Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ
: تسبیح کی ہے اللہ کے
مَا فِي السَّمٰوٰتِ
: ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے
وَمَا فِي الْاَرْضِ
: اور جو زمین میں ہے
وَهُوَ الْعَزِيْزُ
: اور وہ زبردست ہے
الْحَكِيْمُ
: حکمت والا ہے
پاکی بیان کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے جو کچھ بھی ہے آسمان میں اور جو کچھ ہے زمین میں۔ اور وہ زبردست اور حکمت والا ہے
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سورة الصف ہے جو اس کی چوتھی آیت میں آمدہ لفظ الصف سے موسوم ہے۔ صف قطار کو کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورة میں جہاد کے لئے صف بندی کا ذکر ہے ، لہٰذا اس سورة کا نام الصف رکھا گیا ہے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ مدنی زندگی میں یہ سورة …سورۃ التغابن کے بعد نازل ہوئی حالانکہ ترتیب تلاوت کے لحاظ سے یہ اس سے پہلے ہے۔ اس سورة مبارکہ کی چودہ آیات اور دو رکوع ہیں اور یہ سورة 221 الفاظ اور 926 حروف پر مشتمل ہے۔ سابقہ سورة کے ساتھ ربط : گزشتہ سورة الممتحنہ میں خدا ، اس کے رسول ، اس کے دین اور اس کی طرف سے آمدہ پروگرام کے دشمنوں سے دوستی کی ممانعت کی گئی تھی۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ ایک صحابی رسول سے یہ غلطی ہوگئی تھی کہ اس نے اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کی خاطر کفار مکہ کو مسلمانوں کے راز سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اللہ نے اس ضمن میں سخت تنبیہ فرمائی کہ یہ لوگ تمہارے کبھی دوست نہیں ہوسکتے۔ اگر انہیں کبھی تم پر تسلط حاصل ہوگیا تو یہ تمہیں تمہارے ایمان کی سزا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ فرمایا غیر حربی کافروں سے تو احسان کیا جاسکتا ہے۔ مگر وہ حربی کافر جو تمہیں ہجرت پر مجبور کرتے ہیں ان کے ساتھ کسی طرح بھی دوستی نہیں ہوسکتی۔ اب اس سورة میں ایک قدم اور بڑھ کر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں۔ اسلام کے پروگرام کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور دین حق کو مٹاناچاہتے ہیں ان کے ساتھ جہاد کرنا ضروری ہے۔ تاکہ اس فتنہ کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ گویا اس سورة میں جانبازی اور سرفروشی کا حکم دیا گیا ہے۔ توحید کا بیان : سورۃ کا آغاز توحید کے بیان سے ہوتا ہے جو دین کی جڑ بنیاد ہے اور جس کے ذریعے انسانی فکر صحیح ہوتی ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان کو بلندی نصیب ہوتی ہے۔ اگر توحید میں کوئی خلل واقع ہوجائے تو انسان کا کوئی عمل اور کوئی نیکی قابل اعتماد نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کو نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ اسی لئے اللہ نے سب سے پہلے توحید کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے سبح للہ مافی السموت ومافی الارض ، پاکی بیان کرتی ہے جو مخلوق بھی ہے آسمانوں اور زمین میں۔ تسبیح کا معنی تنزیہہ ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے شرک ، کمزوری عیب اور احتیاج سے پاک ہے ، غرضیکہ اللہ کی ذات ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ جب ہم لفظ اللہ بولتے ہیں تو اس میں یہ ساری حقیقت آجاتی ہے۔ علم عقائد والے سمجھاتے ہیں کہ اللہ سے مراد ایک ایسی ذات ہے ، جو ازلی ، ابدی قائم اور دائم ہے۔ اس کا وجود بذاتہ ہے اور وہ تمام صفات کمال کی جامع ہے۔ جب کوئی مسلمان اپنی زبان سے سبحان اللہ کہتا ہے یا سبح للہ کہتا ہے تو اس کا مفہوم یہی ہوتا ہے کہ ذات خداوندی تمام صفات کمال کے ساتھ موصوف ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ آتا ہے سبحن اللہ عما یشرکون خدا کی ذات پاک ہے ان چیزوں سے جن کو یہ لوگ اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہیں۔ کوئی اللہ کی ذات میں شریک بناتا ہے ، کوئی صفات میں کوئی عبادت میں ، کوئی نذر ونیاز میں ، کوئی نام رکھنے میں ، کوئی دہائی دینے میں ، کوئی پکارنے میں ، کوئی انتہائی تعظیم کرنے میں۔ یہ سب کفر اور شرک کی باتیں ہیں۔ کسی مخلوق کے سامنے ایسی تعظیم کرنا جو صرف خداوند قدوس کے لائق ہے ، صریح شرک ہے۔ دنیا میں شرک کی مختلف قسمیں رائج ہیں۔ اللہ نے سورة الانعام میں ان تمام قسموں کو بیان کردیا ہے۔ کبھی مال میں شرک ہوتا ہے ، کبھی افعال میں اور کبھی عقائد میں۔ خدا تعالیٰ کی صفات مختصہ کو مخلوق میں ثابت کرکے لوگ مشرک بن جاتے ہیں لہٰذا شرک کی ہر قسم سے بیزاری کا اعلان کرنا ضروری ہے۔ پچھلی سورة میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں کا یہ اعلان گزر چکا ہے انا براء ئوامنکم ومما تعبدون من دون اللہ (الممتعنہ 4) ہم تم سے بھی بیزار ہیں اور ان سے بھی جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو۔ اور ہماری یہ بیزاری اس وقت تک قائم رہے گی حتیٰ تو منوا باللہ وحدہ یہاں تک کہ تم خدائے واحد پر ایمان لے آئو۔ خدا تعالیٰ کی تسبیح : فرمایا کہ ہر چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح یعنی تنزیہہ بیان کرتی ہے۔ قرآن میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ شجر ، حجر ، آسمانی کرے ، جانور ، کیڑے مکوڑے غرضیکہ مخلوق کی ہر شے خدا کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ البتہ انسانوں میں آکر دو گروہ بن جاتے ہیں ان میں سے ایک گروہ تو دوسری اشیاء کی طرح تنزیہہ بیان کرتا ہے جب کہ دوسرا گروہ شرک کرنے لگتا ہے۔ تسبیح لسان حال سے بھی ہوتی ہے۔ اور لسان قال سے بھی۔ بعض فرماتے ہیں کہ ہر چیز کی وضع اور شکل و صورت اور اس کا کام بتلاتا ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ خدا کے ساتھ کسی چیز میں کوئی شریک نہیں ارض وسما کی ہر چیز کی حالت ہی بتارہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تسبیح بیان کررہی ہے قرآن نے اس بات کی تصریح کردی ہے وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم (بنی اسرائیل 44) ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کررہی ہے۔ مگر تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ جب ہر چیز خدا کی تسبیح بیان کرتی ہے تو انسانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی تنزیہہ بیان کریں اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کریں۔ غرضیکہ اس سورة کی ابتداء میں یہی اصول سمجھایا گیا ہے۔ فرمایا وھوالعزیز الحکیم وہ خدا تعالیٰ زبردست اور غالب ہے ، کمال قدرت اور کمال قوت کا مالک ہے ، اور اس کی ہر بات حکمت پر مبنی ہے ایک ذرے سے لے کر بڑے بڑے سیارے تک اس نے ہر چیز کمال حکمت اور خاص مصلحت کے ساتھ قائم کررکھی ہے۔ جس میں کوئی عیب اور نقص نہیں سورة الملک میں اللہ نے فرمایا ہے کہ فارجع البصر ھل تری من فطور (آیت 3) آسمان کی طرف باربار نگاہ اٹھا کر دیکھ لو مگر تم اس میں کوئی نقص یا عیب نہیں پائو گے۔ یہ اس کمال قدرت اور کمال حکمت کے مالک خداوند تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے ، اس میں کوئی عیب نہیں ہوسکتا۔ شان نزول : آگے سورة کا اصل موضوع آرہا ہے یعنی خدا کے دشمنوں سے دوستی کی ممانعت ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم ۔ اس سورة مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ روایت کرتے ہیں کہ موقع پر ہم بعض صحابہ ؓ بیٹھے تھے اور آپس ہیں باتیں کر رہے تھے ، کاش ہمیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کے نزدیک سب سے اچھا عمل کون سا ہے تاکہ ہم اس پر عمل کرسکیں۔ فرماتے ہیں کہ ہم یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لئے کسی شخص کو حضور ﷺ کی خدمت میں نہ بھیج سکے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے خود ان آدمیوں کو طلب فرمایا اور پوچھا کہ تم نے یہ بات کی ہے۔ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ پھر آپ نے ساری سورة ان کو سنادی جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ قول وفعل کا تضاد : بعض فرماتے ہیں کہ جب تک جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ اجازت ملے تو ہم دشمنوں کے خلاف جہاد کریں۔ پھر جب جہاد کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو بعض لوگوں نے کمزوری دکھائی لہٰذا اللہ نے اس کی سخت مذمت بیان کی۔ چناچہ یہاں اسی بات کا تذکرہ ہورہا ہے کہ اگر انسان کوئی دعویٰ کرے اور پھر اس پر پورا نہ اترے تو یہ بہت بری بات ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا لم تقولون ما لا تفعلون ، اے ایمان والو ! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں کبرمقتا عند اللہ ان تقلوا ما لا تفعلون ، اللہ کے نزدیک یہ بات باعث نفرت ہے کہ تم وہ کچھ کہو جو خود نہیں کرتے۔ جب ایک چیز کا دعویٰ کرتے ہو تو پھر اس کے مطابق عمل بھی کرکے دکھائو۔ اگر جہاد کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے تو پھر بزدلی نہ دکھائو حقیقت میں قول وفعل کا یہ تضاد ومنافقت کی علامت ہے۔ اس بات کا مفصل ذکر آگے سورة المنافقون میں آئے گا۔ چناچہ عملی منافق جو دنیا میں کثرت سے پائے جاتے ہیں وہ اسی تضاد کا شکار ہوتے ہیں۔ انصاف سے دیکھا جائے تو ہم اسلام کے دعویدار بھی عملی منافق ہیں۔ کوئی اکادکا آدمی اس فہرست میں نہ آتا ہو وگرنہ مجموعی طور پر ہماری یہی حالت ہے۔ حضور ﷺ نے منافق کی یہ علامت بیان فرمائی ہے اذاحدث کذب ، جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اس کا عمل اس کے قول کے مطابق نہیں ہوتا۔ حکومتوں کی پالیسیاں ، ان کے بیانات ، تقریریں تحریریں ان کے اعمال سے بالکل مختلف ہیں۔ جن چیزوں کا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے ان کا تو نام ونسان بھی ہماری زندگیوں میں نہیں ملتا۔ سب زبانی کلامی بات ہے ، عمل کچھ بھی نہیں۔ اجتماعی کام سارے منافقت پر مبنی ہیں۔ کہتے ہیں کہ غربت ختم کردیں گے ، تعلیم عام کردیں گے ، ٹی بی ختم کردیں گے مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرتے ، غربت اسی طرح ہے بلکہ بڑھ رہی ہے ، بےروزگاری عام ہے ، ہسپتالوں کا نظام ناگفتہ بہ ہے۔ سکولوں ، کالجوں میں داخلے نہیں ملتے ، بھلا ان کے دعوئوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ زبانی باتیں کرتے ہیں ، عملی ثبوت کوئی نہیں پیش کرتے۔ حدود آرڈیننس تو جاری ہوگیا۔ مگر اغواہ ، بدکاری اور بیحیائی تو اسی طرح ہے۔ کیا جرائم ختم ہوگئے ہیں ؟ کیا لوگ آرام کی نیند سو رہے ہیں ؟ کیا دن دیہاڑے ڈاکے نہیں پڑ رہے ہیں۔ اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر تمہارے دعوے کہاں گئے جن میں کہتے ہو کہ ملک کو امن وامان کا گہوارہ بنادیں گے ، بےروزگاری ختم ہوجائے گی ، کوئی بچہ تعلیم کے بغیر نہیں رہے گا اور ہر مریض کو علاد معالجے کی سولتیں حاصل ہوں گی۔ یہی تضاد بیانی ہے اور اسی کا نام منافقت ہے۔ جو ہر فرد میں پائی جاتی ہے اور بحیثیت مجموعی ہر جماعت اور ہر حکومت میں عیاں ہے اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ؟ منافقت سے تکالیف دور نہیں ہوتیں بلکہ مصائب کا علاج سچائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ تضاد بیانی غیر مسلم اقوام میں تو ہے ہی ، روس ، امریکہ ، جاپان ، جرمنی ، برطانیہ ، فرانس سب تضاد بیانی کا شکار ہیں ، نہ کوئی کافر اس سے بچا ہوا ہے ، نہ یہودی ، نہ نصرانی ، نہ دہریہ اور نہ مسلمان۔ سارا معاشرہ ہی بگڑا ہوا ہے تاجر ہوں یا صنعت کار ، ملازم پیشہ لوگ ہوں یا مزدور سب اس بیماری میں مبتلا ہیں اعلان کرتے ہیں کہ رشوت کا قلع قمع کردیں گے مگر کب ؟ کوئی کام رشوت کے بغیر انجام نہیں پاتا۔ کوئی تو مجبوری سے اس لعنت میں گرفتار ہے اور کوئی اپنے اختیار اور ارادے سے اس دھندے میں لگا ہوا ہے۔ الغرض ! اللہ نے فرمایا کہ اے ایمان والو ! جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں۔ یہ تضاد بیانی اللہ کے ہاں سخت نفرت والی بات ہے۔ صف بندی کی اہمیت : آگے اللہ نے جہاد کے ضمن میں صف بندی کی اہمیت کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا ، بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں اور اس وقت ان کی حالت یہ ہوتی ہے کانھم بنیان مرصوص ، گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہیں۔ مضبوط دیوار وہ ہوتی ہے جو اینٹ سیمنٹ ، پتھروغیرہ سے بنائی جائے اور جس میں کوئی رخنہ نہ ہو۔ ایک اینٹ دوسری کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ پھنسی ہوئی ہو۔ تو مجاہدین کی صفیں بھی ایسی ہی مضبوط ہونی چاہئیں جن میں کوئی رخنہ نہ ہو اور وہ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔ صف بندی سے متعلق حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ان اللہ یضحک ، اللہ تعالیٰ ہنستا ہے یعنی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس شخص کو جو رات کو اٹھ کر اس کی کی عبادت کرتا ہے جب کہ باقی لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نماز کے لئے صف بندی کرنے والوں کو بھی استحسان کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان ایمان والوں کو بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے جو دشمن کے مقابلے میں صف بند کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ دو مواقع کی صفیں اللہ کے نزدیک بڑی اہمیت رکھتی ہیں ، ایک نماز کے موقع پر اور دوسری جہاد کے موقع پر۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیشہ نظم ونسق کو برقرار رکھنا چاہیے اور کسی بدنظمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حضور ﷺ میدان جنگ میں مجاہدین کی صفیں اور مسجد میں نمازیوں کی صفیں خود سیدھی فرمایا کرتے تھے تاکہ کوئی رخنہ باقی نہ رہے۔ صف بندی کے عنوان سے دراصل نظم ونسق کی تعلیم دی گئی ہے۔ انسانی زندگی کے تمام کام نظم وضبط کے ساتھ انجام پانے چاہئیں۔ یہاں پر جہاد کے لئے صف بندی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے تاکہ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے مجاہدوں کو پسند کرتا ہے جو اللہ کے راستے میں صف باندھ کر مقابلہ کرتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہیں۔
Top