Mualim-ul-Irfan - As-Saff : 10
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ : اے لوگو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے ہو هَلْ اَدُلُّكُمْ : کیا میں رہنمائی کروں تمہاری عَلٰي تِجَارَةٍ : اوپر ایک تجارت کے تُنْجِيْكُمْ : بچائے تم کو مِّنْ عَذَابٍ : عذاب سے اَلِيْمٍ : دردناک
اے ایمان والو ! کیا میں بتلائوں تم کو ایسی تجارت جو تم کو بجا لے درد ناک عذاب سے
ربط آیات : پچھلی آیت میں ذکر تھا کہ اللہ نے اپنے برگزیدہ رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر مبعوث فرمایا ہے تاکہ اس دین کو تمام ادیان کے مقابلے میں غالب کردے خواہ مشرک لوگ اس کو ناپسندہی کریں۔ اللہ کے نزدیک سچا دین یہی دین اسلام ہے لہٰذا منشائے خداوندی یہی ہے کہ یہ دین باقی تمام ادیان پر غالب ہو۔ یہ غلبہ باعتبار دلیل اور برہان تو ہر وقت حاصل رہا ہے ، اور موجودہ دور میں بھی یہ غلبہ قائم ہے۔ مگر جس غلبہ کی بات یہاں ہورہی ہے اس سے ظاہری غلبہ مراد ہے یعنی اسلام کے نظام اور قانون کو بھی تمام ادیان عالم اور قوانین کے مقابلے میں غالب قرار دیاجائے… اور اس کو برتری حاصل ہو۔ اب اس مقصد کے حصول کے لئے عملی جدوجہد کرنا اللہ کے نبی اور اس کے پیروکاروں کا کام ہے چناچہ سورة الفتح میں اللہ نے اس برگزیدہ جماعت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جنہوں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ محمد رسول…………………بینھم (آیت 28) حضرت محمد ﷺ اللہ کے برگزیدہ سچے اور آخری رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں یعنی صحابہ کرام ؓ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں اور آپس میں رحمدل ہیں۔ اولین جماعت صحابہ کرام ؓ کی تھی۔ جس نے کفر کا مقابلہ کرکے دین اسلام کو ظاہری طور پر بھی غالب بنایا۔ اور پھر ان کے بعد یہ ذمہ داری جماعت المسلمین پر عائدہوتی ہے کہ وہ دین حق کو دوسرے ادیان پر غالب رکھیں۔ ظاہر ہے کہ اس عظیم مقصد کے لئے بڑی جدوجہد اور جانی ومالی قربانی کی ضرورت ہے۔ ابتدائی دور میں اللہ نے دین اسلام کو ہر لحاظ سے دوسرے ادیان پر غالب کردیا مگر جب انحطاط پیدا ہوا تو مسلمانوں میں کمزوری آگئی اور دین کو عمومی غلبہ حاصل نہ رہا۔ چناچہ انحطاط کا یہ دور آج تک چل رہا ہے۔ اب اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دوباتوں کی تلقین فرما کر باور کرایا ہے کہ اگر تم یہ دوکام کر لوگ گے تو تم ہمیشہ کے عذاب سے بچ جائو گے۔ ان دو امور میں سے ایک ایمان ہے جس سے انسان کی انفرادی زندگی کی اصلاح ہوتی ہے ، اور دوسرا جہاد فی سبیل اللہ ہے جس سے اجتماعی اصلاح اور غلبہ دین حاصل ہوتا ہے۔ اللہ اور رسول پر ایمان : ارشا د ہوتا ہے یایھا الذین امنوا اے ایمان والو ! ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم ، کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتلائوں جو تمہیں آخرت کے درد ناک عذاب سے بچا لے ؟ یہ ایک ایسی تجارت ہے جس میں کبھی نقصان نہیں ہوگا بلکہ انسان کامیاب وکامران ہوجائے گا۔ اس نفع بخش تجارت کا پہلا اصول یہ ہے تومنون باللہ ورسولہ کہ تم ایمان لائو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر پختہ طریقے سے یقین کرو اور قلب کی گہرائیوں سے تصدیق کرو کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ، خالق ، مالک ، مدبر ، الٰہ اور مستحق عبادت ہے۔ وہ تمام صفات کمال کے ساتھ متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے مبرا اور منزہ ہے۔ وہ وحدہ لاشریک ہے۔ اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ وہ علیم کل ، قادر مطلق ، نفاع وضار ہے وہ اپنی ساری کائنات کا مالک ، مختار اور بلا شرکت غیر سے متصرف ہے۔ ایمان کا دوسرا جزو ایمان بالرسول ہے۔ حضور خاتم النبیین ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور برگزیدہ نبی اور رسول ہیں۔ اللہ نے آپ پر عظیم کتاب قرآن کریم نازل فرمائی ہے۔ آپ پوری کائنات کے سردار اور تمام بنی آدمی اور ملائکہ مقربین سے افضل ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حبیب اور صاحب مقام محمود ہیں۔ اسی طرح تمام انبیاء اور رسل پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اللہ نے ہر دور میں مخلوق کی ہدایت کے لئے نبی اور رسول مبعوث فرما۔ اور تمام انبیاء اور رسل اللہ کے برگزیدہ بندے اور معصوم ہیں۔ ہر ایک نے فریضہ رسالت مکمل طور پر ادا کیا اور اس میں ذرہ بھر کوتاہی نہیں کی۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے علاوہ ملائکہ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو کائنات کے نظام کو چلانے اور بنی نوع انسان کی مصلحت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہوچکا ہے ، ہورہا ہے یا ہونے والا ہے ، سب اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی مشیت سے ہورہا ہے یا ہونے والا ہے، سب اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی مشیت سے ہورہا ہے۔ اور پھر آخر میں قیامت کے برحق ہونے پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ بعث بعدالموت برحق ہے۔ جزاوسزا کی منزل آنے والی ہے۔ جس سے ہر انسان دوچار ہوگا۔ جہاد فی سبیل اللہ : نفع بخش تجارت کا پہلا اصول اللہ نے یہ بیان فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو۔ اب دوسرا اصول جس پر غلبہ دین کا دارومدار ہے ، وہ یہ ہے و تجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم ، کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرو اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ کہ یہ بھی عذاب الیم سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہر سلیم الفطرت انسان کی انتہائی تمنا یہی ہوسکتی ہے کہ وہ دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور اللہ کی رحمت کے مقام جنت میں داخل ہوجائے۔ اللہ نے سورة آل عمران میں واضح طور پر فرمادیا ہے فمن زحزح……………………فقد فاز (آیت 185) جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا۔ اور جنت میں داخل کردیا گیا ، وہ کامیاب ہوگیا۔ بلا شبہ انسان کی حقیقی کامیاب یہی ہے۔ غرضیکہ یہ کامیابی دو چیزوں کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے یعنی ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ سے ایمان کے ذریعے انسان کو نفسی یاد روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے۔ جب کہ جہاد کے ذریعے تکمیل غیر یا اصلاح عالم کا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ یہ دونوں پروگرام اللہ نے اپنی آخری کتاب قرآن حکیم میں واضح کردیے ہیں۔ دنیاوی اعتبار سے جہاد ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی نظام درست نہیں ہوسکتا۔ اس کے بغیر نہ ارتفاقات معاشیہ صحیح ہوں گے اور نہ معاشرہ کی حالت درست ہوسکتی ہے۔ حدود وتعزیرات کا قیام شروفساد سے بچنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اسی واسطے اللہ جہاد کی غرض وغایت اس طرح بیان فرمائی ہے۔ وقتلوھم …………………للہ (البقرہ 193) ان سے اس وقت تک لڑتے رہو حتیٰ کہ فتنہ و فساد ختم ہوجائے اور ملک میں صرف خدا کا دین قائم ہوجائے۔ مطلب یہ ہے کہ فتنہ و فساد فرو ہو کر دین کا قیام عمل میں آنا چاہیے اور پھر اس دین پر عمل کرنے والوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہونی چاہیے۔ لوگوں کے درمیان ظلم و زیادتی اور جورو عدوان اسی طریقے سے ختم ہو کر عدل و انصاف کی فضا قائم ہوسکتی ہے ، اور لوگوں کے پرامن زندگی گزارنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ جہاد کی دو قسمیں : امام شاہ ولی اللہ (رح) حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ جہاد دو قسم کا ہوتا ہے۔ یعنی دفاعی جہاد (Defensive War) اور اقدامی جہاد (War Affensive) دفاعی جہاد کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے اموال کو لٹنے سے بچایا جائے ، ان کے اہل و عیال کو لونڈی غلام بننے سے بچایا جائے ، لوگوں کی عزت وآبرو کی حفاظت کی جائے اور قتل و غارت گری سے ان کا دفاع کیا جائے اس کی مثال بنی اسرائیل کے حالات میں ملتی ہے۔ ان کو بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا گیا۔ انہوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں ، ان کے اہل و عیال کو بےآبرو کیا گیا ، تو انہوں نے اپنے دور کے نبی کی خدمت میں عرض کیا اذقالوا……………………اللہ (البقرہ 246) کہ ہمارے لئے کوئی کمانڈر مقرر کردیں۔ جس کی سرکردیگی میں ہم دشمن کا مقابلہ اور اپنا دفاع کرسکیں۔ ہم اپنے ظالم دشمنوں سے ٹکرا جانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے دین ، مذہب اور عزت وآبرو کو ان کی دست برد سے بچا سکیں۔ اقدامی جہادوہ جہاد ہے جو انسانی سوسائٹی کے گندے عناصر کے قلع قمع کے لئے عمل میں لایا جائے۔ جب درندہ صفت لوگ اپنی درندگی کا اظہار اپنی قبیح حرکات اور شنیع افعال سے کرنے لگیں ، اپنی شہوانی خواہشات کو غلط ذریعہ سے پورا کرنے کی کوشش کرنے لگیں تو ان کی سیرت بگڑ جاتی ہے اور وہ زمین میں فساد پھیلانے کا موجب بنتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے اللہ نے کتابیں نازل فرمائیں اور اپنے انبیاء کے ذریعے انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ پھر اگر ایسے لوگوں کی اصلاح کسی صورت میں بھی ممکن نہ ہو تو انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ ایسے لوگوں کی مثال انسانی جسم میں پیدا ہوجانے والے فاسد مادہ از قسم پھوڑا وغیرہ کی ہوتی ہے کہ جس کا کاٹنا ضروری ہوجاتا ہے وگرنہ سارے جسم کے متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جس طرح باقی جسم کو بچانے کے لئے جسم کے متاثرہ عضو کو کاٹ ڈالنا ضروری ہوتا ہے تاکہ یہ عنصر باقی معاشرے کی خرابی کا باعث نہ بنے۔ یہی اقدامی جہاد ہے جس سے معاشرہ کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام قائم کردیا ہے کہ ایک ظالم کو دوسرے ظالم کے ذریعے معاشرے سے نابود کردیا جاتا ہے تاکہ انسانی سوسائٹی میں مزید بگاڑ پیدا نہ ہو۔ اللہ نے سورة الحج میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا ہے ولولا دفع……………………ببعض (آیت 40) اگر اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے نہ ہٹاتا رہتا تو عیسائیوں کے گرجے ، یہودیوں کے معبد اور مسلمانوں کی مسجدیں ظالموں کی دست برد سے محفوظ نہ رہتیں۔ اسی لئے اللہ نے اہل ایمان سے فرمایا ہے کہ ایسے شریر لوگوں کا مقابلہ کرتے ہو تاکہ زمین شروفساد سے پاک رہے اور انسانی سوسائٹی امن کا گہوارہ بن جائے۔ یہ اقدامی جہاد کی برکت ہے کہ مسلمانوں کو غلبہ اور عزت حاصل ہوتی ہے ، ورنہ وہ غلام بن کر عذاب الیم کا مزا چکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب بھی مسلمانوں میں جذبہ جہاد کمزور پڑجاتے ہے وہ اسی قسم کے حالات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کی زبوں حالی : انصاف سے دیکھا جائے تو ساتویں صدی ہجری کے بعد تاتاریوں کی یلغار نے لاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا اور ان کی تہذیب و تمدن کے بیشتر آثار مٹا دیے۔ اس وقت سے لے کر دور حاضر تک دنیا کی اکثر خطوں میں مسلمان غلامی کے بدترین ادوار سے گزرتے رہے ہیں۔ تاتاریوں کے بعد یورپ اور مغرب کی عیسائی طاقتوں نے مسلمانوں پر جو ظلم وستم ڈھائے ہیں وہ تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہوچکے ہیں۔ آخری دور میں انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر زوال آیا۔ اور ان کی کمزور سی رہی سہی خلافت بھی معدوم ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا بھر کے مسلمان پراگندہ اور منتشر ہو کر غلامی کی سخت ترین زنجیروں میں جکڑے گئے۔ جب انگریزوں کو زوال آیا ہے تو ان کا جانشین امریکہ ٹھہرا۔ بظاہر تو وہ یہودیت اور نصرانیت کا دم بھرتا ہے مگر حقیقت میں وہ تمام سفاکوں سے بڑھ کر سنگدل اور ظالم ہے ۔ مسلمانوں کی دنیا میں کم وبیش پچاس ریاستوں کے باوجود یہ لوگ دنیا میں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا دینی اور ملی تشخص ختم ہوچکا ہے اور یہ اغیار کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں۔ اب پوری دنیا کے مسلمان سیاسی ، معاشرتی اور معاشی لحاظ سے عیسائیوں ، یہودیوں یادہریوں کے غلام بن چکے ہیں۔ یہودیت اور عیسائیت کی بگڑی ہوئی شکل وہریت اور اشتراکیت ہے جس نے گزشتہ ستر سال سے اللہ کی مخلوق کا بےدریغ خون بہایا ہے اور اس ضمن میں انہوں نے سبعیت ، سفاکی اور درندگی کا پورا پورا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن بالآخر یہ بھی اپنے انجام کی طرف رواں دواں ہے ، ادھر برطانیہ ، فرانس اور امریکہ جیسی سپر طاقتیں اسلام اور اہل اسلام کو مٹانے کے لئے دائو پیچ کھیل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں قوت ایمانی اور جذبہ جہاد پیدا کردے اور ان ظالموں اور سفاک طاقتوں کو نیست ونابود کردے۔ آمین۔ بہرحال فرمایا کہ اے ایمان والو ! کیا میں تمہیں ایسی تجارت نہ بتائوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے ۔ وہ سوداگری یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون ، یہی چیز تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ آخرت میں کامیابی : فرمایا اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ یغفرلکم ذنوبکم ، اللہ تعالیٰ تمہارے سابقہ گناہ معاف کردے گا ویدخلکم جنت تجری من تحتھا الانھر ، اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کریگا جن کے سامنے نہریں بہتی ہیں ومسکن طیبۃ فی جنت عدن ، وہاں تمہارے لئے رہنے کے باغوں میں پاکیزہ محلات ہوں گے جو ہمیشہ رہیں گے یعنی یہ انعامات ختم نہیں ہوجائیں گے بلکہ دائمی ہوں گے۔ ذلک الفوز العظیم اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس خوش بخت کو نصیب ہوجائے۔ فرمایا واخری تحبونھا اس کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جس کو تم پسند کرتے ہو۔ اور وہ ہے نصرمن اللہ وفتح قریب ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور قریب الحصول فتح۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ اگر وہ دنیا میں ایمان اور جہاد کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنالیں گے۔ تو پھر انہیں دنیا میں بھی غلبہ حاصل ہوگا اور آخرت میں تو انعامات کا لامتناہی سلسلہ ہوگا۔ جو ان کو حاصل ہونے والا ہے اور یہ چیز اہل ایمان کے حق میں یقینا کامیابی و کامرانی ہے۔ فرمایا وبشر المومنین ، آپ اہل ایمان کو اس بات کی خوشخبری سنادیں کہ ایمان اور جہاد کے اصول وہ اپنالیں ، تو ان کی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذکرہ اللہ تعالیٰ اٹھالے گا۔
Top