Mualim-ul-Irfan - As-Saff : 14
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ كَفَرَتْ طَّآئِفَةٌ١ۚ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو كُوْنُوْٓا : ہوجاؤ اَنْصَارَ اللّٰهِ : اللہ کے مددگار كَمَا قَالَ : جیسے کہا تھا عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ : عیسیٰ ابن مریم نے لِلْحَوَارِيّٖنَ : حواریوں سے مَنْ اَنْصَارِيْٓ : کون میرا مددگار ہوگا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ : حواریوں نے کہا نَحْنُ : ہم ہیں اَنْصَارُ اللّٰهِ : اللہ کے مددگار فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَةٌ : تو ایمان لایا ایک گروہ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل میں سے وَكَفَرَتْ طَّآئِفَةٌ : اور انکار کردیا ایک گروہ نے فَاَيَّدْنَا : تو تائید کی ہم نے۔ مدد کی ہم نے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ان لوگوں کی جو ایمان لائے عَلٰي : اوپر عَدُوِّهِمْ : ان کے دشمنوں کے فَاَصْبَحُوْا : تو ہوگئے وہ ظٰهِرِيْنَ : غالب آنے والے
اے ایمان والو ! ہو جائو اللہ کے مددگار جیسا کہ کہا عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کے راستے میں ، تو کہا حواریوں نے کہ ہم اللہ کی مددگار ہیں۔ پس ایمان لایا ایک گروہ بنی اسرائیل میں سے اور کفر کیا ایک گروہ نے۔ پس ہم نے تائید کی ان لوگوں کی جو ایمان لائے ، ان کے دشمنوں کے مقابلے میں پس ہوگئے وہ غالب آنے والا
ربط آیات : گزشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ نے دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے سلسلے میں فرمایا کہ اس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کہ غلبہ ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ پھر اللہ نے ایک ایسی تجارت کا ذکر کیا۔ جس میں خسارے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ابدی فائدہ ہے۔ فرمایا یہ تجارت اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور اس کے راستے میں مال وجان کے ساتھ جہاد کرنا ہے۔ فرمایا اس تجارت کا فائدہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ پر ہوگا۔ آخرت کا فائدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کرکے تمہیں بہشتوں میں داخل کرے گا ، جہاں پاکیزہ مکانات میں ہر طرح کا آرام و آسائش حاصل ہوگا اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ پھر اللہ نے دنیاوی فائدے کے متعلق فرمایا کہ اللہ کی مدد تمہارے شامل حال ہوگی اور تمہیں دشمن کے مقابلے میں فتح حاصل ہوگی۔ انصار اللہ کا گروہ : آج کے درس میں اللہ نے ایمان والوں سے خطاب فرمایا ہے کہ اگر تم نفع بخش تجارت کے خواہشمند ہو تو پھر اللہ کے گروہ میں شامل ہوجائو۔ ارشاد ہوتا ہے۔ یایھا الذین امنو اے ایمان والو ! کونوا انصار اللہ ، ہو جائو اللہ کے مددگار۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے دین اور اس کے رسول کے مددگار بن کر اللہ کے حکم کی تعمیل کرو۔ اور دین کی تائید وتقویت ، اس کی نشرواشاعت اور قیام وبقا کے لئے محنت کرو۔ تو انصار اللہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کے دین کی خاطر اس کے گروہ میں شامل ہوجائیں گے۔ آگے اللہ نے اس گروہ سے متعلق عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال بیان فرمائی ہے کما قال عیسیٰ ابن مریم للحوارین من انصاری الی اللہ ، جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) نے حواریوں سے کہا کہ اللہ کے راستے میں میرا کون مددگار ہے ؟ اس کے جواب میں قال الحواریون نحن انصار اللہ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ چناچہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری اللہ کے دین کے مددگار بن کر عیسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق دین کی تائید اور نشرواشاعت کرتے تھے تو اللہ نے آخرت امت کے ایمان والوں کو بھی یہی حکم دیا ہے کہ اللہ کے دین کے مددگار بن جائو ، جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری دین کے مددگار بن گئے تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری : حواری حور کے مادہ سے ہے ۔ عربی میں حور سفیدی کو کہتے ہیں حورعین کا تعلق بھی اسی مادے سے ہے۔ حواری اس مخلص آدمی کو کہتے ہیں جس کے دل میں صفائی ہو اور وہ پاکیزہ محبت رکھتا ہو۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری مالدار لوگ نہیں تھے بلکہ غریب غربا لوگ تھے۔ البتہ مخلص ضرور تھے۔ حواری آٹے سے نکالے ہوئے میدے کو بھی کہتے ہیں جو چھلکے وغیرہ سے پاک اور سفید ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری ہوتا رہا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرا حواری میرا پھوپھی زاد بھائی زبیر بن عوام ؓ ہے جو بڑا بہادر آدمی تھا اور جس نے اسلام کے لئے بڑی قربانیاں پیش کیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے کچھ حواری تو مچھلیاں پکڑنے والے تھے۔ جب آپ ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا ، تم مچھلیاں کیا پکڑتے ہو آئو میں تمہیں انسانوں کو پکڑنا سکھا دوں۔ اسی طرح حواریوں میں سے کچھ لوگ دھوبی تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ میرے ساتھ آئو میں تمہیں انسانوں کے دلوں کی صفائی کرنا سکھادوں۔ بہرحال عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارہ حواری بہت مشہور ہوئے ہیں۔ یہ بڑے مخلص لوگ تھے ، آپ نے انہی کے ذریعہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ ان کو اسرائیلیوں کے پاس بھی بھیجا گیا اور یونانیوں کے پاس بھی۔ کلمہ حق سنانے کی پاداش میں لوگ ان کو مارتے تھے حتیٰ کہ بعض کو قتل بھی کردیا گیا ۔ غرضیکہ ان لوگوں نے بڑی تکالیف اٹھائیں۔ مسیح (علیہ السلام) کے رفع الی السماء کے بعد یھی یہ لوگ تبلیغ کا کام کرتے رہے تاہم بعد میں بگاڑ پیدا ہونا شروعہوگیا۔ شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) لکھتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے بڑی محنت و کاوش سے دین کی آبیاری کی اور دین کی نشرواشاعت کرتے رہے۔ حضور ﷺ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد خلفائے راشدین ؓ نے بھی وہی کام کیا جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے کیا۔ بہرحال سمجھانا یہ مقصود ہے کہ فائدہ مند تجارت کے لئے نبی کے حواری بننا ضروری ہے تاکہ دین کی اشاعت کا کام جاری رہ سکے۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام ؓ : حضور ﷺ کے ساتھی آپ کے صحابہ کرام ؓ کہلائے۔ انہوں نے دین حق کی خاطر وہ قربانی ، ایثار اور خلوص پیش کیا جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری بھی نہ پیش کرسکے ، خود عیسائی مورخ سرولیم میور مصنف نے (Life Af Muhammad) میں صریح طور پر اعتراف کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں اور حضور ﷺ کے صحابہ ؓ کا کوئی تقابل نہیں ، کیونکہ صحابہ کرام ؓ حواریوں سے ہر کام میں آگے تھے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں حضور ﷺ اور دین اسلام کی سخت مخالفت کی گئی۔ آپ تبلیغ حق کے لئے منی ، عکاظ یا ذوالمجاز وغیرہ مقامات پر لگنے والی منڈیوں اور میلوں میں جاتے۔ آپ باہر سے آنے والے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے اور مکہ والوں کی سخت مخالفت کے پیش نظر باہر کے لوگوں کو کہتے کہ کون ہے جو میری حفاظت کرے گا۔ تاکہ میں خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچائوں۔ اس کے جواب میں بعض لوگ آپ کی مدد کے لئے تیار بھی ہوتے مگر قریش مکہ ان کو روک دیتے اور ورہ خوفزدہ ہو کر چلے جاتے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کو اس کام پر مامور فرمایا۔ وہ حج کے موقع پر مکہ آئے تو انہوں نے کہا کہ وہ آپ کی ہر طریقے سے مدد کریں گے۔ کہنے لگے کہ ہم اسودہ احمر کے مقابلہ میں آپ کی تائید کریں گے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں تھا کہ حضور ﷺ ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو اہل مدینہ نے آپ کی پوری پوری مدد کی۔ ادھر مکہ کے مہاجر بھی تھے ان سب نے حضور ﷺ کی تائید کی اور آپ کے حواری بن گئے۔ عیسائی فرقے : جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھالیا تو دین میں بگاڑ شروع ہوگیا اور آپ کے پیروکار مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک فرقے نے مسیح (علیہ السلام) کو خدا کہہ دیا ، یہ فرقہ یعقوبی کہلایا۔ دوسرے فرقے نے کہا کہ مسیح (علیہ السلام) خا نہیں بلکہ خدا کے بیٹے تھے۔ وہ ہمارے درمیان کچھ عرصہ کے لئے آئے اور پھر چلے گئے۔ یہ نسطوری فرقہ تھا۔ تیسرا فرقہ تثلیت کا قائل تھا اس نے باپ ، بیٹا اور روح القدس کا عقیدہ بنالیا۔ البتہ ایک فرقہ ایسا بھی تھا جو کہتا تھا کہ مسیح (علیہ السلام) نہ تو خدا تھے ، نہ اس کے بیٹے بلکہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ جب تک خدا نے چاہا ان کو زمین پر رکھا ، پھر جب چاہا اٹھالیا یہ فرقہ اہل ایمان کا تھا۔ اب یہ فرقے آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے اور اہل ایمان کے خلاف بہت زیادہ غلو کرنے لگے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ اہل ایمان مغلوب رہے حتیٰ کہ اللہ نے حضور ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ اہل ایمان نے آپ کو حق پر پایا اور آپ پر بھی ایمان لے آئے۔ اس طرح اللہ نے ان کو دلیل وبرہان کے اعتبار سے بھی اور اجتماعی اعتبار سے بھی غلبہ عطا فرمایا۔ اسی بات کا ذکر اللہ نے یہاں کیا ہے فامنت طائفۃ من بنی اسرائیل پس نبی نسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آثا وکفرت طائفۃ اور ایک گروہ نے کفر کیا۔ جو لوگ حضور ﷺ پر ایمان نہ لائے بلکہ عقیدہ ابنیت یا الوہیت یا تثلیث پر اڑے رہے انہوں نے گویا کفر کا شیوہ اختیار کیا۔ اور ایمان لانے والا وہی فرقہ تھا۔ جنہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول مانا ، اور یہ عقیدہ اختیار کیا تھا کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ ہیں۔ جنہیں اس نے فرشتے کے ذریعے حضرت مریم ؓ کے گریبان میں پھونکا تو حمل قرار پایا۔ اور اللہ نے آپ کو اپنی قدرت کاملہ سے بغیر باپ کے پیدا کردیا۔ یہ کامل درجے کا انسان ، صاحب کتاب اور صاحب شریعت نبی تھا۔ اہل ایمان کی تائید : اللہ نے فرمایا فاید ناالذین امنوا علی عدوھم فاصبحوا ظاھرین ، پس ہم نے تائید کی ان لوگوں کی جو ایمان لائے ان کے دشمنوں کے مقابلے میں پس ہوگئے۔ وہ غالب آنے والے۔ یعنی بلحاظ دلیل اور بلحاظ اجتماعیت دونوں طریقوں سے اہل ایمان کو ہی غلبہ حاصل رہا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ غلبہ بلحاظ دلیل حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول تک برابر قائم رہے گا۔ مگر اجتماعی غلبہ اس وقت حاصل ہوگا جب اہل اسلام وہ شرط پوری کریں گے جس کا ذکر اللہ نے سورة نور میں کیا ہے کہ وہ خالص میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ اسلام کے اجتماعی نظام کے لئے صحابہ کرام ؓ ، خلفائے راشدین ؓ ، پھر تابعین ، تبع تابعین اور سلف صالحین نے بڑی کوشش کی مگر بعد میں اجتماعی نظام میں ملوکیت دخیل ہوگی۔ جس کی وجہ سے یہ نظام خراب ہوگیا اور آج تک اپنی اصلی حالت پر نہیں آسکا۔ آج دنیا میں مسلمانوں کی پچاس ریاستیں ہیں لیکن ان میں اسلام برائے نام ہی ہے۔ اسلام کا مکمل نظام کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ تمام ملکوں میں کافروں ، دہر یول ، یہودیوں اور عیسائیوں کے نظام حکومت چل رہے ہیں۔ موجودہ حکمران اسلام کے نظام کو پسند ہی نہیں کرتے۔ غیراقوام کی دیکھا یہ بھی کہنے لگے کہ اسلام کا نظام فرسودہ ہوچکا ہے اور یہ موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نظام سے بہتر دنیا میں کوئی نظام نہیں مگر یہ لوگ اس کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ دین کو سمجھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔ غرضیکہ یہ لوگ اغیار کے نظام کو ہی بہتر خیال کرتے ہیں اور اس کو رائج کرتے ہیں۔ اس دور میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں یا حضور ﷺ کے صحابہ ؓ اور سلف صالحین کی بات کہیں پر نہیں ہے۔ اس وقت باالعموم نہ ہمارے امام درست ہیں ، نہ علماء نہ پیر ، نہ دولت مند اور نہ صاحب جاہ واقتدار ، سب کے سب بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کے لشکر میں شامل ہونے اور اللہ کے دین کے مددگار بننے والی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ اغیار کو ہم پر شب خون مارنے کا زیادہ موقع مل رہا ہے۔ انہوں نے صرف ہمیں ظاہر غلبے سے محروم کردیا ہے بلکہ وہ ہمارے ایمان پر بھی مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ کہیں عیسائیت کو ترقی حاصل ہورہی ہے۔ اور کہیں اشتراکیت چھارہی ہے۔ ہر طرف بےدینی اور الحاظ کا دور دروہ ہے کیونکہ آگے میدان خالی ہے۔ مسلمان اپنی اپنی اغراض کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ، کسی کا مقصد دولت کمانا ہے اور کسی کا مقصد اقتدار حاصل کرنا ہے ھل ادلکم علی تجارۃ ، والا تو مقصدہی فوت ہوچکا ہے۔ اب نہ وہ ایمان باقی رہا ہے اور نہ یقین۔ نہ ہمارا عمل صحیح ہے اور نہ جان ومال کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ان حالات میں نہ کوئی انصار اللہ میں شمولیت کا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ اسے تائید خداوندی حاصل ہوسکتی ہے۔ بہرحال اللہ نے ترغیب دی ہے کہ اگر ابدی فلاح حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر اللہ کے گروہ میں شامل ہو کر سردھڑ کی بازی لگانا ہوگی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں اور حضور ﷺ کے صحابہ ؓ نے محنت اور کوشش کی ، دین کی خاطر قربانیاں پیش کیں تو دنیا میں اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ جب سے مسلمانوں نے انصار اللہ کی رکنیت ترک کردی ہے ان پر اجتماعی زوال طاری ہوگیا۔
Top