Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 31
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا١ۙ وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ
قَدْ
: تحقیق
خَسِرَ
: گھاٹے میں پڑے
الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا
بِلِقَآءِ
: ملنا
اللّٰهِ
: اللہ
حَتّٰى
: یہانتک کہ
اِذَا
: جب
جَآءَتْهُمُ
: آپ پہنچی ان پر
السَّاعَةُ
: قیامت
بَغْتَةً
: اچانک
قَالُوْا
: وہ کہنے لگے
يٰحَسْرَتَنَا
: ہائے ہم پر افسوس
عَلٰي
: پر
مَا فَرَّطْنَا
: جو ہم نے کو تا ہی کی
فِيْهَا
: اس میں
وَهُمْ
: اور وہ
يَحْمِلُوْنَ
: اٹھائے ہوں گے
اَوْزَارَهُمْ
: اپنے بوجھ
عَلٰي
: پر
ظُهُوْرِهِمْ
: اپنی پیٹھ (جمع)
اَلَا
: آگاہ رہو
سَآءَ
: برا
مَا يَزِرُوْنَ
: جو وہ اٹھائیں گے
تحقیق خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا اللہ کی ملاقات کو یہاں تک کہ جب آپہنچی ان کے پاس قیامت اچانک تو پھر کہیں گے ‘ اے افسوس ہمارے اس پر جو ہم نے کوتاہی کی ہے اس بارے میں اور وہ اٹھائیں گے اپنے بوجھوں کو اپنی پشتوں پر ‘ سنو ! برا ہے وہ بوجھ جس کو وہ اٹھائیں گے
رابط آیات گزشتہ دورس میں اللہ نے مشرکین کا رد کرنے کے بعد معاد کا مسئلہ بیان فرمایا ” یوم نحسر ھم جمعیاً جس دن ہم سب کو اکٹھا کریں گے پھر مشرکین کے برے انجام کا ذکر کیا اور ان کے اس قول کو دہرایا کہ وہ کہتے ہیں ان ھی الا حیاتنا الدنیا یعنی ہمارے لئے تو یہ دنیا کی زندگی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ” ومانحن بمبعوثین “ اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔ گویا انہوں نے معاد کا صریحاً انکار کردیا۔ اللہ نے ان کی مذمت بیان فرمائی کیونکہ توحید ‘ رسالت ‘ قرآن کریم کی حقانیت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ معاد پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جو شخص اس عقیدے کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ قیامت کے دن جو برا معاملہ پیش آنے والا ہے ‘ اس کا کچھ تذکرہ گزشتہ درس میں ہوچکا ہے۔ اب آج کے درس میں ان کا حال مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ حضور ﷺ کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ آپ دل برداشتہ نہ ہوں یہ لوگ آپ کا انکار نہیں کرتے بلکہ اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں چناچہ اللہ نے ان آیات میں بھی تکذبین کا رد فرمایا ہے۔ معاد کا انکار ارشاد ہوتا ہے قد خسرالذین کذبوا بلقاء اللہ تحقیق خسارے میں مبتلا ہوئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا۔ لقاء اللہ سے یہی مراد ہے کہ قیامت کے دن دوبارہ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور یہ ہونا ہے اور یہ چیز اجزائے ایمان میں داخل ہے۔ حدیث شریف میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ان نومن بالبعث وبلقائہ یعنی دوبارہ اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر جواب دہی کرنے پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ جو اس بارے میں شک کرتا ہے اس نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈال لیا۔ ایمان ‘ توحید اور معاد کا منکر اپنی فطرت سلیمہ کو بھی بگاڑتا ہے اور عقل سلیم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ‘ ان چیزوں پر ایمان لانا ہی عقل و فطرت کے مطابق ہے۔ دنیا میں تو ایسا انسان عقل و فطرت کے نقصان میں مبتلا ہوتا ہے اور آخرت میں ابدی سزا کا مستحق ہوجائے گا اور اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے خسران کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔ سورة عصر میں بھی فرمایا ہے ان الانسان لفی خسر تمام انسان خسارے میں ہیں۔ ” الا الذین امنو ابجز ان کے جو ایمان لائے اور دیگر امور انجام دیئے۔ اسی طرح یہاں بھی اللہ نے فرمایا ہے تحقیق نقصان میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا ہے یہ چیز عقل سلیم ‘ تعلیم انبیاء اور وحی الٰہی کے بھی خلاف ہے اور زندہ ضمیر بھی اسی بات کی شہادت دیتا ہے۔ معاد کی تکذیب انسان کے لئے بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگی۔ فرمایا ‘ دنیا میں تو معاد کا انکار کرتے رہے حتیٰ اذا جاء تھم الساعۃ بغتہ یہاں تک کہ جب وہ گھڑی اچانک آگئی۔ الساعۃ سے مراد کل کائنات کی مجموعی موت یعنی قیامت بھی ہے اور ہر انسان کی انفرادی موت بھی یہ دونوں سورتیں اچانک آجاتی ہیں اور کسی شخص کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کہاں اور کب واقع ہوگی۔ سورة لقمان میں موجود ہے ” وما تدری نفس بابی ارض نموت کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں اور کس وقت آئے گی۔ اس سورة کی ابتداء میں بھی یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق اور نور و ظلمات کا بنانے والا ہے۔ تمام علویات اور سفلیات کا خالق ‘ مالک اور متصرف وہی ہے۔ وہی معبود برحق ہے۔ اس کے علاوہ کوئی الہ نہیں مشکل کشا ‘ حاجت روا اور بگڑی بنانے والا بھی وہی ہے۔ اس کے سوا کوئی ہمہ دان ‘ ہمہ بین اور ہمہ تو ان نہیں اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے لئے دو قسم کی مہلتیں مقرر کیں۔ ایک تو اجلا ہے جو ہر انسان کے لئے ایک مقررہ مدت ہے جس کے بعد اسے موت آنی ہے۔ یہ محددو موت ہے اور اس کا وقت کسی انسان کے علم میں نہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بتلا دیتا ہے۔ تحمل قرار پانے کے چوتھے مہینے میں اللہ کے فرشتے پوچھتے ہیں کہ مولاکریم ! پیدا ہونے والے اس انسان کی عمر کتنی ہوگی ‘ اس کی روزی کس قدر ہے ‘ یہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت اللہ تعالیٰ یہ سب چیزیں فرشتوں کے رجسٹروں میں نوٹ کرا دیتا ہے اور پھر اس کے مطابق اس انسان کی زندگی بسر ہوتی ہے اور آخر کار مقررہ وقت پر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے ‘ تاہم موت کی جگہ اور وقت کے متعلق خود انسان کو معلوم نہیں ہوتا اور پھر وہ اچانک آجاتی ہے۔ اسی لئے ہر انسان کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہر وقت محتاط رہے ‘ ایمان اور نیکی کو اختیار کئے رکھے ‘ کیونکہ کسی انسان کے علم میں نہیں ہے کہ اس کی موت کب آجائے گی۔ اور دوسری مدت اجل مسمی عندہ ہے یہ پوری کائنات کی مجموعی یعنی قیامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے واقع ہونے کا علم فرشتوں کو بھی نہیں دیا۔ صرف نشانیاں بتلائی ہیں مگر یہ بھی اچانک آجائے گی۔ بہرحال اس آیت کریمہ میں ساعتہ سے مراد دونوں اموات ہیں یعنی انسان کی انفرادی موت بھی اور اجماعتی بھی ۔ پھر جب یہ آجاتی ہے تو ایک سیکنڈ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی اور انسان کی مادی اور عملی زندگی ختم ہوجاتی ہے ‘ اس کے بعد والی زندگی جزائے عمل کی زندگی ہے جو کچھ انسان اس دنیا میں کرتا ہے ‘ اس کا بدلہ پانے کی زندگی ہے ‘ اسے جزاء یا سزا ملے گی جس کی ابتداء برزخ سے ہی ہوجاتی ہے۔ یہ برزخ یا قبر کی زندگی ایسی ہے جیسے کسی ملزم کو حتمی سزا کا فیصلہ ہونے تک حوالات میں رکھا جاتا ہے اور پھر فیصلہ ہونے پر اسے اصل سزا دی جاتی ہے یا بری کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح انان کے لئے برزخ کی راحت یا تکلیف عارضی نوعیت کی ہوتی ہے ‘ پھر جب حشر کو ان کے تمام اعمال کا فیصلہ سنا دیا جائے گا تو پھر یا تو دائمی راحت میں چلا جائے گا یا مقررہ سزا کا مستوجب ہوگا۔ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے من مات فقد قامت قیامتہ جو شخص مر گیا اس کی قیامت صغریٰ تو برپا ہوگئی ہر انسان کی انفرادی ساعت تو اس کی موت کی گھڑی ہے اور تمام انسانوں کی ساعت قیامت کا دن ہوگی۔ فرمایا جب وہ قیامت کی گھڑی آن پہنچے گی قالوا تو منکرین کہیں گے یحشرتنا علی ما فرطنا وفیھا اے افسوس ہمارے جو ہم نے اس بارے میں کوتاہی کی۔ مگر اس وقت کی ندامت اور افسوس کچھ کام نہ آئے گا ‘ وہاں تو ایمان ہی کام آنے والی چیز ہے۔ قیامت کی تکذیب کرنے والوں کو اس وقت ندامت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا ‘ سورة حشر میں اے ایمان والو ! اللہ سے ڈر جائو ولتنظر نفس ما قدمت لغذ اور ہر نفس کو چاہئے کہ وہ اس بات کا محسابہ کرے کہ اسنے کل یعنی قیامت کے لئے کیا آگے بھیجا ہے ‘ قیامت کے د تو نیک عمل ہی کام آئے گا ‘ اپنی بدکرداری پر افسوس کا اظہار کچھ فائدہ نہ دے گا۔ اعمال کا بوجھ اور پھر ان مکذبین کی حالت یہ ہوگی وھم یحملون اوزارھم علی ظھورھم کہ وہ اپنے بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھائیں گے۔ بوجھ اٹھانے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انسان ہر برے عمل کو اپنی پشت پر اٹھائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! یاد رکھو ! خیانت نہ کرنا ‘ جو آدمی خیانت کا مرتکب ہوگا ‘ تو ہر خیانت شدہ چیز کو اپنی گردن پر اٹھائے گا ‘ اگر کسی کی بکری چوری کی ہے تو قیامت والے دن اسے اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔ اگر گائے بھینس خیانت کی ہے تو اسے بھی اٹھانا پڑے گا ‘ اونٹ چوری کیا ہے یا کوئی اور چیز غصب کی ہے تو ہر چیز اسے اپنے سر پر اٹھانی ہوگی حتیٰ کہ اگر کسی کی ایک بالشت زمین بھی دبائی ہے تو طوقہ الی سبع ارضین تو ساتوں زمینوں تک کے اس ٹکڑے کو گلے کا طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا اور وہ اسے کھینچ کر لائے گا۔ قیامت کے حالات کو اس دنیا کے حالات پر قیاس نہیں کرنا چاہئے وہاں کے حالات بالکل مختلف ہوں گے اللہ تعالیٰ انسان کے جسم میں اتنی طاقت پیدا کردیں گے کہ بڑی سے بڑی چیز بھی اٹھانے کے قابل ہوگا۔ حضور ﷺ نے جو کچھ بتایا ہے وہ برحق ہے۔ ہر نیکی بدی کو اپنی پشت پر اٹھانا ہوگا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک لوگوں کے نیک اعمال ان کے لئے سواری کا کام دیں گے ‘ اس کے برخلاف برے لوگوں کے برے اعمال خود ان لوگوں پر سواری کریں گے حضور ﷺ نے فرمایا کہ انسان کا معروف جب اس کے قریب آئے گا تو اس کو خوشخبری دے گا۔ اور جب منکر متعلقہ آدمی کے قریب آئے گا تو وہ شخص کہے گا کہ تو پیچھے رہ مگر وہ منکر اس کے ساتھ آ کر چمٹ جائے گا۔ یہ تو قیامت کے دن کا حال ہے اور برزخ کے متعلق بھی حضور ﷺ نے فرمایا کہ آدمی کے نیک اعمال خوبصورت انسانی شکل میں متشکل ہو کر اس کے پاس قبر میں آئیں گے تو وہ مستعجب ہو کر پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا عمل صالح ہوں جو تیرے ساتھمانوس ہونے کے لئے آیا ہوں ‘ تا کہ تجھے قبر میں وحشت نہ ہو۔ فرمایا انسان کے برے اعمال نہایت قبیح شکل میں اس کے پاس آئیں گے جنہیں دیکھ کر وہ سخت خوفزدہ ہوگا ‘ امام شاہ ولی (رح) بھی فرماتے ہیں کہ برے اعمال خاص شکلوں میں آ کر انسان کے اوپر سوار ہوجائیں گے اور ان کا بڑا بوجھ ہوگا۔ یہ بوجھ لوگ اپنی گردنوں اور پشتوں پر اٹھائیں گے۔ اللہ نے فرمایا الا سباء ما یزرون بہت بڑا بوجھ ہے جسے وہ اٹھائیں گے۔ انہوں نے معاد کا انکار کیا مگر آج اس کا بدلہ چکھ لیں گے انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جس چیز کا وہ انکار کرتے رہے وہ برحق ہے اور آج وہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگئے۔ میعاد کا انکار انسان اسی دنیا میں کرتا ہے مگر اس دنیا کی حقیقت کیا ہے۔ وما الحیوۃ الدنیا الا لعب ولھو اور نہیں ہے۔ دنیا کی زندگی مگر کھیل اور دل کا بہلاوا لعب یعنی اس چیز کو کہتے ہیں جو بےمقصد ہو ‘ جس کی کوئی غرض صحیح نہ ہو ‘ آج کل دنیا میں کھیلوں کو بڑا عروج حاصل ہے ان کے لئے خطیر رقم صرف کر کے وسیع انتظام کئے جاتے ہیں حکومتوں میں کھیلوں کی وزارتیں قائم ہیں کھیلوں کی ٹی میں بیرون ملک بھیجنے پر لاکھوں روپے صرف کئے جاتے ہیں اور اس کی غرض وغایت محض تفریح ہے اور لھو ایسی چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو مشغول کر دے۔ بچے کھیل کھیلتے ہیں کوئی بادشاہ بن جاتا ‘ کوئی وزیر اور کوئی چور ‘ بس تھوڑی دیر شغل کیا اور ختم ‘ حاصل کچھ نہ ہوا۔ دنیا کی زندگی بجائے خود ایک کھیل ہے۔ بڑے لوگ اقتدار پر قبضہ کر کے بادشاہ بنے ہوئے ہیں ‘ بعض کو وزیر بنا رکھا ہے اور بعض ان کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس محدود اور ناپائیدار زندگی کی متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور (الحدید) یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔ سرمایہ زندگی اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی جیسا قیمتی سرمایہ عطا کیا ہے۔ حدیث شریف 1 ؎ میں آتا ہے کل الناس یغدو فبائع نفسہ ‘ فمعتقہا اور موبقہا جب کوئی شخص رات گزار کر صبح صحت و تندرستی کے ساتھ بیدار ہوتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت نصیب ہوتی ہے اس لئے انسان کے تین سو ساٹھ جوڑوں میں سے ہر ہر عضو پر شکریہ واجب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہر عضو کی طرف سے صدقہ دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا ‘ حضور ! اس کی تو کوئی طاقت نہیں رکھتا کہ ہر عضو کی طرف سے ہر روز صدقہ ادا کرے ‘ فرمایا ‘ انسان کی ہر نیک بات اس کے لئے صدقہ بن جاتی ہے کسی کو نیکی کی بات بتلانے یا برائی سے منع کر دے تو وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہوتا ہے ۔ راستے میں سے کانٹا یا پتھر ہٹا دے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو تو یہ بھی صدقہ بن جاتا ہے۔ فرمایا اور کچھ نہین تو چاشت کے وقت دو رکعت نفعل ہی تمام اعضاء کی طرف سے صدقہ بن جائے گا۔ کوئی شخص صحیح اعتقاد کے ساتھ سبحان اللہ کر دے تو وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہوگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ عطا کیا ہے ‘ اس کے ساتھ اچھا سودا خریدو کیونکہ یہ سرمایہ قیمتی ہونے کے ساتھ ساتھ عارضی بھی ہے۔ انسان کی زندگی کی ناپائیداری کی مثال ایسی ہے جیسے برف کی ڈولی جو گرمی کی وجہ سے ہر آن پگھلتی رہتی ہے۔ عمر برف است و آفتاب تموز اند کے ماند و خواجہ غرہ ہنوز زندگی برف کی ڈلی ہے مگر صاحب زندگی دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ‘ دھوپ تیز ہے اور برف پگھل رہی ہے ‘ وہ کتنی دیر تک ٹھہر سکے گی بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی جیسی قیمتی متاع عطا فرمائی ہے تا کہ اس سے نفع مند تجارت کرسکے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ‘ اس قیمتی پونجی کو لگا کر بعض انسان واقعی اپنے نفس کو آزاد کردیتے ہیں وہ اس سے ایمان ‘ توحید اور نیکی جیسی قیمتی چیزیں خرید کر اپنے نفس کو جہنم سے آزاد کرا لیتے ہیں مگر بعض ایسے بھی ہیں جو اسی پونجی سے کفر ‘ شرک ‘ نفاق اور بدعات خرید کر اپنے نفس کو ہلاک کرلیتے ہیں ایسی تجارت میں انہیں نفع کی بجائے سراسر نقصان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے مصرف کو تجارت کی مثال دے کر سمجھایا ہے جسے تاجر لوگ بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص کی اصل پونجی ہی ضائع ہوجائے وہ کس قدر نقصان میں ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا قد خسرالذین کذبوا بلقاء اللہ جن لوگوں نے قیامت کا انکار کردیا۔ وہ بڑے خسارے میں پڑگئے۔ یہ دنیا کی زندگی بظاہر جلد ختم ہو جانیوالی ہے مگر ہے بڑی قیمتی۔ اس سے انسان اچھا سودا خرید کر دائمی عیش و آرام کا مستحق بن سکتا ہے۔ فرمایا جو شخص اس سرمایہ زندگی سے آخرت کا سودا کرتا ہے واللد ادالا اخرۃ خیر لذین یتقون اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جو لوگ کفر ‘ شرک اور معاصی سے بچتے ہیں۔ اپنی قیمتی زندگی کو غلط کام میں نہیں لگاتے بلکہ اس سرمایہ کو اچھے کاموں پر لگاتے ہیں ان کے لئے آخر ت کا گھر بہترین ٹھکانہ ہے فرمایا افلا تعقلون اللہ نے تمہیں عقل جیسا قیمتی جوہر عطا کیا ہے تم اسے بروئے کار لا کر حقیقت کو سمجھتے کیوں نہیں۔ اب بھی وقت ہے سمجھ جائو ‘ اس دنیا کی چند روزہ زندگی میں آخرت کو سنوارنے کا سامان پیدا کرو اور اس عمر عزیز کو فضول کاموں پر نہ گنوا بیٹھو۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں معاد کے منکرین اور مشرکین کا رد فرمایا ہے۔ اب اس کے بعد حضور نبی کریم ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مکذبین کی تکذیب سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ قد نعلم تحقیق ہم جانتے ہیں انہ لیحزنک الذین یقولون کہ وہ چیز آپ کو غم میں ڈالتی ہے ‘ جو یہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ ‘ ایمان ‘ توحید ‘ رسالت اور معاد کا انکار کر کے ‘ قرآن پاک کو اساطیر الاولین کہ کر اور وحی الٰہی سے استہزاد کر کے آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ مگر آپ یاد رکھیں فانھم لا یکذبونک بیشک یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے ‘ کیونکہ جب مشرکین مکہ سے حضور ﷺ کی ذات مبارکہ کے بارے میں پوچھا جاتا تو کہتے بڑا سچا ہے۔ سورة یونس میں موجود ہے۔ آپ نے فرمایا فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون میں نے تمہارے درمیان عمر کا ایک بڑا حصہ یعنی چالیس سال کا عرصہ گزارا ہے ‘ کبھی میں نے جھوٹ بولا ہے ؟ یا کسی کو نقصان پہنچایا ہے ؟ تو سب جواب دیتے کہ آپ صادق اور امین ہیں ‘ مگر جب آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام سنایا تو جھوٹا قرار دے دیا۔ وحدانیت کا پیغام دینے کے ساتھ ہی ساری برائیاں پیدا ہوگئیں۔ ابوجہل اور دیگر کفار آپ کی صداقت ‘ دیانت ‘ شرافت اور نیک نیتی کے مداح تھے مگر اپنی سیادت کو قائم رکھنے کے لئے حضور ﷺ کی مخالفت کرتے تھے۔ معرکہ بدر کے دوران لقس بن شریق نامی مشرک نے ابوجہل سے پوچھا تھا کہ خدا را یہ تو بتائو کیا محمد واقعی جھوٹا ہے تو ابوجہل کہنے لگا ‘ نہیں ‘ وہ سچا ہے۔ اس نے کہا پھر اس کی مخالفت پر کیوں تکے بیٹھے ہو ‘ تو کہنے لگا ‘ قصیٰ ابن کلاب کے خاندان میں پہلے سے لواء بھی موجود ہے ‘ خہابت بھی ان کے پاس ہے اور سقایت بھی ہے اور اب اگر نبوت بھی انہی کے پاس چلی گئی تو باقی قریش کہاں جائیں گے معلوم ہوا کہ ان کی مخالفت محض چوہدراہٹ کے لئے تھی ‘ وگرنہ دل سے وہ حضور کو بالکل سچا سمجھتے تھے قرآن پاک کے بیان کے مطابق بعض لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ جو پروگرام آپ لائے ہیں وہ جھوٹا ہے ہم اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے یہی بات بیان فرمائی کہ یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے ولکن الظلمین بایت اللہ یجمدون بلکہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب آیات الٰہی کا انکار ہوگیا تو ایمان ‘ توحید ‘ رسالت ‘ کتب ‘ سماویہ ‘ معاد ‘ جزائے عمل غرضیکہ ہر چیز کا انکار لازم آ گیا۔ تو فرمایا انہیں آپ کی ذات سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے پروگرام سے اختلاف ہے جس کو اپنانے سے ان کی سیادت ختم ہوجاتی ہے اور دنیا میں جاہ و اقتدار کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس کے چھن جانے کے خوف سے مکہ کے مشرکین ہر چیز کا انکار کرجاتے تھے۔ حب مال اور حب جاہ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ دنیا میں حب مال اور حب جاہ ہی ساری خرابیوں کا باعث بنتی ہیں۔ حب مال سے حلال حرام کی تمیز اٹھ جاتی ہے اور انسان ہر قسم کے ظلم و ستم پر اتر آتا ہے۔ اسی طرح حب جاہ کی خواہش دنیا میں بدامنی کا باعث بنتی ہے ہر ملک ‘ شہر اور گھر میں حب جاہ ہی کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اور پھر بین الاقوامی سطح پر بھی ہر ملک دوسرے کو زیر کر کے دنیا پر تسلط جمانا چاہتا ہے ۔ آج کی دنیا میں روس اور امریکہ کی سردجنگ کس لئے ہے ؟ چین اور روس ایک نظریہ ہونے کے باوجود کس چیز کے لئے برسر پیکار ہیں ؟ برطانیہ اور امریکہ کی اندرون خانہ مخالفت کی کیا وجہ ہے ؟ ان سب کے پیچھے حب جاہ کی خواہش ہی کا فرما ہے ہر ملک دنیا میں اپنی سیادت چاہتا ہے ‘ فرعون ‘ نمرود ‘ قیصرو کسریٰ بھی اسی لعنت میں گرفتار تھے اور ابوجہل بھی اسی برائی کی خاطر حضور ﷺ کی مخالفت کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو تسلی دی کہ آپ دل برداشت نہ ہوں۔ درحقیقت ان لوگوں کی مخالفت آپ کی ذات سے نہیں بلکہ وحی الٰہی کے پوگرام کے ساتھ ہے۔
Top