Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 31
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا١ۙ وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ
قَدْ : تحقیق خَسِرَ : گھاٹے میں پڑے الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا : وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا بِلِقَآءِ : ملنا اللّٰهِ : اللہ حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَتْهُمُ : آپ پہنچی ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک قَالُوْا : وہ کہنے لگے يٰحَسْرَتَنَا : ہائے ہم پر افسوس عَلٰي : پر مَا فَرَّطْنَا : جو ہم نے کو تا ہی کی فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ يَحْمِلُوْنَ : اٹھائے ہوں گے اَوْزَارَهُمْ : اپنے بوجھ عَلٰي : پر ظُهُوْرِهِمْ : اپنی پیٹھ (جمع) اَلَا : آگاہ رہو سَآءَ : برا مَا يَزِرُوْنَ : جو وہ اٹھائیں گے
تحقیق خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا اللہ کی ملاقات کو یہاں تک کہ جب آپہنچی ان کے پاس قیامت اچانک تو پھر کہیں گے ‘ اے افسوس ہمارے اس پر جو ہم نے کوتاہی کی ہے اس بارے میں اور وہ اٹھائیں گے اپنے بوجھوں کو اپنی پشتوں پر ‘ سنو ! برا ہے وہ بوجھ جس کو وہ اٹھائیں گے
رابط آیات گزشتہ دورس میں اللہ نے مشرکین کا رد کرنے کے بعد معاد کا مسئلہ بیان فرمایا ” یوم نحسر ھم جمعیاً جس دن ہم سب کو اکٹھا کریں گے پھر مشرکین کے برے انجام کا ذکر کیا اور ان کے اس قول کو دہرایا کہ وہ کہتے ہیں ان ھی الا حیاتنا الدنیا یعنی ہمارے لئے تو یہ دنیا کی زندگی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ” ومانحن بمبعوثین “ اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔ گویا انہوں نے معاد کا صریحاً انکار کردیا۔ اللہ نے ان کی مذمت بیان فرمائی کیونکہ توحید ‘ رسالت ‘ قرآن کریم کی حقانیت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ معاد پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جو شخص اس عقیدے کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ قیامت کے دن جو برا معاملہ پیش آنے والا ہے ‘ اس کا کچھ تذکرہ گزشتہ درس میں ہوچکا ہے۔ اب آج کے درس میں ان کا حال مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ حضور ﷺ کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ آپ دل برداشتہ نہ ہوں یہ لوگ آپ کا انکار نہیں کرتے بلکہ اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں چناچہ اللہ نے ان آیات میں بھی تکذبین کا رد فرمایا ہے۔ معاد کا انکار ارشاد ہوتا ہے قد خسرالذین کذبوا بلقاء اللہ تحقیق خسارے میں مبتلا ہوئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا۔ لقاء اللہ سے یہی مراد ہے کہ قیامت کے دن دوبارہ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور یہ ہونا ہے اور یہ چیز اجزائے ایمان میں داخل ہے۔ حدیث شریف میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ان نومن بالبعث وبلقائہ یعنی دوبارہ اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر جواب دہی کرنے پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ جو اس بارے میں شک کرتا ہے اس نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈال لیا۔ ایمان ‘ توحید اور معاد کا منکر اپنی فطرت سلیمہ کو بھی بگاڑتا ہے اور عقل سلیم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ‘ ان چیزوں پر ایمان لانا ہی عقل و فطرت کے مطابق ہے۔ دنیا میں تو ایسا انسان عقل و فطرت کے نقصان میں مبتلا ہوتا ہے اور آخرت میں ابدی سزا کا مستحق ہوجائے گا اور اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے خسران کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔ سورة عصر میں بھی فرمایا ہے ان الانسان لفی خسر تمام انسان خسارے میں ہیں۔ ” الا الذین امنو ابجز ان کے جو ایمان لائے اور دیگر امور انجام دیئے۔ اسی طرح یہاں بھی اللہ نے فرمایا ہے تحقیق نقصان میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا ہے یہ چیز عقل سلیم ‘ تعلیم انبیاء اور وحی الٰہی کے بھی خلاف ہے اور زندہ ضمیر بھی اسی بات کی شہادت دیتا ہے۔ معاد کی تکذیب انسان کے لئے بہت بڑے نقصان کا باعث ہوگی۔ فرمایا ‘ دنیا میں تو معاد کا انکار کرتے رہے حتیٰ اذا جاء تھم الساعۃ بغتہ یہاں تک کہ جب وہ گھڑی اچانک آگئی۔ الساعۃ سے مراد کل کائنات کی مجموعی موت یعنی قیامت بھی ہے اور ہر انسان کی انفرادی موت بھی یہ دونوں سورتیں اچانک آجاتی ہیں اور کسی شخص کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کہاں اور کب واقع ہوگی۔ سورة لقمان میں موجود ہے ” وما تدری نفس بابی ارض نموت کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں اور کس وقت آئے گی۔ اس سورة کی ابتداء میں بھی یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق اور نور و ظلمات کا بنانے والا ہے۔ تمام علویات اور سفلیات کا خالق ‘ مالک اور متصرف وہی ہے۔ وہی معبود برحق ہے۔ اس کے علاوہ کوئی الہ نہیں مشکل کشا ‘ حاجت روا اور بگڑی بنانے والا بھی وہی ہے۔ اس کے سوا کوئی ہمہ دان ‘ ہمہ بین اور ہمہ تو ان نہیں اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے لئے دو قسم کی مہلتیں مقرر کیں۔ ایک تو اجلا ہے جو ہر انسان کے لئے ایک مقررہ مدت ہے جس کے بعد اسے موت آنی ہے۔ یہ محددو موت ہے اور اس کا وقت کسی انسان کے علم میں نہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بتلا دیتا ہے۔ تحمل قرار پانے کے چوتھے مہینے میں اللہ کے فرشتے پوچھتے ہیں کہ مولاکریم ! پیدا ہونے والے اس انسان کی عمر کتنی ہوگی ‘ اس کی روزی کس قدر ہے ‘ یہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت اللہ تعالیٰ یہ سب چیزیں فرشتوں کے رجسٹروں میں نوٹ کرا دیتا ہے اور پھر اس کے مطابق اس انسان کی زندگی بسر ہوتی ہے اور آخر کار مقررہ وقت پر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے ‘ تاہم موت کی جگہ اور وقت کے متعلق خود انسان کو معلوم نہیں ہوتا اور پھر وہ اچانک آجاتی ہے۔ اسی لئے ہر انسان کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہر وقت محتاط رہے ‘ ایمان اور نیکی کو اختیار کئے رکھے ‘ کیونکہ کسی انسان کے علم میں نہیں ہے کہ اس کی موت کب آجائے گی۔ اور دوسری مدت اجل مسمی عندہ ہے یہ پوری کائنات کی مجموعی یعنی قیامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے واقع ہونے کا علم فرشتوں کو بھی نہیں دیا۔ صرف نشانیاں بتلائی ہیں مگر یہ بھی اچانک آجائے گی۔ بہرحال اس آیت کریمہ میں ساعتہ سے مراد دونوں اموات ہیں یعنی انسان کی انفرادی موت بھی اور اجماعتی بھی ۔ پھر جب یہ آجاتی ہے تو ایک سیکنڈ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی اور انسان کی مادی اور عملی زندگی ختم ہوجاتی ہے ‘ اس کے بعد والی زندگی جزائے عمل کی زندگی ہے جو کچھ انسان اس دنیا میں کرتا ہے ‘ اس کا بدلہ پانے کی زندگی ہے ‘ اسے جزاء یا سزا ملے گی جس کی ابتداء برزخ سے ہی ہوجاتی ہے۔ یہ برزخ یا قبر کی زندگی ایسی ہے جیسے کسی ملزم کو حتمی سزا کا فیصلہ ہونے تک حوالات میں رکھا جاتا ہے اور پھر فیصلہ ہونے پر اسے اصل سزا دی جاتی ہے یا بری کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح انان کے لئے برزخ کی راحت یا تکلیف عارضی نوعیت کی ہوتی ہے ‘ پھر جب حشر کو ان کے تمام اعمال کا فیصلہ سنا دیا جائے گا تو پھر یا تو دائمی راحت میں چلا جائے گا یا مقررہ سزا کا مستوجب ہوگا۔ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے من مات فقد قامت قیامتہ جو شخص مر گیا اس کی قیامت صغریٰ تو برپا ہوگئی ہر انسان کی انفرادی ساعت تو اس کی موت کی گھڑی ہے اور تمام انسانوں کی ساعت قیامت کا دن ہوگی۔ فرمایا جب وہ قیامت کی گھڑی آن پہنچے گی قالوا تو منکرین کہیں گے یحشرتنا علی ما فرطنا وفیھا اے افسوس ہمارے جو ہم نے اس بارے میں کوتاہی کی۔ مگر اس وقت کی ندامت اور افسوس کچھ کام نہ آئے گا ‘ وہاں تو ایمان ہی کام آنے والی چیز ہے۔ قیامت کی تکذیب کرنے والوں کو اس وقت ندامت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا ‘ سورة حشر میں اے ایمان والو ! اللہ سے ڈر جائو ولتنظر نفس ما قدمت لغذ اور ہر نفس کو چاہئے کہ وہ اس بات کا محسابہ کرے کہ اسنے کل یعنی قیامت کے لئے کیا آگے بھیجا ہے ‘ قیامت کے د تو نیک عمل ہی کام آئے گا ‘ اپنی بدکرداری پر افسوس کا اظہار کچھ فائدہ نہ دے گا۔ اعمال کا بوجھ اور پھر ان مکذبین کی حالت یہ ہوگی وھم یحملون اوزارھم علی ظھورھم کہ وہ اپنے بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھائیں گے۔ بوجھ اٹھانے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انسان ہر برے عمل کو اپنی پشت پر اٹھائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! یاد رکھو ! خیانت نہ کرنا ‘ جو آدمی خیانت کا مرتکب ہوگا ‘ تو ہر خیانت شدہ چیز کو اپنی گردن پر اٹھائے گا ‘ اگر کسی کی بکری چوری کی ہے تو قیامت والے دن اسے اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔ اگر گائے بھینس خیانت کی ہے تو اسے بھی اٹھانا پڑے گا ‘ اونٹ چوری کیا ہے یا کوئی اور چیز غصب کی ہے تو ہر چیز اسے اپنے سر پر اٹھانی ہوگی حتیٰ کہ اگر کسی کی ایک بالشت زمین بھی دبائی ہے تو طوقہ الی سبع ارضین تو ساتوں زمینوں تک کے اس ٹکڑے کو گلے کا طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا اور وہ اسے کھینچ کر لائے گا۔ قیامت کے حالات کو اس دنیا کے حالات پر قیاس نہیں کرنا چاہئے وہاں کے حالات بالکل مختلف ہوں گے اللہ تعالیٰ انسان کے جسم میں اتنی طاقت پیدا کردیں گے کہ بڑی سے بڑی چیز بھی اٹھانے کے قابل ہوگا۔ حضور ﷺ نے جو کچھ بتایا ہے وہ برحق ہے۔ ہر نیکی بدی کو اپنی پشت پر اٹھانا ہوگا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک لوگوں کے نیک اعمال ان کے لئے سواری کا کام دیں گے ‘ اس کے برخلاف برے لوگوں کے برے اعمال خود ان لوگوں پر سواری کریں گے حضور ﷺ نے فرمایا کہ انسان کا معروف جب اس کے قریب آئے گا تو اس کو خوشخبری دے گا۔ اور جب منکر متعلقہ آدمی کے قریب آئے گا تو وہ شخص کہے گا کہ تو پیچھے رہ مگر وہ منکر اس کے ساتھ آ کر چمٹ جائے گا۔ یہ تو قیامت کے دن کا حال ہے اور برزخ کے متعلق بھی حضور ﷺ نے فرمایا کہ آدمی کے نیک اعمال خوبصورت انسانی شکل میں متشکل ہو کر اس کے پاس قبر میں آئیں گے تو وہ مستعجب ہو کر پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ جواب دے گا کہ میں تیرا عمل صالح ہوں جو تیرے ساتھمانوس ہونے کے لئے آیا ہوں ‘ تا کہ تجھے قبر میں وحشت نہ ہو۔ فرمایا انسان کے برے اعمال نہایت قبیح شکل میں اس کے پاس آئیں گے جنہیں دیکھ کر وہ سخت خوفزدہ ہوگا ‘ امام شاہ ولی (رح) بھی فرماتے ہیں کہ برے اعمال خاص شکلوں میں آ کر انسان کے اوپر سوار ہوجائیں گے اور ان کا بڑا بوجھ ہوگا۔ یہ بوجھ لوگ اپنی گردنوں اور پشتوں پر اٹھائیں گے۔ اللہ نے فرمایا الا سباء ما یزرون بہت بڑا بوجھ ہے جسے وہ اٹھائیں گے۔ انہوں نے معاد کا انکار کیا مگر آج اس کا بدلہ چکھ لیں گے انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جس چیز کا وہ انکار کرتے رہے وہ برحق ہے اور آج وہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوگئے۔ میعاد کا انکار انسان اسی دنیا میں کرتا ہے مگر اس دنیا کی حقیقت کیا ہے۔ وما الحیوۃ الدنیا الا لعب ولھو اور نہیں ہے۔ دنیا کی زندگی مگر کھیل اور دل کا بہلاوا لعب یعنی اس چیز کو کہتے ہیں جو بےمقصد ہو ‘ جس کی کوئی غرض صحیح نہ ہو ‘ آج کل دنیا میں کھیلوں کو بڑا عروج حاصل ہے ان کے لئے خطیر رقم صرف کر کے وسیع انتظام کئے جاتے ہیں حکومتوں میں کھیلوں کی وزارتیں قائم ہیں کھیلوں کی ٹی میں بیرون ملک بھیجنے پر لاکھوں روپے صرف کئے جاتے ہیں اور اس کی غرض وغایت محض تفریح ہے اور لھو ایسی چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو مشغول کر دے۔ بچے کھیل کھیلتے ہیں کوئی بادشاہ بن جاتا ‘ کوئی وزیر اور کوئی چور ‘ بس تھوڑی دیر شغل کیا اور ختم ‘ حاصل کچھ نہ ہوا۔ دنیا کی زندگی بجائے خود ایک کھیل ہے۔ بڑے لوگ اقتدار پر قبضہ کر کے بادشاہ بنے ہوئے ہیں ‘ بعض کو وزیر بنا رکھا ہے اور بعض ان کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس محدود اور ناپائیدار زندگی کی متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور (الحدید) یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔ سرمایہ زندگی اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی جیسا قیمتی سرمایہ عطا کیا ہے۔ حدیث شریف 1 ؎ میں آتا ہے کل الناس یغدو فبائع نفسہ ‘ فمعتقہا اور موبقہا جب کوئی شخص رات گزار کر صبح صحت و تندرستی کے ساتھ بیدار ہوتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت نصیب ہوتی ہے اس لئے انسان کے تین سو ساٹھ جوڑوں میں سے ہر ہر عضو پر شکریہ واجب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہر عضو کی طرف سے صدقہ دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا ‘ حضور ! اس کی تو کوئی طاقت نہیں رکھتا کہ ہر عضو کی طرف سے ہر روز صدقہ ادا کرے ‘ فرمایا ‘ انسان کی ہر نیک بات اس کے لئے صدقہ بن جاتی ہے کسی کو نیکی کی بات بتلانے یا برائی سے منع کر دے تو وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہوتا ہے ۔ راستے میں سے کانٹا یا پتھر ہٹا دے کہ کسی کو تکلیف نہ ہو تو یہ بھی صدقہ بن جاتا ہے۔ فرمایا اور کچھ نہین تو چاشت کے وقت دو رکعت نفعل ہی تمام اعضاء کی طرف سے صدقہ بن جائے گا۔ کوئی شخص صحیح اعتقاد کے ساتھ سبحان اللہ کر دے تو وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہوگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ عطا کیا ہے ‘ اس کے ساتھ اچھا سودا خریدو کیونکہ یہ سرمایہ قیمتی ہونے کے ساتھ ساتھ عارضی بھی ہے۔ انسان کی زندگی کی ناپائیداری کی مثال ایسی ہے جیسے برف کی ڈولی جو گرمی کی وجہ سے ہر آن پگھلتی رہتی ہے۔ عمر برف است و آفتاب تموز اند کے ماند و خواجہ غرہ ہنوز زندگی برف کی ڈلی ہے مگر صاحب زندگی دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ‘ دھوپ تیز ہے اور برف پگھل رہی ہے ‘ وہ کتنی دیر تک ٹھہر سکے گی بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی جیسی قیمتی متاع عطا فرمائی ہے تا کہ اس سے نفع مند تجارت کرسکے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ‘ اس قیمتی پونجی کو لگا کر بعض انسان واقعی اپنے نفس کو آزاد کردیتے ہیں وہ اس سے ایمان ‘ توحید اور نیکی جیسی قیمتی چیزیں خرید کر اپنے نفس کو جہنم سے آزاد کرا لیتے ہیں مگر بعض ایسے بھی ہیں جو اسی پونجی سے کفر ‘ شرک ‘ نفاق اور بدعات خرید کر اپنے نفس کو ہلاک کرلیتے ہیں ایسی تجارت میں انہیں نفع کی بجائے سراسر نقصان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے مصرف کو تجارت کی مثال دے کر سمجھایا ہے جسے تاجر لوگ بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص کی اصل پونجی ہی ضائع ہوجائے وہ کس قدر نقصان میں ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا قد خسرالذین کذبوا بلقاء اللہ جن لوگوں نے قیامت کا انکار کردیا۔ وہ بڑے خسارے میں پڑگئے۔ یہ دنیا کی زندگی بظاہر جلد ختم ہو جانیوالی ہے مگر ہے بڑی قیمتی۔ اس سے انسان اچھا سودا خرید کر دائمی عیش و آرام کا مستحق بن سکتا ہے۔ فرمایا جو شخص اس سرمایہ زندگی سے آخرت کا سودا کرتا ہے واللد ادالا اخرۃ خیر لذین یتقون اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جو لوگ کفر ‘ شرک اور معاصی سے بچتے ہیں۔ اپنی قیمتی زندگی کو غلط کام میں نہیں لگاتے بلکہ اس سرمایہ کو اچھے کاموں پر لگاتے ہیں ان کے لئے آخر ت کا گھر بہترین ٹھکانہ ہے فرمایا افلا تعقلون اللہ نے تمہیں عقل جیسا قیمتی جوہر عطا کیا ہے تم اسے بروئے کار لا کر حقیقت کو سمجھتے کیوں نہیں۔ اب بھی وقت ہے سمجھ جائو ‘ اس دنیا کی چند روزہ زندگی میں آخرت کو سنوارنے کا سامان پیدا کرو اور اس عمر عزیز کو فضول کاموں پر نہ گنوا بیٹھو۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں معاد کے منکرین اور مشرکین کا رد فرمایا ہے۔ اب اس کے بعد حضور نبی کریم ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مکذبین کی تکذیب سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ قد نعلم تحقیق ہم جانتے ہیں انہ لیحزنک الذین یقولون کہ وہ چیز آپ کو غم میں ڈالتی ہے ‘ جو یہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ ‘ ایمان ‘ توحید ‘ رسالت اور معاد کا انکار کر کے ‘ قرآن پاک کو اساطیر الاولین کہ کر اور وحی الٰہی سے استہزاد کر کے آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ مگر آپ یاد رکھیں فانھم لا یکذبونک بیشک یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے ‘ کیونکہ جب مشرکین مکہ سے حضور ﷺ کی ذات مبارکہ کے بارے میں پوچھا جاتا تو کہتے بڑا سچا ہے۔ سورة یونس میں موجود ہے۔ آپ نے فرمایا فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون میں نے تمہارے درمیان عمر کا ایک بڑا حصہ یعنی چالیس سال کا عرصہ گزارا ہے ‘ کبھی میں نے جھوٹ بولا ہے ؟ یا کسی کو نقصان پہنچایا ہے ؟ تو سب جواب دیتے کہ آپ صادق اور امین ہیں ‘ مگر جب آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام سنایا تو جھوٹا قرار دے دیا۔ وحدانیت کا پیغام دینے کے ساتھ ہی ساری برائیاں پیدا ہوگئیں۔ ابوجہل اور دیگر کفار آپ کی صداقت ‘ دیانت ‘ شرافت اور نیک نیتی کے مداح تھے مگر اپنی سیادت کو قائم رکھنے کے لئے حضور ﷺ کی مخالفت کرتے تھے۔ معرکہ بدر کے دوران لقس بن شریق نامی مشرک نے ابوجہل سے پوچھا تھا کہ خدا را یہ تو بتائو کیا محمد واقعی جھوٹا ہے تو ابوجہل کہنے لگا ‘ نہیں ‘ وہ سچا ہے۔ اس نے کہا پھر اس کی مخالفت پر کیوں تکے بیٹھے ہو ‘ تو کہنے لگا ‘ قصیٰ ابن کلاب کے خاندان میں پہلے سے لواء بھی موجود ہے ‘ خہابت بھی ان کے پاس ہے اور سقایت بھی ہے اور اب اگر نبوت بھی انہی کے پاس چلی گئی تو باقی قریش کہاں جائیں گے معلوم ہوا کہ ان کی مخالفت محض چوہدراہٹ کے لئے تھی ‘ وگرنہ دل سے وہ حضور کو بالکل سچا سمجھتے تھے قرآن پاک کے بیان کے مطابق بعض لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ جو پروگرام آپ لائے ہیں وہ جھوٹا ہے ہم اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے یہی بات بیان فرمائی کہ یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے ولکن الظلمین بایت اللہ یجمدون بلکہ ظالم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب آیات الٰہی کا انکار ہوگیا تو ایمان ‘ توحید ‘ رسالت ‘ کتب ‘ سماویہ ‘ معاد ‘ جزائے عمل غرضیکہ ہر چیز کا انکار لازم آ گیا۔ تو فرمایا انہیں آپ کی ذات سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے پروگرام سے اختلاف ہے جس کو اپنانے سے ان کی سیادت ختم ہوجاتی ہے اور دنیا میں جاہ و اقتدار کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس کے چھن جانے کے خوف سے مکہ کے مشرکین ہر چیز کا انکار کرجاتے تھے۔ حب مال اور حب جاہ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ دنیا میں حب مال اور حب جاہ ہی ساری خرابیوں کا باعث بنتی ہیں۔ حب مال سے حلال حرام کی تمیز اٹھ جاتی ہے اور انسان ہر قسم کے ظلم و ستم پر اتر آتا ہے۔ اسی طرح حب جاہ کی خواہش دنیا میں بدامنی کا باعث بنتی ہے ہر ملک ‘ شہر اور گھر میں حب جاہ ہی کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اور پھر بین الاقوامی سطح پر بھی ہر ملک دوسرے کو زیر کر کے دنیا پر تسلط جمانا چاہتا ہے ۔ آج کی دنیا میں روس اور امریکہ کی سردجنگ کس لئے ہے ؟ چین اور روس ایک نظریہ ہونے کے باوجود کس چیز کے لئے برسر پیکار ہیں ؟ برطانیہ اور امریکہ کی اندرون خانہ مخالفت کی کیا وجہ ہے ؟ ان سب کے پیچھے حب جاہ کی خواہش ہی کا فرما ہے ہر ملک دنیا میں اپنی سیادت چاہتا ہے ‘ فرعون ‘ نمرود ‘ قیصرو کسریٰ بھی اسی لعنت میں گرفتار تھے اور ابوجہل بھی اسی برائی کی خاطر حضور ﷺ کی مخالفت کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو تسلی دی کہ آپ دل برداشت نہ ہوں۔ درحقیقت ان لوگوں کی مخالفت آپ کی ذات سے نہیں بلکہ وحی الٰہی کے پوگرام کے ساتھ ہے۔
Top