Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 59
وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَعِنْدَهٗ : اور اس کے پاس مَفَاتِحُ : کنجیاں الْغَيْبِ : غیب لَا : نہیں يَعْلَمُهَآ : ان کو جانتا اِلَّا : سوا هُوَ : وہ وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا : جو فِي الْبَرِّ : خشکی میں وَالْبَحْرِ : اور تری وَمَا : اور نہیں تَسْقُطُ : گرتا مِنْ : کوئی وَّرَقَةٍ : کوئی پتا اِلَّا : مگر يَعْلَمُهَا : وہ اس کو جانتا ہے وَلَا حَبَّةٍ : اور نہ کوئی دانہ فِيْ : میں ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْاَرْضِ : زمین وَلَا رَطْبٍ : اور نہ کوئی تر وَّلَا : اور نہ يَابِسٍ : خشک اِلَّا : مگر فِيْ : میں كِتٰبٍ : کتاب مُّبِيْنٍ : روشن
اور اسی کے پاس ہیں چابیاں غیب کی ‘ نہیں جانتا ان کو اس کے سوا کوئی اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور دریا میں ہے اور جو گرتا ہے پتہ اس کو وہ جانتا ہے اور نہ کوئی دانہ زمین کی تاریکیوں میں اور نہ کوئی تر چیز اور نہ خشک چیز ہے مگر وہ کتاب مبین میں درج ہے۔
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید فرمائی پھر غیر اللہ کی پوجا کی ممانعت کے حکم کا ذکر فرمایا اور غیر اللہ کی عبادت کو خواہشات نفسانیہ پر مبنی قرار دیا۔ یہ جرم عقل سلیم ‘ فطرت سلیمہ ‘ انبیاء کی تعلیمات اور وحی الٰہی کے بھی خلاف ہے ‘ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ مجھے ان کی عبادت سے منع کردیا گیا ہے جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو جواب دیا جو حضور ﷺ سے من پسند نشانیاں تلاش کرتے تھے یا عذاب کے آنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ اللہ نے نبی (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوایا کہ یاد رکھو ! تمہاری فرمائشیں پوری کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ ” ان الحکم الا للہ حکم تو سارا اللہ کے قبضے میں ہے ‘ وہی قدرت تامہ کا مالک ہے اور میرے سمیت کسی مخلوق کے علم میں نہیں ہے کہ کس کو کس وقت سزا میں مبتلا کرنا ہے یا کوئی نشانی ظاہر کرنا مصلحت کے مطابق ہے یا نہیں۔ یا اس کو کب ظاہر کرنا ہے۔ یہ تو ہر چیز اسی مالک الملک کے قبضہ قدرت میں ہے اور پھر یہ بھی ذکر ہوچکا ہے واللہ اعلم باالظلمین آنکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے وہ اپنی مصلحت کے مطابق جب چاہے گا ان کو پکڑ لے گا۔ قدرت تامہ اور علم محیط کی بات پہلے بھی ہوچکی ہے ‘ تاہم آج کی آیات میں اس کی کچھ مزید جزیات کا تذکرہ ہے محیط کا معنی ہوتا ہے ہر چیز کا احاطہ کرنے والا یعنی ذرے ذریعے کا علم ہونا ‘ گزشتہ دروس میں بیان ہوچکا ہے کہ قدرت تامہ اور علم محیط دونوں صفات اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی قدرت تامہ کا مالک ہے اور نہ ہی کوئی علیم کل ہے مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کو سب سے زیادہ علم دیتا ہے دین اور شریعت کی کوئی بات ایسی نہیں ہوئی جو نبی کے علم میں نہ ہو شریعت کے علاوہ تکوینی اشیاء کی بہت سی جزیات پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو