ارشاد فرما رہے تھے ایک آدمی نے آکر شکایت کی کہ حضرت پانی نہیں مل رہا ہے۔ جانور ہلاک ہور ہے ہیں۔ تو اپنے خطبے کے دوران ہی بارش کے لیے دعا فرمادی تھی۔ ہر پریشانی کا حل استغفار : حضرت حسن بصری (رح) سے ایک روایت منقول ہے کہ ان کے پاس مختلف قسم کے لوگ آئے کسی نے کہا کہ حضرت ! قحط سالی ہورہی ہے۔ آپ نے فرمایا استغفار کرو۔ دوسرے شخص نے کہا کہ میری بیعی بانجھ ہوگئی ہے۔ بچہ نہیں جنتی ہے۔ فرمایا استغفار کرو۔ ایک اور شخص کہنے لگا ہماری کھیتی باڑی خراب ہوگئی ، فصل نہیں دیتی آپ نے اس کو بھی فرمایا استغفار کرو۔ الغرض مختلف قسم کی پریشانی والے لوگوں کو آپ نے ایک ہی جواب دیا کہ استغفار کرو۔ تو ایک شاگرد نے دریافت کیا کہ حضرت آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا تو فرمانے لگے کہ یہ قرآن پاک کا مفہوم ہے۔ کیا حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہیں فرمایا تھا کہ اپنے رب سے استغفار کرو اس کے بدلے میں بارش برسے گی۔ مال اور اولاد میں برکت ہوگی اور پانی کی سیرابی نصیب ہوگی۔ ان لوگوں نے یہی چیزیں تو طلب کی تھیں لہذا میں نے ان کو ایک ہی جواب دیا کہ اپنے رب سے استغفار کرو۔ ایک اشکال اور اس کا جواب : بعض اوقات لوگ ایمان بھی لائے ہیں ، استغفار بھی کرتے ہیں مگر ان کی پریشانی دور نہیں ہوتیں۔ بارش نہیں ہوتی ، اولاد نہیں ملتی یا کوئی اور پریشانی دور نہیں ہوتی ۔ تو اس اشکال کا جواب کیا ہے ؟ حالانکہ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم استغفار کرو تو تمہارے گنا معاف ہوجائیں گے۔ بارش ہوگی۔ اولاد ہوگی۔ مال کی فراوانی ہوگی۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس ضمن میں مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ استغفار کے صلے مٰں مطلوبہ مقاصد کا حصول محض قوم نوح کے لیے تھا ، عام اقوام کے لیے نہیں تھا۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں چالیس سال تک قحط مسلط رہا ، عورتیں ، بانجھ ہوگئیں۔ اور ان لوگوں کو دیگر پریشانیاں لاحق ہوگئیں۔ تو حضر نوح (علیہ السلام) نے انہیں یہ نسخہ بتایا تھا۔ یہ خصوصیت اسی قوم کے لیے تھی۔ استغفار سے روحانی خوشی : یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایمان اور استغفار کا نتیجہ یقینا اچھا ہوتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں یا تو مطلوبہ چیز مل جاتی ہے۔ یا اس سے بہتر کوئی چیز حاصل ہوجاتی ہے۔ جو شخص استغفار کرے گا۔ اسے روحانی خوشی یقینا حاصل ہوگی۔ یا پھر رضا بالقضا کی صورت میں نہایت اچھا صلہ میسر آئے گا اگر اسے روحانی خوشی حاصل ہوجائے یا اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوجانے کی سعادت نصیب ہوجائے تو یہ مال ، اولاد اور بارش سے یقینا بہتر ہے۔ استغفار کی کثرت کا حکم : اسی لیے کثرت سے استغفار کرنے کا حکم ہے صحابہ کرام ؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ بعض اوقات ایک ایک مجلس میں سو سو دفعہ استغفار کرتے تھے۔ فرمایا جو سچے دل سے یہ سید الا ستغفار پڑھے گا ، تو اسکے گناہ اگر سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں گے ، تو خدا تعالیٰ معاف فرمادے گا۔ اس میں اسم اعظم بھی ہے اس کے علاوہ جتنے بھی استغفار کے الفاظ ہیں ان کے پڑھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ محض زبانی رٹ نہ لگائے بلکہ دل کی گہرائیوں سے استغفار کے الفاظ پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائیں گے۔ فوت شدہ والدین کیلئے استغفارـ: بیہقی شریف کی روایت میں ہے کہ۔ مرنے والے لوگ منتظر رہتے ہیں کہ ا ن کے لیے کوئی دعا کرے یا صدقہ خیرات کرے جب ان چیزوں کا ثواب انہیں پہنچتا ہے تو انہیں بڑی راحت ہوتی ہے حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص کو اپنے اعمال کی نسبت سے زیادہ بلند درجہ حاصل ہوگا۔ س کو تعجب ہوگا اور وہ عرض کرے گا ، باری تعالیٰ ! میرے اعمال تو اس قابل نہیں تھے جس قدر درجہ تو نے مجھے علطا کیا ۔ تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے۔ یہ درجہ تجھے تیرے بیٹے کے استغفار کرنے کے صلے میں عطا ہوا ہے۔ وہ تیرے لیے بخشش مانگتا ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ نے تعلیم دی کہ اپنے ماں باپ کے لیے استغفار کیا کرو۔ تاکہ ان کے گناہ معاف ہوں اور درجات بلند ہوں۔ استغفار ایسا مفید وظیفہ ہے ہر لائق بیٹا اپنے ماں باپ کے لیے استغفار کرتا ہے۔ استغفار گناہوں کی میل دور کرتا ہے : قرآن پاک میں استغفار کا بیان کثرت سے آیا ہے کہ سوا گناہوں کو کون معاف کرنے وا لا ہے۔ معافی دینے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ انسان کو عاجزی اور کثرت سے استغفار کرنی چاہیے۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ استغفار ، تسبیح و تہلیل سے بھی زیادہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ استغفار انسان کے گناہوں کو اس طرح دور کرتی ہے۔ جس طرح صابن کپڑے کے میل کچیل کو دور کرتا ہے۔ تسبیح تو بمنزلہ خوشبو کے ہے۔ اگر استغفار سے میل کچیل دور ہوجائے تو تسبیح وتہلیل کی تھوڑی سی خوشبو بھی بڑی مفید ثابت ہوگی۔ اور انسان کی روح نکھر جائیگی۔ حضور ﷺ کا ارشاد بھی ہے کہ استغفار کثرت سے کرنی چاہیے اس کے صلے میں دنیا میں خیروبرکات حاصل ہوں گی۔ اگر یہ نہ مل سکیں تو اس سے بہتر نعمت یعنی روحانی مسرت تو ضرور حاصل ہوگی۔ قیامت میں نیکیوں کا ذخیرہ میسر آئے گا۔ اور اگر رضا بالقضا کا مقام حاصل ہوگیا تو بندہ بہت بلند مقام پر چلا گیا۔ ہر نبی کا وظیفہ استغفار : حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا میں بیان کردہ جس طرح تبلیغ کے طریقے تمام لوگوں کے لیے قابل عمل ہیں اسی طرح طریقہ استغفار بھی تمام بنی نوح انسان کے لیے واجب العمل ہے ۔ تمام انبیاء کرام نے استغفار کا طریقہ اپنایا۔ حضور ﷺ بھی اس پر عمل کرتے رہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ فیصلے کے دن میری کوتاہیوں کو معاف فرما دیگا۔ تو گویا استغفار کرنے کا معافی مانگنے کا دستور العمل بھی بتایا جا رہا ہے۔ کہ تمام انسان اس طرح اپنے پروردگار سے کوتاہیوں کی معافی طلب کریں اس کے بہت مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ دلائل توحید : استغفار کی حقیقت اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر کرنے کے بعد اگلی آیات میں توحید کے دلائیل سمجھائے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ دلائل کا تعلق انسان کے اپنے وجود سے ہے اور کچھ خارجی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ مقصد ان دلائل سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت تامہ فوراََ سمجھ میں آجائے فرمایا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے وقار سے خوف نہیں کھاتے۔ رجا کا معنی امید بھی ہوتا ہے۔ اور خوف بھی یہاں پر یہ دونوں معنی لگتے ہیں۔ یعنی تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی بزرگی ، وقار اور اس کی عظمت سے نہ امید رکھتے ہو۔ نہ خوف کھاتے ہو اور نہ ایمان قبول کرتے ہو۔ تخلیق انسانی : دلائل توحید کے سلسلے میں پہلے انسان کی پیدائش کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مختلف طریقوں سے پیدا فرمایا۔ ذراغور کرو کہ تمہاری پیدائش کس طرح ہوئی۔ ایک زمانہ تھا جب تم کچھ بھی نہیں تھے۔ جیسا کہ سورة دھر میں ہے تم کوئی قابل ذکر چیز نہ تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں عناصر کی شکل میں انسان کی تخلیق کی۔ یہ غذا جو انسان کھاتا ہے ، یا مٹی وغیرہ یہ عناصر ہیں۔ پھر انسان کو غذا ملی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم میں مختلف مواد پیدا کئے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ کیا تم غور نہیں کرتے ہم نے تمہیں مٹی سے بنایا۔ اور پھر نسل انسانی کو قطرہ آب سے پیدا کیا۔ پھر قطرہ آب میں تبدیلیاں پیدا کیں۔ پھر اس کو گوشت میں تبدیل کیا پھر اس میں ہڈیاں پیدا کیں۔ اور پھر اس کے اوپر چمڑا لگایا۔ اب کہاں عناصر اور کہاں انسان جیسی ہستی۔ سے سننے اور دیکھنے والا بنادیا۔ قرآن پاک نے جگہ جگہ انسان کی توجہ اس کی پیدائش کی طرف دلائی ہے۔ انسان اپنی وجہ تخلیق کی طرف غور کرے کہ وہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے کیا بنادیا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل کے طور پر تخلیق انسانی ایک بہترین دلیل ہے۔ علاوہ ازیں ، انسان کا صرف وجود ہی تخلیق نہیں کیا۔ بلکہ اس میں ظاہری اور باطنی قویٰ پیدا کئے۔ باطنی قویٰ میں روح نفس عقل اور دیگر باطنی حواس رکھے۔ ان میں جتنے لطائف ہیں وہ بلند سے بلند چلے جاتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ آخری لطیفہ نور القدس سے بھی بڑھ کر حجر بئحت ہے جس کے اندر تجلی الہٰی کا نمونہ ہوتا ہے۔ جہاں تک ظاہری قویٰ کا تعلق ہے قرآن پاک کے الفا ظ میں اللہ تعالیٰ نے انسان سے زیادہ حسین و جمیل کوئی چیز پیدا نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے احسن شکل و صورت انسان کو عطا کی۔ تو گویا یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کی دلیل ہیں۔ آسمانوں کی تخلیق : انسانی تخلیق کے بعد آسمانوں کی تخلیق کو دوسری دلیل کے طور پر پیش کیا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے ساتھ آسمانوں کو کیسے تہ بر تہ پیدا کیا۔ جو آسمان ہمیں نظر آتا ہے۔ یہ آسمان دنیا ہے جس کو اللہ نے ستاروں اور پہاڑوں سے مزین فرمایا۔ سورة ملک میں ارشاد ہے آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے زینت بخشی۔ ان کے حسن و جمال کا مشاہدہ کرنا ہو تو رات کے اندھیرے میں کرو۔ باقی چھ آسمان ا س سے اوپر تہ بر تہ ہیں ۔ اور سب سے اوپر بہشت ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی نشانی ہے۔ شمس و قمر کی ضیا پاشیاں : آسمانوں کا ذکر کرنے کے بعد چاند اور سورج کی تابانیوں کو بطور دلیل پیش کیا ارشاد ہوتا ہے۔ اور ان آسمانوں کے اندر چاند کو نور بنایا۔ چاند کی دھیمی دھیمی اور میٹھی میٹھی چاندنی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کئی مفاد وابستہ کر رکھے ہیں۔ پھلوں میں رطوبت ، رس اور مٹھاس چاند کی مرہو منت ہے ۔ اور پھر اندھیری راتوں میں روشنی کا مینار بھی ہے۔ اسی طرح سورج کے متعلق فرمایا۔ اور سورج کو روشن چراغ بنایا۔ اس کی روشنی اور حرارت میں بیشمار مفاد ہیں۔ حیوانات ، نباتات ، جمادات ہر چیز کے لیے سورج کی حرارت اور روشنی لازمی ہے۔ ورنہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔ اب تو سائنس کا زمانہ ہے ۔ ایٹمی دور ہے۔ انسان سورج کی شعائوں سے بہت کام لینے لگا ہے۔ جوں جوں تیل کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں انسان سائنسی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اب سورج کی شعاعوں سے گھروں میں چولہے گرم کئے جائیں گے۔ کھانا پکایا جائے گا اور بیشمار کام لیے جائیں گے۔ جس دن سے اللہ تعالیٰ نے سورج کو پیدا کیا۔ اس کا خزانہ برابر چل رہا ہے۔ انسان جن ذخائر کو نکالتا ہے وہ کبھی نہ کبھی ختم ہوجاتے ہیں ۔ مگر اللہ نے سورج میں روشنی اور حرارت کا ایسا خزانہ رکھا ہے کہ جب تک نظام شمسی کو قائم رکھنا منظور ہے ، یہ جیسا رہے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک دن آئے گا جب سورج کو بےنور کردیا جائے گا۔ اس کی تمام طاقتیں چھین لی جائیں گی۔ جیسا فرمایا یعنی جب سورج کو لپیٹ دیا جائے گا۔ فرمایا جو شخص چاند اور سورج کی ضیا پاشیاں اور ان سے مستفید ہو کر بھی ان سے دلیل نہیں پکڑتا اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہیں لاتا ، وہ بالکل عقل کا اندھا ہے اسے ذرا بھی تمیز نہیں۔ انسان ہر حالت میں زمین سے وابستہ ہے : اگلی دلیل کے طور پر فرمایا : ذرا غور کرو ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین سے بطور نباتات پیدا کیا۔ انسان کی ابتداء بھی مٹی سے ہوئی اور پھر اس کی خوراک کا ذریعہ بھی زمین ہی کو بنایا۔ انسان کی غذا کو زمین سے پیدا کیا۔ اگر غذا ہی نہ ہوگی تو مواد کہاں ہوں گے۔ مواد نہیں تو خون پیدا نہیں ہوگا۔ اور انسانی زندگی باقی نہیں رہے گی۔ گویا تخلیق اور زندگی کی بقا کا انحصار زمین پر ہے۔ زمین کی وابستگی یہیں ختم نہیں ہوجاتی ، بلکہ پھر تمہیں زمین ہی میں واپس لوٹا ئیگا۔ جب مقررہ وقت پر انسان کی موت واقع ہوگی تو زمین میں ہی دفن ہوگا ۔ جسا سورة عبس میں فرمایا۔ پھر موت دی اور قبر میں ڈال دیا۔ گویا اس کی واپسی کی جگہ بھی زمین ہی ٹھہری۔ اور پھر قیامت کو اسی زمین سے ہی اٹھایا جائے گا۔ دوسری جگہ وضاحت کے ساتھ فرمایا۔ یعنی زمین سے تمہیں پید ا کیا ، اسی میں لوٹائیں گے اور پھر اسی سے دوبارہ نکالیں گے۔ فرمایا اسی میں تم کو لوٹائیگا اور پھر اسی سے تم کو نکالے گا۔ تو گویا انسان کی توجہ اس طرف دلائی کہ تم ہر روز لوگوں کو پیدا ہوتے اور مرتے دیکھتے ہو۔ اسی پر قیاس کر کے دوبارہ اٹھائے جانے پر بھی ایمان لے آئو۔ ا اور ان مشاہدات کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل پکڑو۔ زمین سے وابستگی کی ایک اور حقیقت بیان کی اللہ نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنادیا۔ جس پر آرام کرتے ہو۔ نہ بہت سخت ہے ، نہ بہت نرم بلکہ اسے انسان کے حسب ِ حال بنایا۔ تاکہ اس کے نشان زدہ کشادہ راستوں پر چل سکو۔ زمین پر بیشمار راستے بنا دیے۔ تاکہ لوگ اپنی معاشی ضروریات کے لیے سفر اور نقل و حمل کرسکیں۔ آسمانی راستے : حضرت علی ؓ نے خطبے کے دوران فرمایا۔ کہ اے لوگو ! میں زمین کی نسبت آسمانی راستوں کو زیادہ جانتا ہوں۔ آسمانی راستوں سے مراد ایمان اور نیکی کے راستے ہیں۔ آئو میں تمہیں بتائوں جن راستوں پر چل کر تم قرب الہٰی اور رضائے خداوندی حاصل کرسکتے ہو۔ زمینی راستوں سے تو تم واقف ہو جن سے پانی ضروریات پوری کرتے ہو ، مگر آسمان کے راستے مجھ سے پوچھو ، جو ایمان نیکی اور اطاعت کی طرف جاتے ہیں۔ الغرض نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے یہ تمام مشاہدات پیش کئے اور توحید کی دعوت دی۔ کہ ان دلائل کی موجودگی میں تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔
Top