Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 83
وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰى قَوْمِهٖ١ؕ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَتِلْكَ : اور یہ حُجَّتُنَآ : ہماری دلیل اٰتَيْنٰهَآ : ہم نے یہ دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم نَرْفَعُ : ہم بلند کرتے ہیں دَرَجٰتٍ : درجے مَّنْ : جو۔ جس نَّشَآءُ : ہم چاہیں اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور یہ ایک ہماری دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلے میں دی۔ ہم بلند کرتے ہیں درجے جس کے چاہیں۔ بیشک تیرا پروردگار حکمت والا اور جاننے والا ہے
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید کے ضمن میں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا کیونکہ آپ کی کلدانی اور بابلی پوری قوم مشرک تھی۔ آپ کے والد آزر خود بت تراش اور بت پرست تھے۔ آپ نے اپنے والد اور قوم کو سمجھانے کی کوشش کی اور ان کے سامنے ستارے چاند اور سورج کی دلیل بھی پیش کی۔ باری باری ان تینوں کے متعلق فرمایا ‘ کیا یہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گئے تو آپ نے ان سے بیزاری کا اعلان کردیا۔ اور فرمایا ‘ اے میری قوم ! جن چیزوں کو زوال آجائے یا جن میں تغیر و تبدل واقع ہو ‘ وہ چیزیں عبادت کے لائق نہیں ہو سکتیں ‘ چاند ‘ سورج اور ستارے طلو ع ہوتے ہیں۔ پھر غروب ہوجاتے ہیں تو میں ایسی چیزوں کو الٰہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں معبود وہ ذات ہو سکتی ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل واقع نہ ہو اور جس کو کبھی زوال نہ آئے اور وہ ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے جو ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ رہے گا جس کو کبھی زوال نہیں۔ پھر قوم نے آپ سے جھگڑا کیا ‘ تو آپ نے ان کو ٹھیک ٹھیک بتا دیا کہ تم میرے ساتھ اللہ کے معاملے میں جھگڑتے ہو ‘ حالانکہ خداوند تعالیٰ نے مجھے ہدایت سے نوازا ہے اور میں تمہارے معبودوں سے خوف نہیں کھاتا۔ حق پر کون ہے اور ابدی نجات کس کو حاصل ہوگی اس کا علم تمہیں قیامت کو ہوگا مگر یاد رکھو کہ امن کا مستحق وہ ہے جو سچے دل سے ایمان لایا اور پھر اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ ملوث نہیں کیا ‘ وہی ہدایت یافتہ ہوگا ‘ تم سب شرک میں مبتلا ہو۔ تمہیں کبھی فلاح حاصل نہیں ہو سکتی۔ بندی درجات گزشتہ سے پیوستہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ابتداء سے ہی رشد و ہدایت سے نوازا تھا چناچہ انہوں نے شرک کے خلاف وہ واضح دلیل پیش کی جس کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے ‘ مگر مشرکین آپ کی بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئے بلکہ آپ سے جھگڑا کرنے لگے۔ تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی دلیل کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ وتلک حجتنا اتینا ھا ابراھیم علی قومہ۔ یہی ہماری دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلے میں دی مگر مشرک قوم نے اس کو تسلیم نہ کیا۔ پھر فرمایا ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی توحید پرستی اور شرک کی تردید کی وجہ سے بلند درجہ عطا فرمایا اور ہمارا قانون یہ ہے کہ نرفع درجت من نشاء ہم جس کو چاہیں درجات بلند کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی صلاحیت ‘ استعداد ‘ ظاہر و باطن اور قلبی حالت سے واقف ہے ‘ وہ اپنی حکمت کے مطابق جس کو اس قابل سمجھتا ہے۔ اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے خاص مہربانی فرمائی اور ان کے درجات بلند کردیئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی بلندی درجات کئی وجوہات سے ہوئی۔ انہوں نے قوم کے سامنے علی الاعلان شرک سے بیزاری کا اظہار کیا اور کہا ” انی وجھت وجھی الذی فطر السموات والارض “ میں اپنا رخ ‘ توبہ اور جسم و جان اس ذات کی طرف کرتا ہوں جو زمین و آسمان کا موجد اور انہیں عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ ” حنیفا وما انا من المشرکین “ میں ہر طرف سے کٹ کر صرف اسی کی طرف لگنے والا ہوں اور مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ آپ کی فکر کی بلندی اور عقیدے کی پختگی تھی جو آپ کے رفع درجات کا سبب بنی۔ فرشتوں کے درجات بھی اسی سبب سے بلند ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانتے ہیں ‘ اس کا ذکر اور عبادت کرتے ہیں انبیاء بھی توحید باری تعالیٰ کے امام اور مبالغ ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بھی بلند فرما دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو ابوالانبیاء ہیں آپ کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے ہزاروں نبی اور رسول مبعوث فرمائے۔ بنی اسرائیل کے آخری رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں اور حضور خاتم النبیین ﷺ بھی آپ ہی کی اولاد میں سے ہیں۔ عقیدے کی پاکیزگی کی ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو حسن اخلاق ‘ عبادت میں انہماک اور مخلوق خدا سے کمال درجے کی ہمدردی بھی عطا کر رکھی تھی ‘ لہٰذا یہ اوصاف بھی آپ کی بلندی درجات کا سبب بنے۔ فرمایا ان ربک حکیم علیم تیرا رب حکیم ہی ‘ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ وہ علیم بھی ہے ‘ اس کو ذرے ذریعے کا علم ہے اور وہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ بہرحال مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دلیل کا جواب تو نہ دے سکے ‘ مگر وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دینے لگے۔ دوسری سورتوں سے معلوم ہوتا ہے دلائل سے ناکامی کے بعد انہوں نے کئی قسم کی اذیتیں پہنچائیں حتیٰ کہ آپ کے قتل کے درپے ہوئے۔ مگر اللہ کی مدد ہمیشہ آپ کے شامل حال رہی ‘ دشمن آپ کو کوئی گزند نہ پہنچا سکے حتیٰ کہ ان کی طرف سے آپ کو زندہ جلا ڈالنے کا منصوبہ بھی بری طرح ناکام ہوگیا اور بالآخر آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم آ گیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) پر احسانات اللہ تعالیٰ جس انسان پر بہت بڑا احسان کرتا ہے اسے منصب نبوت سے نوازتا ہے۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) پر سب سے بڑا احسان تو یہ ہے کہ اللہ نے انہیں جلیل القدر پیغمبر بنایا اور پھر دوسرا بڑا احسان یہ کہ آپ کی نسل سے ہزاروں انبیاء و رسل مبعوث فرمایا۔ اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ووھبنا لہ اسحاق و یعقوب اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) جیسا عظیم فرزند اور یعقوب (علیہ السلام) جیسا پوتا عطا فرمایا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اسرائیل بھی کہا جاتا ہے اسی لئے آپ کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے تفسیری روایات کے مطابق آپ کی اولاد میں سے اللہ تعالیٰ نے چار ہزار نبی پیدا فرمائے اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔ ان آایت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا پہلے ذکر کیا ہے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا بعد میں حالانکہ اسماعیل (علیہ السلام) عمر میں بڑے ہیں مفسرین کرام اس کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت تک آپ کی والدہ حضرت سارہ بہت بوڑھی ہوچکی تھیں اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو برس تھی اور کم و بیش اتنی ہی حضرت سارہ کی تھی۔ اس عمر میں بچے کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی خاص قدرت اور انعام ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی میں ہی آپ کو یعقوب (علیہ السلام) پوتا عطا کیا ‘ یہ بھی بہت بڑا احسان ہے۔ روایات کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے 571 سال عمر پائی۔ اسی دوران حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ولادت بھی ہوگئی۔ چونکہ یہ دونوں چیزیں غیر معمولی طور پر پیش آئیں ‘ اس لئے اسحاق (علیہ السلام) کا ذکر پہلے کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے اور آپ کو دوسری فوقیت اس وجہ سے حاصل ہے کہ آپ آزاد عورت سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ جب کہ اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ہاجرہ کے بطن سے جن کو لونڈی کے طور پر شاہ مصر نے حضرت سارہ کو دیا تھا۔ اگرچہ حضرت ہاجرہ فی الواقعہ لونڈی نہیں تھیں مگر مصر میں وہ لونڈی کی حیثیت سے وقت گزار رہی تھیں۔ بہرحال حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اگرچہ اسحاق (علیہ السلام) سے چودہ سال بڑے ہیں۔ تاہم مذکورہ بالا دو وجوہات کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا تذکرہ پہلے فرمایا ہے ۔ کلاھدینا سب کو ہم نے ہدایت دی۔ اولاد نوح و ابراہیم (علیہ السلام) آگے احسان ہی کے تسلسل میں فرمایا و نوحا ھدینا من قبل اس سے پہلے ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ہدایت دی۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے آبائو و اجداد میں سے حضرت نوح کا ذکر فرمایا ہے جبکہ دونوں انبیاء کے درمیان بڑا طویل زمانہ حائل ہے۔ ومن ذریتہ دائود و سلیمن و ایوب و یوسف و موسیٰ و ہارون اور آپ کی اولاد میں دائود ‘ سلیمان ‘ ایوب ‘ یوسف ‘ موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کو ہدایت عطا کی یہاں پر ذریتہ میں کی ضمیر کو اگر نوح (علیہ السلام) کی طرف لوٹایا جائے تو بھی درست ہے کیونکہ فی والواقع حضرت ابراہیم بھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہی ہیں۔ اس لئے باقی سارے مذکورہ انبیاء بھی انہی کی اولاد میں شمار ہوتے ہیں اور اگر ہ کی ضمیر کو ابراہیم (علیہ السلام) کی طرلوٹایا جائے تو بھی ٹھیک ہے کیونکہ حضرت دائود ‘ سلیمان ‘ ایوب ‘ یوسف ‘ موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ بہرحال ان انبیاء میں سے کچھ تو براہ راست حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں اور کچھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے۔ یہاں پر مذکور کل اٹھارہ انبیائے کرام میں سے چودہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں اور باقی چار آپ کی نسل سے نہیں بلکہ براہ راست حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں جو کہ موجودہ پوری نوع انسانی کے باپ ہیں حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے ہیں ‘ لہٰذا آپ کی اولاد میں سے نہیں ہیں۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اور حضرت یسع (علیہ السلام) کے متعلق بھی آتا ہے کہ وہ اولاد ابراہیم (علیہ السلام) میں سے نہیں ہیں۔ اور خود حضرت نوح (علیہ السلام) تو سب کے بزرگ تھے ‘ لہٰذا آپ بھی اولاد ابراہیمی سے خارج ہیں۔ باقی سب انبیاء ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ فرمایا و کذلک نجزی المحسنین ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں یہ سب اللہ کے نیک بندے تھے لہٰذا نہوں نے بہتر بدلہ پایا۔ پھر فرمایا و زکریا و یحییٰ و عیسیٰ والیاس اور ہم نے حضرات زکریا ‘ یحییٰ ‘ عیسیٰ اور الیاس (علیہ السلام) کو بھی ہدایت سے نوازا۔ کل من الصلحین یہ سب کے سب نیکوکاروں میں سے تھے صلاحیت اور نیکی والے لوگ تھے۔ صالح اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ کے حقوق بھی ادا کرتا ہے اور بندوں کے حق میں ادا کرتا ہے۔ یہ سب نبی ایسے ہی تھے آگے فرمایا واسماعیل والیسع و یونس و لوطا یعنی حضرات اسماعیل ‘ یسع ‘ یونس اور لوط (علیہم السلام) بھی اللہ کے پیغمبر تھے ‘ اللہ نے ان کو بھی ہدایت دی۔ بہرحال یہ ابراہیم (علیہ السلام) پر ہونے والے احسان کا تذکرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد میں سے کتنے جلیل القدر انبیاء (علیہم السلام) کو پیدا فرمایا۔ انبیاء (علیہم السلام) کے گروپ ان آیات میں انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر مختلف گروپوں کی صورت میں ہوا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ گروپ انبیاء کی بعض مشترک خصوصیات کی بناء پر معرض وجود میں آتے ہیں۔ مثلاً حضرت ایوب (علیہ السلام) اور حضرت یونس (علیہ السلام) کا تعلق ابتلا کے گروپ سے ہے۔ دونوں پر سخت آزمائش آئیں ‘ حضرت ایوب (علیہ السلام) لمبی بیماری میں مبتلا رہے اور حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے۔ بعض انبیاء ایسے ہیں جن پر ابتلا اور خوشحالی والے دونوں دور آئے۔ جیسے یوسف (علیہ السلام) ہیں کہ غلام بھی بنے اور تخت شاہی پر بھی بیٹھے۔ اسی طرح حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) حکومت کے لحاظ سے مشترک اقدار کے حامل ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) بھی حکومت ملنے کی وجہ سے اس گروپ میں بھی شامل ہیں۔ بعض انبیاء کو عظیم معجزات عطا ہوئے ‘ ان میں حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے نام قابل ذکر ہیں اور بعض پیغمبر ایسے بھی ہوئے ہیں جن کا کوئی پیروکار نہیں بنا جیسے لوط (علیہ السلام) آپ اللہ کے عظیم رسول ہیں مگر قوم میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا جب ہجرت پر نکلے تو صرف بیٹیاں ساتھ تھیں۔ بیوی بھی پیچھے رہ گئی تھی اور بعض انبیاء عبادت و ریاضت میں بہت بڑھے ہوئے تھے جیسے حضرات الیاس ‘ زکریا ‘ یحییٰ اور عیسیٰ علیہ السلام۔ عطائے فضیلت ان اٹھارہ انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا وکلا فضلنا علی العلمین ان سب کو ہم نے جہان والوں پر فضیلت بخشی۔ یہ دوسرا بڑا احسان ہے۔ انہیں نبی بنایا ‘ ہدایت دی اور پھر اپنے اپنے زمانے میں تمام انبیاء باقی لوگوں پر فضیلت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم اور حکمت عطا کی اور بعض کو حکومت اور سلطنت بھی دی۔ یہ بھی فضیلت کی بات ہے۔ اور آخرت میں تو اس فضیلت کا بہت بہتر ثمرہ ظاہر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ وہاں بھی علی قدر المراتب ‘ اعمال اور ابتلا کی وجہ سے اعلیٰ درجات عطا فرمائیں گے۔ بنیادی طور پر تو اللہ کے سارے ہی نبی عابد ‘ زاہد اور کامل ہوتے ہیں۔ پھر بھی بعض کو حالات کی بناء پر بعض پر فوقیت حاصل ہے جیسے فرمایا تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض “ (البقرۃ) یہ رسول ہیں ‘ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ بہرحلا یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مشرکین کے سامنے دلیل پیش کرنے کے سلسلے میں ان کی اپنی فضیلت کا ذکر ہوا۔ اور آپ پر احسانات کے صمن میں آپ کی اولاد میں پیدا ہونے والے انبیاء ک ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ان سب پر اپنا احسان فرمایا ‘ ان انبیاء کا ذکر کر کے قرآن پاک کے اولین مخاطبین کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ حضور خاتم النبین ﷺ کا بھی وہی مشن ہے جو تمام سابقہ انبیاء کا تھا ‘ لہٰذا انہیں ان کی بات کو بسروچشم تسلیم کرلینا چاہئے۔
Top