Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 61
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : پر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيُرْسِلُ : اور بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر حَفَظَةً : نگہبان حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَ : آپ پہنچے اَحَدَكُمُ : تم میں سے ایک۔ کسی الْمَوْتُ : موت تَوَفَّتْهُ : قبضہ میں لیتے ہیں اس کو رُسُلُنَا وَهُمْ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور وہ لَا يُفَرِّطُوْنَ : نہیں کرتے کوتاہی
اور وہی اللہ کی ذات غالب ہے اپنے بندوں پر۔ اور بھیجتا ہے وہ تمہارے اوپر نگران فرشتے ‘ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کے پاس موت کا وقت پہنچتا ہے تو وفات دیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اور ذرہ بھر بھی کوتاہی نہیں کرتے
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ کے علم محیط کا ذکر تھا جو الوہیت کی صفت خاصہ ہے اور ساتھ ساتھ قدرت تامہ کا بھی ذکر تھا۔ اب ان آیات میں بھی اللہ کی قدرت تامہ ہی کا بیان ہے اور اس سے اگلی آیات بھی ایسی ہی ہیں۔ علم محیط اور قدرت تامہ دونوں صفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں ‘ لہٰذا غیروں کی پرستش کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ مشرکین کو متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھو ! عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو قدرت تامہ کا مالک ہو اور جس کا علم ہر چیز پر محیط ہو ‘ امداد فوق الاسباب بھی وہی کرسکتا ہے ‘ لہٰذا مصیبت کے وقت دوسروں کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے اعلان کروایا ” انی نھیت ان اعبدالذین تدعون من دون اللہ “ مجھے اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ غیر اللہ کو پکارنا تو خواہشات نفسانیہ کی وجہ سے ہوتا ہے ‘ لہٰذا میں کسی ایسی ہستی کی عبادت کرنے کے لئے تیار نہیں جس کے پاس نہ قدرت تامہ ہو اور نہ علم محیط۔ یہ صفات تو اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ وہی واجب الوجود ہی اور وہی مدبر ہے ‘ لہٰذا عبادت بھی اسی کی ہو سکتی ہے۔ قدرت تامہ کی جزیات کے سلسلے میں گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ دیکھو ! اللہ تعالیٰ رات کی وقت تم پر نیند طاری کرتا ہے جو موت کی مانند ہے النوم مثل الموت یا النوم اخ الموت نیند کو موت کی بہن بھی کہا گیا ہے اس دوران انسانی روح بسا اوقات جسم سے نکل کر دور چلی جاتی ہے ‘ سیر و تفریح کرتی ہے ‘ اور کئی طرح کے منظر نظر آتے ہیں ‘ تاہم روح حیوانی انسانی جسم میں موجود رہتی ہے اور انسان کی سانس اور نبض کی حرکت جاری رہتی ہے پھر جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو روح انسانی واپس جسم میں واپس آجاتی ہے انسان بیدار ہوجاتا ہے اور دن کی وقت اپنے کاروبار میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ انجام دیئے جانے والے تمہارے تمام کام اس کی نگاہ میں ہیں۔ پھر وہ تمہیں مقررہ وقت پر کھڑا کر کے تمام اعمال تمہارے سامنے رکھ دے گا۔ اللہ بندوں پر غالب ہے فرمایا جو اللہ قدرت تامہ اور علم محیط کا مالک ہے و ھوالقاھر فوق عبادہ وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ‘ قہر کا معنی دبانا یا مغلوب کردینا ہوتا ہے۔ قہار اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ‘ وہ جس کو چاہے مغلوب کر دے ‘ اس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں بندے ظاہری اسباب اور سامان سے کتنے بھی لیس ہوں ‘ وہ کتنی بھی قوت رکھتے ہوں ‘ انجینئر یا سائنس دان ہوں ‘ اللہ تعالیٰ سب پر غالب ہے کیونکہ اس کی صفت قاہر ہے ۔ سورة یوسف میں آتا ہے ” واللہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون “ اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے طرح طرح کے غلط عقائد جنم لیتے ہیں۔ وہی غالب ہے جب چاہے بڑے بڑے سرکشوں کو دبا دے اور انہیں ذلیل و خوار کر دے کیونکہ فان العزہ للہ جمیعا (یونس) عزت ساری کی ساری اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ بہرحال قاہر کا معنی غالب اور دبانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت تامہ کے ساتھ اپنے بندوں پر غالب ہے۔ کراماً کاتبین فرشتے فرمایا یہ اس کی قدرت تامہ ہی کا کرشمہ ہے۔ ویرسل علیکم حفظۃ کہ وہ تم پر نگرانی کرنے والے فرشتے بھیجتا ہے۔ قرآن پاک کے مختلف مقامات سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین قسم خی فرشتوں کی ڈیوٹیاں ہر انسان کے ساتھ لگا رکھی ہیں ‘ پہلا گروہ کراماً کاتبین کا ہے۔ ان کا ذکر سورة الانفطار میں موجود ہے۔ ” کراماً کاتبین یعلمون ما تفعلون “ ہر انسان کانامہ اعمال تیار کرنے والے یہ بزرگ فرشتے ہیں جو انسانوں کے …کردہ امور کو جانتے ہیں اور انہیں اپنے رجسٹروں میں لکھ کر محفوظ کرلیتے ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے ” یا یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عمرتیدہ “ (ق) انسان اپنی زبان سے کچھ نہیں نکالتا مگر وہ نگران فرشتے موجود ہیں جو ہر بات کا ریکارڈ محفوظ کرلیتے ہیں اور اس طرح ہر انسان کا نامہ اعمال تیار ہوتا رہتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ تو علیم کل ہے وہ اگر کسی چیز کو نہ بھی لکھوائے تو کوئی بات نہیں وہ ہر انسان کے ہر فعل سے واقف ہے مگر اس نے فرشتوں کے ذریعے انسانی اعمال کی تحریر کا ایک نظام قائم کردیا ہے۔ قیامت کے روز یہ اعمال نامے انسانوں کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے ‘ پھر وہ اپنے کردہ اعمال کا انکار نہیں کرسکیں گے۔ اعمال پیش کنندہ فرشتے جو اعمال نامے کراماً کاتبین تیار کرتے ہیں ‘ وہ تو ہر انسان کو قیامت کے دن ملیں گے ‘ البتہ بعض فرشتے ایسے بھی ہیں جو ہر انسان کی کارکردگی کی رپورٹ صبح و شام اللہ کے پاس پیش کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں آتا ہے ۔ حضور لیہ السلام کا فرمان ہے کہ لوگوں کے اعمال ہر صبح شام پیش کئے جاتے ہیں اس کام کے لئے ہر انسان کے ساتھ فرشتے مقرر ہیں رات کی ڈیوٹی والے فرشتے صبح کی نماز کے وقت تک اس کی ساتھ رہتے ہیں۔ پھر وہ چارج دن کی ڈیوٹی والے فرشتوں کو دے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور انسان کے اعمال اللہ کی بارگاہ الٰہی میں پیش کرتے ہیں۔ دن کے فرشتے عصر کی نما ز کے وقت اپنا چارج رات کے فرشتوں کو دے کر دن کے اعمال لے جاتے ہیں۔ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ فجر اور عصر کی نمازوں کا خاص خیال رکھا کرو کیونکہ یہ اعمال کی پیشی کے اوقات ہیں۔ اگرچہ اس رپورٹ کی بھی خدا تعالیٰ کو ضرورت نہیں ہے تاہم یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انتظام موجود ہے۔ انسانی اعمال کے متعلق ہفتہ وار رپورٹ بھی خدا تعالیٰ کو پیش کی جاتی ہے اس کام کے لئے الگ فرشتے مقرر ہیں جو خمیس یعنی جمعرات خی دن ہر آدمی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں اس کے علاوہ سالانہ رپورٹ کا ایک دن بھی مقرر ہے۔ شب برأت کے موقع پر فرشتے ہر انسان کی پورے سال کی کارکردگی پیش کرتے ہیں۔ محافظ فرشتے سورۃ رعد میں موجود ہے ” لہ معقبت من بین یدیہ و من خلفہ یحفظونہ من امر اللہ “ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ایسے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو آگے پیچھے ہر طرف اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ نے ہر انسان کے ساتھ نگران فرشتوں کی جماعت مقرر کر رکھی ہے۔ یہ فرشتے اللہ کے حکم کے مطابق ہر انسان کو مختلف حوادثات سے بچاتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کو تکلیف میں مبتلا کرنا چاہتا ہے تو فرشتوں کی نگرانی اٹھا لیتا ہے اور ایسے شخص کے ساتھ وہ حادثہ پیش آجاتا ہے جو اس کی لئے مقرر ہوتا ہے ایسے فرشتوں کی صحیح تعداد تو اللہ ہی جانتا ہے ‘ تاہم بعض مفسرین کے مطابق ہر انسان کے ساتھ ساٹھ محافظ فرشتے ہوتے ہیں جو ہر وقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ جس طرح اس دنیا میں پولیس یا فوج کے سپاہیوں کی ڈیوٹیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اسی طرح فرشتوں کی جماعتیں بھی وقفے وقفے سے بدلتی رہتی ہیں۔ فرشتوں کا یہ دوسرا گروہ ہے۔ ملک الموت اور معاونین تیسری قسم کے فرشتے وہ ہیں جن کا ذکر آیت کے اگلے حصہ میں ہے اور جو انسانوں کی روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ چناچہ ارشاد ہے حتیٰ اذا جاء احدکم الموت جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے۔ توفتد رسلنا تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کو وفات دیتے ہیں یعنی اس کی روح کو قبض کرلیتے ہیں اور پھر اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اولاً یا توعلین کے مقام پر لے جاتے ہیں یا سجین کے مقام پر ۔ پھر جہاں اللہ کی مشیت ہوتی ہے۔ وہاں لے جاتے ہیں وھم لا یفرطون اور وہ اس معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے۔ طبرانی اور حلیہ الاولیاء کی روایت میں آتا ہے کہ ایک انصاری صحابی ؓ موت کی کشمکش میں مبتلا تھے حضور ﷺ وہاں تشریف لے گئے اور ملک الموت سے کہا ‘ یہ مومن ہے۔ جان کنی میں اس شخص کے ساتھ نرمی روا رکھنا ‘ تو اس نے جواب دیا۔ حضور ! آپ یقین جانیں ‘ میں ہر مون کے ساتھ نرمی کا سلوک کرتا ہوں انا رفیق بکل مومن میں تو ہر ایماندار کا دوست اور رفیق ہوں۔ پھر موت کے فرشتوں نے کہا کہ جب ہم کسی شخص کی روح قبض کر کے مکان کے صحن میں ہوتے ہیں ‘ تو میت پر رونے چلانے والوں کو کہتے ہیں کہ ہم نے تو کوئی گناہ یا کوتاہی تو نہیں کی ‘ ہم نے تمہارے عزیز کی جان کو قبل از وقت قبض نہیں کیا ‘ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔ اگر تم صبرو کرو گے تو اجر پائو گے اور اگر ثیخ و پکار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئو گے۔ ملک الموت نے یہ بھی کہا کہ میں تو ہر وقت گھروں میں گھومتا رہتا ہوں اور اللہ کے حکم کا منتظر رہتا ہوں جب اللہ کا حکم آجاتا ہے تو اس کی تعمیل کرتا ہوں۔ اس آیت کریمہ میں رسلنا جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وفات دینے یعنی روح قبض کرنے پر بہت سے فرشتے مامور ہیں۔ مگر سورة سجدہ میں ہے ” قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم “ صرف ایک فرشتہ ملک الموت تمہاری جانوں کو قبض کرنے کے لئے مقر ر کیا گیا ہے۔ اس اشکال کے جواب میں بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ دراصل جان قبض کرنے والا ملک الموت تو ایک ہی فرشتہ ہے البتہ باقی فرشتے اس کے ساتھ معاون ہوتے ہیں جو باقی امور انجام دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ روح قبض کرنے کے بعد اگر وہ جنتی ہے تو فرشتے اسے جنت کے خوشبودار رومال میں لپیٹ لیتے ہیں اور اگر مرنے والا جہنمی ہے تو اسے دوزخ کے بدبودار کپڑے میں لپیت کرلے جاتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ باقی کارروائی ہوتی ہے۔ بعض مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ ملک الموت کے علاوہ بعض دیگر فرشتے بھی انسان کی روح قبض کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصل قابض ایک ہی ہو اور باقی اس کے معاونین۔ بہرحال فرمایا کہ موت کا وقت آجانے پر ہمارے فرشتے اس شخص کی روح کو قبض کرلیتے ہیں اور ہمارے حکم کی تعمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے۔ اللہ کے حضور پیشی فرمایا جب فرشتے روح قبض کرلیتے ہیں ” ثم ردوا الی اللہ پھر انہیں اس اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ من لھم الحق جو کہ ان کا سچا آقا ہے۔ الاسنو ! لہ الحکم حکم تو اسی کا ہے تم غیروں کی پوجا کیوں کرتے ہو ؟ ان کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو ؟ خدا کی صفات مخصوصہ کو مخلوق کی طرف کیوں منسوب کرتے ہو ؟ یاد رکھو ! مشکل کشا صرف اللہ کی ذات ہے ‘ ہر ذرے ذرے سے واقف ہمہ دان اور ہمہ بین وہی ہے ‘ رحیم و کریم اور قدرت تامہ کا مالک وہ اللہ ہی ہے۔ وہ اپنی مشیت اور ارادے سے جو چاہے کرے ‘ اس کا ہر حکم بلاچون چرا قابل قبول ہے۔ تمام مخلوق اس کی احکام کی پابند ہے حتیٰ کہ انبیاء (علیہم السلام) بھی سب اللہ تعالیٰ کے عبد مامور ہیں۔ ایک موقع پر تیز ہوا چلنے لگی۔ حضور ﷺ کے پاس موجود ایک شخص نے ہوا کو برا بھلا کہا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہوا کو گالی مت دو یہ تو مامور من اللہ ہے۔ جیسا خدا کا حکم ہوتا ہے ‘ ویسے ہی چلتی ہے۔ مقصد یہ کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے۔ فرمایا حکم اسی کا ہے و من اسرخ الہسبیان اور وج جلد حساب لینے والا ہے۔ جب وہ حساب ‘ کتاب ‘ لینے پر آئی گا ‘ محاسبے کا عمل شروع کرے گا۔ تو انسان کی زندگی کے تمام اعمال یکدم سامنے آجائیں گے نیکی بدی کا پتہ چل جائے گا ‘ پھر وہاں کوئی دیر نہیں لگے گی ‘ کیونکہ وہ حساب کتاب کے معاملہ میں دیر نہیں کرے گا۔ فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے من یبخیس کم ان الظالمت البر رابعہ خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں تمہیں کون بچاتا ہے ؟ مقصد یہ ہے کہ جب خشکی یا سمندر میں رات کے وقت تم راستہ بھول جاتے ہو یا طوفان آجاتا ہے یکدم بارش برسنے لگتی ہے۔ تیز ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تم مشکل میں پھنس جاتے ہو ‘ بعض اوقات ‘ اس قدر گہری دھند چھا جاتی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا ‘ سرکوں پر حادثات پیش آنے کا خطرہ ہوتا ہے ‘ تو بتائو ایسے حالات میں تمہیں صحیح سلامت سے آنے والی کون سی ذات ہے۔ تدعونا ذرخرہ وخفیتہ جسے تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ وہ صرف اللہ ہے جو تمام مشکلات کو دور کرتا ہے اور انسانوں کو مصائب سے نجات دیتا ہے۔ قدیم مشرکین کا دستور یہ تھا کہ جب وہ طوفان میں گھر جاتے تھے ‘ یا کوئی سخت مشکل پیش آجاتی تھی تو خالص اللہ ہی کو پکارتے تھے ‘ وہ جانتے تھے کہ ایسے حالات میں اللہ وحدہ لا شریک ہی کام آسکتا ہے ‘ یہاں چھوٹے چھوٹے معبود کچھ کام نہیں آتے مگر کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آج کے مشرک ان مشرکوں سے بھی دو قدم آگے ہیں وہ کم از کم مشکل کے وقت تو خالص اللہ کو پکارتے مگر یہ ایسے موقع پر بھی غیر اللہ کی دہائی دیتے ہیں۔ کبھی خواجہ معین الدین چشتی (رح) کو پکارا جا رہا ہے ‘ کبھی خواجہ بہائوالدین زکریا ملتانی (رح) سے مدد طلب کی جاتی ہے اور بھی شیخ عبدالقادر جیلانی سے بگڑی بنانے کی درخواست کی جاتی ہے۔ ان بزرگوں نے لوگوں کو نور ایمان اور نور توحید سے منور کیا ‘ کفر اور شرک کی بیخ کنی کی ‘ ان کا وعظ سن کر بڑے بڑے چور اور ڈاکو ایمان لے آئے مگر اج کا مشرک انہی کی دہائی دے رہا ہے ‘ جس کفر اور شرک کے خلاف انہوں نے جہاد کیا ‘ ان کے ماننی والے آج اسی میں مبتلا ہیں ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جا رہا ہے۔ ان کے نام کی نذریں مانی جاتی ہیں اور ان کی تعلیم کو کوئی پوچھتا تک نہیں ‘ محض ان کے عرس سنا کر اور گیارہوں دے کر ان کا حق ادا کردیا جاتا ہے۔ یہ کہاں کا ایمان اور کہاں کا عقیدہ ہے۔ آداب دعا یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر طرہ سے پکارنا درست ہے ‘ تاہم گڑ گڑا کر ‘ عاجزی سے اور چپکے چپکے سے پکارنا افضل ہے کیونکہ اس میں ریاکاری کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے براہ راست قائم ہوجاتا ہے سورة اعراف میں بھی آتا ہے۔ ” ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ انہ لا یحب المعتدین “۔ اپنے رب کو عاجزی اور خاموشی سے پکارا کرو کیونکہ وہ زیادتی کو پسند نہیں کرتا۔ اسی سورة میں یہ بھی آتا ہے ” واذکر ربک فی نفسک تضرعا و خیفتہ و دون الجھر من القول “ اپنے رب کا ذکر اپنے دل میں گڑگڑا کر اور پوسیدہ طور پر کیا کرو اور آواز کو زیادہ بلند نہ کرو۔ سورة مریم میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کا تذکرہ آتا ہے۔ ” اذ نادی ربہ نداء خفیا “ اس نے اپنے رب کو خفیہ طریقے سے آواز دی۔ غرضیکہ یہ چیز آداب دعا میں سے ہے کہ اپنے پروردگار کو نہایت عجز و انکساری اور خفیہ طریقے سے پکارا جائے اور اس سے مدد طلب کی جائے۔ اللہ ہی بچانے والا فرمایا کہ تم مشکل کے وقت خالص اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہو اور ساتھ یہ بھی کہتے ہو لئن انجنا من ھذا اگر اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا لتکونن من الشکرین تو ہم تو اس کے شکرگزار بندوں میں سے ہوجائیں گے ‘ پھر ہم کفر و شرک سے باز آجائیں گے ‘ اس کی نافرمانی نہیں کریں گے ‘ بلکہ اسکے ہر حکم کی بسر و چشم تعمیل کریں گے۔ مصیبت سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہو ‘ منتیں مانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے رہائی دیدے اللہ نے فرمایا قل اے پیغمبر ! ان سے کہہ دیں اللہ ینجیکم منھا و من کل کرب اللہ ہی ہے جو تمہیں اس مشکل سے اور باقی مصیبتوں سے بچاتا ہے۔ تمام پریشانیوں کو وہی دور کرتا ہے ۔ مگر یہ اس کی مشیت پر موقوف ہے پیچھے اسی سورة میں گزر چکا ہے کہ جس اللہ کو تم پکارتے ہو وہ اگر چاہے تو تمہاری مشکلات کو دور کردیتا ہے۔ وہ ہر کام اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق کرتا ہے اگرچہ مخلوق اس کو سمجھنے سے قاصر ہو۔ سورة دہر میں بھی آتا ہے ” وما تشاء ئون الا ان یشاء اللہ “ ہر چیز اللہ کی مشیت پر ہے ‘ تمہاری مشیت وہاں کچھ نہیں کرسکتی۔ وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہی۔ اعادہ شرک فرمایا خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں اللہ ہی تمہیں تمام پریشانیوں سے نجات دیتا ہے مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب تم اس مشکل سے نجات حاصل کرلیتے ہو ” ثم انتم تشرکون “ تو پھر اسی طرح شرک کرنے لگتے ہو۔ بحر و بر کے ظلمات میں دست گیری تو اللہ کرتا ہے مگر جب بچ جاتے ہو تو پھر غیر اللہ کی نذر و نیاز شروع ہوجاتی ہے اس مشکل کشائی کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنے لگتے ہو ‘ پھر وہی قبر پرستی ‘ حجر پرستی اور شجر پرستی شروع ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں شرک کی تردید کے سلسلے میں اپنی قدرت تامہ کا ذکر فرمایا ہے اس سے پہلے علم محیط کا ذکر بھی ہوچکا ہے یہ مضمون آگے بھی جاری ہے۔
Top