Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 34
وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا١ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ : اور البتہ جھٹلائے گئے رُسُلٌ : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے فَصَبَرُوْا : پس صبر کیا انہوں نے عَلٰي : پر مَا كُذِّبُوْا : جو وہ جھٹلائے گئے وَاُوْذُوْا : اور ستائے گئے حَتّٰى : یہانتک کہ اَتٰىهُمْ : ان پر آگئی نَصْرُنَا : ہماری مدد وَلَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی باتوں کو وَ : اور لَقَدْ : البتہ جَآءَكَ : آپ کے پاس پہنچی مِنْ : سے (کچھ) نَّبَاِى : خبر الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
تحقیق جھٹلائے گئے آپ سے پہلے بہت سے رسول ‘ پس انہوں نے صبر کیا اس بات پر جو ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو تکلیف پہنچائی گئی یہاں تک کہ آگئی ان کے پاس ہماری مدد ‘ اور نہیں ہے کوئی تبدیل کرنے والا اللہ کے کلمات کو اور البتہ آئے ہیں آپ کے پاس اللہ کے رسولوں کے کچھ حالات
گزشتہ کئی دورس سے کفر و شرک کی تردید ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معاد کا انکار کرنے والوں کا ذکر کیا ‘ پھر ان کے بیہودہ اعتراضات کا جواب دیا ‘ گزشتہ آیات میں فرمایا کہ تکذیب کرنے والے خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں یہ لوگ اس وقت کف افسوس ملیں گے جب کسی کو موت آجائے گی یا قیامت واقع ہوگی مگر اس وقت کی ندامت کچھ مفید نہ ہوگی۔ ان لوگوں کو اپنے کفر ‘ شرک ‘ اور معاصی کا بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھانا پڑے گا۔ اللہ نے واضح فرمایا کہ یہ دنیا تو ناپائیدار بل کی فانی ہے۔ یہ کھیل کود کی طرح جلد ہی ختم ہوجائے گی ‘ اور پھر ہر ایک کو دائمی زندگی سے واسطہ پڑے گا۔ فرمایا خدا خوفی رکھنے والوں اور کفر و شرک اور معاصی سے پرہیز کرنے والوں کے لئے آخرت کا گھر ہی بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کو تسلی بھی دی اور فرمایا کہ کفار و مشرکین کی ایذا رسانیوں سے ہم واقف ہیں۔ ان کی طرف سے انکار اور دیگر بیہودہ باتیں آپ کو غم میں ڈالتی ہیں ‘ مگر اپ کے لئے صبر ہی بہترین ہتھیار ہے حقیقت میں یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں آپ کو تو سچا ‘ امین اور پاکیزہ اخلاق کا مالک تسلیم کرتے ہیں مگر جو پروگرام آپ پیش کر رہے ہیں اس کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس طرح آپ کو تسلی دی گئی۔ اب آج کے درس میں بھی مختلف انداز سے آپ کو تسلی دی گئی تا کہ آپ رنجیدہ نہ ہوں۔ ارشاد ہوتا ہے ولقد کذبت رسل من قبلک البتہ آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو جھٹلایا گیا۔ اور ان کے لائے ہوئے پروگرام کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ یہ لوگ آپ سے بھی وہی سلوک کر رہے ہیں تو آپ اس سے گھبرائیں نہیں بلکہ پہلے انبیاء کا طریقہ بھی اختیار کریں۔ فصبرواعلی ٰ ما کذبوا انہوں نے تکذیب شدہ چیز پر صبر کیا ‘ برداشت کیا واوذوا اور انہیں ایذا پہنچائی گئی۔ اللہ کے اکثر نبیوں کو تکالیف میں مبتلا کیا گیا مگر وہ ہمیشہ صبر و تحمل سے ہر تکلیف کو برداشت کرتے رہے حتیٰ اللھم انصرنا حتیٰ کہ انکے پاس ہماری مدد آن پہنچی اور مکذبین اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آگئے۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح سابقہ انبیاء نے صبر و برداشت کا دامن تھامے رکھا ‘ آپ بھی ویسے کریں تو اللہ کی مدت اپنے وقت پر پہنچ جائے گی۔ لہٰذا آپ رنجیدہ خاطرہ نہ ہوں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کسی موقع پر ایک شخص نے حضور ﷺ کے بارے میں بیہودہ بات کی تو آپ کو سخت صدمہ پہنچا۔ آپ نے فرمایا رحم اللہ موسیٰ لقد او ذی باکثر من ھذا فصبروا اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کہ انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیفیں پہنچائی گئیں مگر انہوں نے صبر ہی کیا ‘ تو میں بھی ان کے اسوہ کے مطابق صبر کا دامن ہی پکڑوں گا۔ حضور موسیٰ ﷺ کو اس حد تک ذہنی کوفت پہنچائی گئی کہ ایک فاحشہ عورت کو مجمع عام میں کھڑا کر کے اس سے کہلوایا گیا کہ موسیٰ ﷺ نے اس سے برائی کا ارتکاب کیا ہے (العیاذ باللہ) حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق بھی قرآن پاک میں اشارات موجود ہیں کہ انہیں کس کس طرح سے جسمانی ‘ ذہنی اور مالی تکالیف پہنچائی گئیں۔ خود حضور ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی ایذاء رسانی کر کے آپ کی کوفت کا باعث بنے مگر تمام انبیاء کی طرح آپ نے بھی صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ صبر ملت ابراہیمی اور دین اسلام کا بہت بڑا اصول ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس اصول کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے ایمان والو ! تمہیں اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے بڑی تکلیفیں پہنچائی جائیں گی۔ ” وان تصبروا وتتقوا فان ذالک من عزم الامور۔ (آل عمران) پھر اگر تم صبرو کرو گے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرو گے تو پکتہ بات یہی ہے کامیابی کا انحصار صبر اور تقویٰ پر ہے۔ یہ ہمارے دین کا بہت بڑا اصول ہے ‘ اسی لئے قرآن پاک میں اس کی جگہ جگہ تاکید کی گئی ہے ‘ جیسے واستعینوا بالصبروالصلوٰۃ (بقرہ) صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو۔ نماز کے ذریعے تعلق باللہ کو قائم رکھو اور ہر تکلیف کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرو تو فلاح پاجائو گے۔ صبر کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔ کبھی اطاعت پر جم جانے کے لئے صبر سے کام لینا پڑتا ہے اور کبھی نفسانی خواہش کو روک کر صبر کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اور ہر مصیبت کے وقت صبر اختیار کرنا تو بہرحال مقصود ی کاموں میں سے ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ جس طرح پہلے انبیاء نے تکالیف پر صبر کا مظاہرہ کیا ‘ اسی طرح آپ بھی صبر کا دامن پکڑے رہیں۔ فرمایا تمام انبیاء صبر کرتے رہے حتیٰ کہ ہماری مدد ان کو پہنچ گئی اور یاد رکھو ولا بدل لکلمت اللہ اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی ہستی تبدیل نہیں کرسکتی۔ یہاں پر کلمات سے مراد اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء سے جو وعدہ کر رکھا ہے اسے کوئی بھی بدل نہیں سکتا۔ اس کا وعدہ ہے ” لا غلبن انا ورسلی (المجادلۃ) میں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے۔ حالات چاہے کیسے بھی حوصلہ شکن ہوں مگر بالآخر میرے نبیوں کے مشن کو ہی کامیابی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کی خوشخبری تمام انبیاء اور اہل ایمان کو بھی دی ہے۔ انا لننصررسلنا والذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا و یوم یقوم الشھاد (المومن) بیشک ہم مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی دنیا میں بھی اور قیامت کے دن بھی۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ یا کلمہ ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ‘ وہ پورا ہو کر رہے گا مگر اس سے پہلے ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کرنا ہوگا۔ فرمایا ولقد جاء ک من تبای المرسلین اور البتہ اس سے پہلے آپ کے پاس رسولوں کے حالات (بذریعہ وحی) پہنچ چکے ہیں۔ آپ ان حالات کو پیش نظر رکھیں اور سابقہ انبیاء کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے تکالیف برداشت کریں اور صبر پر قائم رہیں۔ قبول حق کے لئے شدید خواہش فرمایا وان کان کبر علیک اعراضھم اگرچہ ان کا قبول حق سے اعراض آپ پر شاق گزرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کے قلب مبارک میں اس بات کی شدید خواہش تھی کہ آپ کی قوم کے لوگ ایمان کو قبول کرلیں اور دوزخ سے بچجائیں۔ مگر وہ لوگ بعض اوقات سخت بیہودہ باتیں کرتے تھے۔ معجزات کے لئے فرمائشیں کرتے تھے کہ فلاں نشانی آجائے تو ہم مان جائیں گے اور حضور ﷺ کی دلی خواہش بھی ہوتی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مطلوبہ نشانی ‘ ظاہر فرما دے تو شاید وہ ایمان لے آئیں ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ آپ کی یہ خواہش امور خیر کے متعلق ہے مگر یہ تکوینی مصلحت کے خلاف ہے حکمت لٰہی میں سب لوگوں کا ایمان لانا ضروری نہیں ہے اس قسم کی خواہش ابطال حکمت کے مترادف ہے ‘ اس لئے آپ ایسی تمنا پر اصرار نہ کیا کریں سورة کہف میں ہے۔ ” فلعلک باخخ نفسک علی اثارھم ان لھم یومنوا بھذا الحدیث اسفا “ اے پیغمبر ! آپ اس بات پر اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے کہ یہ لوگ اس آخری پروگرام پر ایمان نہیں لاتے آپ اتنا زیادہ غم نہ کیا کریں۔ آپ ان لوگوں پر کوئی داروغہ یا جبار تو نہیں ہیں کہ ان سے زبردستی ایمان قبول کرائیں اور پھر ان کا ایمان لانا ضروری بھی تو نہیں ہے۔ قبول حق اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے ‘ وہ جانتا ہے کہ کسی شخص میں قبول حق کی صلاحیت موجود ہے اور کس میں نہیں ہے۔ لہٰذا اس نے ایمان لانے کا اختیار مکمل طور پر بندے پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ اپنی صلاحیت کے مطابق اپنی صوابدید پر کرے۔ اللہ نے فرمایا ہے ” قدتبین الرشد من الغی “ (البقرہ) ہدایت گمراہی سے بالکل واضح ہوچکی ہے نیزیہ بھی فرمایا لا اکراہ فی الدین (البقرہ) دین میں جبر بھی نہیں ہے کہ کسی کو زبردستی مسلمان بنا لیا جائے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مصلحت کے خلاف ہے۔ لہٰذا آپ اس معاملہ میں زیادہ دلبرداشتہ نہ ہوں۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہدایت کے تمام ممکنہ اسباب مہیا کردیئے ہیں۔ اس نے انسان کو زندگی ‘ وجود ‘ صحت ‘ عقل ‘ اور حواس ظاہر و باطنہ عطا کئے ہیں۔ اس کے اردگرد بیشمار بشانیاں پھیلا دی ہیں اللہ نے پیغمبروں کو بھیجا ‘ ان کی طرف وحی نازل فرمائی ‘ اس کے باوجود اگر کوئی شخص ہدایت کو قبول نہیں کرتا تو پھر اسے جہنم میں جانے دیں۔ اس کے متعلق آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ “ ولا تسئل عن اصحب الجحیم “ (2 : 911) آپ سے دوزخ میں جانے والوں کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔ یہ تو خود دوزخیوں سے سوال ہوگا ماسلئکم فی سقر (57 : 24) تم جہنم میں کس وجہ سے آئے تو وہ خود اعتراف کریں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے۔ ہم مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ ہم اہل باطل کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے اور ہم قیامت کے دن کا انکار کرتے تھے۔ فرمایا آپ سے مجرمین کے متعلق سوال نہیں ہوگا۔ آپ کے ذمے تو خدا کا پیغام پہنچا دیا ہے آپ اپنا فرض ادا کریں اور ان لوگوں کی مطلوبہ نشانی کے لئے تمنا نہ کریں۔ معجزات کی فرمائش فرمایا ان کا حق سے اعراض آپ پر شاق گزرتا ہے فان استطعت پس اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں ان تبتغی نفقا فی الارض کہ زمین میں سرنگ تلاش کرلیں او سلما فی اسلماء یا آسمان میں سیڑھی لگا لیں ‘ تو آپ ایسا کر گزریں فتاتیھم بایتہ پھر لے آئیں ان کے لئے کوئی نشانہ جو وہ طلب کرتے ہیں۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی معجزہ یا نشانی کا ظاہر کرنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے اور اگر بالفرض اللہ تعالیٰ مطلوبہ نشانی ظاہر بھی فرما دے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ ضرور ہی ایمان لے آئیں گے ان کا سابقہ ریکارڈ تو ان کے حق میں نہیں جاتا۔ مثلاً مشرکین مکہ نے چاند کو دو ٹکڑے کردینے کا معجزہ طلب کیا۔ جب اللہ کی مشیت ہوئی تو حضور ﷺ نے انگلی کا اشارہ کیا اور چاند دو ٹکڑے ہو کر ایک حصہ پہاڑ کی ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا۔ یہ واضح نشانی دیکھنے کی بعد کہنے لگے ” سحر مستمر “ (4502) یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری نظربندی کردی گئی ہو اور حقیقت میں چاند نہ پھٹا ہو ‘ لہٰذا باہر دور دراز سے آنے والے لوگوں سے دریافت کرنا چاہئے۔ چنانچنہ جب قافلے آئے تو ان سے پوچھا گیا۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ فلاں دن فلاں مقام پر ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا مگر اس کے باوجود مشرکین مکہ ایمان نہ لائے اور اپنی بات پر اڑے رہے۔ فرمایا یہ بات تو طے ہے کہ یہ لوگ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لائیں گے۔ البتہ ولو شاء اللہ لجمعھم علی الھدی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان سب کو ہدایت پر اکٹھا کر دے ‘ سب کو مجبوراً ایک راستے پر لگا دے۔ مگر یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ جیسے کہ پہلے عرض کیا کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ تمام دلائل اس کے سامنے رکھ کر پھر اس کو اختیار دیا گیا ہے من شاء فلیومن و من شاء فلیکفر (سورۃ کہف) جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے ‘ کسی پر زبردستی نہیں ہے۔ البتہ اللہ نے بتا دیا انا اعتدنا للظلمین نارا (کہف) ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کفر کو ہرگز پسند نہیں کرتا ‘ بلکہ وہ تو ایمان قبول کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ اب ہر شخص کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے یا ناراض۔ فرمایا اگر اللہ چاہے تو سب لوگ ایمان قبول کرلیں ‘ مگر آپ کیلئے یہی ہے فلاں تکونن من الھجلین کہ آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیں۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محبت اور وعظ کے طریقے پر فرمایا ہے کہ میری حکمت کے خلاف تمنا کر کے آپ نادان نہ بنیں۔ اس جملے میں محبت آمیز عتاب بھی ہے اور وعظ و نصیحت بھی کہ حد سے آگے نہ بڑھیں ‘ ان لوگوں کے لئے جس قد رضروری ہے اسی قدر اللہ سے طلب کریں اور ان کی ہر خواہش کی تکمیل کی تمنا نہ کریں۔ جہل کا لفظ علم اور حلم دونوں کے مقابل میں آتا ہے یہ لفظ علم سے بےبہرگی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور بردباری کے خلاف واقع ہونے والی چیز کے لئے بھی۔ عربی شاعر کہتا ہے۔ الا لا یجھلن احد علینا فنجھل فوق جھل الجاھلین خبردار ! ہمارے خلاف کوئی جہالت یعنی زور آزمائی نہ کرے کیونکہ ہم زور آزمائوں سے بڑھ کر زور آزمائی کرنیو الے ہیں۔ مطلب یہ کہ حوصلے اور بربادی کے خلاف جو جلد بازی اور زور آزمائی ہوتی ہے ‘ اس پر بھی جہل کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ تو گویا اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں حضور ﷺ کو نصیحت فرمائی ہے کہ آپ نامناسب فرمائش کی حمایت کر کے نادان نہ بنیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ آیت کے اس حصہ میں اگرچہ خطاب حضور ﷺ سے ہے ‘ مگر بات عام لوگوں کو سمجھائی جا رہی ہے کہ بیشک تمام مسلمانوں کی خواہش ہے کہ سب لوگ ایمان لے آئیں ‘ مگر یہ چیز حکمت کے خلاف ہے ۔ کسی کو ہدایت دینا آپ کے اختیار میں نہیں ہے ‘ آپ تو اس کے لئے دعا ‘ تمنا یا کوشش ہی کرسکتے ہیں ‘ وہ کریں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں کیونکہ یہ اس کے علم میں ہے کہ کس شخص میں ایمان قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور اگر آپ چاہیں کہ تمام کے تمام لوگ ہی ایمان قبول کرلیں تو یہ نادانی کی بات ہے ‘ اس کو اختیار نہ کریں۔ اہل فکر و نظر فرمایا انما یستجیب الذین یسمعون بیشک قبول وہ لوگ کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور جو آدمی سنتا ہی نہیں یعنی توجہ ہی نہیں دیتا۔ اس کو سنانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا دوسرے مقام پر فرمایا ۔ ” ولا تکونوا کالذین قالو سمعنا وھم لا یسمعون (انفال) ان لوگوں کی طژرح نہ ہو جائو جو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں سنتے۔ سننے کا فائدہ تو اسے حاصل ہوتا ہے جو کسی چیز پر توجہ دے اس کو سمجھے اور اسے دل میں جگہ دے۔ برخلاف اس کے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے ‘ اس کا سننا اور نہ سننا برابر ہے۔ فرمایا والموتی یبعثھم اللہ اور اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھائے گا امام رازی (رح) کہتے ہیں کہ یہاں مردوں سے مراد کافر ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح مردوں کو سنانے کا کچھ فائدہ نہیں ‘ اسی طرح کافروں کا سننا اور نہ سننا برابر ہے ‘ کافروں سے خطاب مردوں سے خطاب کے مترادف ہے۔ اگر قبرستان میں کوئی شخص وعظ کرنا شروع کر دے تو اس کا کیا فائدہ ہوگا ‘ یہی حال کفر کرنے والوں کا ہے۔ فرمایا قیامت والے دن اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھائے گا تو پھر سنیں گے آج کا سننا تو ان کے لئے کچھ مفید نہیں مگر وہاں کا سننا بھی مفید نہیں ہوگا کیونکہ سن کر ایمان لانے کا وقت گزر چکا ہوگا۔ وہ تسلیم کریں گے کہ دنیا میں ہمیں جو سنایا جاتا تھا وہ برحق تھا۔ مگر ہم ہی غلط راستے پر چلتے رہے ‘ مگر اس وقت کا پچھتانا کسی کام نہ آئے گا فرمایا ثم الیہ یرجعون پھر ان سب کو خدا تعالیٰ کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ پھر محاسبہ ہوگا اور جیسا کسی کا عقیدہ باعمل ہوگا ‘ اس کے مطابق سزا یا جزا پائے گا۔ غرض یہ کہ پیغمبر (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو اللہ نے تسلی دی ہے کہ اگر کافر آپ کی بات نہیں مانتے تو آپ زیادہ اصرار نہ کریں اور ان کی خواہش کے مطابق نشانیوں کی تمنا نہ کریں کیونکہ یہ حکمت خداوندی کے خلاف ہے۔ آپ اپنا فرض ادا کرتے رہیں کسی کو ہدایت دینا یا گمراہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل جیسی نعمت کو ٹھیک طور پر استعمال نہیں کرتے۔ اس بات کا ادراک نہیں قیامت کے روز ہوگا ‘ مگر اس وقت کی ندامت کسی کام نہیں آئے گی اور کافر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں گے۔
Top