Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - As-Saff : 5
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَ قَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ١ؕ فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ مُوْسٰى
: کہا موسیٰ نے
لِقَوْمِهٖ
: اپنی قوم سے
يٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ
: اے میری قوم کیوں تم مجھ کو اذیت دیتے ہو
وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ
: حالانکہ تحقیق تم جانتے ہو
اَنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ
: بیشک میں اللہ کا رسول ہوں
اِلَيْكُمْ
: تمہاری طرف
فَلَمَّا زَاغُوْٓا
: پھر جب وہ ٹیڑے ہوئے
اَزَاغَ اللّٰهُ
: ٹیڑھا کردیا اللہ نے
قُلُوْبَهُمْ
: ان کے دلوں کو
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
لَا يَهْدِي
: نہیں ہدایت دیتا
الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ
: فاسق قوم کو
اور جب کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے اے میری قوم کے لوگو ! مجھے تم کیوں ستاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف پس جب وہ ٹیڑھے چلے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ اور اللہ تعالیٰ نہیں راہ دکھاتا اس قوم کو جو نافرمانی کرنے والی ہو۔
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید وتنزیہہ کا ذکر کرنے کے بعد اہل ایمان سے فرمایا کہ ان کی زندگی میں قول وفعل کا تضاد نہیں ہوناچاہیے یعنی کوئی ایسی بات نہ کریں جس پر خود عمل پیرانہ ہوں یہ بات اللہ کے نزدیک بہت ہی بری اور مبغوض ہے۔ سچے ایمانداروں کا یہ شیوہ ہرگز نہیں ہوسکتا یہ تو منافقوں کی روش ہے اس کے بعد اللہ نے اس کے راستے میں جہاد کرنے کا ذکر کیا اور اس کو احب الاعمال یعنی پسندیدہ کام بتلایا۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ اس کے راستے میں صف باندھ کر جہاد کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ جہاد کی اہمیت : اس سورة مبارکہ کا مرکزی مضمون دین کی خاطر جانی اور مالی قربانی پیش کرنا ہے۔ پچھلی سورة میں دشمنان خدا ، دشمنان رسول ، دشمنان کتاب اور دشمنان دین کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کیا گیا تھا ، اور اس سورة میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ حدیث میں حضور ﷺ کا فرمان ہے ذروۃ سنامہ الجھاد اسلام کی کوہان کی بلندی جہاد ہے جس طرح کوہان اونٹ کے جسم کا بلند ترین حصہ ہوتا ہے ، اسی طرح اسلامی احکام میں بلند تر حکم جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اسی کی وجہ سے اہل ایمان کو عزت حاصل ہوتی ہے اور دین کو عزت ، وقار اور غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ دشمن کو مغلوب کرنے کے لئے بھی جہادضروری ہے کیونکہ دشمن ہمیشہ دین کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کا ذکر فرمایا ہے اس سے یہ سمجھانا مقصود ہے۔ کہ جو کمزوری موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں پیدا ہوگئی تھی وہ کمزوری حضور خاتم النبیین ﷺ کی امت میں نہیں آنی چاہیے۔ جس طرح قوم موسیٰ اپنے نبی کے حکم کی تعمیل میں پس وپیش کرتی تھی ، اس طرح مسلمانوں کو نہیں کرنا چاہیے بلکہ نبی کے ہر حکم کی مکمل اطاعت کرنی چاہیے۔ حضور ﷺ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات میں مماثلت : قرآن پاک سے معلوم ہوتا ہے حضور ﷺ کے حالات موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات سے مماثبت رکھتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے نبی بھی تھے اور حاکم بھی۔ آپ کو اللہ نے ایک عظیم الشان کتاب بھی عطا فرمائی تھی۔ اللہ نے آپ کو اس دور کی سب سے بڑی طاقت فرعون کے ساتھ مقابلہ کے لئے بھیجا تھا۔ انہوں نے ابتداء میں بڑے مصائب برداشت کیے اور ان پر صبر کیا۔ حضور خاتم النبیین ﷺ بھی اپنی قوم کی طرف رسول تھے انا ارسلنا………… ……رسولا (المزمل 15) ہم نے تمہاری طرف رسول بھیجا جو تم پر گواہ ہے جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا…………اور پھر آپ کو بھی اللہ نے حکومت عطا فرمائی۔ اللہ نے آپ کی طرف آخری اور سب سے عظیم کتاب نازل فرمائی۔ آپ کو بھی قریش مکہ جیسی سرکشی قوم سے واسطہ پڑا جو فرعون سے بھی زیادہ متکبر تھی۔ جس وقت فرعون غرق ہورہا تھا تو اس نے ایمان لانے کی کوشش کی ۔ اور کہنے لگا امنت………………المسلمین (یونس 90) یعنی میں بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لایا اور میں فرمانبرداروں میں ہوں۔ مگر اللہ نے فرمایا آلئن وقد…………………المفسدین (آیت 91) اب ایمان لاتے ہو ساری عمر تو نافرمانی اور غنڈہ گردی کرتے رہے اور اب جب کہ موت کے فرشتے نظر آگئے اور غیب کا پردہ اٹھ گیا تو ایمان لاتے ہو ، اب یہ ایمان قابل قبول نہیں ہے۔ قریش مکہ کا غرور وتکبر بھی اس سے کم نہیں تھا ، جنگ بدر میں ابوجہل کو دو نوجوانوں نے قتل کردیا۔ وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس کی گردن اتارنے کے لئے اس کے سینے پر چڑھ گئے۔ اس عالم میں بھی ابوجہل کا غرور اس درجہ کا تھا کہ کہنے لگا کہ تو تو بڑی اونچی گھاٹی پر چڑھ گیا ہے وہ بد بخت کہہ رہا تھا کاش کہ کوئی کاشتکار مجھے قتل نہ کرتا۔ کوئی میری حیثیت کا آدمی مجھے مارتا تو مجھے حسرت نہ رہتی۔ کسریٰ کا غرور : حضور ﷺ کو کسریٰ جیسی سپر طاقت کے ساتھ بھی واسطہ پڑا۔ اس کے غرور تکبر کے اظہار کے لئے یہ واقعہ کافی ہے کہ حضور ﷺ نے 7 ھ کے قریب مختلف بادشاہوں کو بذریعہ خطوط اسلام کی دعوت دی۔ ان میں ایک خط کسریٰ ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کی طرف تھا۔ جب یہ خط حضرت عبداللہ ابن حذافہ ؓ نے بادشاہ کو پیش کیا تو وہ پڑھ کر غصے میں آگیا اور خط کو پھاڑ دیا ، کہنے لگا ، اب عرت کے بدو بھی ہمیں دعوت نامے بھیجنے لگے ہیں ہم ہزاروں سال پرانی بادشاہی کے مالک ہیں۔ بھلا یہ ہمیں کیا دعوت دیں گے ؟ اس بد بخت نے حضرت عبداللہ ؓ کی تذلیل کی حتیٰ کہ ان کے سر پر مٹی کا ٹوکرا اٹھوا دیا۔ آپ بڑے ذہین آدمی تھے ، جب اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو ان کو خوشخبری دی کہ دیکھ لو کسریٰ نے ایران کی سرزمین خود میرے سر پر رکھدی ہے۔ پھر جب اس واقعہ کی اطلاححضور ﷺ کو دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص نے میرے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی سلطنت کو پارہ پار ہ کردے گا۔ چناچہ کچھ عرصہ بعد ہی وہ آپس میں لڑنے لگے اور یہ سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ، پھر حضرت عمر ؓ کے زمانے میں یہ سلطنت مکمل طور پر فتح ہوگئی۔ یہ مجبوسی مذہب رکھتے تھے۔ جن میں سے اکثر مسلمان ہوگئے۔ قوم موسیٰ کا بگاڑ : بنی اسرائیل یعنی قوم موسیٰ (علیہ السلام) میں ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ وہ اپنے نبی کے حکم کی تعمیل نہیں کرتے تھے بلکہ ٹال مٹول سے کام لیتے تھے۔ مثلاً موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک قتل کے سراغ کے لئے ان سے کہا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم کو لگائو تو وہ تمہیں اپنے قاتل کی نشاندہی کردے گا۔ مگر بنی اسرائیل نے طرح طرح کی حجت بازی کی۔ پہلے کہنے لگے کہ اے موسیٰ ! کیا تو ہم سے مذاق کرتا ہے۔ جب انہوں نے یقین دلایا کہ یہ مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے تو کہنے لگے بتلائو وہ گائے کیسی ہونی چاہیے۔ اس کا رنگ کیسا ہو ، وغیرہ اسی طرح جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ اس ارض مقدس میں داخل ہوجائو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا کرے گا۔ تو وہ کہنے لگے کہ اے موسیٰ ! ہم اس شہر میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے۔ جب تک کہ قوم عمالقہ وہاں موجود ہے لہٰذا فاذھب انت وربک…………قعدون (المائدۃ 24) تو اور تیرا رب جاکر ان سے لڑو ، ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ ان کی ایک بہت بری خصلت یہ بھی تھی کہ وہ اللہ کے کلام میں تحریف کرتے تھے۔ مثلاً سورة النساء آیت 46 میں موجود ہے یحرفون…………………وعصینا ، یہ لوگ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا ہے مگر مانا نہیں۔ جب اسرائیل فرعون کی غلامی سے آزاد ہوئے تو انہوں نے خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ہمارے لئے کوئی قانون ہونا چاہیے۔ جس کی ہم پابندی کریں۔ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ چالیس دن کوہ طور پر اعتکاف کرو تو تمہیں کتاب عطا کی جائے گی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مقررہ مدت پوری کرلی تو اللہ نے تورات جیسی عظیم الشان کتاب عطا فرمائی جس میں حلت و حرمت وغیرہ کے تمام قوانین موجود تھے۔ جب یہ کتاب موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو پیش کی تو وہ اسی میں مندرج احکام کی تعمیل میں پس وپیش کرنے لگے۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر اللہ نے فرمایا ورفعنا قوکم الطور ، کہ ہم نے تمہارے اوپر کوہ طور کو اٹھا کر کھڑا کردیا اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے دی ہے اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو ، اور جو تمہیں حکم ہوتا ہے ۔ اس کو سنو۔ مگر وہ کہنے لگے کہ ہم نے سن تو لیا ہے مگر مانتے نہیں (البقرہ 93) الغرض ! بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ نے فرمایا وجعلنا………قسیۃ (المائدہ 13) ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا۔ پھر یہی خرابی بڑھتے بڑھتے ان کی گمراہی کا ذریعہ بن گئی اور وہ مغضوب ہوگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اس قوم کی اصلاح کے لئے ہزاروں نبی آئے۔ مگر انہوں نے ان نبیوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا۔ جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا تھا۔ حضور ﷺ پر صحابہ ؓ کی جاں نثاری : قوم موسیٰ کے برخلاف حضور ﷺ کے صحابہ ؓ کی جاں نثاری کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ بدر کے موقعہ پر (الکامل لابن الاثیر ص 120 ج 2 وتاریخ طبری ص 434 ج 2) پر حضور ﷺ نے مہاجرین اور انصار دونوں سے خطاب کیا تاکہ جنگ سے متعلق ان کی رائے دریافت کی جاسکے مہاجرین کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور پھر حضرت ؓ نے اچھی بات کہی۔ پھر حضرت مقدار بن عمرو ؓ اٹھے اور عرض کیا کہ حضور ! اللہ نے آپ کو جو راہ دکھائی ہے ، آپ اس پر رواں دواں رہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ خدا کی قسم ہم آپ سے وہ بات نہیں کریں گے۔ جو بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہی تھی کہ اے موسیٰ ! تم اور تمہارے خدا جاکر لڑو ، ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ حضور ﷺ بار بار فرما رہے تھے کہ لوگو ! مجھے مشورہ دو ۔ آپ کا اشارہ انصار کی طرف تھا چناچہ (تاریخ طبری ص 435 ج 3 والکامل لابن الاثیر ص 120 ج 2) انصار میں سے حضرت سعد (مسلم ص 102 ج 2 میں سعد بن عبادہ ؓ سے یہی الفاظ منقول ہیں (فیاض) بن معاذ ؓ نے عرض کیا کہ حضور ! ہم تو آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں وہ برحق ہے۔ اگر آپ ہمیں حکم دیں گے تو ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے۔ ہم آپ کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے ، اور ہر مشکل سے مشکل مہم پر جانے کے لئے تیار ہیں یہ سن کر حضور ﷺ پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور آپ نے جنگ کا فیصلہ کرلیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا قوم سے شکوہ : بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی پے درپے نافرمانیوں سے تنگ آکر ان کا شکوہ بیان کیا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ واذقال موسیٰ لقومہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا یقوم لم توذوننی اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں اذیت پہنچاتے ہو وقد تعلمون انی رسول اللہ الیکم حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔ ان تکالیف کا قرآن میں اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ فرمایا لا تکونو………………(الاحزاب 69) حضور ﷺ کے امتیوں سے خطاب ہے کہ تم بھی ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تکالیف پہنچائیں۔ صحیحین کی حدیث میں آتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہی با حیا انسان تھے۔ حتیٰ کہ وہ لوگوں کے سامنے کبھی برہنہ نہیں ہوئے تھے۔ اس پر اسرائیلوں نے پراپیگنڈا کرنا شروع کردیا کہ آپ کو ادرہ کی بیماری ہے جس میں انسان کے فوطے پھول جاتے ہیں۔ کبھی ان میں پانی بھر جاتا ہے اور کبھی چربی آجاتی ہے جس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ مگر موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسی کوئی بیماری نہیں تھی بلکہ وہ توحیاداری کی وجہ سے ہمیشہ باپردہ نہاتے رہتے تھے۔ تاہم فبراہ اللہ مما قالوا (الاحزاب 69) اللہ نے آپ کو اس الزام سے بھی بری کیا۔ اس کے علاوہ آپ کے برادر زادے قارون نے آپ پر بدکاری کا الزام لگایا (العیاذ باللہ) مگر اللہ نے اسی کو ذلیل کیا حتیٰ کہ وہ بمع مال و دولت زمین میں دھنس گیا۔ اس قسم کی اذیتیں تھیں جو اسرائیلی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیتے رہتے تھے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ اے لوگو ! مجھے کیوں تکلیف پہنچاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ایسا ہی واقعہ حضور ﷺ کی سیرت میں بھی ملتا ہے ۔ جنگ حنین کے موقع پر مال غنیمت تقسیم ہورہا تھا تو ایک شخص نے کہا ، اللہ کے رسول ! آپ انصاف کریں۔ اس پر آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو دنیا میں اور کون انصاف کرے گا۔ خدا کے فرشتے اور خود اللہ تعالیٰ بھی مجھے امین سمجھتا ہے مگر تم مجھے خائن سمجھتے ہو۔ کس قدر ظلم کی بات ہے آپ نے فرمایا رحم اللہ موسیٰ لقد اوذی باکثرمن ھذا فصبر ، اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ان کو تو اس سے بھی زیادہ تکالیف دی گئیں مگر انہوں نے صبر کیا ۔ الغرض ! موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم مجھے تکلیف دیتے ہو حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ دلوں کی کج روی : بہرحال بنی اسرائیل کی ایذاء رسانیوں کی وجہ سے فلما زاغوا جب وہ لوگ کج رفتار ہوگئے یعنی ٹیڑھا چلنے لگے ازاغ اللہ قلوبھم تو اللہ نے ان کے دلوں کو بھی ٹیڑھا کردیا۔ جب کوئی شخص کسی بدعملی پر اصرار کرتا ہے۔ تو پھر وہ اس میں پختہ ہوجاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی انسان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک چھوٹا سا سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے اگر وہ توبہ کرلے تو وہ داغ دھل جاتا ہے۔ اور اگر اس گناہ پر اصرار کرتا ہے تو داغ بڑھ جاتا ہے حتی کہ ختم ……… قلوبھم (البقرہ 7) اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتا ہے۔ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور اس میں صحیح چیز کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی اور انسان نیکی کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی گناہ کو حقیر نہ جانو کیونکہ تنکا تنکا جمع ہو کر بھی پہاڑ بن جاتا ہے۔ اسی طرح کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ اگر مسجد سے ایک تنکا اٹھا کر باہر پھینک دو تو یہ بھی ایک نیکی ہے۔ نیکیاں اور برائیاں ساری جمع ہوتی رہتی ہیں ، ان کو حقیر نہ جانو کیونکہ یہ آگے چل کر پہاڑوں کی صورت نظرآئیں گے۔ بنی اسرائیل نے اپنی کجروی کی وجہ سے اپنے نبی کو ایذا پہنچائی تو ان کے دل ٹیڑھے ہوگئے اور آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی وہ تنگ دل اور سیاہ باطن ہی ہیں مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ بھی اسرائیلیوں نے بدترین سلوک کیا حتیٰ کہ آپ کی جان کے درپے ہوگئے۔ آپ کو دجال کہتے اور منہ پر تھوکتے تھے ، پتھر مارتے الزام تراشی کرتے اور گالیاں دیتے تھے۔ ان کے دل بھی ٹیڑھے ہوگئے اور ان میں نیکی کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہی۔ ایسے لوگ برائیاں لے کر ہی اگلے جہان میں جاتے ہیں ان حالات میں اصول یہ ہے واللہ لایھدی القوم الفسقین ، کہ اللہ تعالیٰ نافرمان قوم کی راہنمائی نہیں کرتا۔ جب تک کوئی شخص کفر ، شرک فسق ، بدعت اور معصیت کو ترک نہیں کرتا اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔
Top