Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 37
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَادِرٌ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يُّنَزِّلَ : اتارے اٰيَةً : کوئی نشانی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور کہا ان لوگوں نے کیوں نہیں اتاری جاتی اس پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے اس بات پر کہ نازل کرے کوئی نشانی ‘ لیکن ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو علم نہیں رکھتے۔
توحید ‘ رسالت اور معاد کے انکار اور پیغمبر اسلام سے نشانیاں طلب کرنے کا سلسلہ کئی دروس سے بیان ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منکرین کے مقابلے میں صبر کی تلقین فرمائی ‘ جیسا کہ پہلے انبیاء کرتے رہے ہیں اور نشانیوں کے متعلق فرمایا کہ اگر ان کو حسب خواہش نشانی مہیا بھی کردی جائے تو پھر بھی یہ انکار ہی کریں گے۔ آج کی آیات میں بھی مشرکین کی طرف سے نشانیاں طلب کرنے کا ہی ذکر ہے اور پھر اس ضمن میں حضور ﷺ کو بعض ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے وقالوا لو لا نزل علیہ ایتہ من ربہ ان منکرین نے کہا کیوں نہیں اتاری جاتی اس شخص پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے۔ اور نشانی سے مراد ان کے نزدیک ایسی نشانی ہے جس کو وہ خود طلب کرتے ہیں۔ مشرکین کہتے تھے کہ ہماری خواہش کے مطابق نشانی کیوں نہیں آتی ۔ یا نشانی سے مراد ایسی واضح نشانی ہے جو پہلے انبیاء پر ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور صالح (علیہ السلام) وغیرہ سے ظاہر ہوتی ہیں ۔ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کو دیں ان اللہ قادر علی ان ینزل ایتہ بیشک اللہ تعالیٰ نشانی اتارنے پر قادر ہے۔ یہ جس قسم کی نشانی بھی طلب کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ پیش کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس کے لئے مشکل نہیں ‘ مگر بات یہ ہے ولکن اکثرھم لا یعلمون کہ ان میں اکثر بےعلم اور بےسمجھ ہیں کیونکہ حضور ﷺ کے ہاتھ پر نشانیاں تو ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ مگر ان کو ملاحظہ کرنے کے باوجود یہ لوگ ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ان کی مطلوبہ نشانی ظاہر کردی جائے تو وہ ان کے لئے سخت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اگر انہوں نے نشانی پا کر بھی انکار ہی کیا تو پھر وہ خدا کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ پہلی قومیں اسی لئے عذاب میں مبتلا ہوئیں کہ انہوں نے خود معجزات طلب کئے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ متعصب اور عنادی لوگوں کی فرمائش کو پورا کرنا حکمت الٰہی کا ابطال ہے اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق مناسب حال نشانیاں ظاہر کرتا ہے مگر یہ بےعقل لوگ بیہودہ مطالبات کر کے خود خدا کے غضب کا نشانہ بنتے ہیں پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ میں تمہاری خواہش کے مطابق نشانی نازل کر دوں گا۔ لیکن اگر تم نے پھر ناشکرگزاری کی تو ایسی سزا دوں گا جو جہان میں کسی کو نہ دی ہو۔ مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی اس حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جانوروں کی نشانیاں فرمایا اگر یہ لوگ نشانیاں دیکھنے پر ہی بضد ہیں تو انہیں بتا دیں کہ تمہارے اردگرد اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کی بیشمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ صرف غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔ مثال کے طور پر فرمایا ومامن دابتہ فی الارض زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی جانور ایسا نہیں ہے ولا طئس یطیر بجناحیہ اور نہ کوئی ایسا پرندہ ہے جو اپنے بازوئوں سے اڑتا ہے الا ام امثالکم مگر یہ کہ وہ تمہاری طرح امتیں ہیں۔ ان تمام جانوروں ‘ پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی بھی جماعتیں اور گروہ ہیں۔ فرمایا اگر مشرکین کو اللہ کی نشانیوں کی تلاش ہے تو ان جانوروں اور پرندوں کو ہی دیکھ لیں۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور پھر ہر ایک کی نوع الگ الگ ہے۔ ان میں ایسی حیرت انگیز باتیں پائی جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ نمونہ ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کیڑوں مکڑوں سے لے کر بڑے بڑے درندوں تک ہر ایک جانور اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کر رہا ہے۔ جانوروں کی ہر نوع کے لئے الگ الگ شریعت اور جدا جدا احکام ہیں۔ صرف زمین پر رہنے والے جانوروں کی اقسام و انواع ہی انسان کے علم سے باہر ہیں جب کہ پانی کے جانور اور ہوا میں اڑنے والی چیزیں ان کے علاوہ ہیں۔ ہر ایک کی نسل کشی ‘ ان کا چلنا پھرتا ‘ رہائش اور خوراک کے ذرائع اور طور طریقے جدا جدا ہیں یہ سب اللہ کی قدرت کے نشانات ہی تو ہیں۔ اگر انسان ان میں تھوڑا سا غور وفکر کرلے تو اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہونے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔ معرفت الٰہی چھوٹے سے چھوٹے جاندار سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق تک ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود انسانوں کی اکثریت اس سے غافل ہے۔ حضرت ابو دردا ؓ کی روایت میں آتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام جانور ‘ چرند ‘ پرند یعرفوننی مجھے پہچانتے ہیں۔ یوحد وننی میری توحید کو مانتے ہیں ‘ یسجبوننی ‘ میری تسبیح بیان کرتے ہیں ویحمد وننی اور میری حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔ یہ سب قدرت کی نشانیاں ہی تو ہیں ۔ وان من شی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحم (بنی اسرائیل) تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں مگر تم ان کی زبان اور تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ ابودردا ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے کہ تمام جانور مجھے پہچانتے ہیں ‘ میری توحید کو بھی مانتے ہیں ‘ شرک نہیں کرتے ‘ خدا کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور ﷺ کہیں جا رہے تھے۔ دیکھا کہ دو بکریاں آپس میں گتھم گتھا ہو رہی ہیں۔ آپ کے ساتھ حضرت ابوذر غفاری ؓ بھی تھے۔ آپ نے فرمایا ‘ ابوذر ! عرض کیا ‘ حاضر ہوں فرمایا ‘ کیا تم جانتے ہو کہ یہ بکریاں کیوں لڑ رہی ہیں۔ عرض کیا ‘ حضور میں تو نہیں جانتا۔ فرمایا۔ مگر اللہ جانتا ہے جس بات پہ لڑ رہی ہیں اور قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اسی طرح ترمذی شریف کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ لتئودن الحقوق الی اھلھا تمام حقوق ان کے اہل تک پہنچائے جائیں گے۔ حتیٰ یقتص للجماء من القرناء یہاں تک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بےسینگ جانور کا سینگ والے جانور سے قصاص دلائیں گے۔ سینگوں والے نے اس پر کیوں ظلم کیا۔ تمام جانوروں کے درمیان عدل و انصاف قائم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کسی کو چھوڑے گا نہیں۔ جب جانوروں کے متعلق اس قدر بازپرس ہوگی تو پھر ظالم انسان اپنے ظلم کا بدلہ پائے بغیر کیسے بچ سکتے ہیں غرض یہ کہ فرمایا جانور اور پرندے بھی تمہاری طرح امت ہیں۔ ہر ایک کے الگ الگ احکام ہیں جن کے مطابق وہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ چیونٹیوں کا عالم سائنس دانوں نے اللہ کی مخلوق پر تحقیق کر کے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں۔ بعض لوگوں نے چالیس چالیس سال تک عرق ریزی کر کے چیونٹیوں جیسی ادنیٰ مخلوق پر ریسرچ کی ہے ‘ ا ن کا اپنا نظام معاشرت ہے ‘ رسم و رواج ہیں اور خوراک جمع کرنے کے طریقے ہیں ہیں حتیٰ کہ مردے کو دفن کرنے اور صلح و جنگ کے احکام بھی ان میں پائے جاتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک زندہ چیونٹی دوسری مردہ چیونٹی کو اٹھائے جا رہی ہے اس کا کیا مقصد ہے ؟ محققین کی تحقیق کے مطابق چیونٹیوں کے قبرستان ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں ‘ منے والی چیونٹیوں کو ویسے ہی نہیں چھوڑ دیا جاتا۔ چیونٹیوں کے خوراک جمع کرنے کا موسم مخصوص ہوتا ہے۔ جس میں اپنے مطلب کی خوراک ذخیرہ کرتی ہیں ‘ اس کام کے لئے چیونٹیوں کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔ طنطاوی (رح) نے نظام العالم والامم میں لکھا ہے کہ سائنس دانوں کو ریسرچ کے مطابق چیونٹیوں کے درمیان جنگ بھی ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیونٹی دشمن ملک میں چلی جائے تو وہاں پائوں پر نہیں چلتی۔ بلکہ الٹی ہوجاتی ہے۔ اپنی پشت زمین پر لگا دیتی ہے ‘ پھر اس علاقے کی فوج آتی ہے جو اسے اٹھا کر اپنے علاقے سے باہر نکال دیتی ہے ان کے ہاں یہ صلح و جنگ کے اصول مروج ہیں تحقیق کنندگان کہتے ہیں کہ ان چیونٹیوں میں دودھ دینے والے جانور بھی انہی کی نسل سے ہوتے ہیں۔ جن سے یہ دودھ حاصل کرتی ہیں۔ فرمایا یہ سب کچھ قدرت کے حیرت انگیز شاہکار نہیں ؟ غور و فکر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ کے بہت سے نشانات موجود ہیں۔ شہد کی مکھیاں دیگر جانداروں کی طرح شہد کی مکھیوں کا بھی ایک الگ جہان ہے۔ جہاں ان کے قوانین نافذ ہیں ‘ ان کے اپنے رسم و رواج اور لائحہ عمل ہے جس کے تحت وہ زندگی بسر کرتی ہیں اور کام کاج انجام دیتی ہیں۔ ان مکھیوں میں ایک بڑی مکھی ملکہ کہلاتی ہے۔ باقی سب مکھیاں اس کے ماتحت ہوتی ہیں اور اس کا ہر حکم بجا لاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان مکھیوں کے ذریعے انسان کے لئے ایک پاکیزہ مشروب شہد تیار کیا ہے۔ سورة نخل میں موجود ہے ” و اوحی ربک الی النحل “ تیرے رب نے شہد کی مکھیوں کی فطرت میں یہ بات ڈال دی ہے کہ وہ پہاڑوں اور درختوں میں اپنا گھر بنائیں اور ہر قسم کے پھل کھائیں پھر ان کے پیٹوں سے شفا بخش مشروب نکلتا ہے فرمایا ان فی ذلک لایتہ لقوم یتفکرون اس پورے نظام میں صاحب غور و فکر لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ ان مکھیوں کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ نجاست پر نہیں بیٹھیں گی ‘ بلکہ ان کی شریعت کا قانون یہ ہے کہ وہ ہمیشہ پاکیزہ چیز پر بیٹھیں۔ چناچہ شہد کی مکھی ہمیشہ مٹھائی ‘ پھول اور پھل پر بیٹھے گی ‘ کسی گندی چیز پر نہیں بیٹھے گی۔ اگر مکھیوں کو پتہ چل جائے کہ ان کی ہم نسل کوئی مکھی کسی ناپاک چیز پر بیٹھی پائی گئی ہے تو اس پر مقدمہ چلایا جاتا ہے ‘ اسے حاکم مکھی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ پھر اگر الزام ثابت ہوجائے تو ایسی ملزمہ کو سزائے موت تک دیدی جاتی ہے یہ پورا نظام قدرت ‘ عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔ معرفت الٰہی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا نشانی مطلوب ہے ؟ پرندوں کی جبلت غرض یہ کہ فرمایا کہ تمہاری طرح جانوروں اور پرندوں کی بھی امتیں ہیں۔ جن کے پورے حالات کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ تمام جاندار اپنے معبود کو بھی پہچانتے اور اپنی روزی کے ذرائع کو بھی جانتے ہیں ‘ نر اور مادہ ایک دوسرے کو خوب پہچانتے ہیں اور آپس کے تعلقات کے لئے آمادہ رہتے ہیں چڑیوں اور کبوتروں کی مثال لے لیں تنکا تنکا اکٹھا کر کے خود ہی اپنا گھونسلہ بناتے ہیں پھر چڑی اور کبوتری اس میں انڈے دیتی ہے جنہیں نر اور مادہ باری باری سیتے ہیں۔ جب بچے نکلتے ہیں تو دونوں ان کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ نر اور مادہ اپنے اپنے منہ میں خوراک لاتے ہیں اور بچوں کے منہ میں ڈالتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ قدرت کے حیرت انگیز کر شمات نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لئے یہ بہت بڑی نشانیاں ہیں۔ فرمایا مافرطنا فی الکتاب من شئی ہم نے کتاب میں کسی کمی کو نہیں رہنے دیا۔ اس میں ہر چیز درج ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کتاب سے مراد لوح محفوظ بھی ہو سکتی ہے ‘ قرآن پاک بھی اور نامہ اعمال بھی۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز لوح محفوظ میں درج ہے۔ اور قرآن پاک کے متعلق خود اس کا اپنا دعویٰ ہے۔ ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین (انعام) یعنی ہر خشک و تر چیز کا بیان اصولی طور پر قرآن میں موجود ہے۔ ہر شخص کا نامہ اعمال بھی تیار ہو رہا ہے جو محاسبہ کے وقت اس کے سامنے کردیا جائیگا۔ اس میں بھی انسان کا ہر عمل شامل ہوگا۔ تو فرمایا کہ ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ثم الی ربھم یحشرون پھر ان سب کو اپنے رب کی طرف اکٹھا کیا جائے گا۔ پھر اس کا حساب کتاب ہوگا۔ مکذبین کی حالت فرمایا والذین کذبوا بایتنا جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کی حالت یہ ہے صم و بکم وہ بہرے اور گونگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس نے آیات الٰہی سے فائدہ نہ اٹھایا ‘ جس نے حق کی بات سنی ہی نہیں وہ بہرہ ہے اور جس نے ایمان کا حکم زبان سے ادا ہی نہیں کیا وہ گونگا ہے۔ ایسے بہرے اور گونگے لوگ فی الظلمت اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ کفر ‘ شرک ‘ نفاق ‘ بدعات سب اندھیرے ہیں جن میں منکرین و مکذبین سرگرداں ہیں اور انہیں روشنی کی کوئی رمق نظر نہیں آتی۔ نزول قرآن کا ایک مقصد یہ بھی ہے ” لتخرج الناس من الظلمت الی النور “ (ابراہیم) تا کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ مگر بدقسمت ہیں وہ لوگ جو محروم رہتے ہیں۔ پھر فرمایا من یشاء اللہ یضللہ جسے اللہ چاہتا ہے۔ گمراہ کردیتا ہے اور اس کا اصول یہی ہے کہ جو شخص ضد اور عناد کو اختیار کرتا ہے ہٹ دھرمی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت نہیں دیتا۔ قرآن پاک کا فیصلہ ہے ” واللہ لا یھدی القوم الظلمین “ (3 ‘ 52) اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو ہدایت سے نہیں نوازتا۔ جب ظلم کو ترک کر کے نیکی کو اختیار کرے گا کفر اور شرک کی بجائے ایمان اور توحید کو اپنا لے گا ‘ نیکی کی تڑپ اس میں پیدا ہوجائے گی تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہدایت کا راستہ بھی واضح کر دے گا۔ وہ ہر شخص کی استعداد ‘ صلاحیت ‘ اور طلب کو جانتا ہے ‘ اس لئے ومن یشاء یجعلہ علی صراط مستقیم جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم پر ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس راستے پر چلو ” ھذا صراط علی مستقیم “ (الحجر) یہی سیدھا راستہ ہے۔ موحد اور مشرک فرمایا تم نشانیاں طلب کرتے ہو۔ حالانکہ تمہارے اردگرد لاکھوں نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں اگر ذرا بھی غور کرتے تو خدا تعالیٰ کی وحدانیت سمجھ میں آجاتی۔ قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ارایتکم یہ بتلائو ان اتکم عذاب اللہ اگر اللہ کا عذاب تمہارے پاس آجائے او اتتکم الساعتہ یا وہ گھڑی تمہارے پاس آپہنچے یعنی کسی کو انفرادی طور پر موت آجائے یا مجموعی طور پر قیامت واقع ہوجائے اغیر اللہ تدعون تو کیا پھر اللہ کے سوا کسی غیر کو پکارو گے ان کنتم صدقین اگر تم سچے ہو تو بتلائو کہ کون ہے جو اس آمدہ گھڑی کو ٹال سکے۔ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ ایسے کٹھن وقت پر بل ایاہ تدعون تم صرف اسی کو پکارتے ہو جب تمام ظاہری اسباب ختم ہوجاتے ہیں تو پھر اسی خدائے وحدہ لا شریک کے سامنے گڑگڑاتے ہو فیکشف ما تدعون الیہ ان شاء اگر وہ چاہتا ہے تو جس تکلیف کی طرف اسے بلاتے ہو اسے دور کردیتا ہے۔ یہ اس کی مشیت پر موقوف ہے۔ اگر پسند کرے تو تمہاری مشکل کو حل فرما دیتا ہے۔ تمہاری تاریکی کو کھول دیتا ہے اور پھر تمہیں راحت حاصل ہوجاتی ہے۔ فرمایا جب اللہ تعالیٰ تمہاری مدد فرما دیتا ہے و تنسون ما تشرکون تو اس وقت تم بھول جاتے ہو جو خدا کا شریک بناتے ہو۔ اس وقت تمہاری سمجھ میں آتا ہے کہ مشکل میں اللہ کے سوا کوئی کام نہیں آسکتا سارا اختیار اسی کے پاس ہے ‘ اسے کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ دعا ہمیشہ لجاجت اور پختہ طریقے سے مانگا کرو ‘ کیونکہ خدا کسی کا مجبور و محکوم تو نہیں ‘ اس کی مرضی ہے تو دعا قبول کرے گا۔ اور تمہاری تکلیف کو رفع فرما دے گا اور اگر نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا جن کو تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو ‘ اس کا ساتھی بناتے ہو ‘ اس کی صفات میں شریک کرتے ہو ‘ کسی کے قبضے میں کچھ نہیں۔
Top