Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 164
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَیْءٍ١ؕ وَ لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَا١ۚ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ۚ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَغَيْرَ : کیا سوائے اللّٰهِ : اللہ اَبْغِيْ : میں ڈھونڈوں رَبًّا : کوئی رب وَّهُوَ : اور وہ رَبُّ : رب كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَ : اور لَا تَكْسِبُ : نہ کمائے گا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص اِلَّا : مگر (صرف) عَلَيْهَا : اس کے ذمے وَ : اور لَا تَزِرُ : نہ اٹھائے گا وَازِرَةٌ : کوئی اٹھانے والا وِّزْرَ : بوجھ اُخْرٰي : دوسرا ثُمَّ : پھر اِلٰي : طرف رَبِّكُمْ : تمہارا (اپنا) رب مَّرْجِعُكُمْ : تمہارا لوٹنا فَيُنَبِّئُكُمْ : پس وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : اس میں تَخْتَلِفُوْنَ : تم اختلاف کرتے
اے پیغمبر ! آپ کہ دیجئے کہ کیا اللہ کے سوا میں کسی اور کو رب تلاش کروں حالانکہ وہی رب ہے ہر چیز کا ۔ اور نہیں کماتا کوئی شخص مگر اسی پر پڑتی ہے اس کی ذمہ داری۔ اور نہیں اٹھائیگا کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے شخص کا بوجھ۔ پھر تمہارے رب کی طرف تمہارا لوٹ کر جانا ہے پس وہ تم کو بتا دے گا۔ جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے
اس سورة کے آخری حصہ میں مشرکین کا رد آرہا ہے چناچہ گذشتہ آیت میں توحید الوہیت کا ذکر تھا ” لاشریک لہ “ اس کا کوئی شریک نہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس کی عبادت کی جائے تو حید ربوبیت بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ مختص ہے اس کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں جس سے مدد طلب کی جائے ” ربنا الرحمن المستعان علی ماتصفون “ ہمارا رب وہی ہے جس سے مصیبتوں ، پریشانیوں اور مشکلات میں استعانت طلب کی جائے ۔ سورة فاتحہ میں ان دونوں چیزوں کا اکٹھا تذکرہ ہے ” ایاک نعبد وایاک نستعین “ یہ بات ہر وقت پیش نظر رہنی چاہئے کہ عبادت صرف خدا تعالیٰ کی ہی ہو سکتی ہے اور مدد بھی اسی سے طلب کی جاسکتی ہے۔ کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ہستی نہیں جس سے مافوق الا سباب اسعانت طلب کی جائے آج کے درس میں اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت ہی کو موضع سخن بنا یا گیا ہے۔ مشرکین کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ دین اسلام پھیلنے نہ پائے چناچہ وہ نہ خود دین کی بات سنتے تھے اور دوسروں کو مسلمانوں کے قریب آنے دیتے تھے اور اس ضمن میں طرح طرح کے تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ بھی کرتے تھے۔ چناچہ سورة عنکبوت میں اس کی ایک مثال یہ ہے ” وقال الذین کفروا للذین امنوا اتبعوا سبیلنا “ کافر لوگ اہل ایمان سے کہتے تھے کہ ہمارے راستے کو اختیار کرلو ” ولنحمل خطیکم “ ہم تمہارا بوجھ اٹھا لیں گے۔ یعنی ہمارا دین قبول کرنے کی وجہ سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے گی یا تمہارا کوئی نقصان ہوگا تو اس کا ذمہ ہم لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آج کی آیت میں مشرکین کی اس قسم کی لغو باتوں کا رد فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے اغیر اللہ ابغی ربا کیا میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو رب تلاش کروں ‘ العیاذ باللہ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر میں دیکھتا پھروں کہ ربوبیت کی صفت کس میں پائی جاتی ہے تا کہ اپنی حاجات اس کے سامنے پیش کرسکوں۔ یہ تو بالکل غلط بات ہے۔ اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے وھو رب کل شئی ہر چیز کا رب تو اللہ تعالیٰ ہے وہی خالق ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہی رب العلمین ہے ربوبیت کا معنی کسی چیز کو بتدریج حد کمال تک پہنچانا ہے۔ کسی چیز کی تخلیق کے بعد اس کی تربیت کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت ہی کام کرتی ہے اور اس کے سوا یہ صفت کسی دوسری ذات میں نہیں پائی جاتی۔ ظاہر ہے کہ جب یہ صفت کسی اور میں نہیں پائی جاتی تو پھر اس کے سوا مدد بھی کسی سے نہیں طلب کی جاسکتی۔ مستعان بھی وہی ہے۔ گویا توحید میں صفت ربوبیت کا ماننا بھی ضروری ہے۔ جس طرح اس کے سوا کوئی نہیں۔ کائنات میں اللہ کی ربوبیت سے باہر کوئی چیز نہیں۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ربوبیت تامہ کے ساتھ ہی اپنے کمال تک پہنچ رہی ہے۔ یہ تو مشرکین کا رد ہوگیا۔ بوجھ اپنا اپنا کفار کی دوسری دعوت اہل ایمان کے لئے یہ تھی کہ ہمارے راستے پر آ جائو ‘ اگر کوئی بوجھ ہوگا تو ہم برداشت کرلیں گے۔ اس حماقت کی بات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ولا تکسب کل نفس الا علیھا کوئی انسان جو کچھ کماتا ہے اس کی ذمہ داری اسی پر پڑتی ہے۔ یعنی ہر شخص اپنے فعل کا ذمہ دار ہے اور وہی اس کا بوجھ اٹھائے گا۔ ملت ابرایمی کا یہ ایک عام قانون ہے ولا تزر وازرۃ وزرا اخریٰ یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا بلکہ ہر ایک کو اپنا اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوگا وزرا کا معنی بوجھ اور وزرا کا معنی گناہ ہوتا ہے۔ یہ پناہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ وزیر بھی اسی لفظ سے مشتق ہے اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ امور سلطنت میں وزیر بادشاہ کی جائے پناہ ہوتا ہے ضرورت کے وقت بادشاہ اسی کی پناہ لیتا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ غرضیکہ ہر شخص اپنا بوجھ خود اٹھائے گا۔ دوسرے مقام پر موجود ہے کہ ہر نفس اپنا بوجھ خود اٹھائے گا اور اگر اس نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اس کا بوجھ بھی اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا اور حساب کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا۔ حضور ﷺ نے اس سلسلہ میں انسانوں ‘ جانوروں حتیٰ کہ کیڑوں مکوڑوں تک کا ذکر کیا ہے۔ اگر کسی نے کسی دوسرے بھائی کی زمین غضب کی ہے تو وہ ٹکڑا اراضی بھی اس کے گلے کا طوق بن جائے گا جسے وہ گھسیٹتا ہوا میدان محشر میں لائے گا۔ اسی طرح اگر کسی کا جانور چوری کیا ہے تو اسے بھی اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اس کے ہر عمل کا محاسبہ خود اسی کی ذات سے ہوگا ‘ اس معاملہ کی کسی دوسرے سے بازپرس نہیں ہوگی۔ فرمایا ” یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا “ (النحل) اس دن ہر شخص کو خود ہی جواب دینا پڑے گا ‘ کوئی دوسرا اس کی طرف سے جواب دہ نہیں ہوگا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ گناہ کوئی کرے اور اس کا بوجھ کسی دوسرے پر پڑجائے یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ لسلام نے بھی یہی اعلان کیا تھا۔ ” وابراھیم الذی و فی الا تزروزرۃ وزرا اخریٰ وان لیس للانسان الا ما سعیٰ “۔ (النجم) کیا انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ بات نہیں پہنچی کہ کوئی اٹھانے والے کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ‘ نیز یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس بات کا رد فرمایا جو وہ اہل ایمان سے کہتے تھے کہ ہمارا دین قبول کرلو تو ہم تمہارا بوجھ اٹھا لیں گے۔ کفارے کا غلط عقیدہ عیسائیوں نے کفارے کا غلط عقیدہ وضع کر رکھا ہے کہ جو غلطی آدم (علیہ السلام) سے سرزد ہوئی تھی اس کا خمیازہ اس کی ساری اولاد کو بھگتنا تھا۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سولی پر لٹک کر تمام بنی نوع انسان کی طرف سے اس کا کفارہ ادا کردیا۔ اب جو شخص اس عقیدے کو تسلیم کرلے گا اسے نجات مل جائے گی ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ آیت زیر درس کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو کچھ کوئی شخص کماتا ہے اس کی ذمہ داری اس پر ہوتی ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا مگر عیسائیوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی غلطی کی ذمہ داری ساری اولاد پر ڈال دی اور پھر سب کی طرف سے ایک آدمی نے کفارہ ادا کر کے سب کو چھڑا لیا۔ یہ بالکل باطل عقیدہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں یہ عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ” کرے کوئی اور بھرے کوئی “ والا معاملہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے عقیدوں کا رد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ثم الی ربکم مرجعکم پھر تم سب کا تمہارے رب کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ فینبئکم بما کنتم فیہ تختلفون۔ پھر جن باتوں میں تم جھگڑا کرتے تھے وہ سب تمہارے سامنے کر دے گا۔ وہاں پر ہر چیز لکھ کر سامنے آجائے گی اور صحیح اور غلط میں امتیاز ہوجائیگا۔ اس دنیا میں حق و باطل اگرچہ آج بھی واضح ہے اور اللہ تعالیٰ نے اعلان کردیا ہے ” قد تبین الرشد من الغی (البقرۃ) اس کے باوجود لوگوں نے بعض چیزوں کو غلط ملط کردیا ہے۔ مگر قیامت والے دن کسی چیز میں کوئی شبہ باقی نہیں رہے گا۔ اور ہر چیز کھل کر سامنے آجائے گی۔ جن باتوں میں لوگ جھگڑا کرتے تھے وہ سب کی سب اصلی شکل و صورت میں سامنے آجائیں گے۔ بہرحال یہاں پر شرک کا رد وہ گیا۔ توحید اور ہدایت کی بات آگئی۔ ہر انسان کے اعمال کی ذمہ داری کا تعین ہوگیا۔ کوئی دوسرا کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا اور تمام متنازعہ امور کا قطعی اور اٹل فیصلہ ہوجائے گا اور پھر ہر شخص کو اپنے اعمال کی سزا یا جزا ملے گی۔ خلاف ارضی اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے اپنی اس نعمت کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ و ھوالذی جعلکم خلئف الارض خدا کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ یہ خلافت خلافت عامہ بھی ہے اور خلافت خاصہ بھی۔ آج کل لوگ اللہ کی یہ نعم پا کر بھی دندناتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نیابت کا حق ادا کرنے کی بجائے اس کی بغاوت پر آمادہ ہیں ‘ اس کے سامنے سرنیاز خم کرنے کی بجائے کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے لوگوں کی جگہ پر کھڑا کیا ہے۔ پھر ان کو بھی لے جائے گا اور ان کی جوہ دوسروں کو لے آئے گا۔ بعض لوگ بعض لوگوں کے نائب بنتے ہیں ایک نسل چلی جاتی ہے تو اس کی جگہ پر دوسری نسل آجاتی ہے۔ کسی شخص یا قوم کو دوام حاصل نہیں۔ یہ سب معاملات عارضی ہیں۔ لہٰذا انسان کو اپنی حیثیت کو سمجھنا چاہئے اور اس دنیا میں خلافت پر متمکن ہو کر غرور وتکبر اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ خلافت ارضی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری نوع انسانی کو اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ سورة بقرہ کی ابتداء میں آتا ہے۔ ” واذقال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ “ چناچہ سب سے آدم (علیہ السلام) کو خلافت حاصل ہوئی اور پھر آپ کی وساطت سے یہ ذمہ داری تمام اولاد آدم کے کندھوں پر ڈالی گئی۔ ظاہر ہے کہ خلیفۃ اصل حاکم کا نائب اور قائم مقام ہوتا ہے اور اس کی طرف سے تفویض شدہ اختیارات کو بروئے کار لاتا ہے اور ان کے مطابق عمل کرتا ہے اگر کوئی نائب اپنے حاکم اعلیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ باغی اور سرکش سمجھا جائے گا۔ اللہ نے انسان کو اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے تو اس کا فرض ہے کہ نیابت کا حق ٹھیک طور پر ادا کرے۔ ہر شخص اپنی صلاحیت کے مطابق خدا تعالیٰ کا خلیفہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے بعض اختیارات دے کر زمین میں بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ میرے قانون پر خود بھی عمل کرو اور دوسروں سے بھی کر ائو ‘ لہٰذا اب یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ خلافت ارضی کی ذمہ داری پوری کرے۔ فوقیت اور آزمائش انسان کے حق میں اپنی خلافت کے تذکرے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بیان فرمائی ہے۔ ورفع بعضکم فوق بعض درجت تم میں سے بعض کو درجے کے اعتبار سے بعض پر فوقیت بخشی ہے بعض کمزور ہیں اور بعض طاقتور۔ بعض لوگوں کو علم کے لحاظ سے دوسروں پر فوقیت حاصل ہے اور بعض مال و دولت میں فوقیت رکھتے ہیں۔ بعض خاندانی تفوق کے حامل ہوتے ہیں اور بعض مرتبے کے لحاظ سے اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی صلاحیت علیحدہ علیحدہ رکھی ہے اور ا س سے مقصود یہ ہے لیبکولکم فی ماتکم تا کہ ان چیزوں کے ذریعے تمہیں آزمائے جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہیں۔ مثال کے طور پر امیر اور غریب میں تفریق پیدا کی اور امیر کو مال دے کر ساتھ حکم بھی دیا کہ غرباء کا خیال بھی رکھنا مگر اکثر امراء یہاں آ کر آزمائش میں پورے نہیں اترتے۔ مال و دولت کے گھمنڈ میں آ کر غریب کی مدد کرنے کی بجائے اس پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں اور اس طرح امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کسی شخص کو جسمانی قوت عطا کر کے کمزور آدمی کے ساتھ آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔ اگر وہ کمزور کی خدمت کرے گا تو کامیاب ہوگا اور اگر کمزور کو مزید دبانے کی کوشش کرے گا تو آزمائش میں ناکام ہوجائے گا۔ افسران بالا کے لئے ان کے ماتحت ملازمین آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ اگر کوئی اپنے زیر دستوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہیں آتا ان کا حق پورا پورا ادا نہیں کرتا تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نیابت کا حق ادا نہیں کرسکا۔ عالم ارواح والی حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے تمام ارواح کو دیکھا تو ان میں تغاوت پا کر عرض کیا رب لو لا سویت بین عبادک اے پروردگار ! تو نے اپنے بندوں میں مساوات کو کیوں نہیں قائم کیا ‘ تو اللہ جل جلالہ ‘ نے فرمایا کہ اگر میں سب مخلوق کو برابر کردیتا تو کوئی بھی میرا احسان مند نہ ہوتا اور نہ میرا شکر ادا کرتا۔ بہرحال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ساتھ آزمائش میں ڈالتا ہے اور بعض کی دوسروں کو ماتحت بنانے میں ابتلا ہوتی ہے تا کہ عدل و انصاف کے قیام کا پتہ چل جائے۔ اصل مساوات کا حکم عدل و انصاف میں ہی دیا گیا ہے۔ ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ (النحل) اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ جو لوگ ہر معاملے میں مساوات کی بات کرتے ہیں ان کا نظریہ درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لئے خود فرق رکھا ہے کہیں مال و دولت کے لحاظ سے فرق ہے تو کہیں جسمانی قویٰ کے لحاظ سے کہیں علم و فضل اور عقل و دانش کے لحاظ سے فرق ہے۔ لہٰذا مساوات کا مطالبہ غیر فطری ہے بعض لوگ عورت اور مرد کی مساوات کے قائل ہیں۔ حالانکہ اللہ نے ان کی تخلیق اور ان کے اعضاء میں بہت فرق رکھا ہے مرد و زن کیسے برابر ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے جسے قائم رہنا چاہئے۔ ہاں عدل و انصاف کے معاملہ میں ہر ایک کے ساتھ مساوی سلوک ہونا چاہئے ‘ کسی کا حق غصب نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہئے۔ شکل و صورت اور اعضاء و قویٰ کے علاوہ اللہ نے فرمایا ” ان سعیکم لشتی “ (الیل) تمہاری کوششیں بھی مختلف ہیں۔ کوئی اچھائی کے لئے کوشش کرتا ہے اور کوئی برائی کے لئے۔ ابتلا تو اسی چیز کام نام ہے کہ دیکھیں خدا کی نیابت کا حق کون ادا کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ” ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ “ (الانبیائ) ہم خیر و شر دونوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالتے ہیں کہ کون صحیح راستہ پکڑتا ہے۔ اور کون ہے جو غلط راستے پر چلتا ہے ۔ توحید خالص کون اختیار کرتا ہے اور کفر و شرک میں کون مبتلا ہوتا ہے۔ بدعات کو کون رواج دیتا ہے اور منافقت کی طرف کون جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ انسان کو آزمائش میں ڈالے۔ فرمایا ‘ یاد رکھو ! ” ان ربک سریع العقاب بیشک تیرا رب بہت جلد عذاب دینے والا ہے۔ جب وہ سزا دینے پر آتا ہے تو سب کچھ آناً فاناً ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ وانہ لغفور رحیم اور وہ اللہ تعالیٰ بیحد بخشش کرنے والا اور مہربان بھی ہے۔ وہ انسان کو مہلت بھی دیتا ہے۔ جب انسان سرکشی کے بعد پھر اس کی طرف رجوع کرلیتا ہے تو وہ معاف کرنے میں بھی دیر نہیں کرتا ہے ۔ وہ نہ صرف اس کی سابقہ خطائیں معاف فرما دیتا ہے بلکہ اسے اپنی رحمت کے خزانوں سے بھی نوازتا ہے۔ مختلف سورتوں میں ربط اس سورة مبارکہ کی ابتداء ” الحمد للہ “ سے ہوئی تھی اور غفور رحیم پر ختم ہوئی ہے۔ اس عظیم سورة کے متعلق حضرت عمر ؓ کا قول ہے کہ یہ من نجائب القرآن یعنی قرآن پاک کی عمدہ سورتوں میں سے ہے۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے توحید اور ملت ابراہیمی کے صحیح طریقہ کو بیا ن فرمایا ہے اور شرک کی تمام اقسام کا رد فرمایا ہے۔ ابتدا سورة البقرہ میں یہود کو خطاب کر کے ان کی چالیس غلطیوں کی نشاندہی کی گئی اور ان کی اصلاح کا پروگرام بیان کیا گیا۔ پھر اگلی سورة آل عمران میں اللہ نے نصاریٰ کو خطاب کیا اور اس ضمن میں 38 آیات نازل فرمائیں ۔ اس سورة مبارکہ میں عیسائیوں کے باطل عقائد کا رد کیا گیا ہے اور خاص طور پر ان کے عقیدہ انبیت کا تعاقب کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اگلی دو سورتوں یعنی سورة النساء اور مائدہ میں مشرکین عرب کے شرک اور رسومات باطلہ کو موضوع سخن بنا کر ان کا رد کیا گیا ہے اور دین کی حقیقت کو سمجھا یا گیا ہے۔ موجودہ سورة انعام ” جعل الظلمت والنور “ سے ابتداء کر کے مجوسی طبقے کا رد کیا گیا ہے۔ مجوسی اور صابی قوموں کے غلط عقائد کی نشاندہی کی گئی ہے اور ہر طرح کے شرک کی تردید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عقائد اور افعال میں شرک پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ خاص طور پر ندالغیر اللہ اور نذر بغیر اللہ سے منع فرمایا ہے۔ غرضیکہ ان سورتوں میں مختلف اقوام اور مذاہب کے نظریات کو سامنے رکھ کر ان لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے اس سورة کے نزول کے متعلق طبرانی شریف کی روایت میں ہے کہ بعض آیات کو چھوڑ کر ساری کی ساری سورة بیک وقت نازل ہوئی۔ مستدرک ہاکم میں ہے کہ اس سورة کے نزول کے وقت جبرائیل (علیہ السلام) کے ہمراہ ستر ہزار فرشتے نازل ہوئے ‘ جن سے زمین و آسمان کی درمیانی فضا بھر گئی۔ فرشتے تسبیح وتحمید کرتے ہوئے آ رہے تھے۔ حصور (علیہ السلام) نے یہ سورة ایک ہی وقت میں صحابہ ؓ کو پڑھ کر سنائی جسے انہوں نے اپنے سینوں میں ضبط کرلیا۔ اگلی سورة اعراف میں تمام اقوام عالم کو مشترکہ طور پر خطاب ہے اور تمام انبیاء کے مشترکہ دین کی جھلک پیش کی گئی ہے۔ اس کے بعد اگلی سورتوں میں مزید پیش رفت ہوگی۔ والحمد للہ اولا واخرا و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہ و اصحابہ و ازواجہ امہات المومنین و اتباع اجمعین برحمتک یا ارحمن الراحمین
Top