مطلع کردیتا ہے تاہم ذرے ذریعے کا علم نہ کسی نبی کو ہوتا ہے ‘ نہ فرشتے کو ‘ نہ جن کو ‘ نہ ولی کو اور نہ کسی دوسری ہستی کو ‘ لہٰذا علم محیط یعنی وہ علم جس نے ذرہ ذرہ کا احاطہ کر رکھا ہو ‘ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کی ساتھ ہی مختص ہے چونکہ تمام چیزوں کا خالق وہی ہے لہٰذا ان کی علمت اور اثرات کو بھی وہی جانتا ہے وہ علت العل ہے تمام کائنات اور مخلوق کا سلسلہ اسی پر جا کر ختم ہوجاتا ہے۔ مخلوق میں سے کوئی ذات ذرے ذرے کے علم کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ قدرت تامہ علم محیط اور قدرت تامہ ہی دو ایسی صفات ہیں جو لوگوں کو اشتباہ میں ڈالتی ہیں۔ نبی کی زبان سے کوئی بات سنی تو کہنے لگے کہ یہ بھی لیم کل ہے۔ یا کسی نبی یا ولی کے ہاتھ پر کوئی نشانی دیکھی تو اس کو نبی یا ولی کا ذاتی فعل سمجھ لیا اور کہنے لگے کہ یہ بھی قدرت تامہ کے مالک ہیں۔ عیسائی اور مشرکین اسی راستے سے شرک میں مبتلا ہوئے اور آج کا مسلمان بھی اسی اشتباہ میں گرفتار ہو کر شرک کا مرتکب ہوتا ہے ‘ معجزات کو انبیاء کا اور کرامات کو اولیاء کا ذاتی فعل سمجھ لیا جاتا ہے ‘ پھر ان سے مشکل کشائی اور حاجت روائی کی امید لگائی جاتی ہے ‘ ان کی پوجا شروع ہ وجاتی ہے بس یہی شرک ہے۔ آپ قرآن پاک میں جگہ جگہ پڑھتے ہیں ” واللہ بکل شئی علیم “ ہر چیز کو جاننے والا اللہ ہے ۔ واللہ علی کل شئی شھید ہر چیز پر نگر ان اور محافظ ‘ حاضر اور ناظر صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ مخلوق میں سے کوئی نہیں جو ان صفات کا حامل ہو۔ اسی طرح واللہ علی کل شئی قدیر بھی آتا ہے۔ قدرت تامہ کا مالک بھی وہی ہے جو چاہے سو کرے۔ اس کی حکمت میں کون دخل اندازی کرسکتا ہے ؟ وہ مالک ہے جس کو چاہے عطا کر دے اور جس سے چاہے روک لے۔ یہ سب کچھ قدرت تامہ کے مالک کے اختیار میں ہے۔ اسی مقام پر لوگ دھوکا کھاتے ہیں اور انبیاء (علیہم السلام) خصوصاً سرور کائنات ﷺ کو عالم الغیب ماننے لگتے ہیں۔ علم غیب علم محیط کی طرح علم غیب بھی بعض لوگوں کے لئے اشتباہ کا باعث بنتا ہے۔ بات یہ ہے کہ عالم الغیب ہونا اللہ تعالیٰ کی صفت مختصہ ہے اور یہ لفظ کبھی کلی علم پر بولا جاتا ہے اور کبھی اضافی علم پر۔ کلی علم کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ” قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ (سورۃ النمل) زمین و آسمان میں اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا۔ یا جیسا کہ سورة مائدہ کے آخر میں گزرچکا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” انک انت علام الغیوب “ اے مولا کریم تمام غیبوں کا جاننے والا صرف تو ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر علم غیب کا اطلاق اضافی طور پر بھی کیا جاتا ہے جیسے عالم الغیب والشھادۃ و غیب اور حاضر تمام چیزوں کو جانتا ہے۔ یہاں پر غیب و شہادت کا اطلاق مخلوق کی نسبت سے ہے یعنی جو چیزیں مخلوق کے لئے ظاہر نہیں ہیں اور جو ان کے سامنے ظاہر ہیں سب کو خدا تعالیٰ جانتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو چیزیں مخلوق کے لئے محسوسات کے قبیل سے ہیں یا غیر محسوسات کے قبیل سے اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے یہ مخلوق کے اعتبار سے ہے وگرنہ حقیقت غیب کا اطلاق اللہ پر ہوتا ہی نہیں کیونکہ اس کی نگاہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ اس کا اپنا ارشاد ہے ” لا یعزب عنہ مثقال ذرۃ “ (سبا) اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے تو ایک ذرے کے برابر بھی کوئی چیز غائب نہیں ہے ۔ غرضیکہ یہاں پر عالم الغیب کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر اضافی طور پر کیا گیا ہے اور مخلوق کی نسبت سے کہ جو چیزیں مخلوق کے لئے حاضر یا غیر حاضر ہیں تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں کہ غائب اس چیز کو کہا جائے گا جو اب تک ظاہر نہیں ہوئی۔ یا جو چیز ظاہر تو ہوچکی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس پر مطلع نہیں کیا۔ ایسی چیزوں کا علم خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ یہی علم غیب ہے اور یہی علم محیط ہے و ھو بکل شیء محیط ہر چیز کو قدرت تامہ اور علم محیط کے ساتھ گھیرنے والا فقط اللہ تعالیٰ ہے۔ مخلوق میں سے کوئی ہستی اس صفت کی ساتھ متصف نہیں کی جاسکتی۔ غیب کی چابیاں یا خزانے آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نی اپنے علم محیط اور قدرت تامہ کی تعبیر اس طرح فرمائی ہے وعندہ مفاتح الغیب اور اس کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں ‘ مفاتح اگر مفتح کی جمع ہے تو اس کا معنی غیب کی چابیاں ہے جیسا کہ شیخ الہند نے بھی یہی ترجمہ کی اہی اور چابی وہ آلہ ہے جس کی ساتھ تالا کھولا جاتا ہے ۔ اگر کسی مکان میں تالا پڑا ہے تو اس مکان کے اندرونی حصے کا علم اسی ذات کو ہوگا جس کے پاس اس تالے کی چابی ہے اس لحاظ سے مفتاح الغیب کا معنی یہ ہوگا کہ غیب کی تمام کنجیاں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور تمام غیوب کو وہی جانتا ہے جس کے پاس یہ چابیاں ہیں دوسرا کوئی نہیں جان سکتا۔ اس لحاظ سے بھی علیم کل اور علم محیط کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے کیونکہ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں اور مفاتح ‘ مفتح کی جمع بھی بنتی ہے جس کا معنی خزانہ ہوتا ہے اس لحاظ سے جمع کا معنی یہ ہوگا کہ غیب کے تمام خزانے اسی کے پاس ہیں۔ سورة قصص میں جہاں قارون کا ذکر ہے وہاں فرمایا کہ قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا جو ان پر تعدی کرتا تھا ‘ ہم نے اس کو اتنے خزانے عطا کئے کہ اس کی چابیاں ایک طاقتور قوم کو اٹھانا مشکل ہوتی تھیں۔ یہاں پر الفاظ ہیں۔ ” ان مفاتحہ لتنوا بالعصبۃ اولی القوۃ یہاں پر مفاتح کا معنی چابی بھی ہے اور خزانے بھی۔ سورة حجر میں بھی اللہ کے خزانوں کا ذکر ہے وان من شیء الا عندنا خزائنہ “ تمام چیزوں کے خزانے ہمارے پاس ہیں ۔ ان خزانوں کا تعلق رزق سے ہو یا اناج سے ‘ علم سے ہو یا صحت سے ‘ ہنر سے ہو یا کمال سے ‘ حسن سے ہو یا جمال سے تمام کے تمام خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں۔ وما نزلہ الا بقدر معلوم اور ہم ان کو معلوم اور مقررہ اندازے کے مطابق ہی نازل فرماتے ہیں۔ بہرحال مفاتح کا معنی چابی بھی ہے اور خزانہ بھی۔ اور تمام خزانے اور ان کی چابیاں اللہ ہی کے پاس ہیں۔ لہٰذا وہاں تک مخلوق میں سے کسی کو رسائی نہیں ہے۔ غیوب خمسہ حدیث شریف میں آتا ہے خمس مفاتح الغیب لا یعلمھا الا اللہ یعنی غیب کی چابیاں پانچ ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة لقمان کی آخری آیت میں کیا ہے۔ ” ان اللہ عندہ علم الساعۃ “ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اور اس علم کی بہت سی جزیات ہیں جن میں سے کچھ نشانیاں انبیاء (علیہم السلام) اور خصوصاً حضور خاتم النبین ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بتلا دیں بایں ہمہ قیامت کی پوری تفصیل اللہ کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں۔ نہ ملائکہ جانتے ہیں اور نہ کوئی نبی یا ولی۔ گویا قیامت کا علم غیب کی چابیوں میں سے ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ” وینزل الغیث “ وہی بارش اتارتا ہے یہ غیب کی دوسری چابی ہی ‘ بارش کب ہوگی ‘ کتنی دیر جاری رہے گی ‘ ہلکی ہوگی یا موسلادھار اور اس کی مقدار کیا ہوگی ؟ یہ سب چیزیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا موسمیات والے بعض آلات کے ذریعے بارش یا خشکی کی پیش گوئی کرتے ہیں مگر وہ حتمی نہیں ہوتی اور بسا اوقات غلط بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ محض اندازہ ہوتا ہے نہ کہ علم غیب۔ اسی طرح ہوا کی رفتار یا اسکے دبائو کے متعلق بیرومیٹر یا دیگر آلات کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہوا اس آلے کے اندر سے گزرتی ہے قبل از وقت تو کچھ نہیں بتایا جاسکتا ‘ بارش کی پیشین گوئی بھی اسی وقت کی جاتی ہے جب بارش کا مادہ ہوا میں آتا ہے اور پھر وہ آلے کے ذریعے معلوم ہوتا ہے ‘ وگرنہ بارش کی پیشین گوئی بارش کے آنی سے دو ماہ پہلے تو نہیں کی جاسکتی۔ کسی اندازے کو پیشین گوئی کے طور پر ظاہر کرنے کو غیب پر محمول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ چیز تو کسی واسطے سے حاصل ہوتی ہے اور غیب وہ ہوتا ہے جو بغیر واسطے کے حاصل ہو۔ تو بہرحال فرمایا کہ بارش کے نزول کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔ پھر فرمایا ویعلم ما فی الارحام “ وہ جانتا ہے جو کچھ ماں کے رحم میں ہے یعنی اس کی علاوہ پوری تفصیلات کوئی نہیں جانتا۔ ڈاکٹری آلات کے ذریعے بعض اوقات اس حد تک علم ہوجاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یا بچی اور وہ بھی حمل قرار پانے کے کافی عرصہ بعد مگر کوئی آلہ یہ نہیں بتا سکتا کہ ہونے والا بچہ مومن ہوگا یا کافر ‘ سعادت مند ہوگا یا شقی ‘ اس کی عمر کیا ہوگی ‘ دنیا میں کل کتنے سانس لے گا ‘ کیا پیشہ اختیار کرے گا ‘ کتنا کمائے گا اور کتنا خرچ کرے گا۔ یہ سب چیزیں اللہ کی سوا کوئی نہیں جانتا۔ لہٰذا غیب دان بھی صرف وہی ہے۔ آلات کے ذریعے پیش گوئیاں محض تخمینی ہوتی ہیں۔ انہیں حتمی تسلیم نہیں کیا جاسکتا ‘ لہٰذا یہ چیز غیب میں داخل نہیں۔ غیب کی چوتھی کنجی کے متعلق فرمایا ما تدری نفس ماذا تکسب غدا “ کسی شخص کے علم میں نہیں ہے کہ کوئی شخص کل کیا کرے گا۔ لوگ مستقبل کے لئے بڑے بڑے پروگرام بناتے ہیں ‘ اپنی ڈائریوں میں نوٹ کرتے ہیں مگر کای وہ لازماً ان کے مطابق عمل کر پاتے ہیں۔ پتہ نہیں کل تک زندگی بھی باقی ہے یا نہیں کسی بھی حادثے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں ‘ آندھی ‘ طوفان اور سیلاب آجاتے ہیں جس سے تما م پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا حتمی طور پر کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اسی طرح ” وما تدری نفس بای ارض تمرت “ کوئی شخص نہیں جانتا کہ اسکی موت کہاں واقع ہوگی۔ یہ غیب کی پانچویں چابی ہے ‘ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر نفس کی کتنی عمر ہے اور اس کی موت کہاں اور کس وقت واقع ہوگی۔ تو فرمایا یہ غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ بعض غیب کی خبریں ہوتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق انبیاء کرام کو عطا کردیتا ہے۔ بعض اوقات ان کا کشف اولیاء اللہ پر بھی ہوتا ہے۔ قرآن پاک نے انہیں انباء غیب کے نام سے تعبیر کیا ہے مثلاً سورة ہود میں جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کے حق میں آپ کی دعا کا ذکر کیا ہے وہاں فرمایا ہے ” تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک “ یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ سورة آل عمران میں حضرت مریم (علیہما السلام) کے واقعات بیان کرنے کے بعد فرمایا ” ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک “ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کے ذریعے بھیجتے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی یا بذریعہ کشف والہام کسی چیز پر مطلع کردینا علم غیب نہیں ہوتا بلکہ غیب کی خبر ہوتا ہے۔ اور غیب صرف وہ ہوتا ہے جو بغیر کسی واسطے کے معلوم ہو یعنی نہ تو حواس خسمہ کے زریعہ معلوم اور نہ کشف والہام یا وحی کی ذریعے اور نہ ہی عقل اور فہم و ادراک کی ذریعے یہ سب علم کے ذرائع ہیں اور غیب وہ ہوتا ہے جو بغیر کسی ذریعہ اور واسطہ کے حاصل ہو۔ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے جسے کسی چیز کو معلوم کرنے کے لئے نہ کسی واسطے کی ضرورت ہے ‘ نہ آلے کی اور نہ کسی مادے کی۔ وہ ان کے بغیر ہی سب کچھ جانتا ہے لا یعلمھا الا ھو نہیں جانتا ان کو اس کے سوا کوئی یہ اصول بیان کرنے کے بعد کہ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘ اللہ تعالیٰ نے علم غیب کی بعص جزیار ہو کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ارشاد ہے ویعلم ما فی البر والبحر و ہ خشکی اور تری میں پائی جانے والی تمام اشیاء کو جانتا ہے۔ اس کا علم خشکی کے تمام خطوں یعنی میدانوں ‘ پہاڑوں ‘ صحرائوں اور جنگلوں کی ہر چیز پر محیط ہے۔ اللہ کی زمین پر اس کی کتنی مخلوق آباد ہے ‘ اس میں کیا کیا چیزیں پائی جاتی ہیں حیوانات ‘ درندوں ‘ چرندوں اور پرندوں کی کتنی قسمیں اور کتنی تعداد ہے ‘ کتنے انسان آباد ہیں ‘ کیڑے مکوڑوں کی کتنی تعداد ہے ‘ جنگلا ت میں کس کس قسم کے کتنے درخت موجود ہیں۔ ان پر کتنا پھل لگتا ہے ‘ کتنے کانٹے اور کتنے پھول ہیں ‘ ان کی کیا کیا تاثیر ہے۔ جڑی بوٹیاں کہاں کہاں اور کون کونسی پائی جاتی ہیں ‘ ان میں لوگوں کے لئے کس قدر فوائد اور کس قدر نقصانات ہیں۔ پھر پہاڑوں میں کتنے پتھر ہیں ‘ کتنے ہیرے ‘ کتنا لوہا ‘ کوئلہ اور دیگر مع دنیات ہیں۔ تیل کے کتنے ذخائر زمین کے اندر پوشیدہ ہیں ‘ کون کونسی گیس ہے جس سے زلزلے آتے ہیں اور جس سے لوگ مستفید ہوتے ہیں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ‘ اسی طرح دریائوں ‘ سمندروں ‘ اور جھیلوں میں کون کون سے جانور موجود ہیں ‘ ان کی کتنی تعاد ہے ۔ مچھلیاں کتنی ہیں اور باقی جاندار کتنے ہیں۔ سمندروں میں کتنے سیپ ہیں ان میں کتنے موتی ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ خشکی اور تری کی ہر چیز کو جاننے والا وہی ہے۔ فرمایا وما تسقط من ورقۃ الا یعلمھا درختوں سے گرنے والے ہر پتے کو وہی جانتا ہے کوئی حکیم ‘ سائنس دان یا دانشور یہ نہیں بتا سکتا کہ فلاں پتہ درخت سے کب گرے گا ‘ یہ کب خشک ہوجائے گا اور پھر خود بخو د گر پڑے گا گر کر کتنی دور تک جائی گا اور کس مقام پر جا کر رکے گا۔ کوئی نہیں جانتا۔ ولا حبۃ فی ظلمت الارض زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے۔ ولا رطب ولا یا بس اور نہ کوئی تر یا خشک چیز ہے الا فی کتب مبین مگر یہ کہ وہ کتاب مبین میں درج ہے۔ اللہ کے سوا کون جانتا ہے کہ پوری زمین میں کس ک جگہ پر کون کونسا دانہ گرا پڑا ہے اور پھر اس سے کب اور کیا پیدا ہوگا۔ اس سے کتنے دانے اگیں گے اور یہ سلسلہ کہاں تک پہنچے گا یہاں پر اللہ تعالیٰ کے علم کو کتاب مبین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر ام الکتب کہا گیا ہے اس کے بعد دوسرے درجے میں لوح محفوظ بھی مراد ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی نہ کوئی ایسی تختی ضرور موجود ہے جس پر تمام اشیاء کی تفصیل درج ہے یہی حال مراد یہی ہے کہ ہر چیز اللہ کے علم میں ہے۔ مخلوق کا علم پہلے قدرت تامہ کی دلیل بیان ہوئی تھی۔ اب علم تام کی دلیل بھی ہوگئی۔ علم تام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور علم محیط کا مالک بھی وہی ہے ۔ نبی کو اسی قدر معلوم ہوتا ہے جس قدر اللہ تعالیٰ بتا دیتا ہے وہ خواہ وحی کے ذریعے بتائے یا کشف والہام کی ذریعے مخلوق کو علم اتنا ہی ہوتا ہے جس کو وہ ظاہر فرما دیتا ہے۔ شاہ عبدالقادر مہدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ فلاں نبی یا ولی یا بزرگ ہمارے حالات سے واقف ہے ‘ اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ مخلوق کے تمام حالات خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کس کو کونسی تکلیف ہے ‘ اندرونی بیماری ہے یا بیرونی ‘ اس کے مجموی حالات کیسے ہیں ‘ سب کچھ وہی جانتا ہے جو خالق اور علت العل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی کسی کی تکلیف کو جانتا ہے اور نہ اسے رفع کرنے پر قادر ہے ۔ شیخ سعدی (رح) فرماتے ہیں کہ ” اگر خلق غیب والے بودے کسے از دست کے آسودہ نہ بودے تو آدمی دوسرے کے ہاتھ سے آسودہ حال نہ ہوتا۔ یہ تو اللہ کا انعام ہے کہ اس نے مخلوق کو غیب دان نہیں بنایا ‘ ورنہ سارا نظام ہی درہم برہم ہوجاتا۔ مقصد یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اپنے حالات کا اظہار نہیں کرتا دوسرے کو معلوم نہیں ہوتا۔ سوائے اللہ کے کہ اسے ذرے ذرے کی خبر ہے۔ نیند اور موت علم محیط کی بات کرنے کے بعد قدرت تامہ کی ایک مثال بھی بیان فرمائی ہے وھم الذی یتوفکم بالیل وہی اللہ ہے جو تمہیں رات کے وقت وفات دیتا ہی یہاں وفات کو نیند کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے کیونکہ نیند کو اخ الموت یعنی موت کی بہن کہا گیا ہے۔ نیند وار موت میں فرق یہ ہے کہ نیند کے دوران انسان کی روح انسانی نکل جاتی ہے مگر روح حیوانی اپنی جگہ قائم رہتی ہے روح النافی کے نکلنے سے انسان کے حواس معطل ہوجاتے ہیں اور یہ روح باہر نکل کر ادھر ادھر جہاں خدا کا ہکم ہوتا ہے چلتی پھرتی رہتی ہے جس سے خواب کا سلسلہ بھی قائم ہوجاتا ہے۔ اس دوران روح حیوانی اپنا کام جاری رکھتی ہے جس سے اس کی سانس چلتی رہتی ہے اور انسان زندہ رہتا ہے۔ انسان کی موت اس وقت واقع ہوتی ہے جب روح انسانی کے ساتھ روح حیوانی بھی رخصت ہوجاتی ہے۔ نیند کی دوران روح انسانی تو باہر ہی ہوتی ہے ‘ بعض اوقات روح حیوانی بھی چلی جاتی ہے تو انسان کی موت نیند کے دوران ہی واقع ہوجاتی ہے۔ ہمارے اکابرین میں سے حضرت مولانا مدنی (رح) نے قیلولہ کے دوران وفات پائی۔ قاری عبدالمالک (رح) بھی نیند میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔ بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے موت کو نیند کی ساتھ تشبیہہ دی ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں انسانی ہو اس معطل ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے حضور پیشی فرمایا وہ اللہ تمہیں رات کے وقت وفات دیتا ہے۔ ویعلم مداجحتم بالنھار اور جانتا ہے جو کچھ تم کماتے ہو دن کے وقت نیکی یا بدی ‘ نفع یا نقصلان کا جو کام بھی انجام دیتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے واقف ہوتا ہے۔ فرمایا ثم یبعثکم فیہ پھر وہ اٹھاتا ہے تم کو دن میں۔ رات کو ختم کیا اور دن کو جاری فرما دیا۔ حدیث شریف میں یہ دعا سکھائی گئی ہے الحمد للہ الذین احیانی بعدما اما تنی خدا تعالیٰ کا شکر ہے جس نے رات کو ایک قسم کی موت یعنی نیند طاری کر کے دن کو پھر زندہ کردیا اور حکم دیا کہ میرا ذکر کرو۔ فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں رات گزرنے کے بعد دن کے وقت دوبارہ اٹھا دیتا ہے۔ لیقضیٰ اجل مسمی تا کہ پورا کرے مقررہ وقت۔ سورة ہذا کے شروع میں بیان ہوچکا ہے کہ کائنات کی مجموعی موت کا وقت بھی اللہ نے مقرر کر رکھا ہے جو قیامت کو آجائے گا۔ اس کے علاوہ ہر شخص کی انفرادی موت کا وقت بھی مقرر ہے کسی کو علم نہیں کہ وہ وقت کب آجائے گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رات کے بعد تمہیں دوبارہ اٹھایا جاتا ہے تا کہ تم اپنا مقررہ وقت پورا کرسکو۔ ثم الیہ مرجعکم پھر تم سب کا اسی ہی کی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تم سب کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ ثم ینبئکم بما کنتم تعملون پھر وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم اس دنیا میں کرتے رہے۔ اعمال نامہ سامنے کردیا جائے گا جس میں ذرہ ذرہ کا حساب موجود ہوگا اور پھر ان اعمال کے مطابق اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا۔
Top