Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 57
قُلْ اِنِّیْ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ كَذَّبْتُمْ بِهٖ١ؕ مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ یَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْ : بیشک میں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّيْ : اپنا رب وَكَذَّبْتُمْ : اور تم جھٹلاتے ہو بِهٖ : اس کو مَا عِنْدِيْ : نہیں میرے پاس مَا : جس تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کر رہے ہو بِهٖ : اس کی اِنِ : صرف الْحُكْمُ : حکم اِلَّا : مگر (صرف) لِلّٰهِ : اللہ کیلئے يَقُصُّ : بیان کرتا ہے الْحَقَّ : حق وَهُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہتر الْفٰصِلِيْنَ : فیصلہ کرنے والا
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ‘ بیشک میں کھلی دلیل پر ہوں اپنے رب کی طرف سے اور تم نے اس کو جھٹلا دیا ہے نہیں ہے میرے پاس وہ بات جس کی تم طلب کرتے ہو۔ نہیں ہے حکم مگر اللہ تعالیٰ کے لئے وہ حق بیان کرتا ہے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کا تذکرہ فرمایا تھا جن کا تعلق اہل ایمان کے ساتھ تھا ‘ مثلاً یہ کہ آپ ضعیف اور نادار اہل ایمان کو اپنے آپ سے دور نہ کریں بلکہ ان پر نگاہ شفقت رکھیں اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض کے ساتھ آزمایا ہے تو عین ممکن ہے کہ کمزور لوگ با صلاحیت اور ایمان دار ہوں اور اعلیٰ صلاحیت کے مالک گمراہ ہوں اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا ہے کہ غریب لوگ ہی ایمان قبول کرتے ہیں۔ جب کہ امراء اپنے غرور اور تکبر اور مال و دولت کے گھمنڈ میں ایمان سے محروم رہتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا کہ ان ناداروں کو مجلس سے دور نہ کریں بلکہ جب وہ آپ کے پاس حاضر ہوں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کی بشارت سنائیں اللہ نے رحمت کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہے اور اس کی رحمت بےپایاں ہے اس مالک الملک کا یہ بھی فرمان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص نادانی کی وجہ سے غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے ‘ پھر وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلے تو میں اسے معاف کر دوں گا۔ یہ سب باتیں اہل ایمان سے متعلق تھیں۔ اور اب آج کے درس میں ان باتوں کا ذکر ہے جن کے لئے مکذبین کو خطاب کرنا زیادہ مناسب ہے تا کہ ان مجرمین کو تنبیہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید اور مقام توحید کی تشریح بھی بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے انی نھیت مجھے منع کیا گیا ہے۔ نھیت مجہول کا صیغہ ہے یعنی مجھے روک دیا گیا ہے ان اعبد الذین تدعون من دون اللہ اس بات سے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو یعنی عبادت کرتے ہو اور یہی صریح شرک ہے اور اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ جو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے گا میں ایسے شخص کو معاف نہیں کروں گا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اس کے علاوہ بھی اگر کسی انسان کا ضمیر بالکل مردہ نہیں ہوگیا ‘ تو وہ گواہی دیتا ہے کہ شرک بہت بری بات ہے ‘ اس کا ارتکاب نہیں کرنا چاہئے۔ شاعر نے خوب کہا ہے۔ ففی کل شئی لہ ایتہ تدل علی انہ واحد یعنی انسان کے لئے ہر چیز میں نشانیاں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ شیخ سعدی (رح) فرماتے ہیں کہ صاحب عقل آدمی درختوں کے پتے دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ فرض کرو کوئی شخص کسی اونچے پہاڑ کی چوٹی پر اکیلا آباد ہے ‘ کوئی دوسرا انسان اس تک نہیں پہنچتا۔ اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے اس کے پاس نہ کوئی نبی آتا ہے نہ رسول اور نہ ہی کوئی دوسرا مبلغ تو ایسے شخص کے لئے حکم یہ ہوگا کہ فرائض دین یعنی نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوٰۃ وغیرہ کے لئی تو اس سے بازپرس نہیں ہوگی۔ کیونکہ یہ چیزیں انبیاء اور پھر ان کے مبلغین کے ذریعے معلوم وہتی ہیں ‘ البتہ اگر اس نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کیا بلکہ شرک کا ارتکاب کیا ہے تو پکڑا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے عقل جیسی عظیم نعمت عطا کی۔ اس کے اردگرد اپنی قدرت کی ہزاروں نشانیاں بکھیر دیں جنہیں دیکھ کر اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجانی چاہئے تھی۔ اگر پھر بھی اس نے شرک کیا ہے تو اس کا یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا ضمیر اور عقل اور عقل سلیم بھی شرک کے خلاف شرک سے منع کرتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی بیشمار چیزیں اور دلائل ہیں جو انسان کو شرک سے روکتے ہیں۔ تدعون کا معنی ہے جن کو تم پکارتے ہو۔ اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا جن کو تم مصیبت میں پکارتے ہو ‘ ان سے حاجتیں طلب کرتے ہو ‘ انہیں مشکل کشا سمجھتے ہو ‘ میں ان کی پوجا کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں کیونکہ ہر چیز کا عطا کرنے والا اور ہر مصیبت کو دور کرنے والا فقط اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا اس کے علاوہ میں کسی ہستی کی پرستش کرنے کے لئے تیار نہیں ‘ مجھے منع کردیا گیا ہے۔ یہاں پر لفظ من دون اللہ بھی توجہ طلب ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑا خدا ماننے کے باوجود بعض چھوٹے چھوٹے خدائوں کی پرستش بھی کی جاتی ہے اور مشرکین قدیم زمانے سے ایسا ہی کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اصل خدا تعالیٰ تو وہی ہے مگر یہ چھوٹے چھوٹے خدا بھی کچھ نہ کچھ کام بناتے ہیں بڑے اللہ نے ان چھوٹوں کو بھی بعض اختیار دے رکھے ہیں لہٰذا ان کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی سختی سے تردید فرمائی ہے۔ ابتدائے سورة میں عرض کیا گیا تھا کہ اس سورة مبارکہ میں تمام قسم کے شرکوں کی تردید کی گئی ہے۔ شرک خواہ اعتقاد میں ہو۔ قول میں ہو یا فعل ہیں ‘ یہ بہرحال بدترین جرم ہے عملی شرک کی بعض صورتیں بھی آگے بیان ہوں گی کہ لوگ کس طرح غیر اللہ کی نذر و نیاز دے کر شرک کے مرتکب ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی صفات مختصر میں کس کس طریقے سے شریک بنائے جاتے ہیں۔ ایک اور بات بھی پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ سورة مبارکہ سے پہلی سورتوں میں ملت حنیفیہ والوں یعنی یہود ونصاریٰ وغیرہ اور مشرکین عرب کو زیادہ تر خطاب کیا گیا تھا اور اس سورة کے مخاطبین صابی قوموں کے لوگ ہیں جن میں ہندو ‘ بدھ ‘ چینی ‘ رومی اور یونانی وغیرہ شامل ہیں۔ وہ بھی اسی طرح مشرک ہیں جس طرح یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب تو فرمایا مجھ کو منع کیا گیا ہے اس بات سے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ‘ جن کی عبادت کرتے ہو ‘ ان کو الہ مانتے ہو ‘ مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو۔ خواہشات نفایز سے اجتناب اس کے بعد ارشاد ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے لا اتبع اھواء کم میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کرسکتا۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک خواہشات نفسانیہ پر مبنی ہوتا ہے۔ تمام شرکیہ رسوم اور بدعات اسی نفس کی پیداوار ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا کہ میں تمہاری بیہودہ خواہشات کے پیچھے نہیں لگ سکتا۔ سورة فرقان میں موجود ہے ” ارایت من اتخذ الھہ ھولہ “ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے کسی نے مسیح (علیہ السلام) کو معبو بنالیا ‘ کسی نے پتھر کو مان لیا ‘ کسی نے کسی قبر والے کو اور کسی نے جن بھوت ‘ پریت اور فرشتے کو اپنا معبود بنا لیا۔ توحید کی بنیاد فطرت سلیمہ عقل سلیم اور وحی الٰہی پر ہے جب کہ شرک کی بنیاد خواہشات نفسانیہ پر ہے اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ آپ کہہ دیں کہ میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اگر میں نے ایسا کیا قد ضللت تو میں بہک جائوں گا۔ اگر میں تمہاری ان مشرکانہ رسوم اور بدعات پر عمل کرنے لگوں تو میں بہک جائوں گا اصل راستے سے ہٹ جائوں گا۔ اذا وما انا من المھتدین اور ایسی صورت میں میں ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں رہوں گا۔ اگر خدا کا معصوم نبی ہی مشرکانہ رسوم اور بدعات کو اپنانے لگے تو پھر ہدایت اور گمراہی میں کیا فرق رہ گیا۔ ہم تو ہدایت کے راستے پر ہیں جو وحی الٰہی پر مبنی اور جس کی گواہی خدا کی تعلیم ‘ فطرت سلیمہ اور عقل سلیم بھی دیتی ہے۔ ہم گمراہی کے راستے پر نہیں جاسکتے۔ فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں انی علی بینتہ من ربی تحقیق میں تو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہوں۔ اس مقام پر کھلی دلیل سے مراد قرآن کریم ہے اور مطلب یہ ہے کہ میں تو قرآن پاک کے احکام کے تابع ہوں ‘ میرے لئے اللہ کا کلام ہی حجت ہے و کذبتم بہ اور تم نے اس کی تکذیب کردی ہے قرآن پاک کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار کردیا ہے۔ یہاں پر بہ کی ضمیر بھی بتا رہی ہے کہ بینہ سے مراد قران پاک ہے ۔ اسی سورة میں آگے آئے گا قد جاء کم بصائر من ربکم اللہ کا یہ قرآن تمہارے دلوں میں بصیرت پیدا کرنے والی چیز ہے جو قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اس کو سنتا ہے ‘ اس پر ایمان لاتا ہے اور پھر اس پر عمل کرتا ہے ‘ اس کا دل روسن ہوجاتا ہے ‘ تمام تاریکیاں دور ہ جاتی ہیں اور انسان کے اندر اخلاق حسنہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ سورة ابراہیم میں نزول قرآن کا ایک مقصد یہ بھی بیان کیا گیا ہے لتخرج الناس من الظلمت الی النور کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ گناہ ‘ کفر ‘ شرک ‘ بدعات سب اندھیرے ہیں۔ اور ایمان ‘ اخلاص ‘ توحید اور نیکی روشنی ہے۔ بہرحال یہاں پر بینہ سے مراد قرآن حکیم ہے اور حضور ﷺ کو اللہ نے خطاب فرمایا ہے کہ آپ کہہ دیں میں اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل یعنی قرآن حکیم پر ہوں ‘ میرا نصب العین وہی ہے جو قرآن پاک نے متعین کیا ہے۔ ویسے بینہ معجزے اور نشانی کے لئے بھی بولا جاتا ہے ان فی ذلک لایت لقوم یعقلون (الروم) بیشک اس میں عقل والوں کے لئے واضح نشانیاں ہیں اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو کوئی نہ کوئی نشانی دی ہے۔ پہلے اسی سورة میں گزر چکا ہے لو لا نزل علیہ ایتہ من ربہ اس کے رب کی طرف سے اس پر کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی۔ اسی طرح بینہ کا اطلاق ہدایت پر کیا گیا ہے۔ اور سورة بینہ میں موجود ہے اہل کتاب اور مشرکین کفر سے باز آنے والے نہ تھے۔ ” حتیٰ تاتیھم البینتہ رسول من اللہ “ جب تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل یعنی اللہ کی طرف سے رسول نہ آجاتا۔ گویا بینہ کا اطلاق رسول پر بھی کیا گیا ہے اور یہ بالکل برحق ہے کیونکہ قرآن کریم میں وحی الٰہی کے ذریعے جو بھی تعلیم نازل ہوئی ہے۔ حضور ﷺ اس کے مجموعہ مجم ہیں۔ اگر علم دیکھنا ہو تو قرآن میں دیکھو اور عمل کا مشاہدہ کرنا ہے تو نبی کی ذات میں کرو۔ بایں ہمہ اس آیت کریمہ میں بینہ سے قرآن کریم ہی مراد ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ کوئی چیز بین ہوتی ہے اور کوئی غاض بین یعنی کھلی چیز کو ہر آدمی آسانی سے سمجھ سکتا ہے ۔ چناچہ توحید ‘ صبر ‘ شکر وغیرہ بینات میں داخل ہیں۔ اور غامض یعنی چھپی ہوئی چیز کی تعلیم نبی دیتے ہیں مثلاً تعظیم شعائر اللہ نبی کے بتلانے سے معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک باریک بات ہے۔ الش پوری نے سے معذوری الغرض ! اللہ نے فرمایا آپ کہہ دیجئے ‘ میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل یعنی قرآن پر ہوں وکذبت بہ اور تم اس کو جھٹلاتے ہو۔ تم قرآن پاک کو خدا تعالیٰ کی کتاب تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور کہتے ہو کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ما انزل اللہ علی بشر من شئی یعنی اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری العیاذ باللہ۔ فرمایا جب تم اللہ کے سچے کلام پر ایمان نہیں لاتے تو ماعندی ماتستجعلون بہ میرے پاس وہ بات نہیں ہے جس کو تم جلدی طلب کرتے ہو مشرکین کہتے تھے کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا دے یا کوئی اور عذاب لے آ۔ اللہ نے اپنے نبی کو فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ مجرمین کی گرفت کرنا اور ان پر عذاب لے آنا میرے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ ان الحکم الا للہ تمام حکم تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جب چاہے اور جہاں چاہے مجرمین کو پکڑکر سزا میں مبتلا کر دے یا مہلت دیدے ‘ سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے۔ یقص الحق وہ حق بیان کرتا ہے ‘ اس کی ہر با ت سچی اور پکی ہوتی ہے۔ و ھو خیر الفصلین اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ‘ جب چاہے گا فیصلہ کر دے گا ۔ پھر فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں لو ان عندی ما تستعجلون بہ اگر میرے پاس وہ چیز ہوتی جسے تم جلدی طلب کرتے ہو یعنی اگر میں تمہاری مرضی کی نشانیاں ظاہر کرنے پر قادر ہوتا یا تمہاری خواہش کے مطابق تم پر عذاب لاسکتا لقضی الامر بینی و بینکم تو میرے اور تمہارے درمیان کب کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ میں تمہاری خواہش کے مطابق تمہیں مطمئن کردیتا اور معاملہ صاف ہوجاتا ‘ مگر ایسا نہیں ہے ‘ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ‘ وہ اپنی حکمت عملی کے مطابق جب چاہتا ہے کسی بات کا فیصلہ کردیتا ہے۔ ایک اشکال اور اس کا جواب امام ابن کثیر (رح) نے ایک اشکال پیدا کیا ہے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے کہلوا دیا ہے کہ میرے پاس وہ بات نہیں ہے جسے تم طلب کرتے ہو مگر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کسی موقع پر حضور ﷺ سے عرض کیا حضور یہ بتائیں کہ احد والے دن سے بھی زیادہ تکلیف کبھی آپ کو پہنچی ہے تو حضور نے فرمایا کہ ہاں عقبہ والا دن میرے لئے اس سے بھی زیاد ہ مشکل تھا۔ فرمایا جب میں نے طائف میں ابن عبد یا لیل بن کلال اور دیگر سرداران کے سامنے اللہ کا پیغام بیان کیا تو انہوں نے نہ صرف تکذیبکر دی بلکہ شہر کے غنڈوں کو میرے پیچھے لگا دیا جنہوں نے سنگباری کر کے مجھے لہولہان کردیا حتیٰ کہ جسم کا خون جوتے میں آ کر جم گیا۔ آپ پر بیہوشی طاری ہوگئی حتیٰ کہ آپ قرن ثعالب کے مقام پر بیٹھ گئے وہاں پر جبرائیل (علیہ السلام) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کی طرف سے تبلیغ اور اس قوم کا جواب اللہ نے سن لیا ہے اور مجھے پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آپ کے لئے بھیجا ہے۔ اس فرشتے نے ……آپ کو سلام کیا اور عرض کیا کہ اگر آپ چاہیں تو میں ان دو پہاڑوں اخشبین کو ملا دوں تا کہ مکہ اور طائف کے تما م لوگ ہلاک ہوجائیں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا ‘ میں یہ نہیں چاہتا کیونکہ مجھے امید ہے کہ اللہ انہی کی اولاد میں سے ایسے لوگ نکالے گا لا یشرک باللہ شیئا جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کریں گے ‘ اس کی وحدانیت کو مانیں گے ‘ لہٰذا میں ان کی طرف سے بدسلوکی پر بھی اپنا رویہ نرم ہی رکھتا ہوں آپ نے دعا فرمائی اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دے۔ یہ بےسمجھ ہیں۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دے دیا تھا مگر اس آیت کریمہ میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے اختیار میں کچھ نہیں۔ تو ان دونوں میں تطبیق کیسے ہو سکتی ہے ؟ امام صاحب اسکا جواب خود ہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے اختیارات کی نفی اس وقت کی تھی جب کفار نے اپنی مرضی کی نشانیاں طلب کیں یا عذاب اور قیامت لانے کو کہا ‘ تو اس وقت آپ نے فرمایا کہ یہ چیز میرے اختیار میں نہیں ہے اس کے برخلاف طائف کے واقعہ میں خود اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو بھیج کر آپ کی منشاء معلوم کی تھی مگر آپ نے کفار کی ہلاکت کی بات کو پسند نہ کیا ان دونوں واقعات میں یہ فرق ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اہل طائف کے متعلق حضور ﷺ نے جو امید ظاہر کی تھی کہ شاید ان کی اولادیں ایمان لے ائیں۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں بدل دیا۔ آپ کی دعا پوری ہوئی چناچہ فتح مکہ کے بعد جنگ حنین واقع ہوئی پھر طائف پر چڑھائی کی گئی ‘ مہینہ بھر شہر کا محاصرہ رہا آخر حضور ﷺ طائف کو اسی حالت پر چھوڑ کر واپس آگئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں خود ہی ایسی بات ڈال دی کہ ان کا وفد مدینہ طیبہ آیا اور سب نے ایمان قبول کرلیا پورا طائف مطیع ہوگیا۔ اپ رحمت عالم ہیں اگر آپ غصے میں کہہ دیتے تو تمام طائف والے ہلاک ہوجاتے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا ‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ مسلمان ہوگئے اور پھر ان کی آئندہ نسلیں اسلام پر قائم رہیں۔ جزا بمطابق عمل بہرحال فرمایا ‘ اگر تمہاری مطلوبہ چیز میرے پاس ہوتی یعنی میں تمہارے کہنے پر عذاب لاسکتا تو تمہارے اور میرے درمیان کب کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور تم اس وقت تک ہلاک ہوچکے ہوتے ‘ مگر یہ میرے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو اس پر عذاب نازل کر دے اور چاہے تو کسی قوم کو مہلت دے دے۔ فرمایا ایک بات یاد رکھو واللہ اعلم بالظلمین اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ اگر انہیں مہلت مل رہی ہے تو یہ نہ سمجھیں کہ وہ عذاب سے ہمیشہ بچتے رہیں گے اور ان پر کوئی گرفت نہیں آئے گی ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے اور اپنی مشیت کے مطابق مقررہ وقت پر ضرور ان کو پکڑ لی گا اور پھر وہ ابدی لعنت میں گرفتار ہوجائیں گے جن لوگوں نے کفر اور شرککا ارتکاب کیا ‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو تلف کیا ‘ فرائض کو ضائع کیا وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہیں۔ ان سے ان کے عقیدے اور عمل کے مطابق سلوک ہوگا۔
Top