Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 42
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَآ : تحقیق ہم نے بھیجے (رسول) اِلٰٓى : طرف اُمَمٍ : امتیں مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَضَرَّعُوْنَ : تاکہ وہ عاجزی کریں
البتہ تحقیق ہم نے بھیجے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف رسول ‘ پس پکڑا ہم نے ان لوگوں کو سختی کے ساتھ اور تکلیف کے ساتھ تا کہ وہ گڑ گڑائیں اور عاجزی کریں
گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے احتمال کے طور پر مکذبین کو ڈرایا تھا کہ آپ ان لوگوں سے پوچھیں کہ اگر موت یا قیامت کی گھڑی آپہنچے تو خدا کے سوا تمہاری مصیبت کو کون دور کرسکتا ہے۔ یقینا کوئی نہیں۔ وہ صرف خدا کی ذات ہے جس کے قبضے میں اقتدار اور تصرف ہے۔ لہٰذا یہ اس کی مشیت پر موقوف ہے کہ تمہاری پکار یا دعا کو قبول کر کے عذاب کو ٹم سے ٹال دے۔ اب اللہ تعالیٰ نے بعض سابقہ امتوں کے واقعات کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ہے کہ دیکھو ! ان پر خدا کا عذاب فی الواقع آ گیا اور وہ اس میں ہلاک ہوگئے۔ لہٰذا تمہیں بھی سمجھ لینا چاہئے کہ کہیں تم پر بھی ایسا عذاب نہ آجائے کیونکہ تمہارے افعال و کردار بھی ویسے ہی ہیں جیسے پہلی قوموں کے تھے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سرکشی اور عناد کا فلسفہ بھی بیان فرمایا ہے کہ عام طور پر لوگ کس طرح کفر ‘ شرک اور معاصی میں مبتلا ہوتے ہیں پھر اللہ کی طرف سے مہلت دی جاتی ہے۔ اور جب لوگ قبیح حرکتوں سے باز نہیں آتے تو پھر اللہ تعالیٰ کی گرفت اچانک آجاتی ہے اور ان کا کام تمام کردیتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ولقد ارسلنا الی ام امم من قبلک تحقیق آپ سے پہلے ہم نے تو ہت سی امتوں کی طرف اپنے رسول بھیجے امم امت کی جمع ہے اور مطلب یہ ہے کہ کسی ایک دو امت کی طرف نہیں بلکہ بہت سی امتوں کی طرف رسول مبعوث فرمائے۔ یہ خاطب حضور ﷺ کی ذات مبارکہ سے ہو رہا ہے کیونکہ آپ نبیوں اور رسولوں کے سلسلہ کی آخری کڑی ہیں ولکن رسول اللہ و خاتم النبین (احزاب ) آپ اللہ کے رسول اور سلسلہ نبو ت کو ختم کرنے والے ہیں۔ دوسری جگہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض رسولوں کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے اور بعض کا حال وحی کے علاوہ بھی بتلا دیا ہے اور بعض ایسے رسول بھی ہیں۔ جن کا ذکر اللہ نے نہیں کیا۔ تاریخ سے بھی ان کے حالات کا پتہ نہیں چلتا۔ غرضیکہ بہت سے رسول ایسے ہیں جن کے حالات اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لا یعلمھم الا اللہ “ تنگی حالات فرمایا آپ سے پہلے ہم نے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے فاخذنھم بالباساء والضراء پس پکڑا ہم نے ان کو سختی اور تکلیف کی صورت میں۔ باس سے مراد معاشی تنگدستی ہے اور ضرا سے مراد جسمانی تکلیف یا بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ ج لوگ سرکشی پر اتر آتے ہیں تو اولاً انہیں کسی سختی میں ڈال کر تنبیہ کی جاتی ہے تا کہ وہ سمجھ جائیں اور سرکشی کو چھوڑ کر اللہ کی طررجوع کریں۔ یہاں پر بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے ‘ پھر انہوں نے ان کی تکذیب کی اور احکام الٰہی سے اغراض کیا تو ہم نے انہیں جسمانی اور معاشی تکالیف میں ڈال دیا اور ان پر یہ سختی اس لئے کی للعھم یتضرعون تا کہ وہ گڑگڑائیں اور عاجزی کا اظہار کریں۔ مقصد یہ کہ ہم نے تکلیف میں مبتلا کر کے متنبہ کردیا کہ ابھی وقت ہے بغاوت کو چھوڑ کر اللہ کی طرف آجائیں۔ اگر ان میں انسانیت کی کچھ رمق باقی ہوگی تو وہ گناہوں سے توبہ کرلیں گے ‘ کفر اور شرک کو ترک کردیں گے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئیں گے۔ یہاں پر باس یعنی معاشی تنگی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص محتاج ہوجائے مالی لحاظ سے کمزور ہوجائے اور اس کی گزر بسر اچھے طریقے سے نہ ہو سکے اور ضرا یعنی جسمانی تکلیف کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بیماری میں مبتلا ہو ہوجائے۔ مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ معاشی یا جسمانی تکلیف دے کر وارننگ دیتا ہے تا کہ لوگ معصیت سے باز آجائیں۔ فرمایا فلو لا اذجاء باسنا تضرعوا پھر جب ہماری طرف سے تکلیف آپہنچی تو ان لوگوں نے کیوں نہ گریہ وزاری کی۔ مناسب تو یہ تھا کہ جب ہماری چھوٹی سی گرفت آئی تو فوراً سنبھل جاتے اور اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر معافی طلب کرتے ‘ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا ولکن قست قلوبھم بلکہ ان کے دل سخت ہوگئے۔ انہوں نے اس تنبیہ سے فائدہ نہ اٹھایا اور معاصی سے باز نہ آئے ‘ اس کے برخلاف ہوا یہ کہ وزین لھم الشیطین ماکانوا یعملون جو کچھ وہ کر رہے تھے شیطان نے اس کو مزین کر کے دکھا دیا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو ‘ ٹھیک کر رہے ہو اور اس پر قائم رہو ‘ یہ تکلیفیں اور مصیبتیں تو آتی رہتی ہیں ‘ ان کی کچھ پروانہ کرو۔ اچانک گرفت اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ توبہ استغفار کرنے کی بجائے وہ برائیوں میں پہلے سے زیادہ منہمک ہوگئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا فلما نسوا ما ذکروا بہ پھر جب وہ ہماری تنبیہ اور نصیحت کو بھول گئے اس کا مثبت اثر قبول نہ کیا۔ بلکہ انہوں نے اس بات پر غور ہی نہ کیا کہ ہمیں یہ تکلیف کیوں پہنچی ہے تو فرمایا فتحنا علیھم ابواب کل شئی ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے۔ ان کی معیشت کو وسیع کردیا اور دنیاوی عیش و آرام کے سامان مہیا کردیئے۔ حتیٰ اذا فرحوا بما اوتوا پھر جب وہ خوش ہوگئے اس چیز سے جو ان کو دی گئی۔ یعنی جب انہیں کھانے پینے ‘ اچھی رہائش ‘ اچھی سواری ‘ زن و فرزند اور دیگر ہر قسم کی سہولتیں میسر آگئیں اور وہ خیال کرنے لگے کہ جو کچھ کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں۔ اخذنھم بغتتہ ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا۔ ہماری گرفت آئی اور وہ فوراً عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ جب کوئی قوم حد سے تجاوز کرگئی تو کوئی آسمانی یا زمینی آفت آئی اور قوم تباہ و برباد ہو کر رہ گئی۔ جب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ آنے پر معافی نہیں مانگتے بلکہ معاصی میں اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو پھر تباہی ان کا مقصدر بن جاتی ہے ۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ گنہگاروں کو اللہ تعالیٰ پہلی دفعہ تھوڑی سی تکلیف دے کر رجوع کرنے کا موقع دیتا ہے۔ پھر اگر وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر توبہ کرلیتے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے ہیں تو بچ جاتے ہیں۔ بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان پر خوشحالی کے دروازے کھول دیتا ہے۔ پھر جب ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے گناہوں میں مزید ملوث ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دفعتاً پکڑ آجاتی ہے۔ اسی لئے فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کو تھوڑی سی تکلیف پہنچے تو فوراً توبہ کر لینی چاہئے۔ اسے کسی نشانی کے اظہار یا زیادہ مصیبت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی تنبیہہ پر ہی سمجھ جانا چاہئے اور گڑ گڑا کر اس سے معافی طلب کر لینی چاہئے ‘ اسی میں اس کا فائدہ ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ بڑے اونچے درجے کے صحابی رسول ہیں۔ ان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل انعام و اکام بھی ہو رہے ہیں ‘ اس کو ہر طرح سے وسعت حاصل ہو رہی ہے تو اس سے دھوکا نہ کھانا ‘ اللہ تعالیٰ اس پر راضی نہیں ہے بلکہ یہ تو استدراج اور مہلت ہے ‘ اللہ تعالیٰ کسی وقت بھی گرفت کرنے پر قادر ہے ‘ حضرت عقبہ ؓ فرماتے ہیں کہ اس موقع پر حضور ﷺ نے یہی آیت تلاوت فرمائی فلما نسوا ما ذکروا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شئی حتیٰ اذا فرحوا بما اوتوا اخذنھم بغتتہ فرمایا جب ہماری گرفت آجاتی ہے فاذا ھم مبلسون پھر وہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حقیقی گرفت میں مبتلا ہو کر ان کے لئے بچائو کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا تو پھرنا امید ہوجاتے ہیں۔ میانہ روی اور پاکدامنی حضرت عبادہ بن صامت ؓ انصار مدینہ میں سے تھے۔ دس فٹ قد کے کڑیل جوان ‘ دراز قامت ‘ سانولی رنگت ‘ حضور کے مخلص جانثاروں میں سے تھے۔ فتح مصر والے لشکر میں شامل تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب اللہ کسی قوم کو باقی رکھنا اور ترقی دینا چاہتا ہے تو اس قوم کو اقتصاد یعنی میانہ روی اور عفت یعنی پاکدامنی عطا فرماتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ رسوم و رواج میں پڑ کر یا معیار زندگی کو حد سے زیادہ بلند کر کے میانہ روی کو ترک کر بیٹھتے ہیں۔ کھیل کود ‘ رسومات ‘ لباس اور رہائش اور دیگر مکروہ امور پر بےدریغ روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح عفت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حرام اور مشکوک چیزوں سے بچ جائے ‘ خوراک ‘ لباس ‘ شہوات اور دیگر معاملات میں عفت کو ملحوظ خاطر رکھے۔ اگر کوئی شخص اقتاد اور عفت کی پروا نہیں کرتا تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ تباہی کے راستے پر گامزن ہے جو بالآخر اس کی بربادی کا باعث ہوگا۔ خیانت کی لعنت فرمایا جس کسی قوم کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس پر خیانت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ پھر وہ نماز اور روزے میں خیانت کرنے لگتے ہیں ‘ وضو اور طہارت میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں ‘ دکانداری اور ملازمت میں خیانت کرتے ہیں اپنے کاروباری ساتھی کو دھوکا دیتے ہیں ‘ غرض یہ کہ ان پر ہر طرف سے خیانت کے دروازے کھل جاتے ہیں ‘ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ بظاہر اس قوم میں خوشحالی نظر آتی ہے لوگ کھیل تماشے میں مشغول ہوتے ہیں ‘ فیشن کی بہتات ہوتی ہے مگر یہ خوشحالی نہیں بلکہ استدراج ہوتا ہے۔ یہ ترقی کی بجائے تنزلی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ ترقی تو ایمان کی دولت اور اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ اصولوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ آج ہر گھر میں ٹیلی ویژن کے ذریعے کھیل تماشے کی فراوانی ہے۔ شادی بیاہ کی رسوم پر بےدریغ روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ بڑی بڑی پرتکلف دعوتیں ہوتی ہیں ‘ انتظامات پر دل کھول کر خرچ کیا جاتا ہے۔ ادھر موت کی رسوم پر بھی دیگیں پکتی ہیں۔ پھر قبروں کو پختہ بنایا جاتا ہے ان پر گنبد تعمیر ہوتے ہیں ‘ چادریں چڑھتی ہیں اور اس طرح لوگ فضول خرچی کر کے امانت کی بجائے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ظلم کا بدلہ فرمایا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت تما م ہوجاتی ہے بگڑی ہوئی قوم کسی طریقے سے راہ راست پر آنے کے لئے تیار نہیں ہوتی ۔ فقطع دابر القوم الذین ظلموا پھر ظلم کرنے والی قوم کی جڑ کاٹ دی جاتی ہے۔ ظلم صرف انسانی برادری سے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ لوگ کفر اور شرک جیسے ظلم عظیم کے بھی مرتکب ہوتے ہیں اور پھر اللہ کا عذاب انہیں اچانک آ پکڑتا ہے۔ پہلی امتوں میں بسا اوقات ایسا عذاب نازل ہوتا تھا کہ پوری کی پوری قوم صفحہ ہستی سے مٹ جاتی تھی ‘ مگر اس آخری امت کو حضور ﷺ کی برکت سے ایسے سخت عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لئے عذاب کبھی زلزلے کی صورت میں آتا ہے اور کبھی طوفان کی شکل میں کبھی کثرت اموات عذاب کا ذریعہ بنتی ہیں اور کبھی ان پر دشمن کا تسلط قائم کر کے عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے تو اللہ نے فرمایا کہ جنہوں نے ظلم کیا ان کی جڑ کاٹ دی گئی۔ والحمد للہ رب العالمین اور سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ ظالم لوگ چونکہ پوری انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں ‘ لہٰذا ان کی جڑ کٹ جانے سے پوری دنیا کا بھلا ہوتا ہے اسی لئے فرمایا کہ سب تعریفیں اس مالک الملک کے لئے ہیں جو اپنی مخلوق کو ظالموں کے ظلم سے نجات دیتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اسلام میں جہاد کو اسی لئے فرض قرار دیا گیا ہے تا کہ مفسدین کی سرکوبی ہو سکے ‘ مفسد لوگ معاشرے میں ایسے ہیں۔ جیسے انسانی جسم میں پھوڑا۔ جس طرح انسان کی بھلائی اس مہلک پھوڑے کو کاٹ پھینکنے میں ہی ہے اسی طرح پوری نسل انسانی کی بھلائی اور خیر خواہی مفسدین کے قلع قمع میں ہے۔ معاشرہ جبھی پاک صاف ہو سکتا ہے جب ظلم کے تمام ذرائع کو کاٹ دیا جائے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ ان ظالموں کو ختم کرنے میں ہی انسانیت کی بھلائی ہے۔ موطا امام مالک (رح) کی حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب برا آدمی مرتا ہے تو درخت پتھر اور جانور الحمد للہ کہ کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ موذی آدمی آدمی نابود ہوا۔ ایسا شخص نہ صرف انسانیت کا دشمن تھا بلکہ درختوں ‘ پتھروں اور جانوروں کے لئے بھی باعث وبال تھا اس کے برخلاف اگر کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس پر ارض و سما روتے ہیں۔ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ آسمان کے وہ دروازے رنجیدہ ہوجاتے ہیں جن کے راستے نیک آدمی کے اعمال اوپر جاتے تھے ‘ مگر ظالموں پر نہ آسمان روتا ہے اور نہ زمین ‘ بلکہ ہر چیز کہتی ہے الحمد للہ خس کم جہاں پاک۔
Top