Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 93
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَاسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ١ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنِ : سے۔ جو افْتَرٰي : گھڑے (باندھے) عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر كَذِبًا : جھوٹ اَوْ : یا قَالَ : کہے اُوْحِيَ : وحی کی گئی اِلَيَّ : میری طرف وَلَمْ يُوْحَ : اور نہیں وحی کی گئی اِلَيْهِ : اس کی طرف شَيْءٌ : کچھ وَّمَنْ : اور جو قَالَ : کہے سَاُنْزِلُ : میں ابھی اتارتا ہوں مِثْلَ : مثل مَآ اَنْزَلَ : جو نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَلَوْ : اور اگر تَرٰٓي : تو دیکھے اِذِ : جب الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) فِيْ غَمَرٰتِ : سختیوں میں الْمَوْتِ : موت وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے بَاسِطُوْٓا : پھیلائے ہوں اَيْدِيْهِمْ : اپنے ہاتھ اَخْرِجُوْٓا : نکالو اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ : آج تمہیں بدلہ دیا جائیگا عَذَابَ : عذاب الْهُوْنِ : ذلت بِمَا : بسبب كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے تھے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر (بارہ میں) غَيْرَ الْحَقِّ : جھوٹ وَكُنْتُمْ : اور تم تھے عَنْ : سے اٰيٰتِهٖ : اس کی آیتیں تَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس نے افتراء باندھا اللہ پر جھوٹ دیا اس نے کہا کہ میری طرف وحی کی گئی ہے ‘ حالانکہ اس کی طرف کوئی چیز وحی نہ کی گئی ہو۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس نے کہا کہ میں اتارتا ہوں اس کی مثل جس کو اللہ نے اتارا ہے اور اے مخاطب اگر آپ دیکھتے جب کہ ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ ان کی طرف پھیلائے ہوئے ہوں گے اور ان سے کہیں گے نکالو اپنی جانوں کو ‘ آج تمہیں بدلہ دیا جائے گا ذلت کے عذاب کا ‘ اس وجہ سے کہ تم کہتے تھے اللہ پر جھوٹی بات اور تھے تم اس کی آیتوں سے تکبر کرتے
ربط آیات پہلے شرک اور مشرکین کا رد ہوا ‘ اور پھر توحید کے اثبات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان ہوا۔ پھر آپ کے ساتھ دوسرے اٹھارہ انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر بھی آیا اور توحید کے راستے کو صراط مستقیم بنایا گیا۔ شرک کی قباحت ہی کے ضمن میں فرمایا کہ اللہ کے یہ مقربین بندے بھی شرک میں ملوث ہوتے تو ان کے اعمال بھی ضائع ہوجاتے۔ پھر اللہ نے ان لوگوں کا بھی رد یا جو کہتے تھے کہ اللہ نے کوئی چیز نازل نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی جانے والی کتاب تورات کی مثال پیش کی اور آخر میں قرآن کریم کا ذکر کیا جس اللہ نے تورات نازل کی تھی اس نے قرآن پاک نازل فرمایا ہے جو کہ بڑی بابرکت کتاب ہے ‘ اس کے نزول کا ایک مقصد یہ ہے کہ اہل مکہ اور اس کے اردگرد رہنے والے لوگوں کو خبردار کردیا جائے ‘ پھر رسالت کے ضمن میں ایک طرف پیغمبر آخر الزمان کی تصدیق کی اور دوسری طرف نبوت کا انکار کرنے والوں کے برے انجام سے آگاہ کیا۔ اب آج کی آیات میں نبوت و رسالت ہی کے سلسلے میں مکذبین کے دعوے کو افتراء علی اللہ فرمایا گیا ہے ‘ وحی الٰہی کی حقیقت اور اسکے بےمثل ہونے کا بیان ہے۔ نیز جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے آخرت میں برے انجام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جھوٹے مدعیان نبوت ارشاد ہوتا ہے ومن اظلم اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا ممن افتری علی اللہ کذبا جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ مفسر قرآن قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جھوٹے مدعیان نبوت کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے خود حضور ﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کردیا تھا۔ ان میں سے ایک شخص مسلیمہ کذاب تھا جو قبیلہ بنی حنیفہ کا لیڈر تھا۔ یہ قبیلہ عربوں کا لمبا چوڑا قبیلہ تھا جس کے افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان کا سردار مسلیمہ اگرچہ معمر آدمی تھا مگر سخت شرپسند تھا دوسرا مدعی نبوت اسود عنی تھا ‘ جو صنعا کا رہنے والا سیاہ رنگ اور موٹے نقش و نگار کا آدمی تھا۔ وہ ہمیشہ سر پر اوڑھنی ڈالے رکھتا تھا۔ اس لئے اسے ذوالخمار بھی کہتے تھے۔ صحاح ستہ میں یہ حدیث موجود ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں دو کنگن پہنائے گئے فرمایا کہ مجھے انہوں نے پریشان کردیا۔ پھر مجھے ارشاد ہوا کہ ان کو ہاتھ سے جھٹک دیں تو میں نے ایسا ہی کیا۔ اس خواب کی تعبیر حضور ﷺ نے خود ہی یہ بیان فرمائی کہ دو کذاب ہیں جو میرے دنیا میں آنے کے بعد ظاہر ہوئے ہیں اور میں ان کے درمیان ہوں۔ ان میں سے ایک صنعا میں رہتا ہے اور دوسرا بنی حنیفہ کا سردار ہے (جو یمامہ میں رہتا ہے) ان دونوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔ مسلیمہ کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ محمد ﷺ قریش کے نبی ہیں اور میں بنی حنیفہ کا نبی ہوں ‘ اس نے حضور ﷺ کی خدمت میں وفد بھی بھیجا تھا۔ مسلیمہ خود بھی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ آپ نے اس کے ساتھ مختصر سی گفتگو کے بعد ہی اس کی موجودگی میں اسے کذاب کردیا تھا۔ مسلیمہ کا مطالبہ تھا کہ اگر آپ اپنے بعد مجھے اپنا نائب بنا دیں تو میں ایمان لانے کے لئے تیار ہوں۔ حضور ﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی۔ آپ نے چھڑی کے ایک تنکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس تنکے کے برابر بھی تمہیں کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہیں۔ بہرحال مختصر گفتگو کے بعد آپ تشریف لے گئے اور اس کی بات کا مزید کوئی جواب دینے کے لئے حضرت ثابت بن قیس انصاریٰ کو مقرر کر گئے۔ اسود عنسی بھی بڑا شرپسند آدمی تھا۔ حضور ﷺ کی وفات سے دو دن پہلے حضرت فیروز ولیمی نے اسے قتل کردیا ۔ آپ کو وحی کے ذریعے خبر ہوئی تو آپ نے لوگوں کو بشارت سنائی کہ آج رات اسود عنسی کو ختم کردیا گیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس حصہ آیت کا مفہوم نہ صرف خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا ہے بلکہ اس کی طرف غلط بات منسوب کرنا بھی ہے۔ اگر کوئی شخص خدا کی اولاد ثابت کرتا ہے یا شرک کی کوئی بات اس کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ بھی اس آیت کی وعید کی زد میں آتا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ صفات یا عبادت میں کسی کو شریک کرنا افترا علی اللہ کے مترادف ہے۔ اور ایسا شخص بہت بڑا ظالم تصور ہوگا۔ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے۔ نزول وحی کا دعویٰ پھر فرمایا اس سے بڑا ظالم کون ہوگا۔ اوقال اوحی الی جو کہتا ہے کہ میری طرف وحی کی گی ہے۔ ولم یوح الیہ شئی حالانکہ اس کی طرف کوئی وحی نہ کی گئی ہو۔ مسلیمہ کذاب اور اسود عنسی کا یہی دعویٰ تھا۔ یہاں غلام احمد قادیانی بھی اپنے آپ پر نزول وحی کا دعویٰ کرتا تھا۔ حالانکہ ختم نبوت کے ساتھ وحی الفہی کا سلسلہ مستقلاً بند ہوچکا ہے۔ البتہ شیطانی وحی کا امکان ہو سکتا ہے۔ ” ان الشیطین لیوحون الی اولیاء بھم “ شیطان اپنے دوستوں کی طرف باتیں القا کرتے ہیں ‘ قیامت تک جتنے بھی مدعیان نبوت ہوں گے وہ شیطان کے دوست ہوں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت سے پہلے پہلے تیس بڑے بڑے فتنہ پرور پیدا ہوں گے ‘ جو نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ مگر یاد رکھو ! میں خاتم النبین ہوں۔ اللہ نے مجھ پر نبوت ختم کردی ہے بہرحال فرمایا کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو کہتا ہے کہ مجھ پر وحی الٰہی نازل ہوتی ہے۔ قرآن کی نظر لانے کا دعویٰ پھر فرمایا ‘ اس شخص سے بڑا ظالم بھی کوئی نہیں ومن قال سانزل مثل ما امنزل اللہ جو کہتا ہے کہ میں بھی اس قسم کی چیز نازل کرسکتا ہوں جیسی اللہ تعالیٰ نازل کرتا ہے۔ قریش میں ایک شخص نضر ابن حارث تھا جو ایسا دعویٰ کرتا ہے کہ میں بھی قرآن پاک جیسا قرآن پیش کرسکتا ہوں۔ کہتا تھا کہ محمد عادو ثمود کے قصے کہانیاں بیان کرتا ہے میں بھی تمہارے پاس (بہمن) اسفند یار کے واقعات پیش کرسکتا ہوں ‘ یہ کون سی بات ہے ‘ جس طرح یہ اساطیر الاولین یعنی پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ اسی طرح میں بھی کہانیاں گھڑ سکتا ہوں۔ قرآن پاک ایک ایسا اعلیٰ ‘ ارفع اور جامع کلام ہے جس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ قرآن پاک نے خود چیلنج کیا ہے۔ ” فاتو بسورۃ من مثلہ “ اس جیسی ایک سورة ہی لا کر پیش کر دو ‘ مگر یہ چیلنج آج تک تشنہ قبولیت ہے۔ قرآن پاک خدا تعالیٰ کی صفت ہے۔ ” انزلہ بعلم “ اللہ نے اپنے علم سے اسے نازل کیا ہے۔ سورة نبی اسرائیل میں موجود ہے اگر تمام انسان اور جن مل کر بھی کوشش کریں ” ان یاتوابمثل ھذا القران کہ اس جیسا قرآن لے آئیں تو وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکیں گے بھلا یہ مسلمیہ کذاب کہاں سے قرآن کی نظر پیش کرتا۔ اس نے کچھ عربی عبارتیں بنائی تھیں مگر لوگوں نے اس کے منہ پر تھوک دیا کہ یہ اس کے مقابلے کی چیز لائے ہو۔ پوری دنیا کے زباندان ‘ شعرائ ‘ ادیب ‘ خطبا اور فصیح وبلیغ لوگ قرآن پاک کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں ۔ لہٰذا قرآن کی نظیر پیش کرنے کا دعویٰ باطل ہے فرمایا ایسا دعویٰ کرنے والا بھی سب سے بڑا ظالم ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں انسانوں کی بہتری کے لئے جو حکمتیں رکھی ہیں ‘ تمام دنیا کے لوگ مل کر بھی ان میں سے کسی ایک حکمت کی گرد پاتک کو نہیں پہنچ سکتے ‘ چہ جائیکہ اس جیسا قرآن پیش کرنے کا دعویٰ کریں جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خدائی قانون اور شریعت جیسا کوئی دوسرا قانون بنا سکتا ہے ‘ وہ بہت بڑا ظالم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کے مقابلے جو لوگ خود ساختہ قوانین نافذ کرتے ہیں ‘ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں دخل اندازی کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی بدبختی ہے۔ قرآنی قانون کا اجراء بنی نوع انسان کا فرض تھا کہ اللہ کی زمین پر اسی کا نزل کردہ قانون نافذ کرتے ‘ مگر انہوں نے خلیفتہ اللہ ہونے کا حق ادا نہیں کیا۔ یہ خدائی قانون کی بجائے رومن لا ‘ جرمن لاء اور برٹش لاء کی طرف دیکھتے ہیں کوئی امریکہ کے نئے اور پرانے قوانین پر نظر لگائے بیٹھا ہے کوئی کارل مارکس کی پیش کردہ شریعت کا گروہ ہے اور کوئی لینن (ماوزے تنگ) کی لال کتاب پر فریفتہ ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قوانین کو چھوڑ کر خود ساختہ قوانین سے امید لگائی جا رہی ہے۔ مسلمان ممالک کا بھی یہی حال ہے کسی ملک نے امریکہ کا قانون اپنا رکھا ہے تو کسی نے برطانیہ کا اور کسی نے فرانس کا۔ کوئی جرمن قانون سے راہنمائی حاصل کرتا ہے تو کوئی روسی قانون سے ‘ خود ہمارے ملک میں تین مختلف قوانین نافذ ہیں۔ تعزیزی قانون انگریز کا بنایا ہوا انیسویں صدی کا قانون ہے ‘ جسے تعزیرات پاکستان کا نام دیکر اختیار کرلیا گیا ہے اس وقت مارشل لاء کے اپنے ضابطے بھی موجود ہیں اور ان پر بھی حسب ضرورت عملدرآمد ہو رہا ہے۔ تیسرا قانون اسلامی کہلاتا ہے۔ بعض معاملات میں اس کا سہارا بھی لیا جاتا ہے یہ ک قدر عجب تقسیم ہے۔ اگر اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے پر یقین ہے تو پھر باقی تمام لعنتوں کو چھوڑ کر صرف احکام الٰہی کا نفاذ ہونا چاہئے۔ جب مارشل لاء کے ذریعے ہر قسم کی سختی جائز ہے تو اسلامی قوانین کو بیک قلم کیوں نہیں نافذ کیا جاتا ؟ اگر کوئی دقت پیش آئی گی تو تجربہ کے ساتھ آہستہ آہستہ رفع ہوجائے گی ‘ اس کو جاری تو کرو۔ اب تک تو وعدے وعید ہی ہوتے آ رہے ہیں ‘ مگر عملدرآمد کچھ نہیں۔ قران پاک تو کہتا ہے کہ جو شخص اللہ کی نازل کردہ چیز کے برابر کوئی چیز پیش کرنے کا دعویٰ کرتا ہے ‘ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟ قرآن پاک بےمثال چیز ہے تمام دنیا مل کر بھی کسی آیت کی مصلحت کو نہیں پہنچ سکتی۔ اشتراکیوں کا ایک گروہ یہ بھی کہتا ہے کہ قرون وسطیٰ میں تو یہ قرآن واقعی قابل عمل تھا مگر یہ موجودہ زمانے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا۔ آج کا دور صنعتی ‘ سائنسی اور ایٹمی دور ہے ‘ اس زمانے میں چودہ صدیاں پرانے قوانین نافذ نہیں ہوسکتے ‘ مگر قرآن کہتا ہے ” فبای حدیث بعدہ یومنون (المرسلت) اگر اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے تو پھر اس کے بعد کس چیز پر ایمان لائو گے ‘ یہ تو اللہ کا آخری قانون ہے اس کے بعد نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے ‘ اب کون سے قوانین پر عمل کرو گے ؟ حضور ﷺ کے بعد ہر زمان و مکان کے لئے یہی کرے گا ‘ اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و خوار کر دے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا جو اس سے ہدایت کا طالب ہوگا ‘ وہ ہدایت کو پا لے گا اور جو کوئی کسی دوسری طرف دیکھے گا ‘ ذلیل و خوار ہو کر رہ جائے گا۔ موت کی سختیاں اللہ نے تین قسم کے آدمیوں کے متعلق فرمایا کہ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا ‘ پہلا شخص وہ ہے جو اللہ پر جھوٹ کا افترا ‘ باندھے دوسرا وہ ہے جو کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کی طرف کوئی وحی نہ آتی ہو اور تیسرا ظالم شخص وہ ہے جو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے مقابلے میں میں بھی ایسی چیز لاسکتا ہوں۔ اب اللہ نے ایسے لوگوں کے انجام کا ذکر فرمایا ہے۔ ولوتری اذالظلمون فی غمرات الموت اے مخاطب اگر تم دیکھتے ایسے ظالم لوگوں کو جب وہ موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں گے۔ والملئکتہ باسطوا ایدھیم۔ اور فرشتے اپنے ہاتھ ان کی طرف پھیلائے ہوئے ہوں گے۔ اور ان سے کہیں گے اخرجوا انفسکم نکالو اپنی جانوں کو صحیح معنوں میں کوئی شخص اپنی خود تو نہیں نکالتا۔ مگر یہ مجرمین کو وعید سنائی جا رہی ہے ‘ ان کو ڈرایا جا رہا ہے کہ اپنی جانوں کو خود نکالو۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نکلو اب خدا کے غضب کی طرف اور پھر فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اسے غضب کے مقام کی طرف لے جاتے ہیں۔ امام رازی (رح) اور بض دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فرشتے بدبخت انسانوں سے کہتے ہیں کہ لائو اپنی جان نکالو اور اس سکتی سے بچ جائو مگر وہ اس دن کی سختی سے بچ نہیں سکتے۔ فرشتے کہتے ہیں الیوم تجزون عذاب الھون آج تمہیں ذلت کی مار دی جائے گی۔ ہون خواری کو کہتے ہیں یعنی تمہیں ذلیل و خوار کردینے والا عذاب دیا جائے گا۔ بما کنتم تقولون علی اللہ غیرالحق اس وجہ سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے متعلق جھوٹی اور ناجائز باتیں کہتے تھے۔ خدا کا شریک بناتے تھے ‘ اس کا بیٹا بنا لیا ‘ کبھی اس کی عبادت میں کسی کو شامل کرلیا ‘ کبھی کہتے تھے کہ خدا نے کوئی چیز نازل نہیں کی اور اس طرح خدا تعالیٰ پر افترا باندھتے تھے وکنتم عن ایتہ تستکبرون اور تم اس کی آیات کے ساتھ تکبر کرتے تھے۔ اپنی چودھراہٹ قائم رکھتے تھے اور اللہ کی آیات کو پس پشت ڈالتے تھے ‘ لہٰذا آج تمہیں ذلت ناک عذاب دیا جائے گا۔ خالی ہاتھ پیشی ہو گی فرمایا ‘ دیکھو ! ولقد جئتمونا فردیٰ کما خلقنکم اول مرۃ آج تم ہمارے پاس بالکل اکیلے چلے آ رہے ہو۔ جس طرح کہ ہم نے تمہیں پہلی دفعہ اکیلے پیدا کیا جس طرح بچے کی پیدائش کے وقت اس کے ساتھ کوئی محافظ نہیں آتا۔ اسی طرح آج تم ہمارے پاس کسی فوج ‘ پولیس ‘ باڈی گارڈ ‘ قبیلہ برادری ‘ اولاد یا دوستوں کے بغیر اکیلے ہی چلے آ رہے ہو۔ وترکتم ماخولنکم وراء ظھور کم اور جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا۔ وہ سب کچھ پیچھے ہی چھوڑ کر ائے ہو ‘ نہ کوئی خزانہ ہے نہ مال و دولت ہے ‘ نہ کوٹھی کار ہے اور نہ کوئی کارخانہ ہے۔ آج بالکل خالی ہاتھ ہو۔ انسان دنیا میں کہتا ہے مالی مالی یہ میرا مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ کوئی کہتا ہے ‘ یہ میری دکان ہے ‘ یہ میری زمین ہے ‘ یہ میرا باغ ہے ‘ حالانکہ تیرا مال تو وہی ہے جو تو نے کھالیا ‘ یا پہن کر بوسیدہ کرلیا یا آگے پہنچا دیا جو بچ گیا وہ تیرا مال نہیں ہے۔ وہ تو تیرے وارثوں کا مال ہے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا ‘ اے ابن آدم ! میں نے تمہیں مال دیا تھا ‘ وہ کدھر گیا ‘ بندہ عرض کرے گا ‘ مولا کریم ! میں اسے اچھی حالت میں چھوڑ کر چلا آیا تھا ‘ اگر اجازت ہو تو لا کر پیش کر دوں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم جھوٹے ہو ‘ تم نے وہاں کچھ نہ کیا ‘ آج کیا چیز لانے کی اجازت طلب کرتے ہو۔ اس مال کے بل بوتے پر تو نے دنیا میں جو خرابیاں کیں ‘ ان کے متعلق آج باز پرس ہوگی۔ اور پھر اس پر سزا ملے گی۔ سفارشی نظر نہیں آئیں گے فرمایا وماتریٰ معکم شفعاء و کم شرکوا الذین زعمتم انھم فیک شرکوا اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ سفارشی جن کے بارے میں تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے شریک ہیں۔ آج وہ تمہارے سفارشی کہاں گئے ہیں جن کو نذر و نیاز پیش کیا کرتے تھے اور جو تمہاری مشکل کشائی اور حاجت روائی کا دم بھرتے تھے اور جن کے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہیں چھڑا لیں گے یا تمہاری کشتی پار لگا دیں گے۔ کارساز ‘ مشکل کشا اور حاجت روا تو اللہ تعالیٰ ہے۔ تم کن کو اس کے شریک بناتے تھے۔ لقد نقطع بینکم آج تمہارے درمیان تمام تعلقات منقطع ہوچکے ہیں۔ تمام رشتہ داریاں ختم ہوچکی ہیں جو رشتہ معبودان باطلہ کے ساتھ جوڑا تھا ‘ وہ بھی ختم ہوگیا ہے وضل عنکم ما کنتم تزعمون اور گم ہوجائے گی وہ چیز جس کے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ فلاں چیز ہمیں مفید ہوگی ‘ فلاں حضرت صاحب دستگیری فرمائیں گے ‘ فلاں بزرگ بگڑی بنائیں گے ‘ فلاں نذر و نیاز رنگ لائے گی۔ اس دن وہاں کچھ نظر نہیں آئے گا۔ سب کچھ گم ہو کر رہ جائے گا۔ اس دن جھٹلانے والوں کو پتہ چلے گا کہ وہ دنیا میں کچھ کرتے رہے۔
Top