بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
پاکی بیان کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے جو کچھ بھی ہے آسمان میں اور جو کچھ ہے زمین میں۔ اور وہ زبردست اور حکمت والا ہے
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سورة الصف ہے جو اس کی چوتھی آیت میں آمدہ لفظ الصف سے موسوم ہے۔ صف قطار کو کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورة میں جہاد کے لئے صف بندی کا ذکر ہے ، لہٰذا اس سورة کا نام الصف رکھا گیا ہے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ مدنی زندگی میں یہ سورة …سورۃ التغابن کے بعد نازل ہوئی حالانکہ ترتیب تلاوت کے لحاظ سے یہ اس سے پہلے ہے۔ اس سورة مبارکہ کی چودہ آیات اور دو رکوع ہیں اور یہ سورة 221 الفاظ اور 926 حروف پر مشتمل ہے۔ سابقہ سورة کے ساتھ ربط : گزشتہ سورة الممتحنہ میں خدا ، اس کے رسول ، اس کے دین اور اس کی طرف سے آمدہ پروگرام کے دشمنوں سے دوستی کی ممانعت کی گئی تھی۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ ایک صحابی رسول سے یہ غلطی ہوگئی تھی کہ اس نے اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کی خاطر کفار مکہ کو مسلمانوں کے راز سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اللہ نے اس ضمن میں سخت تنبیہ فرمائی کہ یہ لوگ تمہارے کبھی دوست نہیں ہوسکتے۔ اگر انہیں کبھی تم پر تسلط حاصل ہوگیا تو یہ تمہیں تمہارے ایمان کی سزا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ فرمایا غیر حربی کافروں سے تو احسان کیا جاسکتا ہے۔ مگر وہ حربی کافر جو تمہیں ہجرت پر مجبور کرتے ہیں ان کے ساتھ کسی طرح بھی دوستی نہیں ہوسکتی۔ اب اس سورة میں ایک قدم اور بڑھ کر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں۔ اسلام کے پروگرام کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور دین حق کو مٹاناچاہتے ہیں ان کے ساتھ جہاد کرنا ضروری ہے۔ تاکہ اس فتنہ کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ گویا اس سورة میں جانبازی اور سرفروشی کا حکم دیا گیا ہے۔ توحید کا بیان : سورۃ کا آغاز توحید کے بیان سے ہوتا ہے جو دین کی جڑ بنیاد ہے اور جس کے ذریعے انسانی فکر صحیح ہوتی ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان کو بلندی نصیب ہوتی ہے۔ اگر توحید میں کوئی خلل واقع ہوجائے تو انسان کا کوئی عمل اور کوئی نیکی قابل اعتماد نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کو نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ اسی لئے اللہ نے سب سے پہلے توحید کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے سبح للہ مافی السموت ومافی الارض ، پاکی بیان کرتی ہے جو مخلوق بھی ہے آسمانوں اور زمین میں۔ تسبیح کا معنی تنزیہہ ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے شرک ، کمزوری عیب اور احتیاج سے پاک ہے ، غرضیکہ اللہ کی ذات ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ جب ہم لفظ اللہ بولتے ہیں تو اس میں یہ ساری حقیقت آجاتی ہے۔ علم عقائد والے سمجھاتے ہیں کہ اللہ سے مراد ایک ایسی ذات ہے ، جو ازلی ، ابدی قائم اور دائم ہے۔ اس کا وجود بذاتہ ہے اور وہ تمام صفات کمال کی جامع ہے۔ جب کوئی مسلمان اپنی زبان سے سبحان اللہ کہتا ہے یا سبح للہ کہتا ہے تو اس کا مفہوم یہی ہوتا ہے کہ ذات خداوندی تمام صفات کمال کے ساتھ موصوف ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ آتا ہے سبحن اللہ عما یشرکون خدا کی ذات پاک ہے ان چیزوں سے جن کو یہ لوگ اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہیں۔ کوئی اللہ کی ذات میں شریک بناتا ہے ، کوئی صفات میں کوئی عبادت میں ، کوئی نذر ونیاز میں ، کوئی نام رکھنے میں ، کوئی دہائی دینے میں ، کوئی پکارنے میں ، کوئی انتہائی تعظیم کرنے میں۔ یہ سب کفر اور شرک کی باتیں ہیں۔ کسی مخلوق کے سامنے ایسی تعظیم کرنا جو صرف خداوند قدوس کے لائق ہے ، صریح شرک ہے۔ دنیا میں شرک کی مختلف قسمیں رائج ہیں۔ اللہ نے سورة الانعام میں ان تمام قسموں کو بیان کردیا ہے۔ کبھی مال میں شرک ہوتا ہے ، کبھی افعال میں اور کبھی عقائد میں۔ خدا تعالیٰ کی صفات مختصہ کو مخلوق میں ثابت کرکے لوگ مشرک بن جاتے ہیں لہٰذا شرک کی ہر قسم سے بیزاری کا اعلان کرنا ضروری ہے۔ پچھلی سورة میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں کا یہ اعلان گزر چکا ہے انا براء ئوامنکم ومما تعبدون من دون اللہ (الممتعنہ 4) ہم تم سے بھی بیزار ہیں اور ان سے بھی جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو۔ اور ہماری یہ بیزاری اس وقت تک قائم رہے گی حتیٰ تو منوا باللہ وحدہ یہاں تک کہ تم خدائے واحد پر ایمان لے آئو۔ خدا تعالیٰ کی تسبیح : فرمایا کہ ہر چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح یعنی تنزیہہ بیان کرتی ہے۔ قرآن میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ شجر ، حجر ، آسمانی کرے ، جانور ، کیڑے مکوڑے غرضیکہ مخلوق کی ہر شے خدا کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ البتہ انسانوں میں آکر دو گروہ بن جاتے ہیں ان میں سے ایک گروہ تو دوسری اشیاء کی طرح تنزیہہ بیان کرتا ہے جب کہ دوسرا گروہ شرک کرنے لگتا ہے۔ تسبیح لسان حال سے بھی ہوتی ہے۔ اور لسان قال سے بھی۔ بعض فرماتے ہیں کہ ہر چیز کی وضع اور شکل و صورت اور اس کا کام بتلاتا ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ خدا کے ساتھ کسی چیز میں کوئی شریک نہیں ارض وسما کی ہر چیز کی حالت ہی بتارہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تسبیح بیان کررہی ہے قرآن نے اس بات کی تصریح کردی ہے وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم (بنی اسرائیل 44) ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کررہی ہے۔ مگر تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ جب ہر چیز خدا کی تسبیح بیان کرتی ہے تو انسانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی تنزیہہ بیان کریں اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کریں۔ غرضیکہ اس سورة کی ابتداء میں یہی اصول سمجھایا گیا ہے۔ فرمایا وھوالعزیز الحکیم وہ خدا تعالیٰ زبردست اور غالب ہے ، کمال قدرت اور کمال قوت کا مالک ہے ، اور اس کی ہر بات حکمت پر مبنی ہے ایک ذرے سے لے کر بڑے بڑے سیارے تک اس نے ہر چیز کمال حکمت اور خاص مصلحت کے ساتھ قائم کررکھی ہے۔ جس میں کوئی عیب اور نقص نہیں سورة الملک میں اللہ نے فرمایا ہے کہ فارجع البصر ھل تری من فطور (آیت 3) آسمان کی طرف باربار نگاہ اٹھا کر دیکھ لو مگر تم اس میں کوئی نقص یا عیب نہیں پائو گے۔ یہ اس کمال قدرت اور کمال حکمت کے مالک خداوند تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے ، اس میں کوئی عیب نہیں ہوسکتا۔ شان نزول : آگے سورة کا اصل موضوع آرہا ہے یعنی خدا کے دشمنوں سے دوستی کی ممانعت ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم ۔ اس سورة مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ روایت کرتے ہیں کہ موقع پر ہم بعض صحابہ ؓ بیٹھے تھے اور آپس ہیں باتیں کر رہے تھے ، کاش ہمیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کے نزدیک سب سے اچھا عمل کون سا ہے تاکہ ہم اس پر عمل کرسکیں۔ فرماتے ہیں کہ ہم یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لئے کسی شخص کو حضور ﷺ کی خدمت میں نہ بھیج سکے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے خود ان آدمیوں کو طلب فرمایا اور پوچھا کہ تم نے یہ بات کی ہے۔ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ پھر آپ نے ساری سورة ان کو سنادی جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ قول وفعل کا تضاد : بعض فرماتے ہیں کہ جب تک جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ اجازت ملے تو ہم دشمنوں کے خلاف جہاد کریں۔ پھر جب جہاد کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو بعض لوگوں نے کمزوری دکھائی لہٰذا اللہ نے اس کی سخت مذمت بیان کی۔ چناچہ یہاں اسی بات کا تذکرہ ہورہا ہے کہ اگر انسان کوئی دعویٰ کرے اور پھر اس پر پورا نہ اترے تو یہ بہت بری بات ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا لم تقولون ما لا تفعلون ، اے ایمان والو ! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں کبرمقتا عند اللہ ان تقلوا ما لا تفعلون ، اللہ کے نزدیک یہ بات باعث نفرت ہے کہ تم وہ کچھ کہو جو خود نہیں کرتے۔ جب ایک چیز کا دعویٰ کرتے ہو تو پھر اس کے مطابق عمل بھی کرکے دکھائو۔ اگر جہاد کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے تو پھر بزدلی نہ دکھائو حقیقت میں قول وفعل کا یہ تضاد ومنافقت کی علامت ہے۔ اس بات کا مفصل ذکر آگے سورة المنافقون میں آئے گا۔ چناچہ عملی منافق جو دنیا میں کثرت سے پائے جاتے ہیں وہ اسی تضاد کا شکار ہوتے ہیں۔ انصاف سے دیکھا جائے تو ہم اسلام کے دعویدار بھی عملی منافق ہیں۔ کوئی اکادکا آدمی اس فہرست میں نہ آتا ہو وگرنہ مجموعی طور پر ہماری یہی حالت ہے۔ حضور ﷺ نے منافق کی یہ علامت بیان فرمائی ہے اذاحدث کذب ، جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اس کا عمل اس کے قول کے مطابق نہیں ہوتا۔ حکومتوں کی پالیسیاں ، ان کے بیانات ، تقریریں تحریریں ان کے اعمال سے بالکل مختلف ہیں۔ جن چیزوں کا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے ان کا تو نام ونسان بھی ہماری زندگیوں میں نہیں ملتا۔ سب زبانی کلامی بات ہے ، عمل کچھ بھی نہیں۔ اجتماعی کام سارے منافقت پر مبنی ہیں۔ کہتے ہیں کہ غربت ختم کردیں گے ، تعلیم عام کردیں گے ، ٹی بی ختم کردیں گے مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرتے ، غربت اسی طرح ہے بلکہ بڑھ رہی ہے ، بےروزگاری عام ہے ، ہسپتالوں کا نظام ناگفتہ بہ ہے۔ سکولوں ، کالجوں میں داخلے نہیں ملتے ، بھلا ان کے دعوئوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ زبانی باتیں کرتے ہیں ، عملی ثبوت کوئی نہیں پیش کرتے۔ حدود آرڈیننس تو جاری ہوگیا۔ مگر اغواہ ، بدکاری اور بیحیائی تو اسی طرح ہے۔ کیا جرائم ختم ہوگئے ہیں ؟ کیا لوگ آرام کی نیند سو رہے ہیں ؟ کیا دن دیہاڑے ڈاکے نہیں پڑ رہے ہیں۔ اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر تمہارے دعوے کہاں گئے جن میں کہتے ہو کہ ملک کو امن وامان کا گہوارہ بنادیں گے ، بےروزگاری ختم ہوجائے گی ، کوئی بچہ تعلیم کے بغیر نہیں رہے گا اور ہر مریض کو علاد معالجے کی سولتیں حاصل ہوں گی۔ یہی تضاد بیانی ہے اور اسی کا نام منافقت ہے۔ جو ہر فرد میں پائی جاتی ہے اور بحیثیت مجموعی ہر جماعت اور ہر حکومت میں عیاں ہے اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ؟ منافقت سے تکالیف دور نہیں ہوتیں بلکہ مصائب کا علاج سچائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ تضاد بیانی غیر مسلم اقوام میں تو ہے ہی ، روس ، امریکہ ، جاپان ، جرمنی ، برطانیہ ، فرانس سب تضاد بیانی کا شکار ہیں ، نہ کوئی کافر اس سے بچا ہوا ہے ، نہ یہودی ، نہ نصرانی ، نہ دہریہ اور نہ مسلمان۔ سارا معاشرہ ہی بگڑا ہوا ہے تاجر ہوں یا صنعت کار ، ملازم پیشہ لوگ ہوں یا مزدور سب اس بیماری میں مبتلا ہیں اعلان کرتے ہیں کہ رشوت کا قلع قمع کردیں گے مگر کب ؟ کوئی کام رشوت کے بغیر انجام نہیں پاتا۔ کوئی تو مجبوری سے اس لعنت میں گرفتار ہے اور کوئی اپنے اختیار اور ارادے سے اس دھندے میں لگا ہوا ہے۔ الغرض ! اللہ نے فرمایا کہ اے ایمان والو ! جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں۔ یہ تضاد بیانی اللہ کے ہاں سخت نفرت والی بات ہے۔ صف بندی کی اہمیت : آگے اللہ نے جہاد کے ضمن میں صف بندی کی اہمیت کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا ، بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں اور اس وقت ان کی حالت یہ ہوتی ہے کانھم بنیان مرصوص ، گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہیں۔ مضبوط دیوار وہ ہوتی ہے جو اینٹ سیمنٹ ، پتھروغیرہ سے بنائی جائے اور جس میں کوئی رخنہ نہ ہو۔ ایک اینٹ دوسری کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ پھنسی ہوئی ہو۔ تو مجاہدین کی صفیں بھی ایسی ہی مضبوط ہونی چاہئیں جن میں کوئی رخنہ نہ ہو اور وہ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔ صف بندی سے متعلق حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ان اللہ یضحک ، اللہ تعالیٰ ہنستا ہے یعنی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس شخص کو جو رات کو اٹھ کر اس کی کی عبادت کرتا ہے جب کہ باقی لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نماز کے لئے صف بندی کرنے والوں کو بھی استحسان کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان ایمان والوں کو بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے جو دشمن کے مقابلے میں صف بند کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ دو مواقع کی صفیں اللہ کے نزدیک بڑی اہمیت رکھتی ہیں ، ایک نماز کے موقع پر اور دوسری جہاد کے موقع پر۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیشہ نظم ونسق کو برقرار رکھنا چاہیے اور کسی بدنظمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حضور ﷺ میدان جنگ میں مجاہدین کی صفیں اور مسجد میں نمازیوں کی صفیں خود سیدھی فرمایا کرتے تھے تاکہ کوئی رخنہ باقی نہ رہے۔ صف بندی کے عنوان سے دراصل نظم ونسق کی تعلیم دی گئی ہے۔ انسانی زندگی کے تمام کام نظم وضبط کے ساتھ انجام پانے چاہئیں۔ یہاں پر جہاد کے لئے صف بندی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے تاکہ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے مجاہدوں کو پسند کرتا ہے جو اللہ کے راستے میں صف باندھ کر مقابلہ کرتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہیں۔
Top