Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 71
قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ هَدٰىنَا اللّٰهُ كَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ١۪ لَهٗۤ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ائْتِنَا١ؕ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰى١ؕ وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قُلْ : کہہ دیں اَنَدْعُوْا : کیا ہم پکاریں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : سوائے اللہ مَا : جو لَا يَنْفَعُنَا : نہ ہمیں نفع دے وَلَا يَضُرُّنَا : اور نہ نقصان کرے ہمیں وَنُرَدُّ : اور ہم پھرجائیں عَلٰٓي : پر اَعْقَابِنَا : اپنی ایڑیاں (الٹے پاؤں) بَعْدَ : بعد اِذْ هَدٰىنَا : جب ہدایت دی ہمیں اللّٰهُ : اللہ كَالَّذِي : اس کی طرح جو اسْتَهْوَتْهُ : بھلادیا اس کو الشَّيٰطِيْنُ : شیطان فِي : میں الْاَرْضِ : زمین (جنگل) حَيْرَانَ : حیران لَهٗٓ : اس کے اَصْحٰبٌ : ساتھی يَّدْعُوْنَهٗٓ : بلاتے ہوں اس کو اِلَى : طرف الْهُدَى : ہدایت ائْتِنَا : ہمارے پاس آ قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک هُدَى : ہدایت اللّٰهِ : اللہ هُوَ : وہ الْهُدٰي : ہدایت وَاُمِرْنَا : اور حکم دیا گیا ہمیں لِنُسْلِمَ : کہ فرمانبردار رہیں لِرَبِّ : پروردگار کے لیے الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ‘ کیا ہم پکاریں اللہ کے سوا ان کو جو نہ ہمیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان دے سکتے ہیں اور ہم پلٹا دیئے جائیں الٹے پائوں بعد اس کے کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہے۔ (الٹے) اس شخص کی طرح جس کو گمراہ کیا ہے شیطانوں نے زمین میں ‘ وہ حیران (متردد) ہے۔ اس کے ساتھی اس کو بلا رہے ہیں ہدایت کی طرف کہ ہماری طرف چلا آ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے بیشک اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم فرمانبرداری کریں۔ رب العلمین کی
ربط آیات گزشتہ کئی دروس سے شرک اور مشرکین کا رد بیان ہو رہا ہے۔ پھر خدا تعالیٰ کی صفات مختصہ کا ذکر بھی ہوا۔ آیات الٰہی کے ساتھ استہزاء کرنے والوں کی تردید ہوئی پھر اہل ایمان کو نصیحت کی گئی کہ آیات الٰہی پر طعن کرنے والوں کی مجلس میں مت بیٹھو کہ یہ دینی طور پر مضر اور تمہارے لئے سم قاتل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے برے انجام کا تذکرہ بھی کیا اور فرمایا کہ آپ ان کو اپنے حال پر چھوڑیں ایک دن آنے والا ہے ‘ جب یہ نادم ہوں گے ‘ مگر اس دن نہ ان کا کوئی سفارشی ہوگا اور نہ ہی کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا ‘ یہ لوگ آخرکار عذاب الٰہی میں گرفتار ہوں گے ۔ آج کی آیات میں بھی شرک ہی کی تردید ہے اور یہ سلسلہ آگے دور تک چلا جا رہا ہے۔ ان آیات میں بعض ان مشرکین کا تذکرہ بھی ہے جو اہل ایمان کو اپنے راستے پر چلنے کی دعوت دیتے تھے اور معبودان باطلہ کی عبادت پر آمادہ کرتے تھے۔ شرک کی دعوت مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ حضور ابوبکر صدیق ؓ کے بیٹے عبدالرحمن ؓ پہلے کافروں کے ساتھ تھے چناچہ معرکہ بدر میں وہ مشرکین کی طرف سے شامل ہوئے ‘ بعد میں اللہ نے آپ کو ایمان کی دولت نصیب فرمائی۔ اپنے ابتدائی دور میں اپنے باپ صدیق اکبر ؓ کو اپنے پرانے دین اور قوم اور برادری کے طریقے پر واپس آنے کی دعوت دیا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے اندعوا من دون اللہ کیا ہم اللہ کے علاوہ ان لوگوں کو پکاریں مالا ینفعنا ولا یضرنا جو ہمارے لئے نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ذات ایسی نہیں جس کو نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار حاصل ہو کیونکہ ہرچیز کا مالک تو خود خدا ہے اور ہم اس کے اسمائے مبارکہ میں النافع الضار بھی پڑھتے ہیں ج کا مطلب یہ ہے کہ نفع اور نقصان پہنچانے والا صرف وہی ہے ‘ مگر مشرکین اللہ کے علاوہ غیروں کو بھی نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں اور اسی لئے وہ ان کی پرستش کرتے ہیں۔ مشرکین کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی مافوق الاسباب پکارتے ہیں ‘ ان کی دھائی دیتے ہیں ‘ ان کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں اور ان سے حاجت براری کرتے ہیں۔ یہی شرک ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے دوسروں کو بھی اختیارات تفویض کر رکھے ہیں اور وہ تصرف کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اگر کوئی شخص غیر اللہ میں تصرف بالذات سمجھے تو یہ بھی غلط ہے اور اگر اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ نے انہیں بعض اختیارات دے رکھے ہیں تو اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ یہ ان کا خود ساختہ اور باطل عقیدہ ہے۔ جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ فرمایا ‘ کیا ہم اللہ کے سوا ان کی عبادت کریں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان ‘ تو اس کا مطلب یہ ہوگا و نرد علی اعقابنا بعد اذھدنا اللہ کہ ہم اپنی ایڑیوں پر پلٹ جائیں یعنی سابقہ باطل دین کی طرف لوٹ جائیں اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت کا راستہ دکھا دیا ہے۔ ایسا کرنا تو کسی مومن کے شایان شان نہیں ‘ وہ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کی طرف کیسے جاسکتا ہے۔ تدعوا کا معنی پکارنا بھی ہے اور عبادت کرنا بھی۔ کسی کو مافوق الاسباب پکارنا ‘ اس سے مشکل کشائی اور حاجت روائی کی امید وابستہ کرنا ہی تو شرک ہے یہ تصور رکھنا کہ اللہ کے سوا مافوق الاسباب کوئی اور بھی بگڑی بنا سکتا ہے ‘ کسی کی تکلیف رفع کرسکتا ہے یا اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنے اختیارات سونپ رکھے ہیں ‘ بالکل باطل عقیدہ ہے۔ نفع نقصان کا مالک تو صرف اللہ ہے متصرف فی الامور بھی وہی ہے ادنیٰ ذرے سے لے کر آفتاب تک اور زمین سے لے کر آسمانی کروں تک ہر چیز کی تدبیر کرنی والا کون ہے سورة الم سجدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” یدبر الامر من السماء الی الارض آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر خود وہی کرتا ہے ؟ جب بات اس طرح ہے۔ تو پھر ہم سچے دین کو چھوڑ کر جاہلیت کے دین میں کیسے چلے جائیں ؟ حالانکہ اللہ نے ہمیں ہدایت کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ شیطانی راستہ آگے اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بھی بیان فرمائی ہے کالذی استھوتہ الشیطین فی الارض کو واپس باطل دین کی طرف پھرجانے کی مثال اس شخص کی ہے جسے شیطانوں نے کسی زمین (جنگل) میں سرگرداں کردیا ہو۔ لفظ استھوتہ ھوی کے مادہ سے ہے جب یہ ضرب یضرب کے باب میں آتا ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے نیچے گرنا یعنی کسی چیز کا بلندی سے پستی میں گر جانا۔ جس نے کفر یا شرک کیا یا گمراہی کا راستہ پکڑا وہ ہلاکت کے گڑھے میں جا گرا۔ اور ھویٰ کا معنی خواہش اور محبت بھی ہوتا ہے۔ جیسے سورة نجم میں آتا ہے ” وما ینطق عن الھویٰ “ بنی اپنی خواہش سے بات نہیں کرتا۔ تو یہاں پر یہ دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یعنی یہ اس شخص کی مثال ہے جسے شیطان نے گمراہ کر کے ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا ہو۔ یا کسی شخص کو ایمان کے راستے سے ہٹا کر خواہش کے راستے پر لگا دیا ہو ۔ جب لوگ خواہشات نضانیہ کی پیروی کرنے لگتے ہیں تو پھر قوم یا برادری کی خواہش کے مطابق انہی کا دین قبول کرتے ہیں اور دین حق کی طرف نہیں آتے۔ فرمایا ‘ ایسے شخص کو شیطان نے بہکا کر جنگل میں سرگردان کردیا ہے جہاں وہ حیران حیران پریشان اور متردد بھٹک رہا ہے۔ لہ اصحب یدعونہ الی الھدی ائتنا وہاں اس شخص کے کچھ ساتھی بھی جو اسے بلا رہے ہیں کہ ہدایت کا راستہ یہ ہے جس پر ہم چلے رہے ہیں “ لہٰذا ادھر آ جائو ‘ مگر شیطان نے اسے ایسا بہکا دیا کہ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا کرے اور اسی طرح حیران و سرگرداں پھر رہا ہے۔ ہدایت کا راستہ اب درمیان میں جملہ معترضہ ہے قل ان ھدی اللہ ھوالھدی اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے۔ اللہ نے جو پروگرام وحی الٰہی ‘ کتب سماویہ ‘ قرآن پاک اور اپنے انبیاء کے ذریعے بھیجا ہے وہی ہدایت کا راستہ اور پروگرام ہے۔ جو کوئی اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرے گا۔ وہ تو خواہش نفسانی ہوگی۔ یا شیطان کی پیروی ‘ جس کے نتیجے میں وہ بالآخر ہلاکت کے گڑھے میں جا گرے گا۔ بہرحال اللہ نے ہدایت کا راستہ واضح کردیا ہے۔ اگر پھر بھی کوئی غلط راستہ اختیار کرے گا تو اس کی مثال بیان ہوچکی ہے کہ وہ حیران اور پریشان ہی پھرتا رہے گا۔ منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور ادھر صحیح راستے کی نشاندہی اس طرح فرمائی۔ وامرنا لنسلم لرب العلمین اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم پروردگار عالم کی اطاعت اور فرمانبردار نبی قبول کرلیں ‘ اس کے متعین کردہ اراستے پر چل نکلیں اور تمام شیطانی راستوں کو بھول جائیں۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) نے بڑے اچھے الفاظ میں اس کی تشریح یوں کی ہے کہ مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ وہ راہ گم کردہ لوگوں کو نصیحت کرتا ہے ۔ لوگوں کو شیطانی راستوں سے ہٹا کر صراط مستقیم کی طرف لاتا ہے ان کو خدائے وحدہ لا شریک کی چوکھٹ پر لے آتا ہے نہ کہ خود گمراہوں کے راستے پر چلنے لگتا ہے۔ مومن سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ توحید کی صاف اور سیدھی سڑک کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے سوا کسی ایسی ہستی کے آگے سربسجود ہوگا جو نہ نفع پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان دے سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص شیطانی راستے پر چل نکلتا ہے (معاذ اللہ) تو اس کی مثال اس شخص جیسی ہوگی جو اپنے رفقاء کے ساتھ جنگل میں سفر کر رہا تھا۔ ناگاہ غول بیابانی اور خبیث جنات نے اسے بہکا کر راستے سے الگ کردیا اور اب وہ چاروں طر بھٹکتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھی ازراہ ہمدردی اس کو آوازیں دے رہے ہیں کہ ہماری طرف آئو ‘ سیدھا راستہ یہ ہے ‘ مگر وہ پریشان اور مخبوط الہو اس ہوچکا ہے ‘ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ وہ کدھر جائے اور منزل کو کیسے پائے۔ فرمایا آخرت کے مسافر انسان کی مثال ایسی ہی ہے۔ اس کے سامنے ایمان اور توحید کی سیدھی راہ موجود ہے اس کے رفقائے سفر اللہ کے نبی ‘ پیغمبر اور ان کے ماننے والے ہیں ‘ مگر یہ شخص سیطان کے پھندے میں پھنس کر صحرائے ضلالت میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھی اور ہادی اسے صراط مستقیم کی طرف بلا رہے ہیں۔ مگر یہ شخص نہ کسی کی بات سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ تو فرمایا ‘ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم بھی اس بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح سرگراں ہوجائیں ‘ اسی لئے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے سوا ان معبود ان باطلہ کی عبادت کریں جو نفع نقصان کے مالک بھی نہیں ہیں۔ ہدایت پر پختگی فرمایا ‘ ہمیں ایک تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم پروردگار عالم کی فرمانبرداری کریں اور دوسرا یہ کہ وان اقیموالصلوٰۃ ہم نماز کو قائم کریں اس پر مداومت اختیار کریں کیونکہ نماز تعلق باللہ کا بہترین ذریعہ ہے اور ہمیں یہ بھی حکم ملا ہے واتقوہ کہ خدائے برتر سے ہر وقت ڈرتے رہیں کہ اس کی نافرمانی کر کے کہیں عتاب میں نہ آجائیں ‘ تقویٰ سے مراد جادہ حق اور حدود شریعت کی حفاظت کرنا اور دل میں خوف خدا رکھنا ہے کہ کہیں معصیت میں گرفتا رنہ ہوجائیں کیونکہ و ھوالذین الیہ تحشرون۔ وہی اللہ ہے جس کی طرف تم سب اکٹھے کئے جائو گے۔ آخرکار اسی کے سامنے پیش ہونا ہے ‘ اعمال کا محاسبہ ہوگا ‘ لہٰذا اس کے لئے ابھی سے تیاری کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی جیسی قیمتی پونجی دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے کہ اس محدود وقت میں نیکی کی تجارت کرے ‘ یہی تمہارے کام آئے گی۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ 1 ؎ کل الناس یغدوا فبائع نفسہ ہر شخص جو صبح کرتا ہے ‘ اپنے نفس کو بیچتا ہے ‘ یا اس کے بدلے میں لاکت خریدتا ہے یا نفس کو نجات دلا دیتا ہے ۔ اگر اس نے ایمان اور تقویٰ خرید لیا ‘ اس قیمتی پونجی کو اچھی کام میں لگا دیا تو اپنے آپ کو دوزخ سے آزاد کرا لیا اور اگر کفر ‘ شرک اور برائی خریدی تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا۔ انسان کی زندگی بڑا قیمتی سرمایہ ہے۔ زندگی کی پونجی ہمیشہ گھٹتی رہتی ہے۔ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اسے نیکی کے کام میں لائے اور اگر کفر و شرک ہی خریدا تو ” فما ربحت تجارتھم “ تو کفار کی تجارت نے انہیں کچھ فائدہ نہ پہنچایا۔ بلکہ انہوں نے ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو تباہ و برباد کرلیا۔ خالق و مالک اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ کی بعض صفات بیان کی گئی ہیں۔ وھوالذین خلق السموات والارض بالحق وہی اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمینوں کو حق کے ساتھ اس مقام پر کائنات کی پیدائش کیا آسمانوں اور زمینوں کو حق کے ساتھ اس مقام پر کائنات کی پیدائش کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھائی ہے کہ کائنات کا یہ پورا نظام بےسود ہی پیدا نہیں کردیا گیا ‘ بلکہ اس کا کوئی نتیجہ بھی سامنے آنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔ پھر جب یہ نظام مدت پوری کرلے گا تو پھر وہ دن بھی آجائے گا ویوم یقول کن فیکون جس دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہوجا ‘ تو وہ ہوجائے گا جس طرح اللہ نے انسان کو بنایا ‘ کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ‘ اسی طرح جب قیامت کا مقررہ دن آئے گا ‘ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر چیز فناہو جائے گی پھر جب اللہ تعالیٰ دوبارہ حکم کرے گا تو نئی زمین اور نیا آسمان پیدا ہوگا ‘ اور انسان دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے ‘ پھر حساب کتاب کی منزل آئے گی اور جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا ‘ مقصد یہ کہ وہ مالک الملک با اختیار ہے اسے ہر چیز پر تصرف حاصل ہے ‘ وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے بغیر کسی معاون کے کر گزرتا ہے۔ فرمایا قولہ الحق اس کی بات بالکل سچی ہے ولہ الملک اور بادشاہی بھی اسی کی ہے۔ تمام کائنات میں اسی کا حکم چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو زمین پر جو عارضی اختیار تفویض کرتا ہے ‘ اسے پا کر انسان بگڑ جاتے ہیں ‘ کوئی ڈکٹیٹر بن جاتا ہے اور کوئی شہنشاہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور ملک الملوک کی کرسی سنبھالنا چاہتا ہے ‘ انسان اقتدار کے نشہ میں آ کر اپنے انجام کو بھول جاتا ہے۔ قیامت کا نقشہ فرمایا جب بادشاہی اسی کی ہے تو پھر وہ جب چاہے اقتدار چھین بھی سکتا ہے۔ یوم ینفخ فی الصور جس دن صور میں پھونکا جائے گا یعنی جب قیامت کا بگل بج جائے گا تو سب فنا ہوجائیں گے حتیٰ کہ آخر میں ملک الموت کو بھی موت آجائے گی ‘ تمام مقرب فرشتے اور حاملین عرش ختم ہوجائیں گے اس دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ لمن الملک الیوم یعنی آج بادشاہی کس کی ہے مگر کوئی جواب دینے والا نہیں ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی فرمائیں گے۔ ” للہ الواحد القھار “ بادشاہی اللہ ہی کی حے۔ وہ اکیلا ہے اور قہار ہے فرمایا وہ اللہ علم الغیب والشھادۃ جو چیزیں مخولق کے سامنے ہوتی ہیں اور مشاہدے میں آتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی جانتا ہے اور جو چیزیں انسانی مشاہدے میں نہیں آتیں ان کو بھی جانتا ہے۔ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ کوئی چیز اس کے احاطہ سے باہر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت اس سورة مبارکہ میں بار بار دہرائی گئی ہے۔ سورة مائدہ کے آخر میں گزرچکا ہے۔ ” انک انت علام الغیوب “ عالم الغیب بھی اسی کے سوا کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تھوڑا سا علم دیا ہے۔ مخلوق میں سے انبیاء کو سب سے زیادہ علم دیا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں پوری مخلوق کا علم قلیل ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ انبیاء (علیہم السلام) جو علم آگے امتوں تک پہنچاتے ہیں وہ علم غیب نہیں ہوتا بلکہ غیب کی خبریں ہوتی ہیں جو وحی الٰہی کے ذریعے انبیاء کو بتائی جاتی ہیں۔ خدائے حکیم و خبیر آخر میں اللہ تعالیٰ کی دومزید صفات کا ذکر ہے۔ و ھوالحکیم الخبیر وہ حکیم ہے کہ اس نے ہر چیز کمال حکمت کے ساتھ بنائی ہے کوئی چیز بےسود پیدا نہیں کی بلکہ ہر چیز کی خلقت میں اس کی حکمت بالغہ کارفرما ہے۔ اللہ تعالیٰ خبیر ہے کہ کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں۔ وہ کسی چیز سے غافل نہیں۔ وہ خالق اور مالک ہے ‘ رب العالمین ہے یہ تمام صفات اس کی الوہیت پر دلالت کرتی ہیں معبود وہی سکتا ہے۔ جو ان صفات کا حامل ہو۔ جو نافع اور ضار ہو ‘ جو قادر مطلق ہو ‘ جو متصرف اور مدبر ہو۔ لہٰذا اس کے علاوہ کسی دوسرے کو پکارنے یا اس کی عبادت کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود مشرکین نے زمین و آسمان کی کئی چیزوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ اس سورة میں ہر قسم کے شرک کی تردید کی گئی۔ ابھی تک زمینی معبودوں کا ذکر ہوتا رہا ہے آپ آئندہ درس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں آسمانی اشیاء کی عبودیت کی نفی ہوگی۔ بہرحال زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی مخلوق ہے لہٰذا اس کے سوا معبود بھی کوئی نہیں ہوسکتا۔
Top