Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 34
وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا١ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ
: اور البتہ جھٹلائے گئے
رُسُلٌ
: رسول (جمع)
مِّنْ قَبْلِكَ
: آپ سے پہلے
فَصَبَرُوْا
: پس صبر کیا انہوں نے
عَلٰي
: پر
مَا كُذِّبُوْا
: جو وہ جھٹلائے گئے
وَاُوْذُوْا
: اور ستائے گئے
حَتّٰى
: یہانتک کہ
اَتٰىهُمْ
: ان پر آگئی
نَصْرُنَا
: ہماری مدد
وَلَا مُبَدِّلَ
: نہیں بدلنے والا
لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ
: اللہ کی باتوں کو
وَ
: اور
لَقَدْ
: البتہ
جَآءَكَ
: آپ کے پاس پہنچی
مِنْ
: سے (کچھ)
نَّبَاِى
: خبر
الْمُرْسَلِيْنَ
: رسول (جمع)
تحقیق جھٹلائے گئے آپ سے پہلے بہت سے رسول ‘ پس انہوں نے صبر کیا اس بات پر جو ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو تکلیف پہنچائی گئی یہاں تک کہ آگئی ان کے پاس ہماری مدد ‘ اور نہیں ہے کوئی تبدیل کرنے والا اللہ کے کلمات کو اور البتہ آئے ہیں آپ کے پاس اللہ کے رسولوں کے کچھ حالات
گزشتہ کئی دورس سے کفر و شرک کی تردید ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معاد کا انکار کرنے والوں کا ذکر کیا ‘ پھر ان کے بیہودہ اعتراضات کا جواب دیا ‘ گزشتہ آیات میں فرمایا کہ تکذیب کرنے والے خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں یہ لوگ اس وقت کف افسوس ملیں گے جب کسی کو موت آجائے گی یا قیامت واقع ہوگی مگر اس وقت کی ندامت کچھ مفید نہ ہوگی۔ ان لوگوں کو اپنے کفر ‘ شرک ‘ اور معاصی کا بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھانا پڑے گا۔ اللہ نے واضح فرمایا کہ یہ دنیا تو ناپائیدار بل کی فانی ہے۔ یہ کھیل کود کی طرح جلد ہی ختم ہوجائے گی ‘ اور پھر ہر ایک کو دائمی زندگی سے واسطہ پڑے گا۔ فرمایا خدا خوفی رکھنے والوں اور کفر و شرک اور معاصی سے پرہیز کرنے والوں کے لئے آخرت کا گھر ہی بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کو تسلی بھی دی اور فرمایا کہ کفار و مشرکین کی ایذا رسانیوں سے ہم واقف ہیں۔ ان کی طرف سے انکار اور دیگر بیہودہ باتیں آپ کو غم میں ڈالتی ہیں ‘ مگر اپ کے لئے صبر ہی بہترین ہتھیار ہے حقیقت میں یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں آپ کو تو سچا ‘ امین اور پاکیزہ اخلاق کا مالک تسلیم کرتے ہیں مگر جو پروگرام آپ پیش کر رہے ہیں اس کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اس طرح آپ کو تسلی دی گئی۔ اب آج کے درس میں بھی مختلف انداز سے آپ کو تسلی دی گئی تا کہ آپ رنجیدہ نہ ہوں۔ ارشاد ہوتا ہے ولقد کذبت رسل من قبلک البتہ آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو جھٹلایا گیا۔ اور ان کے لائے ہوئے پروگرام کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ یہ لوگ آپ سے بھی وہی سلوک کر رہے ہیں تو آپ اس سے گھبرائیں نہیں بلکہ پہلے انبیاء کا طریقہ بھی اختیار کریں۔ فصبرواعلی ٰ ما کذبوا انہوں نے تکذیب شدہ چیز پر صبر کیا ‘ برداشت کیا واوذوا اور انہیں ایذا پہنچائی گئی۔ اللہ کے اکثر نبیوں کو تکالیف میں مبتلا کیا گیا مگر وہ ہمیشہ صبر و تحمل سے ہر تکلیف کو برداشت کرتے رہے حتیٰ اللھم انصرنا حتیٰ کہ انکے پاس ہماری مدد آن پہنچی اور مکذبین اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آگئے۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح سابقہ انبیاء نے صبر و برداشت کا دامن تھامے رکھا ‘ آپ بھی ویسے کریں تو اللہ کی مدت اپنے وقت پر پہنچ جائے گی۔ لہٰذا آپ رنجیدہ خاطرہ نہ ہوں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کسی موقع پر ایک شخص نے حضور ﷺ کے بارے میں بیہودہ بات کی تو آپ کو سخت صدمہ پہنچا۔ آپ نے فرمایا رحم اللہ موسیٰ لقد او ذی باکثر من ھذا فصبروا اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کہ انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیفیں پہنچائی گئیں مگر انہوں نے صبر ہی کیا ‘ تو میں بھی ان کے اسوہ کے مطابق صبر کا دامن ہی پکڑوں گا۔ حضور موسیٰ ﷺ کو اس حد تک ذہنی کوفت پہنچائی گئی کہ ایک فاحشہ عورت کو مجمع عام میں کھڑا کر کے اس سے کہلوایا گیا کہ موسیٰ ﷺ نے اس سے برائی کا ارتکاب کیا ہے (العیاذ باللہ) حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق بھی قرآن پاک میں اشارات موجود ہیں کہ انہیں کس کس طرح سے جسمانی ‘ ذہنی اور مالی تکالیف پہنچائی گئیں۔ خود حضور ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی ایذاء رسانی کر کے آپ کی کوفت کا باعث بنے مگر تمام انبیاء کی طرح آپ نے بھی صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ صبر ملت ابراہیمی اور دین اسلام کا بہت بڑا اصول ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس اصول کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے ایمان والو ! تمہیں اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے بڑی تکلیفیں پہنچائی جائیں گی۔ ” وان تصبروا وتتقوا فان ذالک من عزم الامور۔ (آل عمران) پھر اگر تم صبرو کرو گے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرو گے تو پکتہ بات یہی ہے کامیابی کا انحصار صبر اور تقویٰ پر ہے۔ یہ ہمارے دین کا بہت بڑا اصول ہے ‘ اسی لئے قرآن پاک میں اس کی جگہ جگہ تاکید کی گئی ہے ‘ جیسے واستعینوا بالصبروالصلوٰۃ (بقرہ) صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو۔ نماز کے ذریعے تعلق باللہ کو قائم رکھو اور ہر تکلیف کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرو تو فلاح پاجائو گے۔ صبر کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔ کبھی اطاعت پر جم جانے کے لئے صبر سے کام لینا پڑتا ہے اور کبھی نفسانی خواہش کو روک کر صبر کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اور ہر مصیبت کے وقت صبر اختیار کرنا تو بہرحال مقصود ی کاموں میں سے ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ جس طرح پہلے انبیاء نے تکالیف پر صبر کا مظاہرہ کیا ‘ اسی طرح آپ بھی صبر کا دامن پکڑے رہیں۔ فرمایا تمام انبیاء صبر کرتے رہے حتیٰ کہ ہماری مدد ان کو پہنچ گئی اور یاد رکھو ولا بدل لکلمت اللہ اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی ہستی تبدیل نہیں کرسکتی۔ یہاں پر کلمات سے مراد اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء سے جو وعدہ کر رکھا ہے اسے کوئی بھی بدل نہیں سکتا۔ اس کا وعدہ ہے ” لا غلبن انا ورسلی (المجادلۃ) میں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے۔ حالات چاہے کیسے بھی حوصلہ شکن ہوں مگر بالآخر میرے نبیوں کے مشن کو ہی کامیابی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کی خوشخبری تمام انبیاء اور اہل ایمان کو بھی دی ہے۔ انا لننصررسلنا والذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا و یوم یقوم الشھاد (المومن) بیشک ہم مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی دنیا میں بھی اور قیامت کے دن بھی۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ یا کلمہ ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ‘ وہ پورا ہو کر رہے گا مگر اس سے پہلے ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کرنا ہوگا۔ فرمایا ولقد جاء ک من تبای المرسلین اور البتہ اس سے پہلے آپ کے پاس رسولوں کے حالات (بذریعہ وحی) پہنچ چکے ہیں۔ آپ ان حالات کو پیش نظر رکھیں اور سابقہ انبیاء کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے تکالیف برداشت کریں اور صبر پر قائم رہیں۔ قبول حق کے لئے شدید خواہش فرمایا وان کان کبر علیک اعراضھم اگرچہ ان کا قبول حق سے اعراض آپ پر شاق گزرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کے قلب مبارک میں اس بات کی شدید خواہش تھی کہ آپ کی قوم کے لوگ ایمان کو قبول کرلیں اور دوزخ سے بچجائیں۔ مگر وہ لوگ بعض اوقات سخت بیہودہ باتیں کرتے تھے۔ معجزات کے لئے فرمائشیں کرتے تھے کہ فلاں نشانی آجائے تو ہم مان جائیں گے اور حضور ﷺ کی دلی خواہش بھی ہوتی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مطلوبہ نشانی ‘ ظاہر فرما دے تو شاید وہ ایمان لے آئیں ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ آپ کی یہ خواہش امور خیر کے متعلق ہے مگر یہ تکوینی مصلحت کے خلاف ہے حکمت لٰہی میں سب لوگوں کا ایمان لانا ضروری نہیں ہے اس قسم کی خواہش ابطال حکمت کے مترادف ہے ‘ اس لئے آپ ایسی تمنا پر اصرار نہ کیا کریں سورة کہف میں ہے۔ ” فلعلک باخخ نفسک علی اثارھم ان لھم یومنوا بھذا الحدیث اسفا “ اے پیغمبر ! آپ اس بات پر اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے کہ یہ لوگ اس آخری پروگرام پر ایمان نہیں لاتے آپ اتنا زیادہ غم نہ کیا کریں۔ آپ ان لوگوں پر کوئی داروغہ یا جبار تو نہیں ہیں کہ ان سے زبردستی ایمان قبول کرائیں اور پھر ان کا ایمان لانا ضروری بھی تو نہیں ہے۔ قبول حق اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے ‘ وہ جانتا ہے کہ کسی شخص میں قبول حق کی صلاحیت موجود ہے اور کس میں نہیں ہے۔ لہٰذا اس نے ایمان لانے کا اختیار مکمل طور پر بندے پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ اپنی صلاحیت کے مطابق اپنی صوابدید پر کرے۔ اللہ نے فرمایا ہے ” قدتبین الرشد من الغی “ (البقرہ) ہدایت گمراہی سے بالکل واضح ہوچکی ہے نیزیہ بھی فرمایا لا اکراہ فی الدین (البقرہ) دین میں جبر بھی نہیں ہے کہ کسی کو زبردستی مسلمان بنا لیا جائے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مصلحت کے خلاف ہے۔ لہٰذا آپ اس معاملہ میں زیادہ دلبرداشتہ نہ ہوں۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہدایت کے تمام ممکنہ اسباب مہیا کردیئے ہیں۔ اس نے انسان کو زندگی ‘ وجود ‘ صحت ‘ عقل ‘ اور حواس ظاہر و باطنہ عطا کئے ہیں۔ اس کے اردگرد بیشمار بشانیاں پھیلا دی ہیں اللہ نے پیغمبروں کو بھیجا ‘ ان کی طرف وحی نازل فرمائی ‘ اس کے باوجود اگر کوئی شخص ہدایت کو قبول نہیں کرتا تو پھر اسے جہنم میں جانے دیں۔ اس کے متعلق آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ “ ولا تسئل عن اصحب الجحیم “ (2 : 911) آپ سے دوزخ میں جانے والوں کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔ یہ تو خود دوزخیوں سے سوال ہوگا ماسلئکم فی سقر (57 : 24) تم جہنم میں کس وجہ سے آئے تو وہ خود اعتراف کریں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے۔ ہم مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ ہم اہل باطل کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے اور ہم قیامت کے دن کا انکار کرتے تھے۔ فرمایا آپ سے مجرمین کے متعلق سوال نہیں ہوگا۔ آپ کے ذمے تو خدا کا پیغام پہنچا دیا ہے آپ اپنا فرض ادا کریں اور ان لوگوں کی مطلوبہ نشانی کے لئے تمنا نہ کریں۔ معجزات کی فرمائش فرمایا ان کا حق سے اعراض آپ پر شاق گزرتا ہے فان استطعت پس اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں ان تبتغی نفقا فی الارض کہ زمین میں سرنگ تلاش کرلیں او سلما فی اسلماء یا آسمان میں سیڑھی لگا لیں ‘ تو آپ ایسا کر گزریں فتاتیھم بایتہ پھر لے آئیں ان کے لئے کوئی نشانہ جو وہ طلب کرتے ہیں۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی معجزہ یا نشانی کا ظاہر کرنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے اور اگر بالفرض اللہ تعالیٰ مطلوبہ نشانی ظاہر بھی فرما دے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ ضرور ہی ایمان لے آئیں گے ان کا سابقہ ریکارڈ تو ان کے حق میں نہیں جاتا۔ مثلاً مشرکین مکہ نے چاند کو دو ٹکڑے کردینے کا معجزہ طلب کیا۔ جب اللہ کی مشیت ہوئی تو حضور ﷺ نے انگلی کا اشارہ کیا اور چاند دو ٹکڑے ہو کر ایک حصہ پہاڑ کی ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف چلا گیا۔ یہ واضح نشانی دیکھنے کی بعد کہنے لگے ” سحر مستمر “ (4502) یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری نظربندی کردی گئی ہو اور حقیقت میں چاند نہ پھٹا ہو ‘ لہٰذا باہر دور دراز سے آنے والے لوگوں سے دریافت کرنا چاہئے۔ چنانچنہ جب قافلے آئے تو ان سے پوچھا گیا۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ فلاں دن فلاں مقام پر ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا مگر اس کے باوجود مشرکین مکہ ایمان نہ لائے اور اپنی بات پر اڑے رہے۔ فرمایا یہ بات تو طے ہے کہ یہ لوگ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لائیں گے۔ البتہ ولو شاء اللہ لجمعھم علی الھدی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان سب کو ہدایت پر اکٹھا کر دے ‘ سب کو مجبوراً ایک راستے پر لگا دے۔ مگر یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ جیسے کہ پہلے عرض کیا کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ تمام دلائل اس کے سامنے رکھ کر پھر اس کو اختیار دیا گیا ہے من شاء فلیومن و من شاء فلیکفر (سورۃ کہف) جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے ‘ کسی پر زبردستی نہیں ہے۔ البتہ اللہ نے بتا دیا انا اعتدنا للظلمین نارا (کہف) ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کفر کو ہرگز پسند نہیں کرتا ‘ بلکہ وہ تو ایمان قبول کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ اب ہر شخص کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے یا ناراض۔ فرمایا اگر اللہ چاہے تو سب لوگ ایمان قبول کرلیں ‘ مگر آپ کیلئے یہی ہے فلاں تکونن من الھجلین کہ آپ نادانوں میں سے نہ ہوجائیں۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محبت اور وعظ کے طریقے پر فرمایا ہے کہ میری حکمت کے خلاف تمنا کر کے آپ نادان نہ بنیں۔ اس جملے میں محبت آمیز عتاب بھی ہے اور وعظ و نصیحت بھی کہ حد سے آگے نہ بڑھیں ‘ ان لوگوں کے لئے جس قد رضروری ہے اسی قدر اللہ سے طلب کریں اور ان کی ہر خواہش کی تکمیل کی تمنا نہ کریں۔ جہل کا لفظ علم اور حلم دونوں کے مقابل میں آتا ہے یہ لفظ علم سے بےبہرگی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور بردباری کے خلاف واقع ہونے والی چیز کے لئے بھی۔ عربی شاعر کہتا ہے۔ الا لا یجھلن احد علینا فنجھل فوق جھل الجاھلین خبردار ! ہمارے خلاف کوئی جہالت یعنی زور آزمائی نہ کرے کیونکہ ہم زور آزمائوں سے بڑھ کر زور آزمائی کرنیو الے ہیں۔ مطلب یہ کہ حوصلے اور بربادی کے خلاف جو جلد بازی اور زور آزمائی ہوتی ہے ‘ اس پر بھی جہل کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ تو گویا اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں حضور ﷺ کو نصیحت فرمائی ہے کہ آپ نامناسب فرمائش کی حمایت کر کے نادان نہ بنیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ آیت کے اس حصہ میں اگرچہ خطاب حضور ﷺ سے ہے ‘ مگر بات عام لوگوں کو سمجھائی جا رہی ہے کہ بیشک تمام مسلمانوں کی خواہش ہے کہ سب لوگ ایمان لے آئیں ‘ مگر یہ چیز حکمت کے خلاف ہے ۔ کسی کو ہدایت دینا آپ کے اختیار میں نہیں ہے ‘ آپ تو اس کے لئے دعا ‘ تمنا یا کوشش ہی کرسکتے ہیں ‘ وہ کریں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں کیونکہ یہ اس کے علم میں ہے کہ کس شخص میں ایمان قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور اگر آپ چاہیں کہ تمام کے تمام لوگ ہی ایمان قبول کرلیں تو یہ نادانی کی بات ہے ‘ اس کو اختیار نہ کریں۔ اہل فکر و نظر فرمایا انما یستجیب الذین یسمعون بیشک قبول وہ لوگ کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور جو آدمی سنتا ہی نہیں یعنی توجہ ہی نہیں دیتا۔ اس کو سنانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا دوسرے مقام پر فرمایا ۔ ” ولا تکونوا کالذین قالو سمعنا وھم لا یسمعون (انفال) ان لوگوں کی طژرح نہ ہو جائو جو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا حالانکہ وہ نہیں سنتے۔ سننے کا فائدہ تو اسے حاصل ہوتا ہے جو کسی چیز پر توجہ دے اس کو سمجھے اور اسے دل میں جگہ دے۔ برخلاف اس کے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے ‘ اس کا سننا اور نہ سننا برابر ہے۔ فرمایا والموتی یبعثھم اللہ اور اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھائے گا امام رازی (رح) کہتے ہیں کہ یہاں مردوں سے مراد کافر ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح مردوں کو سنانے کا کچھ فائدہ نہیں ‘ اسی طرح کافروں کا سننا اور نہ سننا برابر ہے ‘ کافروں سے خطاب مردوں سے خطاب کے مترادف ہے۔ اگر قبرستان میں کوئی شخص وعظ کرنا شروع کر دے تو اس کا کیا فائدہ ہوگا ‘ یہی حال کفر کرنے والوں کا ہے۔ فرمایا قیامت والے دن اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھائے گا تو پھر سنیں گے آج کا سننا تو ان کے لئے کچھ مفید نہیں مگر وہاں کا سننا بھی مفید نہیں ہوگا کیونکہ سن کر ایمان لانے کا وقت گزر چکا ہوگا۔ وہ تسلیم کریں گے کہ دنیا میں ہمیں جو سنایا جاتا تھا وہ برحق تھا۔ مگر ہم ہی غلط راستے پر چلتے رہے ‘ مگر اس وقت کا پچھتانا کسی کام نہ آئے گا فرمایا ثم الیہ یرجعون پھر ان سب کو خدا تعالیٰ کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ پھر محاسبہ ہوگا اور جیسا کسی کا عقیدہ باعمل ہوگا ‘ اس کے مطابق سزا یا جزا پائے گا۔ غرض یہ کہ پیغمبر (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو اللہ نے تسلی دی ہے کہ اگر کافر آپ کی بات نہیں مانتے تو آپ زیادہ اصرار نہ کریں اور ان کی خواہش کے مطابق نشانیوں کی تمنا نہ کریں کیونکہ یہ حکمت خداوندی کے خلاف ہے۔ آپ اپنا فرض ادا کرتے رہیں کسی کو ہدایت دینا یا گمراہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل جیسی نعمت کو ٹھیک طور پر استعمال نہیں کرتے۔ اس بات کا ادراک نہیں قیامت کے روز ہوگا ‘ مگر اس وقت کی ندامت کسی کام نہیں آئے گی اور کافر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں گے۔
Top