Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ
: وہ
الَّذِيْ
: جس نے
خَلَقَكُمْ
: تمہیں پیدا کیا
مِّنْ
: سے
طِيْنٍ
: مٹی
ثُمَّ
: پھر
قَضٰٓى
: مقرر کیا
اَجَلًا
: ایک وقت
وَاَجَلٌ
: اور ایک وقت
مُّسَمًّى
: مقرر
عِنْدَهٗ
: اس کے ہاں
ثُمَّ
: پھر
اَنْتُمْ
: تم
تَمْتَرُوْنَ
: شک کرتے ہو
اللہ کی ذات وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر مقرر کی اس نے ایک مدت۔ اور ایک مدت اور مقرر ہے اس کے پاس ‘ پھر تم شک کرتے ہو
گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی بعض صفات کا ذکر ہوا۔ شرک کی تردید عالم کبیر یعنی تمام کائنات کو پیدا کرنے والا بھی وہی ہے اور نور ظلمت کا خالق بھی وہی ہے ‘ اس کے باوجود لوگ اللہ کے علاوہ دوسروں کو اس کے برابر تسلیم کر کے شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ چناچہ مجوسی فرقہ والے دو خدائوں کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک نیکی کا خدا یزدان ہے اور بدی کا ہر من ہے یہ لوگ ثنویہ فرقہ والے کہلاتے ہیں۔ ہندوستان کے قدیم مشرک بتیس کروڑ دیوتائوں گو مانتے تھے ‘ ان میں آریہ سماج والوں نے تین خدائوں پر اکتفا کیا ‘ وہ مادہ ‘ روح اور خدا تعالیٰ تینوں کو قدیم مان کر مشرک کے مشرک ہی رہے۔ یہ بھی عیسائیوں کے عقیدہ اقانیم ثلاثہ میں شامل ہوگئے۔ پھر یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی ایسی لغوضفات منسوب کیں جو ایک عام انسان کی طرف منسوب کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے مشرکین عرب نے بھی خدائی اختیارات مختلف ہستیوں میں تقسیم کر رکھے تھے۔ وہ پتھر کے خود ساختہ بتوں کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے۔ جب انسان شرک کرنے پر آجاتا ہے تو پھر وہ مٹی اور خاک کو بھی اپنا معبود تسلیم کرلیتا ہے ‘ سورج ‘ چاند ‘ سیاروں اور ستاروں کی پوجا شروع ہوجاتی ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود درختوں اور حیوانات تک کے سامنے جھک جاتا ہے۔ قدیم مصری لوگ بیسیوں کی پرستش کرتے تھے۔ کہیں اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کیا جاتا تھا۔ کہیں غیر اللہ سے مافوق الاسباب استعانت طلب کی جاتی تھی۔ یہ تمام قسم کے شرک پوری دنیا میں بالعموم اور سرزمین عرب میں بالخصوص پائے جاتے تھے۔ یونان اور روم کے مشرکین عقول عشرہ کے باطل عقیدہ میں مبتلا تھے۔ کہتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک عقل کو بنایا پھر اس عقل نے ایک آسمان کو اور دوسری عقل کو بنایا تو اس نے دوسری عقل اور دوسرا آسمان بنا ڈالا ‘ علی ہذا القیاس ان کے دس عقول بھی معبودوں کا درجہ رکھتے تھے ‘ انسانوں کی پرستش ہی کے ضمن میں قبروں اور درختوں کی پوجا ہوتی تھی ‘ غیر اللہ کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جاتا تھا۔ نہایت دکھ کی بات ہے اور بڑا افسوس ہے کہ ہر ذرے ذرے کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر مشرکین دوسروں کو اس کے برابر لا ٹھہراتے ہیں۔ گزشتہ درس میں یہ بھی ذکر بھی آ چکا ہے کہ ملت حنیفیہ کو بگاڑنے والے یہود ونصاریٰ ہوں یا صابی ملت والے چینی مشرک ‘ قدیم ہندوستانی مشرک ہوں یا جدید آریہ سماجی ‘ ان سب کا اللہ تعالیٰ نے رد فرمایا کہ یہ کس قدر بدبخت لوگ ہیں ۔ کوئی اللہ کے لئے اولاد تجویز کر رہا ہے ‘ کوئی انسانوں میں خدائی اختیارات تسلیم کر رہا ہے ۔ کوئی مسیح کو مختار مطلق اور شفیع مختار سمجھتا ہے۔ کوئی خدا کی صفت خاصہ کو کسی انسان کی طرف منسوب کرتا ہے۔ کوئی مخلوق کی عبادت کرتا ہے ‘ اس کے لئے نذر و نیاز مانتا ہے ‘ رکوع و سجود کرتا ہے ‘ یہ سب چیزیں شرک کی مختلف قسمیں ہیں جن کے متعلق فرمایا ” ثم الذین کفروا بربھم یعدلون۔ یعنی کفر کرنے والے اغیار کو اس کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں۔ بہرحال یہاں تک اللہ نے عالم کبیر یعنی کائنات کی تخلیق کا ذکر فرمایا کہ ارض و سما اور پوری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ وہ بدیع ہے یعنی ہر چیز اسی کی ایجاد کردہ ہے ۔ اس نے کائنات کی ہر چیز کو بغیر نمونہ کے بنایا۔ لہٰذا وہی معبود برحق ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب کفر اور شرک ہے۔ تخلیق انسانی کائنات کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق یعنی عالم صغیرکا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ انسانی جسم میں بیرونی دنیا کے تمام خواص جمع فرما دیئے ۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ھوالذی خلقکم من طین اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ انسان اول کی تخلیق مٹی سے ہوئی صحیح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا وجود پوری سطح ارض کی مٹی سے بنایا۔ تفسیر مظہری والے قاضی ثناء اللہ پانی پتی حکیم ترمذی (رح) اور ابن عدی (رح) کے حوالے سے درجہ دوئم کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کا جسم جابیہ کی مٹی سے بنایا اور اسے جنت کے پانی سے گوندھا اور پھر اس سے آدم کا پتلا بنایا۔ جس طرح جولان کی پہاڑیاں ام کا حصہ ہیں مگر اب اسرائیل کے قبضہ میں ہیں۔ اسی طرح جابیہ شام میں ایک مقام ہے۔ ویسے لغوی لحاظ سے جبا ایسی پست جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی اور مٹی مل کر گارا بن جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ تمام سطح ارضی کی بلندو پست جگہوں سے مٹی حاصل کی گئی۔ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس طرح مختلف مقامات کی مٹی مختلف الانواع یعنی سفید ‘ سیاہ ‘ سرخ ‘ پیلی وغیرہ ہے کہیں کی مٹی چکنی ہے اور کہیں کی ریتلی ‘ اسی طرح کے اثرات تمام نسل انسانی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کوئی اچھے اخلاق کا آدمی ہے اور کوئی کھردرے اخلاق والا ‘ کوئی خبیث ہے اور کوئی طبیب کسی کا رنگ سفید ہے اور کسی کا سیاہ ‘ اسی طرح کوئی سرخ رنگ والا ہے اور کوئی پیلا ‘ یہ سب مٹی کے ابتدائی اثرات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بالکل ایک حقیر چیز بنایا ہے۔ ہر شخص اسے اپنے پائوں تلے روندتا ہے اور جس طرح چاہے اس سے کام لیتا ہے باقی اشیاء کے مقابلے میں خاک کو کم ترین حیثیت دی جاتی ہے۔ جو چیز کسی کام کی نہ ہو اسے خاک سے تشبیہہ دی جاتی ہے مگر مٹی کے اسی عجز و انکسار نے اس کے مقام کو بہت بلند کردیا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رح) اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلیات مقرب فرشتوں جبرائیل اور میکائل کو بھی حاصل نہیں بلکہ یہ اس انسان کے لئے مخصوص ہیں جس کی تخلیق مٹی جیسی حقیر چیز سے ہوئی۔ میر تقی میر اردو کا سب سے بڑا شاعر ہے ‘ جو ناخدائے سخن مانا جاتا ہے۔ شاہ ولی (رح) اور شاہ عبدالعزیز کا ہم عصر ہے۔ وہ اپنے دیوان میں کہتا ہے ؎ میرے مالک نے میرے حق میں یہ احسان کیا خاک ناچیز تھا میں ‘ سو مجھے انسان کیا یعنی میرے مالک کا مجھ پر کتنا احسان ہے کہ میں ایک حقیر اور ناچیز خاک تھا ‘ اس نے مجھے انسان بنا دیا ‘ اسی لئے بزرگان دین فرماتے ہیں کہ انسان کی تخلیق چونکہ جیسی حقیر چیز سے ہوئی ہے لہٰذا اسے ہمیشہ عاجزی اور انکساری اختیار کرنی چاہئے کہ یہی اس کی بلندی و رفعت کی دلیل ہے۔ جو لوگ بزرگوں اور اولیاء اللہ کے پاس بیٹھتے ہیں۔ مرشدان حق کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے ہیں ‘ وہ ان سے عجز و انکساری کا درس لیتے ہیں ۔ تو ان میں توحید کا مقام روشن ہوتا ہے اور انہیں معرفت کا جلوہ نظر آتا ہے جس شخص میں تکبر و غرور جیسے برے اخلاق پائے جائیں اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘ اسی لئے محاورے میں کہا جاتا ہے۔ ؎ ” ساقی مجھے خاک بےجان کر دے “ یعنی میرے اندر عجز و انکساری پیدا ہو کر بلند مقام حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔ رسیدم بہ بیل خان بہ عابدے میں بیل خان کی سرزمین میں ایک عابد کے گفتم مرابہ تربیت ازجہل پاک کن پاس پہنچا اور اس سے کہا کہ میری تربیت کر کے بروچوں خاک تحمل کنی فقیہہ مجھے جہلت سے پاک کردیں تو اس بزرگ یا ہر چہ خواندئی ہمہ در زیر خاک کن نے کہا اے عالم فقیہہ جائو ہٹی کی طرح تحمل اور عاجزی اختیار کرو ‘ ورنہ جو کچھ پڑھا ہے اسے مٹی کے نیچے دفن کر دو کیونکہ اس کا کچھ فائدہ نہیں غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے مٹی جیسی حقیر چیز سے انسان کو بنایا جو ملائکہ پر بھی فوقیت رکھتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) اپنی کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں۔ 1 ؎ کہ انسان کی پیدائش سے لاکھوں کروڑوں سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ مقربین کو انسان کی مصلحت کے لئے پیدا فرمایا ‘ گویا انسان کی مصلت ملاء اعلیٰ کی جماعت پر موقوف ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خدا کی ذات تو وہ ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ثم قضیٰ اجلاً پھر ایک مدت مقرر کی یعنی پیدائش کے ساتھ ہی ہر انسان کی مر بھی مقرر فرمائی۔ چناچہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے رحم مادر میں جب اس کے اندر عالم بالا کی روح پھونکی جاتی ہے ‘ تو فرشتے عرض کرتے ہیں۔ پروردگار ! اس کی مر کتنی ہے روزی کس قدر ہے۔ یہ نیک ہے یا بدبخت ‘ تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ انہیں بتلا دیتا ہے جسے وہ اپنے رجسٹروں میں نوٹ کرلیتے ہیں مقصد یہ کہ ہر انسان کی عمر اور اس کی موت کے وقت کو کارکنان قضاء و قدر اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانتے ہیں۔ اسی کے متعلق فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کر کے اس کی ایک مدت مقرر کردی ہے۔ آگے فرمایا واجل مسمی عندہ۔ یعنی ایک مدت مقررہ اللہ تعالیٰ کے پاس بھی ہے جس کا علم اس نے نہ کسی مقرب فرشتے کو دیا ہے اور نہ کسی بنی مرسل کو اور وہ ہے مجموعہ عالم کی موت یعنی قیامت کا وقوع۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے کہ کب واقع ہوگی۔ سورة لقمان میں موجود ہے۔ ان اللہ عندہ علم الساعۃ قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ” لا یجلیھا لوقتھا الا ھو “ اس کے واقع ہونے کا علم اسی کے پاس ہے ” ثقلت فی السموات والارض لا تاتیکم الا بغتتہ “ (اعراف) یہ زمین و آسمان میں ایک بڑی بوجھل چیز ہوگی اور اچانک آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی علامات تو انبیاء کو بتائی ہیں مگر اس کے آنے کا وقت کسی کو نہیں بتایا۔ غرض ! اس اجل مسمی سے قیامت کی مدت مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت صغریٰ یعنی ہر انسان کی موت کا وقت تو فرشتوں کو بتا دیا ہے مگر قیامت کربیٰ کا علم اللہ نے اپنے پاس رکھا ہے جسے کسی پر ظاہر نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے قیامت صغریٰ کو قیامت کبریٰ کے لئے دلیل بنایا ہے جس طرح ہر انسان کے لئے موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ اسی طرح مجموعہ عالم کی فنا کے لئے بھی ایک مدت مقرر ہے۔ ثم انتم تمترون مگر افسوس کہ تم شک میں پڑے ہوئے ہو۔ کہ اللہ کا وہ وعدہ پورا ہوگا یا نہیں۔ پھر کیا اللہ تعالیٰ کی صفات کمال کے متعلق تمہیں شک ہے ؟ یا اس کی وحدانیت کے متعلق تم متردد ہو ؟ فرمایا وھو اللہ فی السموات و فی الارض وہی خدا ہے آسمانوں اور زمین میں۔ یہ ارض و سما اسی کے پیدا کردہ ہیں۔ اسی کو ان میں تصرف حاصل ہے اور وہی معبود برحق ہے۔ آسمانوں میں بھی اسی کی عبادت ہوتی ہے اور زمین پر بھی حدیث شریف میں آتا ہے ‘ آسمانوں میں ایک بالشت بھر بھی ایسی جگہ خالی نہیں جہاں کوئی فرشتہ عبادت یعنی رکوع و سجود میں مشغول نہ ہو۔ البتہ زمین پر ایک گروہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے اور ناہنجار ہے وگرنہ روئے زمین کے تمام جانور ‘ شجر و حجر سب خدا کی عبادت بجا لاتے ہیں سورة نحل میں موجود ہے ‘ اللہ نے فرمایا لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس کی عبادت کرنے کی بجائے شیطان کا اتباع کرتے ہیں ‘ توحید کی بجائے شرک میں مبتلا ہیں اور ایمان کے بجائے کفر کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اسی لئے فرمایا آسمانوں اور زمین میں وہی اللہ معبود اور متصرف ہے۔ یعلم سرکم وجھرکم وہ تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتوں کو جانتا ہے و یلعم ما تکسبون اور وہ تمہاری کمائی کو بھی جانتا ہے جو نیکی یا بدی کرتے ہو ‘ جس اخلاق یا نفاق میں مبتلا ہو ‘ جو حلال یا حرام کھاتے ہو ‘ جس شکر گزاری یا ناشکری کے مرتکب ہوتے ہو ‘ وہ سب کچھ جانتا ہے ‘ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ لہٰذا ایک دن آنے والا ہے جب وہ تم سے ایک ایک چیز کا حساب طلب کرے گا۔ اپنے کلی علم کی صراحت میں اللہ نے سورة ملک میں فرمایا ” الا یعلم من خلق “ کیا وہ نہیں جانے گا جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ؟ جس ہستی نے تمہارا جوڑ جوڑ پیدا کیا ‘ جس نے لطیف ترین طاقتیں پھیلائی ہیں ‘ کیا وہ تمہاری حرکات سے واقف نہیں ؟ کیوں نہیں ‘ وہی لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے وہ ہر چیز کا حساب لے لے گا۔ انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے مٹی کا ذکر کیا کہ انسان کا بنیادی ڈھانچہ اسی سے تیار کیا گیا ہے۔ پھر مٹی کے گوندھنے کے ضمن میں پانی کا ذکر بھی آ گیا ۔ تاہم یہ بات مشہور ہے کہ انسان اربعہ عناصر یعنی مٹی ‘ پانی ‘ آگ اور ہوا کا مجموعہ ہے۔ ہندوئوں کے فلسفے میں پانچ انسانی عناصر ہیں اور وہ پانچواں عنصر آکاش کو مانتے ہیں۔ قدیم یونان میں چھ اور سات عنصر ماننے والے لوگ بھی موجود تھے ‘ تاہم سائنس کی جدید تحقیق کے مطابق انسانی عناصر ایک سوبیس تک دریافت ہوچکے ہیں اور یہ بات مسلم ہے کہ خارجی دنیا کے تمام عناصر انسانی وجود کا حصہ ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہاں پر انسانی موت یعنی قیامت صغریٰ اور مجموعہ عالم کی موت یعنی قیامت کبریٰ کے متعلق اشارات کردیئے ہیں جو صاحب عقل سلیم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت تک راہنمائی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق ‘ اپنی قدرت کاملہ اور کلی علم کا تذکرہ کرنے کے بعد انسان کی ناشکرگزاری کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا ہے۔ وما تاتیھن من ایتہ من ایت ربھم ان کے پاس اپنے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی نہیں آتی۔ الا کانوا عنھا معرضین ۔ مگر یہ کہ اس سے اعراض کر جاتے ہیں۔ ان نشانیوں میں تنزیلی نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں اور تکوینی بھی۔ تنزیلی آیات کے طور پر اللہ نے اپنے نبی بھیجے ‘ کتابیں نازل فرمائیں اور معجزات کا اظہار فرمایا ‘ مگر ان لوگوں نے اعراض ہی کیا۔ پھر تکوینی یا تخلیقی طور پر انسان کے اردگرد ا قدر نشانیاں پھیلا دیں اور خود وجود انسانی میں ایسے ایسے نشانات موجود ہیں کہ اگر انسان تھوڑا سا غور بھی کرے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات کو پہچان سکتا ہے۔ اور اگر یہ ان انشانیوں کی طرف توجہ ہی نہ دے بلکہ غفلت میں پڑا رہے تو پھر اس پر معرفت الٰہی کے دروازے کیسے کھل سکتے ہیں ؟ پھر تو وہ اعراض ہی کرے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں افسوس کے ساتھ بیان فرمایا ۔ وکاین من ایتہ فی السموات والارض یمرون علیھا و ھم عنہا معرضون ( سورة یوسف) لوگوں کے پاس زمین میں کس قدر نشانیاں ہیں جن کے پاس سے گزر جاتے ہیں مگر ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے ‘ اللہ نے یہ بھی فرمایا ۔ توفی انفسکم اولا تبصرون خود تمہاری جانوں میں بیشمار نشانیاں موجود ہیں مگر تم انہیں دیکھتے ہی نہیں اور ان میں غور ہی نہیں کرتے۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنی معرفت کی بہت سی نشانیاں پھیلا دی ہیں مگر لوگ ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اس لئے انہیں اللہ کی پہچان بھی نصیب نہیں ہوتی۔ تکذیب حق فرمایا اگر یہ لوگ اعراض کرتے ہیں فقد کذبوا بالحق لما جاء ھم جب بھی ان کے پاس حق آیا انہوں نے اس کی تکذیب ہی کی۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور آخری کتاب کے ذریعہ اپنا آخری پروگرام پیش کردیا ہے۔ اگر ان لوگوں نے اس پروگرام کو بھی جھٹلا دیا۔ فسوف یاتیھم انبواء ماکانوا بہ یستھزون۔ پس عنقریب ان کے پاس وہ خبر یعنی حقیقت آجائے گی جس کے ساتھ یہ ٹھٹا کرتے تھے۔ اس چیز سے مراد قیامت ‘ پل صراط ‘ جزائے عمل ‘ میزان ‘ عالم برزخ اور عالم آخرت سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں ہیں جن کی کافر لوگ تکذیب کرتے ہیں اور ان کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ان اشیاء کی حقیقت عنقریب ان کے سامنے آجائے گی۔ پھر اس وقت کہیں گے کہ افسوس ! ہم اس حقیقت کو جھٹلاتے رہے ‘ ہم اس کے ساتھ ٹھٹا کرتے رہے۔ ہم نے جنت اور دوزخ کو برحق نہ جانا اور آج یہ ہمارے سامنے ہے۔ مگر اس وقت ا ن کا افسوس کرنا کچھ کام نہ آئے گا اور انہیں اپنے برے اعمال کا مزہ چکھنا ہوگا۔
Top