Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
تحقیق وہ لوگ جنہوں نے جدا جدا کیا ہے اپنے دین کو اور وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہیں ، آپ کو ان میں سے کسی سے کچھ واسطہ نہیں ہے۔ بیشک ا ن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ اللہ ان کو بتلا دے گا جو کچھ وہ کرتے تھے
ربط آیات پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور ان کی شرکیہ رسوم کا پورے طریقے پر رد کیا اور پھر صراط مستقیم پرچلنے کی ہدایت فرمائی اور اس کا اتباع کرنے کی ہدایت فرمائی۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کا تذکرہ کرنے کے بعد حضور ﷺ اور قرآن پاک کا ذکر کیا اور صراط مستقیم پر ایمان نہ لانے والوں کا شکوہ کیا کہ یہ لوگ جس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیا یہ موت کا انتظار کر رہے ہیں یا قیامت کی نشانیوں کے ظہور کے منتظر ہیں۔ فرمایا کہ ایسی نشانیاں ظاہر ہونے پر تو ایمان بھی قبول نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا۔ گذشتہ آیات میں زیادہ شرک کی تردید تھی اب آج کی آیات میں فرقہ پرستی کی مذمت کی گئی ہے اور اس ضمن میں اہل بدعت کا خاص طور پر رد ہے۔ اس کے علاوہ نیکی کے کئی گنا اجروثواب کا ذکر ہے کہ برائی کے بدلے کو برائی کے برابر ہی قرار دیا گیا ہے۔ دین میں فرقہ بندی ارشاد ہوتا ہے ان الذین فرقو دینھم وکانو شیعا وہ لوگ جنہوں نے تفریق ڈالی ہے اپنے دین میں یعینی دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ لست منھم فی شیء نہیں ہیں آپ ان کے ساتھ کسی معاملہ میں۔ یعنی آپ کا ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا آپ ان سے بیزاری کا اعلان فرمائیں۔ اس آیت میں جس تفریق سے منع فرمایا گیا ہے اس کی مثال حضور ﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمائی ہے الا ان بنی اسرائیل افترقت علی موسیٰ یا حدی سبعین فرقۃ کلھا ضالۃ الا فرقۃ واحدۃ عیسیٰ ابن مریم باثنین وسبعین فرقۃ کلھا ضالۃ الا واحدۃ الا سلام وجما عتھم ثم انکم تکونون علی ثلاثۃ وسبعین فرقۃ کلھا ضالۃ الا فرقۃ واحدۃ الا سلام وجماعتھم یعنی بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ یہ سب کے سب گمراہ ٹھہرے سوائے ایک فرقہ کے جو اسلام پر تھا اور وہ ایک جماعت تھی۔ پھر عیسیٰ (علیہ السلام) سے بہتر گروہ علیحدہ ہوئے وہ بھی سب کے سب گمراہ تھے سوائے ایک گروہ کے جو اسلام پر تھا اور وہ ایک جماعت تھی۔ پھر تم تہتر فرقے بن جائو گے تمام گمراہ ہونگے سوائے ایک فرقہ کے جو اسلام پر ہوگا اور اس کی ایک جماعت ہوگی۔ دوسری حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں گلھا فی انار الا واحدۃ یعنی سب فرقے روزخمی ہونگے سوائے ایک فرقہ کے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا وہ ایک ناجی فرقہ کون سا ہوگا۔ فرمایا ما اعلیہ واصحابی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پای پتی (رح) فرماتے ہیں کہ تفریق دین کے سلسلے میں اللہ نے سب کو بیان کردیا ہے بنی اسرائیل نے تو بلاشبہ دین میں تفریق کی اور الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے ، مگر اس آخری امت کی فرقہ بندی کا ذکر بھی یہاں اجمالا کردیا گیا ہے۔ اختلاف کی دو قسمیں اس حدیث میں یہود و نصاری کا تذکرہ ہے تا ہم آخری امت کے اہل بدعت اور اہل ہویٰ بھی اس صف میں شامل ہیں۔ جنہوں نے الگ الگ گروہ بنا لئے ہیں وہ یقینا حق پر نہیں ہیں۔ اس امر کی تفصیل میں حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ اختلاف دو قسم کے ہیں ‘ ایک عقائد میں اور دوسرا مسائل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم ان کی تقسیم اصول اور فروغ میں بھی کرسکتے ہیں۔ اہل بدعت عقائد میں اختلاف کرتے ہیں تاہم انہیں ایمان سے بالکل خارج نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان کے باوجود میں عقائد کی خرابی پائی جاتی ہے اس کے علاوہ ان کے اعمال میں بھی خرابی … ہے یہ لوگ عقائد اور اعمال دونوں چیزوں میں خرابی کی بناء پر دوزخ میں جائیں گے۔ البتہ ان میں سے جو لوگ کفر اور شرک میں مبتلا ہوجائیں گے وہ ابدی جہنمی ہیں اور جو اعمال میں کوتاہی کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے۔ انہیں سزا بھگتنے کے بعد نکال لیا جائے گا۔ امام ترمذی (رح) نے اپنی کتاب ترمذی شریف 1 ؎ میں لکھا ہے کہ تمام اہل حق اس بات پر متفق ہیں کہ اہل توحید کو ہمیشہ جہنم میں نہیں رکھا جائے گا۔ ایمان کے باوجود جن لوگوں کا عقیدہ خراب ہوگا یا جن کے اعمال خراب ہوں گے وہ جہنم میں جائیں گے مگر تزکیہ کے لئے جب وہ اپنے اعمال کی سزا بھگت کر پاک ہوجائیں گے ‘ تو وہاں سے نکال لئے جائیں گے۔ مگر کفر اور شرک کرنے والے کبھی پاک نہیں ہوں گے لہٰذا وہ ابدی طور پر جہنم میں ہی رہیں گے۔ ان سب کو ان کی خطائوں نے احاطہ کیا ہوا ہے۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) بھی فرماتے ہیں کہ اختلاف دو قسم سے ہے۔ ان میں ایک اصول اور دوسری فزع ہے ۔ اصول میں وہ باتیں آتی ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے اور ایمان اسی طرح لانا چاہئے جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے ۔ صحابہ کرام ؓ اور سلف اس ایمان کا نمونہ ہیں۔ جو شخص اصولی باتوں میں اختلاف کرے گا ‘ وہ گمراہ ہوجائیگا۔ پھر اگر اس کا عقیدہ کافرانہ یا مشرکانہ ہوجائے تو ابدی جہنمی ہ وگا۔ اور اگر اہل بدعت اور اہل ہویٰ کی طرح عقیدے میں کچھ خرابی آگئی ہے تو پھر بھی جہنم میں ایک دفعہ ضرور جانا پڑے گا۔ تاہم بعد میں نکال لیا جائے گا۔ چناچہ اصولی اختلاف کی مثال فرقہ معتزلہ کی ہے جو رویت الٰہی کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح قدریہ فرقہ تقدیر کا انکار کر کے گمراہ ہوگیا۔ روافض نے بھی بعض بنیادی اصولوں کا انکار کیا ہے لہٰذا یہ لوگ اہل بدعت اور اہل ھویٰ میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی اختلاف سے فرقے معرض وجود میں آتے ہیں جن کی مذمت اس آیت کریمہ میں کی گئی ہے۔ جب فروعات کا اختلاف شدت اختیار کرجاتا ہے۔ تو تباہی و بربادی لاتا ہے ‘ جیسا کہ تاتاریوں کے زمانہ میں حنفیوں اور شافعیوں کا شدید اختلاف تھا جو کہ مومن اور کافر کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ اس باہمی اختلاف کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو حملہ آور ہونے کا موقع مل گیا اور مسلمان تباہ و برباد ہوگئے۔ البتہ فروغ کا اختلاف قابل برداشت ہے اور اس میں کسی ایک کو دوسرے پر ملامت نہیں کرنی چاہئے۔ اعمال میں ایک گروہ ایک طریقے پر عمل کرتا ہے اور دوسرے طریقے پر تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس قسم کا اختلاف صحابہ کرام ؓ ‘ تابعین اور آئمہ دین میں بھی پایا جاتا ہے مگر یہ فروع کا اختلاف ہے۔ ایمان اور یقین لانے والی باتوں میں حنفی ‘ مالکی ‘ شافعی اور حنبلی سب متفق ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ فروعات کے ضمن میں بعض آئمہ ایک چیز کو سنت قرار دیتے ہیں مگر دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔ بعض کسی چیز کو مباح تسلیم کرتے ہیں جب کہ دوسرے ایسا نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ معمولی باتیں ہیں البتہ ان کو زیادہ طویل دینے سے گمراہی پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس زمانے میں بھی قروعات کے اختلاف پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ فروعات میں اختلاف رائے کو برداشت کرنا چاہئے۔ البتہ اصول میں اختلاف گمراہی کا باعث ہوگا۔ اختلاف فروع کی مثال فروعی اختلافات کی مثالیں خود حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں بھی ملتی ہیں۔ جب غزوہ خندق اختتام پذیر ہوا تو حضور ﷺ واپس لوٹے۔ آپ ہتھیار اتارنا چاہتے تھے کہ جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے آپ کیسے ہتھیار اتارتے ہیں ‘ پہلے بنی قریظہ کا فیصلہ ہوجانا چاہئے ۔ وہاں پر یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف سازش کی تھی چناچہ حضور ﷺ نے بنی قریظہ کے خلاف اعلان جہاد فرمایا اور حکم وبالا یصلین احدکم العصر الا فی بنی قریظۃ تم میں سے کوئی شخص عصر کی نماز پڑھے مگر بنی قریظہ میں۔ اس حکم کی تعمیل میں تمام مجاہد بنی قریظہ کی طرف نکل کھڑے ہوئے راستے میں عصر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ ایک گروہ نے کہا کہ نماز کا وقت تنگ ہو رہا ہے۔ لہٰذا نماز پڑھ لینی چاہئے ان کا استدلال یہ تھا کہ حضور ﷺ کا بنی قریظہ میں جاکر نماز پڑھنے کا حکم اس لئے تھا کہ یہاں مدینہ میں کوئی نہ رہے بلکہ فوراً چلے جائو اب چونکہ نماز کا وقت ہوگیا ہے لہٰذا نماز ادا کر لینی چاہئے۔ برخلاف اس کے دوسرا گروہ کہتا تھا کہ آپ کے الفاظ یہ تھے کہ نماز بنی قریظہ میں ہی جا کر پڑھنی ہے لہٰذا راستے میں نہیں پڑھنی چاہئے۔ چناچہ دونوں گروہوں نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کیا۔ پھر جب معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا۔ تو حضور ﷺ کے الفاظ بخاری شریف میں اس طرح آتے ہیں فلم یعنصف واحدا منھم آپ نے ان میں سے کسی کو نہیں ڈانٹا۔ گویا دونوں گروہ ٹھیک ہیں۔ بہرحال ایسے معاملہ میں اجتہاد کی گنجائش موجود تھی ایک گروہ نے الفاظ پر عمل کیا۔ اور دوسرے نے مطلب سمجھنے کی کوشش کی ‘ لہٰذا دونوں حق پر تھے۔ حضور نے دونوں کی تصویب فرمائی ہے۔ کسی کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ غرض یہ کہ فروعات میں اس قسم کے اختلاف کی گنجائش موجود ہے جے طول دیکر گمراہی کی طرف نہیں جانا چاہئے۔ جو شخص اجتہاد کرنے کا اہل ہو اس کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا اذا مجتہد کے اجتھد جب وہ اجتہاد کرتا ہے ‘ پھر وہ ٹھیک بات کو پا لیتا ہے تو اس کے لئے اجر کے لئے دوہرا اجر ہوتا ہے اور اگر وہ غلطی کرتا ہے تو پھر بھی ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ …………کیونکہ اس نے اپنی اہلیت کے مطابق مسئلہ کے حل میں پوری پوری کوشش کی۔ حدیث شریف میں اس قسم کے اجتہاد کی مثال ملتی ہے۔ حضور ﷺ کے دو صحابی کسی سفر پر گئے۔ راستے میں پانی ختم ہوگیا۔ نماز کا وقت آ یا تو انہوں نے تمیم کر کے نماز ادا کرلی۔ مگر نماز کا وقت ابھی باقی تھا کہ پانی میسر آ گیا ۔ ان میں سے ایک شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی جب کہ دوسرے شخص نے پہلی ادا شدہ نماز پر ہی اکتفا کیا۔ جب حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے تمیم سے نماز پڑھنے والے آدمی سے فرمایا اصبت السنۃ تو نے سنت کو پا لیا یعنی پانی کی عدم موجودگی میں تمیم کر کے نماز پڑھ لینی کافی ہے ‘ تمہارا فریضہ ادا ہوگیا۔ اور جس شخص نے دوبارہ نماز پڑھی تھی ‘ اس کو حضور ﷺ نے فرمایا لک الاجر مرتین تیرے لئے دوہرا اجر ہے ۔ تیری پہلی نماز کے ذریعے فرض کی ادائیگی ہوئی اور دوسری نماز نفل بن گئی ‘ لہٰذا تیرے لئے دوہرا اجر ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اس قسم کے حالات میں انسان کو نماز میں تاخیر کر لینی چاہئے۔ پھر اگر پانی مل جائے تو وضو کرلے ورنہ تمیم کر کے نماز ادا کرے بہرحال ‘ امام ابوحنیفہ (رح) اور دیگر آئمہ کا اختلاف اس قسم کا ہے۔ اس میں کوئی اصولی اختلاف نہیں ہوتا ‘ لہٰذا تمام آئمہ مجتہدین کے متعلق یہی اعتقاد ہونا چاہئے ‘ کر کلھم علی الھدیٰ وہ سب ہدایت پر ہیں تاہم یہ ضروری ہے کہ مجتہد باصلاحیت ہو۔ اس زمانے کے پرویز اور علامہ مشرقی جیسے لوگ باصلاحیت مجتہد کی تعریف میں نہیں آتے جو معروف آئمہ مجتہدین کے اجتہاد کی تکذیب کرنے لگیں۔ ایسا اجتہاد مقبول نہیں ہے۔ اختلاف میں غلو اختلاف میں زیادتی دین میں فرقہ بندی کا باعث بنتی ہے اور دشمنوں کے لئے تقویت کا باعث بھی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ‘ تاتاریوں نے اسی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو تباہ کیا۔ البتہ اصول میں اختلاف سراسر گمراہی ہے۔ جس کا انجام دوزخ ہے۔ چناچہ رافضی ‘ خارجی ‘ معتزلہ ‘ نیچری وغیرہ ایسے اصولی اختلاف رکھتے ہیں کہ دین سے ہی خارج ہوجاتے ہیں۔ سورة فاطر میں ارشاد ہے۔ فمنھم ظالم لنفسہ ومنھم مقتصد ومنھم سابق بالخیرات “ بعض لوگ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ‘ بعض میانہ رو ہیں اور بعض نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ اور مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ اسی آخری امت کے لوگ ہیں۔ ظالم وہ لوگ ہیں جن کے عقائد میں خرابی پیدا ہوگئی ہے اور کفر اور شرک کی حد تک پہنچ گئے ہیں یا پھر اعمال میں خرابی پیدا ہو کر معاصی کا راستہ پکڑ لیا ہے۔ اس کے بعد مقتصد یعنی ماینہ رو وہ لوگ ہیں جن کی مثال سورة توبہ میں ملتی ہے۔ واخرون اعترفوا بذنوبھم خلطوا عملا صالحا واخرسیا “ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور اچھے اور برے اعمال ایک ساتھ انجام دیتے ہیں۔ اور بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو نیکی کے کام میں سبقت کرنے والے ہیں نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ فرمایا یہ تینوں قسم کے لوگ اس امت میں موجود ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جو لوگ اختلاف میں غیر ضروری غلو کرتے ہیں اور معمولی بات کو بلاوجہ ہوا دیتے ہیں وہ بالآخر گمراہی کا شکار ہو کر قصر مذلت میں جاگرتے ہیں۔ فرقہ بندی سے بیزاری فرمایا بیشک وہ لوگ جنہوں نے تفریق ڈالی اپنے دین میں اور گروہ در گروہ ہوگئے ‘ آپ کو ان سے کچھ سروکار نہیں۔ آپ ان سے بیزاری کا اعلان کردیں اور فرقہ بندی سے نفرت کا اظہار کریں انما امرھم الی اللہ بیک ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہی ‘ وہ خود کوئی فیصلہ فرمائے گا۔ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون پھر ان کو بتلا دے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے ‘ ان کے تمام برے اعمال ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ہی ان کو سزا دے گا۔ آپ کو ان سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ ان سے بیزاری کا اظہار ہی کریں کیونکہ تفریق فی الدین ہرگز روا نہیں۔ گزشتہ رکوع میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے۔ ” وانا ھذا صراطی مستقیما فاتبعوا ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ “ یعنی سیدھا راستہ صرف ایک ہی ہے اسی کا اتباع کرو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ اصل راستے سے الگ ہو جائو گے ۔ حضور ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ” انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم (سورۃ یٰس) آپ صراط مستقیم پر ہیں لوگوں کو اسی راستے کی طرف دعوت دیں اللہ نے یہ بھی فرمایا ” لعلی ھدی مستقیم “ آپ سیدھی اور واضح ہدایت پر ہیں میں خود بھی اسی پر کار بند ہیں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کریں ۔ فرقہ بندی بری چیز ہے اس سے بیزاری کا اظہار کریں۔ نیکی اور اس کا اجر فرمایا قیامت کو نیکی اور بدی سب سامنے آنے والی ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ ہر شخص کے متعلق جزا اور سزا کا فیصلہ فرمائے گا من جاء بالحسنۃ جو شخص اللہ کی عدالت میں نیکی لائے گا تو اس کا قانون رحمت یہ ہے کہ ایک نیکی کے بدلے فلہ عشر امثالھا اس کو دس گنا اجر ملے گا۔ گویا اس نے ایک نیکی ایک دفعہ نہیں بلکہ دس دفعہ انجام دی۔ یہ کم از کم اجر ہے بشرطیکہ نیکی شریعت کی مقرر کردہ شرائط کے مطابق انجام دی گئی ہو پیغمبر (علیہ السلام) کا فرمان اس کی تائید کرتا ہو ‘ نیت بھی درست ہو۔ اور ادائیگی میں کوئی کوتاہی واقع نہ ہوئی ہو۔ جو نیکی صحیح طریقے سے نہیں کی گئی وہ قابل قبول نہیں ہوتی۔ بعض لوگوں کی نیکیاں محض اس لئے ضائع ہوجاتی ہیں کہ ان کی انجام دہی کا طریقہ اللہ کے رسول اور شریعت مطہرہ کے مطابق نہیں ہوتا۔ تمام بدعات نیکی کی چیزیں ہوتی ہیں مگر پیغمبر کے بتائے ہوئے طریقہ کی بجائے اپنی مرضی اور خواہش پر کی جاتی ہیں۔ جب روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس میں کیا حرج ہے بھائی نیکی وہی ہے جو اللہ کے رسول کے حکم کے مطابق ہو خود ساختہ نیکی کوئی نیکی نہیں کسی مغفرت کے لئے دعا کرنا بلاشبہ نیکی بلکہ عبادت ہے۔ مگر یہی دعا جب جنازہ پڑھنے کے متصلاً بعد کی جائے تو فقہاء نے اسے بدعت اور منکرات میں شمار کیا ہے کیونکہ دعا کرنے کا یہ موقع حضور ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے بلکہ ان کے طریقہ کے خلاف ہے ۔ لہٰذا بدعت ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے۔ 1 ؎ فانہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافا کثیر اجو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے۔ وہ بہت سا اختلاف دیکھیں گے۔ اس وقت کے لئے میں تمہیں تلقین کرتا ہوں۔ فعابکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الرشدین المھدین کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کے طریقے پر قائم رہنا۔ تمسکوا بھا و عضوا علیھا بالتوجذب اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی معاملہ میں اختلاف پیدا ہوجائے تو پھر حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے طریقے کو معیار بنا لو اور اس کے مطابق چلو۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک سے لے کر حضرت ابوبکر ؓ ‘ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا چھ سال تک زمانہ متفق علیہ ہے۔ اس زمانے میں امت کا اختلاف نہیں ہوا لہٰذا پوری امت کے لئے یہی عرصہ دستور العمل ہے۔ جب بعد میں اختلافات شروع ہوگئے تو پھر یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہر ایک کی اپنی اپنی دلیل ہے تو فرمایا نیکی وہ ہوگی جو شرائط پر پوری اترتی ہو۔ مثال کے طور پر اگر کسی طہارت درست نہیں یا نیت ٹھیک نہیں تو اس کی نماز کیسے معتبر ہو سکتی ہے بعض اوقات انسان نماز کو اللہ کی عبادت کے طور پر ادا کرتا ہے مگر اس میں ایسی خرابی کرتا ہے کہ وہ منہ پر مار دی جاتی ہے لہٰذا نیکی بھی نہایت احتیاط کے ساتھ سنت کے مطابق ہونی ضروری ہے اور ایسی نیکی کا کم از کم ثواب دس گنا ہوگا جو شخص ایک دفعہ لا الہ الا اللہ خلوص نیت کے ساتھ کہتا ہے وہ بڑا ونچا عمل کرتا ہے جب اس نے اللہ کی محبت میں یہ کلمہ ایک دفعہ کہا تو اللہ تعالیٰ اس سے دس گنا محبت کرتا ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے ہر حمد اور تسبیح کا کلمہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نیکی کے کام ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ صدقہ کے ہیں اور ہر نیکی کا اجر کم از کم دس گنا ہے۔ برائی کی سزا فرمایا ومن جاء بالسیتہ جو کوئی براء لے کر آیا فلا یجزی الا مثلھا اس کو نہیں بدلہ دیا جائے گا مگر اس کے برابر یعنی برائی کا بلہ نیکی کی طرح بڑھا کر نہیں دیا جاتا ہے بلکہ اس کی اتنی ہی سزا دی جاتی ہے جتنی برائی کوئی انجام دیتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ ایک شخص برائی کا ارادہ کرتا ہے مگر اس کا ارتکاب نہیں کرتا تو اس کو بھی ایک نیکی کا اجر مل جاتا ہے۔ تاہم جو نیکی خلوص نیت اور تمام شرائط کے ساتھ کی جائے اس کا کم از کم اجر دس گناہ ہے اور زیادہ سے زیادہ کوئی حد نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ایک نیکی کا اجر سات سو ‘ سات ہزار سات لاکھ ‘ سات کروڑ یا اس سے بھی زیادہ عطا فرما دیتا ہے۔ اس کے خزانے بڑے وسیع ہیں۔ کوئی شخص جس قسم کا متعلق باللہ قائم کرے گا۔ اس قسم کا اجر وثواب پایے گا۔ البتہ برائی کا بدلہ ایک ہی ملے گا ۔ و ھم لا یظلمون اور کسی پر زیادتی نہیں کی جائے گی۔ نہ کسی کی نیکی کو کم کیا جائے گا اور نہ کسی کی برائی میں اضافہ کیا جائے گا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون عدل کے خلاف ہے۔
Top