Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 99
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا١ۚ وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍ١ؕ اُنْظُرُوْۤا اِلٰى ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ یَنْعِهٖ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ جو۔ جس اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَخْرَجْنَا : پھر ہم نے نکالی بِهٖ : اس سے نَبَاتَ : اگنے والی كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز فَاَخْرَجْنَا : پھر ہم نے نکالی مِنْهُ : اس سے خَضِرًا : سبزی نُّخْرِجُ : ہم نکالتے ہیں مِنْهُ : اس سے حَبًّا : دانے مُّتَرَاكِبًا : ایک پر ایک چڑھا ہوا وَمِنَ : اور النَّخْلِ : کھجور مِنْ : سے طَلْعِهَا : گابھا قِنْوَانٌ : خوشے دَانِيَةٌ : جھکے ہوئے وَّجَنّٰتٍ : اور باغات مِّنْ اَعْنَابٍ : انگور کے وَّالزَّيْتُوْنَ : اور زیتون وَالرُّمَّانَ : اور انار مُشْتَبِهًا : ملتے جلتے وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ : اور نہیں بھی ملتے اُنْظُرُوْٓا : دیکھو اِلٰى : طرف ثَمَرِهٖٓ : اس کا پھل اِذَآ : جب اَثْمَرَ : پھلتا ہے وَيَنْعِهٖ : اور اس کا پکنا اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكُمْ : اس لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
اور وہ وہی ذات ہے جس نے … اتارا آسمان کی طرف سے پانی ، پس نکالے ہم نے اس کے ذریعے ہر قسم کے پودے۔ اور نکالا ہم نے اس سے سبزہ جس سے نکالتے ہیں دانے تہ بر تہ ّ (اوپر نیچے چڑھے ہوئے) اور کھوجوروں میں سے بھی ان کی شاخوں سے گھچے جھکے ہوئے اور باغات انگور اور زیتون اور انار کے جو ملتے جلتے ہیں اور جو نہیں ملتے (جدا جدا) ۔ اس کے پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل دیتا ہے ۔ اور اس کے (پکنے کی طرف دیکھو) بیشک البتہ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔
گذشتہ کئی دورس سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور شرک کی تردید بیان ہو رہی ہے آج کی آیات بھی اسی سلسلہ کے ساتھ مربوط ہیں عقلی دلائل کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر پودے اور درخت پیدا کرنے کا ذکر فرمایا پھر رات کی تاریکی سے دن کی روشنی کی طرف توجہ دلائی ، سورج ، چاند اور ستاروں کو ایک خاص حساب سے مقرر کرنے کا بیان کی اور فرمایہ کہ ان تمام اشیاء میں اہل عقل و خرد کے لیے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی نشانیاں موجود ہیں ۔ اللہ نے ایک نفس سے تمام بنی نو نسن کی پیدائش کا ذکر بھی کیا کہ دیکھو معبود حقیقی وہی ذات ہے جس کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کے مطابق کائنات کا پورا نظام چل رہا ہے ، لہٰذا اس کے علاوہ کسی دوسرے کو الہ تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اب آج کی آیات میں مزید عقلی دلائل بیان ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسا عظیم جو ہر عطا کیا تاکہ انسان کو صحیح طور پر استعمال کر کے اس کی قدرت کے نشانات کو دیکھے ، ان میں غور و فکر کرے ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین لائے اور شرک کی قباحت سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے۔ ارشاد ہوتا ہے وھو الذی انزل من السمائِ مائً وہ ہی ذات ہے جس نے آسمان کی طرف سے پانی نازل فرمایا۔ سماء کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے ، آسمان کے علاوہ یہ لفظ فضا ، بادل اور بلندی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نزول بارش کے لیے یہ انتظام فرمایا ہے کہ سورج کی گرمی سے سمندروں سے بخارات اٹھتے ہیں جن سے بادل بنتے ہیں اور ہوائیں انہیں اڑا کر دور دراز علاقوں تک لے جاتی ہیں پھر جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے وہاں بادلوں سے برسنے لگتا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر آسمان کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ کہیں لوگ بادلوں پر ہی تکیہ لگا کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ ان بادلوں کو بھییجنے والی حقیقی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو آسمانوں سے حکم جاری کر کے سارے نظام کو چلارہا ہے۔ اس کی قدرت کا یہ بھی کمال ہے کہ بارش نازل کر کے اسے یونہی نہیں چھوڑ دیتا بلکہ کچھ فالتو پانی کو جھیل ، تالاب اور چشمے کی صورت میں جمع کرلیتا ہے اور پانی کو ندی نالوں کی صورت میں آگے چلادیتا ہے تاکہ جہاں بارش نہیں ہوئی ، وہ جگہ بھی پانی سے سیراب ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ پانی کا کچھ ذخیرہ زمین کے اندر بھی جمع کردیتا ہے جسے لوگ اپنی ضرورت کے لیے کنویں اور ٹیوب ویل کے ذریعے نکال لیتے ہیں۔ غرضیکہ پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ سورة فرقان میں ارشاد خداوند ہے ” وانزلنا من السماء ماء طھورا “ اور ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا جو خود بھی پاک ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک کرتا ہے۔ اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ” وجعلنا من الماء کل شئی حی “ (انبیا) اسی پانی سے ہم نے ہر جاندار کو حیات بخشی۔ ، تمام انسان ، جانور ، چرند ، پرند کیڑے مکوڑے پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ میڈیکل سائنس والے بتاتے ہیں کہ انسان کی رگوں میں جو خون گردش کرتا ہے اس میں اسی 80 فیصد پانی ہے اور باقی 20 فیصد میں سالٹ پروٹین ، وٹامن ، لحمیات ، نشاستہ ، پنیر اور دوسری اشیائے غذائیت ہیں۔ یہ خون پورے جسم میں گردش کر کے ہر حصہ جسم کو اس کی مطلوبہ خوراک بہم پہنچاتا ہے۔ چناچہ خون کی گردش کے دوران ناخن اپنی ضرورت کی غذا حاصل کرتے ہیں ، بال اپنی غذا ، دل و دماغ اپنی اپنی ضروریات حیات تلاش کرلیتے ہیں ہڈیاں حسب ِ ضرورت کیلشیم حاصل کرتی ہیں اور اسی طرح جسم کے باقی اعضاء اپنی اپنی غذائیت اسی خون سے حاصل کرتے ہیں۔ خون میں غالب مقدار چونکہ پانی کی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی زندگی کا مدار پانی پر ہے ۔ کسی جاندار کی زندگی کے لیے جس طرح پانی ضروری ہے اسی طرح ہوا بھی لازمی ہے بلکہ پانی کے بغیر تو جاندار کچھ عرصہ تک زندہ رہ سکتا ہے مگر ہوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسانی جسم کو آکسیجن کی ہر سانس کے ساتھ ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وہ نسیم طیب ہے جس کے ذریعے انسانی خون صاف ہوتارہتا ہے اور وہ جسمانی نشو نما کے لیے اپنے کام میں مصروف رہتا ہے۔ سانس کے ذریعے انسانی جسم میں بہت سے گیس داخل ہوتے ہیں جن میں سے آکسیجن خون کو صاف کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی جسم کے دخانی مادے باہر آتے ہیں اور انسان تازہ دم رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کار بن ڈائی آکسائڈ جیسی غلیظ گیس بھی جسم میں پہنچ جاتی ہے جب یہ جسم کے اندر زیادہ مقدار میں جمع ہوجاتی ہے تو انسان کو مختلف قسم کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ غرضیکہ انسان کی والین ضرورت ہوا ہے جس کے ذریعے وہ ایک منٹ میں بہت دفعہ سانس لیتا ہے اور بہتر 72 دفع اس کی نبض تڑپتی ہے۔ انسانی سانس سوتے ، جاگتے ، چلتے پھرتے کسی حالت میں بھی منقطع نہیں ہوتا اور اس طرح انسان کو چوبیس گھنٹوں میں کم و بیہش چوبیس ہزار نعمتیں سانس کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔ انسان صرف انہی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتا ‘ چہ جائیکہ وہ باقی تمام نعمتوں کا حق بھی ادا کرے۔ انسانی زندگی کے لیے سب سے ضروری چیز ہوا کو اللہ تعالیٰ نے بالکل فری کردیا۔ یہ ہر جاندار کو بالکل مفت حاصل ہوتی ہے۔ دوسری ضروری چیز پانی ہے جس پر زندگی کا دارو مدار ہے۔ قانونِ درت کے مطابق یہ چیز بھی مفت حاصل ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کا انتظام بارش کی صورت میں اور پھر ندی ، نالوں اور چشموں کے ذریعے کردیا ہے جہاں تک انسانی ہاتھوں کے ذریعے پانی کی بہم رسانی کا تعلق ہے۔ تو یہ بھی فری ہونی چاہئے۔ اب یہ کار پرواز ان حکومت کا کام ہے ۔ کہ وہ پانی کی بہم رسانی کو مفت اور یقینی بنائیں اس معاملے میں کسی انسان کو دقت پیش نہیں آنی چاہئے ۔ جب قدرت نے پانی مفت نازل کیا ہے کہ انسانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ قانونِ قدرت کا اتباع کرتے ہوئے کم ازکم پانی پر کوئی ٹیکس عائد نہ کریں۔ فرمایا ہم نے آسمان کی طرف سے پانی نازل فرمایا فاخرجنا بہ نبات کل شی اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پودے نکالے۔ تمام فصلیں اور باغات پانی ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ جب بارش نہیں ہوتی تو نہ فصلیں اور سبزیاں اگتی ہیں اور درخت پھل لاتے ہیں۔ فرمایا پانی نازل کر کے فاخرجنا منہ خضراً ہم سبزہ نکالتے ہیں اور پھر نخرج منہ حبا متراکِبا اس سے تہ بہ تہ دانے نکالتے ہیں۔ ہر خوشہ پہلے سبز رنگا کا ہوتا ہے ، پھر پک کر سُرخ ہوجاتا ہے اور س سے بیشمار دانے پیدا ہوتے ہیں۔ کہیں دھان پیدا ہوتے ہیں ، کہیں جوار ، باجرہ اور مکئی اور کہیں گندم پیدا ہوتی ہے۔ ایک ایک پودے سے بیشمار دانے اللہ تعالیٰ پیدا فرماتے ہیں اسی لیے فرمایا کہ پانی نازل کر کے ہم سبز پودا پیدا کرتے ہیں اور پھر اس میں تہ بہ تہ بیشمار دانے پیدا کرتے ہیں۔ عام اناج کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ومن النخل اور ہم پانی کے ذریعے کھجوریں بھی پیدا کرتے ہیں ۔ اور ان کی پیدائش کی صورت یہ ہے من طلعھا قنوان دانیۃ یہ کھجھور کے درخت کی شاخوں میں گچھے جھکے ہوئے۔ کھجور کے ایک ایک گچھے میں ڈھیروں کھجوریں ہوتی ہیں جن کے وزن کی وجہ سے شاخیں جھک جاتی ہیں۔ کھجوروں کے درخت مختلف قسموں کے ہوتے ہیں۔ بعض قد میں چھوٹے اور بعض قد میں لمبے ہوتے ہیں۔ کھجور کا درخت بہت لمبی عمر پاتا ہے۔ شاہدرہ کے مقام پر کھجور کے درخت نظر آتے ہیں ، یہ مغلوں کے زمانہ کے ہیں یہ درخت دنیا کے گرم خطوں میں خاص طور پر پائے جاتے ہیں۔ حضور علیہ اسلام کا ارشاد مبارک ہے کہ کھجور کے درخت کی مثال مومن جیسی ہے۔ جس طرح کھجور کا درخت بارہ مہینے سر سبز رہتا ہے اسی طرح مومن کا دل بھی سدا بہار ہے۔ کھجور کا پھل دیر پا ہے جو جلدی خراب نہیں ہوتا ، اس ۔ لیے یہ سارا سال استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح نور ایمان سے منور اور اعمال حسنہ اور اخلاقی حسہ کا پیکر مومن مخلوق خدا کے لیے نمونہ ہوتا ہے اسی طرح کھجور کا پھل بھیمخلوقِ خدا کے کے لیے نہایت مفید ہوتا ہے۔ پھر یہ ہے کہ کھجور کے درخت کی جڑیں بڑی مضبوط ہوتی ہیں۔ اسی لیے حادثات کی صورت میں یہ آسانی سے نہیں گرتا۔ اسی طرح مومن کے دل میں ایمان کی جڑی بڑی مضبوط ہوتی ہیں اور وہ آسانی سے شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں میں ایمان کو پختہ کرچکا ہے۔ سورة محمد میں موجود ہے ” ان ینصر واللہ ینصر کم ویثبت اقدامکم “ اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کریگا اور تمہارے قدم مضبود کر دے گا اور انہیں کوئی دوسری طاقت اکھیڑ نہیں سکے گی۔ اسی طرح کھجور کے درخت کی جڑیں بھی بڑی مضبوط ہوتی ہیں ” وفو عھا فی السمائ “ اور اس کی شاخیں بھی فضا میں پھیلی ہوتی ہیں۔ ایمان والے آدمی کے اعمال بھی اسی طرح اوپر عالم بالا کی طرف جاتے ہیں۔ یہ کمال حیثیت کا درخت ہے اور اسے مومن آدمی کے ساتھ یہ مطابقت حاصل ہے۔ کھجور کے درخت کو انسانی زندگی سے ایک بھی مطابقت اور مناسبت ہے اور وہ یہ کہ جس طرح انسان کے سرے تک پانی پہنچ جائے تو یہ بھی سوکھ جاتا ہے۔ انسان کی گردن کٹ جائے تو وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس درخت کا تنا اگر اوپر سے کاٹ دیا جائے تو یہ بھی بیکار ہوجاتا ہے۔ اس کو انسان کے ساتھ عجیب مشابہت ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں کھجور کا ذکر سب سے پہلے فرمایا ہے کہ اکثر خطوں میں اس کا پھل بطور غذا استعمال ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ واسلام کا ارشاد مبارک ہے کہ جس گھر میں کھجوریں موجود ہیں اس گھر کے رہنے والے بھوکے نہیں ہیں۔ کھجور ایک لذیز اور طاقتور غذا ہے اور انسان کے لیے نہایت مفید ہے۔ دوسرے نمبر پر اللہ تعالیٰ نے انگور کا ذکر کیا ہے و جنت من اعناب انگور کے باغات بھی اللہ نے اسی پانی کے ذریعے پیدا کیے۔ انگور بڑا شیریں اور طاقتور پھل ہے ، اسے افضل الاثمار یعنی پھلوں میں سے افضل کہا جاتا ہے۔ اسے جائز طریقے سے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ناجائز طریقے سے بھی۔ جن خطوں میں انگور کثرت سے پیدا ہوتا ہے ، وہاں لوگ اسے غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس کا شربت بنا کر مشروب کے طور پر پیتے ہیں۔ حیدر آباد دکن میں انگور سے ملتا جلتا شریف پھل پیدا ہوتا ہے جسیے فاکھۃ الغربا یعنی غریب لوگوں کا پھل کہا جاتا ہے۔ وسیع جنگلوں میں یہ وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے اور مفت مل جاتا ہے اور لوگ اسے کھانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انگور کا جائز استعمال بھی ایسا ہی ہے۔ البتہ اس سے شراب بھی کشید کی جاتی ہے جو کہ حرام ہے۔ سورة نمل میں موجود ہے کہ اللہ نے کھجور اور انگور جیسے عمدہ پھل پیدا کیے تتخذون منہ سکرا و رِزقاً حسنا “ جنہیں تم نشے اور عمدہ روزی کے طور پر استعمال کرتے ہو ۔ گویا اس کا ایک ناجائز استعمال شراب کی صورت میں بھی ہے۔ بہر حال انگور ایک اچھا اور عمدہ پھل ہے۔ جو کہ غذائیت سے بھرپور ہے۔ کھجور کے بعد دوسرا نمبر انگور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تیسرے درجے پر زیتون کا ذکر فرمایا ہے۔ والذیتون زیتون زیادہ ترعرب اور افریقہ میں پایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس کی کاشت کے تجربات ہو رہے ہیں۔ اللہ کے نبیوں نے اس درخت کے بابرکت ہونے کی دعا فرمائی۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ شام و فلسطین نے زیتون کے بعض درخت یونانیوں کے زمانے سے چلے آرہے ہیں جنکی عمر اڑھائی ہزار سال سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس درخت کے متعلق حضور علیہ اسلام کا ارشاد ہے۔ کلوا الذیت ورھنابہ فانہ من شجرۃ مبارکۃ زیتون کا تیل کھانے میں استعمال کرو اور اس کی مالش بھی کرو کیونکہ یہ مبارک درخت کی پیداوار ہے۔ اگرچہ یہ تیل Olive oil مہنگا ہے مگر دنیا کے ہر خطے میں ملتا ہے۔ لوگ اسے گھی کی جگہ استعمال کرتے ہیں اور سر میں لگانے کے کام بھی آتا ہے۔ اس کا پھل بھی کھایا جاتا ہے۔ درخت کی لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں ، پتے اور چھل کہ بھی مفید ہے اور اس کی جڑیں بھی کام میں لائی جاتی ہیں۔ یہ غذا اور دوا دونوں طریقوں سے استعمال میں آتا ہے۔ اللہ نے عجیب و غریب درخت بنایا ہے۔ چوتھے نمبر پر فرمایا والرمان اللہ تعالیٰ نے پانی کے ذریعے انار بھی پیدا فرمایا ہے یہ میٹھا اور مے خوش یعنی کھٹا میٹھا پھل ہے ، اس کی مختلف قسمیں ہیں جن میں قند ھاری انار کے دانے موٹے اور زیادہ لزیز ہوتے ہیں۔ اس میں فولاد کا فی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے جگر کے مریضوں کے لئے بڑا مفید ہے گرمی کو مارتا ہے اور گردوں اور جگر کو صاف کرتا ہے۔ اللہ نے اس کے موٹے موٹے دانوں کو باریک چھلکے میں عجیب طریقے سے محفوظ کیا ہے۔ احمد شاہ ابدالی محض اس لیے دہلی میں نہ رہ سکا کہ وہاں قند ھاری انار کھانے کو نہیں ملتے تھے ‘ کہنے لگا ” این جانا انار قندھار کجاست “ یہاں کھانے کے لیے قندھاری انار میسر نہیں لہٰذا واپس وطن چلو۔ بہر حال یہ بھی کمال درجے کا پھل ہے اور اس کا دارومدار بھی پانی پر ہے۔ تمام پھلوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا مشتبھا و غیر متشا بہ یہ پھل ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہیں اور بعض غیر مشابہ بھی بعض کی شکل ملتی ہے تو ذائقہ الگ ہے۔ بعض کا ذائقہ ملتا جلتا ہے تو رنگ مختلف ہے اللہ نے سورة رعد میں فرمایا ہے ‘ اللہ نے زمین میں انگور کے باغات اور کھیتی اور کھجور کے درخت پیدا کیے یسقٰی بسمائٍ واحد سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے مگر کوئی میٹھا ہے اور کوئی کڑوا ، کوئی تلخ ہے اور کوئی کسیلہ ، مختلف رنگ ، مختلف ذائقے ، مختلف شکلیں۔ کچھ آپس میں ملتے جلتے ہیں اور کچھ غیر مشابہ ہیں مگر خوراک سب کی ایک ہی پائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کتنا بڑا کمال ہے۔ اس میں صاحب عقل لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ غور کیجئے ، آخر یہ سب کچھ خود بخود اپنی نیچر سے ہو رہا ہے یا اسے کرنے والی کوئی ذات موجود ہے۔ یہ اس مالک الملک کی شان ہے کہ خربوزے کے کھیت میں ایک ہی کنویں سے پانی جا رہا ہے مگر کوئی خر بوزہ میٹھا ہے اور کوئی پھیکا ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ ہی کارفرما ہے اس کے علاوہ کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس قسم کے عجیب و غریب کام کرسکے۔ فرمایا انظروا الی ثمرہ اذا اثمر اس پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل دیتا ہے وینعمہ اور اس کے پکنے کی طرف دیکھو۔ پہلے اس کا رنگ سبز ہوتا ہے ، پھر زرد اور پھر کوئی سرخ ہوجاتا ہے اور کسی کی رنگت زرد ہی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی حکمت بالغہ کے ساتھ پکاتا ہے تاکہ انسان کی غذا بن سکیں فرمایا ان فی ذلکم لاٰیت لقوم یومنون ان تمام چیزوں میں اہل ایمان کے لیے نشانیاں ہیں۔ ایمان والے تو یہ دلائل دیکھ کر یقین کرلیتے ہیں کہ بارش کا برسانا ، کھیتوں اور درخت کا پھل لانا اسی وحدہ لاشریک کا کا ہے مگر جو لوگ ایمان سے خالی ہیں وہ ان واضح عقلی دلائل سے بھی نصیحت نہیں پکڑتے فرمایا ان تمام دلائل کو دیکھنے کے باوجود مشرکین کا حال یہ ہے۔ کہ وجعلوا للہ شرکاء الجن انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرالیا ہے وخلقھم حالانکہ اسی خداوند تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے۔ بعض نے انسانوں کو معبود بنا رکھا ہے ، بعض نے پتھروں اور قبروں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ لیا ہے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ ذرا غور نہیں کرتے عمارت تعمیر کرتے ہیں تو لوگ جانور زبح کرتے ہیں تاکہ جنات نقصان نہ پہنچائیں۔ جنوں کو خدا کا شریک بنا لیا حالانکہ ان کا خالق بھی وہی ہے۔ پھر مشرکین نے یہ بھی ظلم عظیم کیا وخرق 3 وا لہ بنین وبنت کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑلئے۔ بغیر علم بغیر علم کے یعنی محض جہالت کی وجہ سے عیسائیوں نے مسیح علیہ اسلام کو خدا کا بیٹا ٹھہرالیا اور یہودیوں نے عزیر علیہ اسلام کو بیٹا تسلیم کرلیا۔ کسی نے کہ دیا الملٰئِکہۃ بنات اللہ یعنی فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں مگر اللہ نے فرمایا ما تخذ صاحبۃ ولا ولہ (سورۃ الجن) اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ اولاد۔ وہ تو ان چیزوں سے پاک ہے وہ صمد ‘ غنی اور بےنیاز ہے۔ اولاد کا ہونا تو مخلوق کی صفت ہے۔ اسے اللہ میں کیسے ثابت کرتے ہو۔ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا ، بڑے افسوس کی بات ہے آفافاصفکم ربکم بلنین “ (بنی اسرائیل) تم اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے ہو ” واتخذ من الملٰئِکۃ انا ثاط (بنی اسرائیل) اور فرشوں کو اللہ کی بیٹیاں ٹھہراتے ہو۔ یعنی جو چیز اپنے لیے پسند نہیں کرتے ، وہ خدا کے لیے تجویز کرتے ہو ” انکم لتقو لون قولاً عظیما “ تم اپنی زبانوں سے بہت بڑی بات کہتے ہو۔ سورة مریم میں فرمایا کہ اللہ کے لیے اولاد کا عقیدہ رکھنا اتنا گندہ عقیدہ ” تکاد السمٰوٰتِ یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھدا “ کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے ، زمین شق ہوجائے یا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں خدا کی شان میں یہ گستاخی اس کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے آخر اللہ کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا اسے نسل کشی کی ضرورت ہے یا اسے بڑھاپے میں سہارے کی ضرورت ہے وہ تو صمد اور غنی ہے ، وہ محتاج نہیں بلکہ ساری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ تم نے جہالت کی وجہ سے اس کے بیٹے اور بیٹیاں بنا لیے ہیں۔ سبحنہ اس کی ذات تو ایسی چیزوں سے پاک ہے و تعلی اور اس کی ذات اعلیٰ وارفع ہے عما یصفون ان چیزوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ کوئی اس کی طرف اولاد کو منسوب کرتا ہے کوئی کسی کو علم اور تصرف میں شریک ٹھہراتا ہے اور کوئی قدرت میں شریک بناتا ہے۔ فرمایا ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ ، وہ تو وحدہٗ لا شریک ہے۔
Top