Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
اللہ کی ذات وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر مقرر کی اس نے ایک مدت۔ اور ایک مدت اور مقرر ہے اس کے پاس ‘ پھر تم شک کرتے ہو
گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی بعض صفات کا ذکر ہوا۔ شرک کی تردید عالم کبیر یعنی تمام کائنات کو پیدا کرنے والا بھی وہی ہے اور نور ظلمت کا خالق بھی وہی ہے ‘ اس کے باوجود لوگ اللہ کے علاوہ دوسروں کو اس کے برابر تسلیم کر کے شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ چناچہ مجوسی فرقہ والے دو خدائوں کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک نیکی کا خدا یزدان ہے اور بدی کا ہر من ہے یہ لوگ ثنویہ فرقہ والے کہلاتے ہیں۔ ہندوستان کے قدیم مشرک بتیس کروڑ دیوتائوں گو مانتے تھے ‘ ان میں آریہ سماج والوں نے تین خدائوں پر اکتفا کیا ‘ وہ مادہ ‘ روح اور خدا تعالیٰ تینوں کو قدیم مان کر مشرک کے مشرک ہی رہے۔ یہ بھی عیسائیوں کے عقیدہ اقانیم ثلاثہ میں شامل ہوگئے۔ پھر یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی ایسی لغوضفات منسوب کیں جو ایک عام انسان کی طرف منسوب کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے مشرکین عرب نے بھی خدائی اختیارات مختلف ہستیوں میں تقسیم کر رکھے تھے۔ وہ پتھر کے خود ساختہ بتوں کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے۔ جب انسان شرک کرنے پر آجاتا ہے تو پھر وہ مٹی اور خاک کو بھی اپنا معبود تسلیم کرلیتا ہے ‘ سورج ‘ چاند ‘ سیاروں اور ستاروں کی پوجا شروع ہوجاتی ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود درختوں اور حیوانات تک کے سامنے جھک جاتا ہے۔ قدیم مصری لوگ بیسیوں کی پرستش کرتے تھے۔ کہیں اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کیا جاتا تھا۔ کہیں غیر اللہ سے مافوق الاسباب استعانت طلب کی جاتی تھی۔ یہ تمام قسم کے شرک پوری دنیا میں بالعموم اور سرزمین عرب میں بالخصوص پائے جاتے تھے۔ یونان اور روم کے مشرکین عقول عشرہ کے باطل عقیدہ میں مبتلا تھے۔ کہتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک عقل کو بنایا پھر اس عقل نے ایک آسمان کو اور دوسری عقل کو بنایا تو اس نے دوسری عقل اور دوسرا آسمان بنا ڈالا ‘ علی ہذا القیاس ان کے دس عقول بھی معبودوں کا درجہ رکھتے تھے ‘ انسانوں کی پرستش ہی کے ضمن میں قبروں اور درختوں کی پوجا ہوتی تھی ‘ غیر اللہ کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جاتا تھا۔ نہایت دکھ کی بات ہے اور بڑا افسوس ہے کہ ہر ذرے ذرے کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر مشرکین دوسروں کو اس کے برابر لا ٹھہراتے ہیں۔ گزشتہ درس میں یہ بھی ذکر بھی آ چکا ہے کہ ملت حنیفیہ کو بگاڑنے والے یہود ونصاریٰ ہوں یا صابی ملت والے چینی مشرک ‘ قدیم ہندوستانی مشرک ہوں یا جدید آریہ سماجی ‘ ان سب کا اللہ تعالیٰ نے رد فرمایا کہ یہ کس قدر بدبخت لوگ ہیں ۔ کوئی اللہ کے لئے اولاد تجویز کر رہا ہے ‘ کوئی انسانوں میں خدائی اختیارات تسلیم کر رہا ہے ۔ کوئی مسیح کو مختار مطلق اور شفیع مختار سمجھتا ہے۔ کوئی خدا کی صفت خاصہ کو کسی انسان کی طرف منسوب کرتا ہے۔ کوئی مخلوق کی عبادت کرتا ہے ‘ اس کے لئے نذر و نیاز مانتا ہے ‘ رکوع و سجود کرتا ہے ‘ یہ سب چیزیں شرک کی مختلف قسمیں ہیں جن کے متعلق فرمایا ” ثم الذین کفروا بربھم یعدلون۔ یعنی کفر کرنے والے اغیار کو اس کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں۔ بہرحال یہاں تک اللہ نے عالم کبیر یعنی کائنات کی تخلیق کا ذکر فرمایا کہ ارض و سما اور پوری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ وہ بدیع ہے یعنی ہر چیز اسی کی ایجاد کردہ ہے ۔ اس نے کائنات کی ہر چیز کو بغیر نمونہ کے بنایا۔ لہٰذا وہی معبود برحق ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب کفر اور شرک ہے۔ تخلیق انسانی کائنات کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق یعنی عالم صغیرکا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ انسانی جسم میں بیرونی دنیا کے تمام خواص جمع فرما دیئے ۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ھوالذی خلقکم من طین اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ انسان اول کی تخلیق مٹی سے ہوئی صحیح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا وجود پوری سطح ارض کی مٹی سے بنایا۔ تفسیر مظہری والے قاضی ثناء اللہ پانی پتی حکیم ترمذی (رح) اور ابن عدی (رح) کے حوالے سے درجہ دوئم کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کا جسم جابیہ کی مٹی سے بنایا اور اسے جنت کے پانی سے گوندھا اور پھر اس سے آدم کا پتلا بنایا۔ جس طرح جولان کی پہاڑیاں ام کا حصہ ہیں مگر اب اسرائیل کے قبضہ میں ہیں۔ اسی طرح جابیہ شام میں ایک مقام ہے۔ ویسے لغوی لحاظ سے جبا ایسی پست جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی اور مٹی مل کر گارا بن جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ تمام سطح ارضی کی بلندو پست جگہوں سے مٹی حاصل کی گئی۔ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح مختلف مقامات کی مٹی مختلف الانواع یعنی سفید ‘ سیاہ ‘ سرخ ‘ پیلی وغیرہ ہے کہیں کی مٹی چکنی ہے اور کہیں کی ریتلی ‘ اسی طرح کے اثرات تمام نسل انسانی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کوئی اچھے اخلاق کا آدمی ہے اور کوئی کھردرے اخلاق والا ‘ کوئی خبیث ہے اور کوئی طبیب کسی کا رنگ سفید ہے اور کسی کا سیاہ ‘ اسی طرح کوئی سرخ رنگ والا ہے اور کوئی پیلا ‘ یہ سب مٹی کے ابتدائی اثرات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بالکل ایک حقیر چیز بنایا ہے۔ ہر شخص اسے اپنے پائوں تلے روندتا ہے اور جس طرح چاہے اس سے کام لیتا ہے باقی اشیاء کے مقابلے میں خاک کو کم ترین حیثیت دی جاتی ہے۔ جو چیز کسی کام کی نہ ہو اسے خاک سے تشبیہہ دی جاتی ہے مگر مٹی کے اسی عجز و انکسار نے اس کے مقام کو بہت بلند کردیا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رح) اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلیات مقرب فرشتوں جبرائیل اور میکائل کو بھی حاصل نہیں بلکہ یہ اس انسان کے لئے مخصوص ہیں جس کی تخلیق مٹی جیسی حقیر چیز سے ہوئی۔ میر تقی میر اردو کا سب سے بڑا شاعر ہے ‘ جو ناخدائے سخن مانا جاتا ہے۔ شاہ ولی (رح) اور شاہ عبدالعزیز کا ہم عصر ہے۔ وہ اپنے دیوان میں کہتا ہے ؎ میرے مالک نے میرے حق میں یہ احسان کیا خاک ناچیز تھا میں ‘ سو مجھے انسان کیا یعنی میرے مالک کا مجھ پر کتنا احسان ہے کہ میں ایک حقیر اور ناچیز خاک تھا ‘ اس نے مجھے انسان بنا دیا ‘ اسی لئے بزرگان دین فرماتے ہیں کہ انسان کی تخلیق چونکہ جیسی حقیر چیز سے ہوئی ہے لہٰذا اسے ہمیشہ عاجزی اور انکساری اختیار کرنی چاہئے کہ یہی اس کی بلندی و رفعت کی دلیل ہے۔ جو لوگ بزرگوں اور اولیاء اللہ کے پاس بیٹھتے ہیں۔ مرشدان حق کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے ہیں ‘ وہ ان سے عجز و انکساری کا درس لیتے ہیں ۔ تو ان میں توحید کا مقام روشن ہوتا ہے اور انہیں معرفت کا جلوہ نظر آتا ہے جس شخص میں تکبر و غرور جیسے برے اخلاق پائے جائیں اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘ اسی لئے محاورے میں کہا جاتا ہے۔ ؎ ” ساقی مجھے خاک بےجان کر دے “ یعنی میرے اندر عجز و انکساری پیدا ہو کر بلند مقام حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔ رسیدم بہ بیل خان بہ عابدے میں بیل خان کی سرزمین میں ایک عابد کے گفتم مرابہ تربیت ازجہل پاک کن پاس پہنچا اور اس سے کہا کہ میری تربیت کر کے بروچوں خاک تحمل کنی فقیہہ مجھے جہلت سے پاک کردیں تو اس بزرگ یا ہر چہ خواندئی ہمہ در زیر خاک کن نے کہا اے عالم فقیہہ جائو ہٹی کی طرح تحمل اور عاجزی اختیار کرو ‘ ورنہ جو کچھ پڑھا ہے اسے مٹی کے نیچے دفن کر دو کیونکہ اس کا کچھ فائدہ نہیں غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے مٹی جیسی حقیر چیز سے انسان کو بنایا جو ملائکہ پر بھی فوقیت رکھتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اپنی کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں۔ 1 ؎ کہ انسان کی پیدائش سے لاکھوں کروڑوں سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ مقربین کو انسان کی مصلحت کے لئے پیدا فرمایا ‘ گویا انسان کی مصلت ملاء اعلیٰ کی جماعت پر موقوف ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خدا کی ذات تو وہ ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ثم قضیٰ اجلاً پھر ایک مدت مقرر کی یعنی پیدائش کے ساتھ ہی ہر انسان کی مر بھی مقرر فرمائی۔ چناچہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے رحم مادر میں جب اس کے اندر عالم بالا کی روح پھونکی جاتی ہے ‘ تو فرشتے عرض کرتے ہیں۔ پروردگار ! اس کی مر کتنی ہے روزی کس قدر ہے۔ یہ نیک ہے یا بدبخت ‘ تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ انہیں بتلا دیتا ہے جسے وہ اپنے رجسٹروں میں نوٹ کرلیتے ہیں مقصد یہ کہ ہر انسان کی عمر اور اس کی موت کے وقت کو کارکنان قضاء و قدر اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانتے ہیں۔ اسی کے متعلق فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کر کے اس کی ایک مدت مقرر کردی ہے۔ آگے فرمایا واجل مسمی عندہ۔ یعنی ایک مدت مقررہ اللہ تعالیٰ کے پاس بھی ہے جس کا علم اس نے نہ کسی مقرب فرشتے کو دیا ہے اور نہ کسی بنی مرسل کو اور وہ ہے مجموعہ عالم کی موت یعنی قیامت کا وقوع۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے کہ کب واقع ہوگی۔ سورة لقمان میں موجود ہے۔ ان اللہ عندہ علم الساعۃ قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ” لا یجلیھا لوقتھا الا ھو “ اس کے واقع ہونے کا علم اسی کے پاس ہے ” ثقلت فی السموات والارض لا تاتیکم الا بغتتہ “ (اعراف) یہ زمین و آسمان میں ایک بڑی بوجھل چیز ہوگی اور اچانک آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی علامات تو انبیاء کو بتائی ہیں مگر اس کے آنے کا وقت کسی کو نہیں بتایا۔ غرض ! اس اجل مسمی سے قیامت کی مدت مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت صغریٰ یعنی ہر انسان کی موت کا وقت تو فرشتوں کو بتا دیا ہے مگر قیامت کربیٰ کا علم اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے جسے کسی پر ظاہر نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے قیامت صغریٰ کو قیامت کبریٰ کے لئے دلیل بنایا ہے جس طرح ہر انسان کے لئے موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ اسی طرح مجموعہ عالم کی فنا کے لئے بھی ایک مدت مقرر ہے۔ ثم انتم تمترون مگر افسوس کہ تم شک میں پڑے ہوئے ہو۔ کہ اللہ کا وہ وعدہ پورا ہوگا یا نہیں۔ پھر کیا اللہ تعالیٰ کی صفات کمال کے متعلق تمہیں شک ہے ؟ یا اس کی وحدانیت کے متعلق تم متردد ہو ؟ فرمایا وھو اللہ فی السموات و فی الارض وہی خدا ہے آسمانوں اور زمین میں۔ یہ ارض و سما اسی کے پیدا کردہ ہیں۔ اسی کو ان میں تصرف حاصل ہے اور وہی معبود برحق ہے۔ آسمانوں میں بھی اسی کی عبادت ہوتی ہے اور زمین پر بھی حدیث شریف میں آتا ہے ‘ آسمانوں میں ایک بالشت بھر بھی ایسی جگہ خالی نہیں جہاں کوئی فرشتہ عبادت یعنی رکوع و سجود میں مشغول نہ ہو۔ البتہ زمین پر ایک گروہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے اور ناہنجار ہے وگرنہ روئے زمین کے تمام جانور ‘ شجر و حجر سب خدا کی عبادت بجا لاتے ہیں سورة نحل میں موجود ہے ‘ اللہ نے فرمایا لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس کی عبادت کرنے کی بجائے شیطان کا اتباع کرتے ہیں ‘ توحید کی بجائے شرک میں مبتلا ہیں اور ایمان کے بجائے کفر کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اسی لئے فرمایا آسمانوں اور زمین میں وہی اللہ معبود اور متصرف ہے۔ یعلم سرکم وجھرکم وہ تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتوں کو جانتا ہے و یلعم ما تکسبون اور وہ تمہاری کمائی کو بھی جانتا ہے جو نیکی یا بدی کرتے ہو ‘ جس اخلاق یا نفاق میں مبتلا ہو ‘ جو حلال یا حرام کھاتے ہو ‘ جس شکر گزاری یا ناشکری کے مرتکب ہوتے ہو ‘ وہ سب کچھ جانتا ہے ‘ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ لہٰذا ایک دن آنے والا ہے جب وہ تم سے ایک ایک چیز کا حساب طلب کرے گا۔ اپنے کلی علم کی صراحت میں اللہ نے سورة ملک میں فرمایا ” الا یعلم من خلق “ کیا وہ نہیں جانے گا جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ؟ جس ہستی نے تمہارا جوڑ جوڑ پیدا کیا ‘ جس نے لطیف ترین طاقتیں پھیلائی ہیں ‘ کیا وہ تمہاری حرکات سے واقف نہیں ؟ کیوں نہیں ‘ وہی لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے وہ ہر چیز کا حساب لے لے گا۔ انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے مٹی کا ذکر کیا کہ انسان کا بنیادی ڈھانچہ اسی سے تیار کیا گیا ہے۔ پھر مٹی کے گوندھنے کے ضمن میں پانی کا ذکر بھی آ گیا ۔ تاہم یہ بات مشہور ہے کہ انسان اربعہ عناصر یعنی مٹی ‘ پانی ‘ آگ اور ہوا کا مجموعہ ہے۔ ہندوئوں کے فلسفے میں پانچ انسانی عناصر ہیں اور وہ پانچواں عنصر آکاش کو مانتے ہیں۔ قدیم یونان میں چھ اور سات عنصر ماننے والے لوگ بھی موجود تھے ‘ تاہم سائنس کی جدید تحقیق کے مطابق انسانی عناصر ایک سوبیس تک دریافت ہوچکے ہیں اور یہ بات مسلم ہے کہ خارجی دنیا کے تمام عناصر انسانی وجود کا حصہ ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہاں پر انسانی موت یعنی قیامت صغریٰ اور مجموعہ عالم کی موت یعنی قیامت کبریٰ کے متعلق اشارات کردیئے ہیں جو صاحب عقل سلیم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت تک راہنمائی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق ‘ اپنی قدرت کاملہ اور کلی علم کا تذکرہ کرنے کے بعد انسان کی ناشکرگزاری کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا ہے۔ وما تاتیھن من ایتہ من ایت ربھم ان کے پاس اپنے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی نہیں آتی۔ الا کانوا عنھا معرضین ۔ مگر یہ کہ اس سے اعراض کر جاتے ہیں۔ ان نشانیوں میں تنزیلی نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں اور تکوینی بھی۔ تنزیلی آیات کے طور پر اللہ نے اپنے نبی بھیجے ‘ کتابیں نازل فرمائیں اور معجزات کا اظہار فرمایا ‘ مگر ان لوگوں نے اعراض ہی کیا۔ پھر تکوینی یا تخلیقی طور پر انسان کے اردگرد ا قدر نشانیاں پھیلا دیں اور خود وجود انسانی میں ایسے ایسے نشانات موجود ہیں کہ اگر انسان تھوڑا سا غور بھی کرے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات کو پہچان سکتا ہے۔ اور اگر یہ ان انشانیوں کی طرف توجہ ہی نہ دے بلکہ غفلت میں پڑا رہے تو پھر اس پر معرفت الٰہی کے دروازے کیسے کھل سکتے ہیں ؟ پھر تو وہ اعراض ہی کرے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں افسوس کے ساتھ بیان فرمایا ۔ وکاین من ایتہ فی السموات والارض یمرون علیھا و ھم عنہا معرضون ( سورة یوسف) لوگوں کے پاس زمین میں کس قدر نشانیاں ہیں جن کے پاس سے گزر جاتے ہیں مگر ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے ‘ اللہ نے یہ بھی فرمایا ۔ توفی انفسکم اولا تبصرون خود تمہاری جانوں میں بیشمار نشانیاں موجود ہیں مگر تم انہیں دیکھتے ہی نہیں اور ان میں غور ہی نہیں کرتے۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنی معرفت کی بہت سی نشانیاں پھیلا دی ہیں مگر لوگ ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اس لئے انہیں اللہ کی پہچان بھی نصیب نہیں ہوتی۔ تکذیب حق فرمایا اگر یہ لوگ اعراض کرتے ہیں فقد کذبوا بالحق لما جاء ھم جب بھی ان کے پاس حق آیا انہوں نے اس کی تکذیب ہی کی۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور آخری کتاب کے ذریعہ اپنا آخری پروگرام پیش کردیا ہے۔ اگر ان لوگوں نے اس پروگرام کو بھی جھٹلا دیا۔ فسوف یاتیھم انبواء ماکانوا بہ یستھزون۔ پس عنقریب ان کے پاس وہ خبر یعنی حقیقت آجائے گی جس کے ساتھ یہ ٹھٹا کرتے تھے۔ اس چیز سے مراد قیامت ‘ پل صراط ‘ جزائے عمل ‘ میزان ‘ عالم برزخ اور عالم آخرت سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں ہیں جن کی کافر لوگ تکذیب کرتے ہیں اور ان کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ان اشیاء کی حقیقت عنقریب ان کے سامنے آجائے گی۔ پھر اس وقت کہیں گے کہ افسوس ! ہم اس حقیقت کو جھٹلاتے رہے ‘ ہم اس کے ساتھ ٹھٹا کرتے رہے۔ ہم نے جنت اور دوزخ کو برحق نہ جانا اور آج یہ ہمارے سامنے ہے۔ مگر اس وقت ا ن کا افسوس کرنا کچھ کام نہ آئے گا اور انہیں اپنے برے اعمال کا مزہ چکھنا ہوگا۔
Top