Mualim-ul-Irfan - As-Saff : 7
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ یُدْعٰۤى اِلَى الْاِسْلَامِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم ہے مِمَّنِ افْتَرٰى : اس سے جو گھڑے عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ : اللہ پر جھوٹ کو وَهُوَ يُدْعٰٓى : حالانکہ وہ بلایا جاتا ہو اِلَى الْاِسْلَامِ : اسلام کی طرف وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم قوم کو
اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ، اور اس کو دعوت دی جارہی ہے اسلام کی طرف۔ اور اللہ تعالیٰ نہیں راہ دکھاتا ظالم قوم کو
ربط آیات : پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان ہوا تاکہ لوگ آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ کے راستے میں آنے والی تکالیف کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کریں۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قوم سے خطاب اور حضور خاتم النبیین (علیہ السلام) کی بعثت کی بشارت کا ذکر ہوا۔ مگر جب حضور ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کی رسالت کا انکار کردیا۔ یہ بات خود مسیح (علیہ السلام) پر بھی صادق آتی ہے کہ جب انہوں نے نبوت کا اعلان کیا اور لوگوں کو حق کی طرف دعوت دی تو انہوں نے نہ صرف آپ کی نبوت کا انکار کیا بلکہ آپ کو جھوٹا دجال کہا۔ بہرحال اللہ نے منکرین کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے اور اہل ایمان کو خبردار کیا ہے کہ وہ دین حق پر ثابت قدم رہیں۔ خواہ اس راستے میں کتنے بھی مصائب برداشت کرنا پڑیں۔ نجاشی کا قبول اسلام : جب حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت ہوئی تو مشرکین مکہ نے صاف انکار کردیا اور آپ کو اور آپ کے پیروکاروں کو طرح طرح کی تکالیف پہنچانا شروع کردیں حتیٰ کہ مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ہمیں نجاشی والی حبشہ کی طرف روانہ کیا کیونکہ وہ ایک منصف مزاج آدمی تھا۔ چناچہ تقریباً اسی مردوں اور کچھ عورتوں کا قافلہ حبشہ کی طرف چلا گیا۔ ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ، حضرت جعفر ؓ ، حضرت عثمان بن مظعون ؓ ، حضرت عثمان بن عفان ؓ اور حضور ﷺ کی صاحبزادی رقیہ ؓ بھی شامل تھیں۔ جب یہ لوگ حبشہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے ان کو وہاں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ چناچہ انہوں نے انپے دو آدمیوں عمرو ابن العاص ؓ اور عار ابن ولید کو حبشہ بھیجا تاکہ وہاں کے بادشاہ کو بہلا پھسلا کر مسلمانوں کے اخراج پر آمادہ کیا جاسکے۔ یہ دونوں اشخاص اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے سخت مخالف تھے تاہم حضرت عمر وابن العاص ؓ بعد میں جاں نثاران اسلام میں شامل ہوگئے۔ حبشہ کے بادشاہ کا نام اصحمہ اور نجاشی لقب تھا۔ جب یہ دونوں نجاشی کے دریار میں پہنچے تو اس کو سجدہ کیا اور پھر دائیں بائیں بیٹھ کر کہنے لگے کہ ہمارے کچھ آدمی آپ کی سرزمین میں بھاگ آئے ہیں کیونکہ انہوں نے ہمارا پرانا دین چھوڑ کر نیا دین اختیار کرلیا ہے ، لہٰذا ان کہ ہمارے ساتھ واپس کیا جائے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ وہ لوگ کہاں ہیں تو کہنے لگے کہ آپ کے ملک میں فلاں جگہ مقیم ہیں ، اپنے آدمی بھیج کر بلوالیں ، چناچہ مسلمانوں کو بلوایا گیا ۔ ان کے نمائندہ کے طور پر حضرت جعفر ؓ آگے بڑھے مگر نجاشی کو سجدہ کیے بغیر دربار میں چلے گئے۔ بادشاہ نے پوچھا تم نے یہاں کے قانون کے مطابق مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ تو حضرت جعفر ؓ نے کہا اللہ نے ہمارے پاس ایک رسول بھیجا ہے جس نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے لئے سجدہ روا نہیں ہے اللہ کے اس نبی نے ہمیں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے اتنے میں مشرکین کے نمائندوں نے کہا کہ بادشاہ ! یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق آپ سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں۔ نجاشی نے پوچھا کہ بتائو عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق تمہارا کیا عقیدہ ہے ؟ حضرت جعفر ؓ نے جواب دیا کہ ہم تو جو کچھ کہتے ہیں اللہ کے نافرمان کے مطابق ہی کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ وہ اللہ کا کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم ؓ کے گریبان میں پھونک کر بغیر باپ کے پیدا کیا۔ گویا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک روح ہے جو مریم ؓ کے گریبان میں ڈالی گئی جب کہ مریم ؓ دوشیزہ تھی۔ نجاشی نے یہ بات سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہنے لگا کہ حبشہ والو سن لو ، اللہ کی قسم ہے جو کچھ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بیان کیا ہے وہ اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہیں۔ پھر کاشی نے حضرت جعفر ؓ کو مرحبا کہا اور اس ہستی کو بھی جس کی طرف سے وہ آئے تھے۔ کہنے لگا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے جس ہستی کا ذکر کیا ہے وہ واقعی خدا کا رسول ہے اور وہ وہی ہے جس کی بشارت انجیل میں موجود ہے۔ پچھلے درس میں گزر چکا ہے ومبشرا برسول …………… …احمد (آیت 6) عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم بنی اسرائیل سے کہا کہ میں تمہیں اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام نامی احمد ہوگا۔ اور یہ وہی ہیں یجدونہ… ……والانجیل (الاعراف 157) جس کا نام اہل کتاب تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ بہرحال ساری بات سن کر نجاشی نے حضرت جعفر ؓ اور آپ کے ساتھیوں سے کہا کہ تم میرے ملک میں جہاں چاہو رہ سکتے ہو ، تم پر کوئی پابندی نہیں ۔ اس نے مشرکین مکہ کے مطالبے کو کچھ وقعت نہ دی اور جو تحائف انہوں نے بھیجے تھے وہ بھی واپس کردیے۔ اس طرح مشرکین مکہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ نجاشی معتدل مزاج اور سلیم الفطرت آدمی تھا۔ اس نے حضرت جعفر ؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور کہنے لگا کہ اگر یہ بادشاہی کا کاروبار میرے ذمے نہ ہوتا تو اللہ کی قسم میں اس پیغمبر کے پاس جاتا اس کے جوتے اٹھاتا ، اس کے پائوں دھوتا اور اس کو وضوکراتا۔ پھر کئی سال بعد جب نجاشی فوت ہوا تو اللہ نے حضور ﷺ کو بذریعہ وحی خبر دی کہ نجاشی فوت ہوگیا ، اس کا جنازہ پڑھا جائے۔ حضور ﷺ لوگوں کو باہر عیدگاہ کے میدان میں لے گئے اور پھر نجاشی کا جنازہ پڑھا گیا۔ یہ نجاشی کی خصوصیت تھی۔ بہرحال منصف مزاج لوگ حق بات کو قبول کرلیتے ہیں مگر ظالم قبول نہیں کرتے۔ منکرین اسلام کے لئے وعید : آج کی آیات بھی گزشتہ آیات کے ساتھ مربوط ہیں۔ پچھلے درس میں تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو نبی آخر الزمان کے آنے کی خوشخبری سنائی مگر جب وہ اللہ کا آخری نبی آگیا یا خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لے آئے تو لوگوں نے کھلا جادو کہہ کر انکار کردیا۔ اب ایسے منکرین کی مذمت بیان ہورہی ہے ومن اظلم ممن افتری علی اللہ الکذب اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا وھو یدعی الی السلام حالانکہ اسے اسلام کی طرف دعوت دی جارہی ہے۔ اسے یہ حقیقت بتلائی جارہی ہے کہ یہ سچا دین ہے جو سارے نبیوں کا دین ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی دین پر کاربند تھے۔ یہ وہی توحید ، عقائد اور ایمانیات ہیں۔ جو شروع سے چلے آرہے ہیں۔ زمانے کے لحاظ سے بعض انبیاء کے ادوار میں بعض فروعات میں کچھ ردوبدل ہوتا رہا ہے وگرنہ اصول دین میں تو سارے نبی متفق ہیں۔ اللہ نے سارے نبیوں سے یہی فرمایا ہے ان ھذہ………واحدۃ (الانبیاء 92) کہ یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں۔ فرمایا۔ یہ لوگ ہٹ دھرمی ضد اور عناد پر قائم ہیں۔ واللہ لا یھدی القوم الظلمین اور اللہ تعالیٰ بےانصاف قوم کو کبھی ہدایت نہیں دیتا۔ جب تک کوئی شخص ظلم اور ناانصافی کو ترک نہ کرے اسے راہ راست نصیب نہیں ہوسکتا۔ فرمایا یریدون………………بافواھھم ، یہ لوگ اپنے مونہوں کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دینا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا دین چار دانگ عالم میں روشنی نہ پھیلا سکے بلکہ یہیں ختم ہوجائے ، اسی لئے وہ سابقہ کتب میں آنے والی پیشین گوئیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ واللہ متم نورہ اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے۔ ولوکرہ الکفرون اگرچہ کافر لوگ اس کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔ چناچہ مخالفوں کی تمام سازشیں ناکام ہوئیں اور وعدے کے مطابق اللہ نے اپنے دین کو مکمل کردیا۔ غلبہ دین کی بشارت : اگلی آیت میں غلبہ دین کی بشارت سنائی جارہی ہے ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق اللہ کی ذات وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا۔ یہ آیت سورة توبہ اور سورة فتح میں بھی آچکی ہے جو کہ حضور ﷺ اور دین اسلام کی صداقت کی دلیل ہے اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون ، تاکہ اے تمام ادیان کے مقابلے میں غالب کردے اگرچہ شرک کرنے والے اسے ناپسند کرتے ہیں۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کی حالت بہت کمزور تھی اور تعداد بھی بالکل کم تھی۔ ایسی حالت میں اسلام کے غلبے کا دعویٰ کرنا شان خداوندی ہی کے لائق ہے۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ میں اللہ نے دین حق کو عروج عطا فرمایا اور اس قدر فتوحات حاصل ہوئیں کہ دنیا کی کوئی طاقت مقابلے میں آنے کی جرات نہیں کرتی تھی۔ یہ عمومی غلبہ تھا جو حضور ﷺ کی نبوت کے دلائل میں سے ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں یہودیت ، نصرانیت اور مجوسیت دنیا میں عام تھی کہیں صابیوں کا دین تھا اور کہیں ہندوستان میں بت پرست بھی تھے۔ جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو باقی تمام ادیان کی روشنیاں ماند پڑگئیں اور اس آیت کے مطابق مسلمانوں کو عمومی غلبہ حاصل ہوگیا۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں یہ غلبہ صرف ملک عرب تک محدود رہا ، باقی ممالک خلفائے راشدین ؓ کے زمانہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے خلفائے راشدین ؓ نبی (علیہ السلام) کے اعضاء وجوارح کی مانند تھے جنہوں نے آپ کے مشن کی تکمیل کی۔ خلفائے راشدین ؓ کے زمانے کی کامیابیاں بھی حضور ﷺ کی طرف ہی منسوب کی جاتی ہیں کیونکہ ایک عام اصول ہے کہ جب کوئی فوج ملک فتح کرتی ہے تو وہ فتح بادشاہ یا خلیفہ کی طرف ہی منسوب کی جاتی ہے جس نے مذکورہ فوج کشی کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے حضور ﷺ کے بعد حاصل ہونے والا غلبہ بھی دراصل حضور ﷺ اور دین حق کا غلبہ ہی سمجھا جائے گا۔ غرضیکہ اللہ نے دین کے عمومی غلبے کا وعدہ پورا فرمادیا۔ عمومی غلبے کے لئے شرائط : عمومی غلبے کے متعلق مفسرین کرام تین باتیں بیان کرتے ہیں۔ پہلی یہ کہ حضور ﷺ کی بعثت سے لے کر واقعہ صفین تک پچاس سال کے عرصہ میں تقریباً نصف دنیا پر اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا تھا۔ اور دوسری بات یہ کہ اسلام کو دوبارہ عمومی غلبہ اس وقت حاصل ہوگا۔ جب مسیح (علیہ السلام) دوبارہ دنیا میں نزول فرمائیں گے۔ آپ زمین پر حضور ﷺ کے ایک نائب اور امتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمام باطل ادیان کو ختم کردیگا اور صرف دین اسلام ہی باقی رہ جائے گا۔ درمیانی عرصہ میں اب اسلام کو سیاسی غلبہ حاصل نہیں ہے اگرچہ دلیل اور برہان کے لحاظ سے ہمیشہ غالب رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس عرصہ میں مسلمانوں میں کمزوری آگئی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا تسلط قائم نہیں رہا۔ اس سلسلے میں تیسری بات مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ عمومی غلبہ اسلام کے لئے اللہ نے سورة نور میں یہ شرط لگا دی ہے۔ یعبدو… ……شیئا (آیت 55) کہ اہل ایمان خالص خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہوں اور اللہ کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کریں۔ اگر مسلمان یہ شرط پوری کریں گے تو ان کو کو تمام اقوام عالم اور ادیان پر غلبہ حاصل ہوگا۔ چناچہ جب تک مسلمان اس معیار پر قائم رہے ان کو دنیا پر سیاسی غلبہ حاصل رہا ہے۔ مگر جب بےعملی کا دور دورہ شروع ہوگیا۔ تو اللہ نے عمومی غلبہ سے بھی محروم کردیا۔ مسلمانوں پر زوال آنا شروع ہوگیا حتیٰ کہ انگریزوں کے عروج کے زمانہ میں خلافت کا ڈھانچہ بھی ختم ہوگیا اور دنیا بھر کے مسلمان انتشار کا شکار ہوگئے آج وہ غالب ہونے کی بجائے مغلوب اور مقہور ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ وہ اسلام کے اصول کو ترک کرچکے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری : مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ مسلمان قوم اور ان کے حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ اسلام کے عمومی غلبے کو قائم رکھتے۔ غلبہ چھن جانے کی کوئی توجیہہ خدا کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگی۔ اگر ہم دین اسلام کے اصولوں پر قائم نہ رہے اور جس کے نتیجے میں یہ غلبہ چھن چکا ہے تو اس میں قصور ہمارا ہے لہٰذا ہم سب عنداللہ مجرم بن جائیں گے آج نفاذ اسلام کا دعویٰ تو کیا جارہا ہے کہ اس کو بتدریج نافذ کریں گے مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ دراصل موجودہ دنیا کے مسلمان حکمران بھی نفاذ اسلام میں مخلص نہیں ہیں۔ یہ تو منافقت ہے کہ دعویٰ اسلام کا کیا جارہا ہے مگر ہر حکومتی معاملہ میں یہودونصاری اور دہریے دخیل ہیں۔ اس قوت مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کا نہ عقیدہ درست ہے نہ ایمان اور نہ اخلاق۔ دراصل انہیں اسلام کی حقانیت پر یقین ہی نہیں ہے اسی لئے تو روس امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی وغیرہ کے نظام کو پسند کیا جاتا ہے اور ہر معاملے میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے حالانکہ اسلام کا اپنا نظام حیات ہے جس کو اپنانے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ اس ضمن میں جرات سے کام لے کر اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرنا ہوگا۔ ورنہ درمیانی راستہ کوئی نہیں ہے۔ جس پر چل کر منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ رفاہیت بالغہ کے تمام سلسلے بند کرنا ہونگے اصول کی پابندی ہر چھوٹے بڑے کے لئے یکساں کرنا ہوگی ، اسلامی عبادات کا نظام رائج کرنا پڑے گا ، اقتصادی طور پر اغیار کی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی ، تب جاکر نفاذ اسلام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔ بعض اچھی باتیں تو غیر مذاہب اور لامذہب لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں ، محض ان پر بھروسہ کرکے اسلام نافذ نہیں کیا جاسکتا تمام مسلمانوں کی عمومی اور حکمرانوں کی خصوصی ذمہ داری ہے کہ وہ غلبہ اسلام کے لئے عملی کوشش کریں اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب کہ نظام اسلام مکمل طور پر نافذ کردیا جائے۔ بہرحال اللہ نے ابتدائی دور میں غلبہ اسلام کا وعدہ پورا کردیا جس کے بعد میں خود مسلمانوں نے ضائع کردیا۔ احادیث کی کتابوں اور علمائے کرام کی زبانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ آخری دور میں مسیح (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول پر پھر پورا ہوگا۔ جب دنیا میں اسلام کے سوا کوئی دین باقی نہیں رہے گا۔
Top