Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 152
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ١ۚ وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ١ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ۚ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ۚ وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَۙ
وَلَا تَقْرَبُوْا : اور قریب نہ جاؤ مَالَ : مال الْيَتِيْمِ : یتیم اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : ایسے جو هِىَ : وہ اَحْسَنُ : بہترین حَتّٰي : یہاں تک کہ يَبْلُغَ : پہنچ جائے اَشُدَّهٗ : اپنی جوانی وَاَوْفُوا : اور پورا کرو الْكَيْلَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَا نُكَلِّفُ : ہم تکلیف نہیں دیتے نَفْسًا : کسی کو اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی وسعت (مقدور) وَاِذَا : اور جب قُلْتُمْ : تم بات کرو فَاعْدِلُوْا : تو انصاف کرو وَلَوْ كَانَ : خواہ ہو ذَا قُرْبٰي : رشتہ دار وَ : اور بِعَهْدِ : عہد اللّٰهِ : اللہ اَوْفُوْا : پورا کرو ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ : اس نے تمہیں حکم دیا بِهٖ : اس کا لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑو
اور نہ قریب جائو یتیم کے مال کے مگر اس طریقے سے جو بہتر ہے یہاں تک کہ پہنچ جائے اپنی قوت تک اور پورا کرو ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ ہم نہیں تکلیف دیتے کسی نفسکو مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب تم بات کرو تو انصاف سے کرو اگر چہ قرابتدار ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرلو
ربط آیات : پہلے اللہ نے مشرکین کے خودساختہ محرکات کا ذکر کیا پھر اللہ نے بعض حلال جانوروں کا ذکر کیا ہے اور ان چار بنیادی محرکات کا ذکر کیا جن کا تعلق کھانے پینے سے ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰنے بعض دیگر حرام چیزوں کا ذکر کیا جیسے اشراکب اللہ ، والدین سے بدسلوکی ، بیحیائی اور قتل اولاد اور قتل ناحق اب زیر درس آیات میں بعض دیگر چیزوں کی حرمت کا بیان آ رہا ہے۔ ان میں سے پانچ محرمات کا ذکرگزشتہ درس میں آ چکا ہے اور باقی پانچ چیزوں کا ذکر آج کی دو آیات میں آ رہا ہے۔ ان ممنوعہ امور کا ارتکاب وبال اور گناہ کا باعث ہے۔ یتیم کا مال کھانا : اللہ تعالیٰنے محرمات کے سلسلہ میں چھٹی چیز یہ فرمائی ہے ولا تقربوامال الیتیم اور یتیم کے مال کے قریب نہ جائو الا بالتی ہی احسن مگر اس طریقہ سے جو بہتر ہو۔ یتیم اور کمزور طبقات کی حقوق کے متعلق اللہ نے بڑے تاکیدی حکم صادرفرمائے ہیں جب کوئی چھوٹابچہ باپ کے سہارے سے محروم ہوجاتا ہے تو اس کی جائیداد کے انتظامو انصرام کے لئے عام طور پر اس کے اقرباء میں سے اس کا کوئی متولی بنتا ہے جو بچے کے سن بلوغت تک پہنچنے تک مال کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہی مگر تجربہ یہی ہے کہ زیر حفاظت مالکو خودمتولیوں نے ہی کھانے کی کوشش کی ۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں مختلف مقامات پر ضروری احکام نازل فرمائے ہیں چناچہ سورة نساء کی ابتداء میں بھی یہی مسائل بیان ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے ” ولا تاکلواموالھم “ کہ ان کے مالوں کو مت کھائو آگے یہ بھی فرمایا ” ولا تاکلو ھا اسرا فاً فاوّبدارا آن یکبروا “ یتیموں کے مال کو فضول خرچی میں نہ اڑائو اس نیت سے کہ یہ بڑے ہوجائیں گے تو ہمارا تصرف ختم ہوجائے گا اور ان کا مال ان کو واپس کرنا پڑے گا ۔ سورة بقرہ میں بھی یتیموں کے مال کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں یتیموں کے متولی کھانے میں یتیموں کو اپنے ساتھ ملا لیتے تھے کیونکہ ان کا علیحدہ کھانا تیار کرنے میں خرچہ زیادہ آتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے مال کے متعلق بڑے سخت احکام نازل فرمائے تو صحابہ کرام ؓ نے انکا کھانا پینا بھی علیحدہ کردیا۔ اس خوف سے کہیں ان کا کوئی لقمہ ہماری طرف نہ آجائے۔ مگر اس طرح یتیموں کا مال زیادہ خرچ ہوتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی اور فرمایا ” وان تخالطو ھم فاخوانکم “ یعنی اگر تم انہیں کھانے وغیرہ میں ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں ، گویا اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت دیدی۔ اور فرمایا واللہ یعلم المفسدین المصلح “ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون فسادی ہے اور کون مصلح ہے۔ تم نیک نیتی سے یتیموں کے مال کی حفاظت کرو اور اسے ناجائز طریقے سے ہضم کرنے کی کوشش نہ کرو اللہ تعالیٰ تمہاری نیتوں سے بھی واقف ہے اور وہ تمہارے ساتھ تمہاری نیت کے مطابق ہی سلوک کریگا۔ بہرحال یتیم کا سرپرست جج یا قاضی ہو یا اقربا میں سے دادا یا کوئی دوسرارشتہ دار ، سب کے لئے حکمیہی ہے کہ یتیم کے مال کا انتظام اس طریقے سے کریں جو بہتر ہو اور جس میں مال کی حفاظت کی ساتھ ساتھ اس میں اضافے کی صورت بھی ہو۔ مثال کے طور پر اگر یتیم کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر تجارت وغیرہ کرنے میں بہتر نتائج کی توقع ہو تو پھر نیک نیتی کے ساتھ ایسا کر لیناجائز ہے اس آیت کریمہ میں اصل حکم یہ ہے کہ بری نیت سے یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جائو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ان الذین یاکلون اموال الیتمیٰ ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارا “ (النسائ) جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کھاتے ہیں۔ لہذا یتیم کے مال کے قریب تک نہ جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سن بلوغت : فرمایا کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جائو مگر بہتر طریقے سے اور وہ بھی اس وقت تک حتیٰ یبلغ اشدہ کہ وہ یتیم اپنی قوت یعنی جوانی تک پہنچ جائے۔ مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ لفظ اشد مفرد ہے یا جمع۔ بعض فرماتے ہیں کہ اشد شدت کی جمع ہے اور بعض دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ اشد شد کی جمع ہے اور مطلب دونوں صورتوں میں یہی ہے کہ اس کی قوتیں مکمل ہونے تکیتیم کے مال کی حفاظت کرو اور اس کے بعد اسے یتیم کو لوٹادو۔ قوتوں کیا جتماع سے فقہائے کرام یہ بھی مراد لیتے ہیں کہ یتیم کا محض بالغ ہونا کافی نہیں بلکہ اسے سوجھ بوجھ کا حامل ہونا بھی ضروری ہے چناچہ بعض فقہاء اس کے لئے اٹھارہ سے تیس سال تک کی عمر کا تعین کرتے ہیں کہ اس دوران یتیم اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مال کو خود تصرف میں لاسکے ، لہذا اسے اس کا مال واپس کردینا چاہئے ۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر یتیم احمق نہ ہو تو پچیس سال کی عمر کو پہنچنے پر اس کا مال اسے واپس کردینا چاہئے اور بعض کے نزدیک 33 سال کی عمر تک بھی مال کو روک رکھنے کا عندیہ ملتا ہے بہرحال چھٹا حکم یہ ہے کہ سن بلوغت کے پہنچنے تک یتیم کے مال کی احسن طریقے سے نگرانی کرو اور اسے نقصان پہچانے کی غرض سے اس کے قریب بھی نہ جائو۔ ماپ تول میں کمی : اللہ نے ساتواں حکم یہ دیا ہے واوفوالکیل والمیزان بالقسط ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو یعنی اللہ نے ماپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ ماپ تول میں کمی کے جرم میں سابقہ بعض قومیں بھی ملوث رہی ہیں چناچہ ایکہ اور مدین والوں کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے ایسے لوگوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ جب اپنا حق لینا ہوتا ہے تو پورا لیتے ہیں یعنی جب خود کوئی جنس دوسرے سے خریدتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں اور جب وہی چیز آگے فروخت کرنا وہتی ہے تو ماپ تول میں کمی کرتے ہیں سورة مطففین میں موجود ہے کہ ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ہلاکت و بربادی ہے کہ جب وہ لوگوں سے لیتے ہیں ” یستوفون “ تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ماپ کر یا تول کر دوسروں کو دیتے ہیں ” یخسرون “ تو کمی کردیتے ہیں۔ ایسا کرنا سخت گناہ اور حرام ہے۔ ترمذی شریف کی روایت 1 ؎ میں آتا ہے کہ ایک موقع پر حضور ﷺ نے تاجروں سے خطاب فرمایا یمعشر التجار انما ولیتم امرین ھلکت فیہ امم من قبلکم یعنی اے تاجروں کے گروہ ! تم دو چیزوں (ماپ اور تول) کے والی بنائے گئے ہو یہ تمہارا دور ہے مگر یاد رکھو ! ماپ تول میں خرابی کی وجہ سے پہلی کئی امتیں تباہ ہوگئیں ، لہذا تم اس معاملہ میں خرابی نہ کرنا کہ ماپ تول میں کمی کرنا قطعاً حرام ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جب کوئی چیز تول کر دو زن وارجح تو تول میں بڑھا کر دو ۔ اسی طرح پیمائش میں بھی کمی کی بجائے کچھ زیادہ ہی دے دیا کرو تا کہ تمہاری طرف کسی کا حق نہ رہ جائے اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ بات بھی فرما دی کہ انسان کو اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ کسی کا حق ضائع نہ ہو۔ اگر انسان کی نیک نیتی اور پوری کوشش کے باوجود کوئی کمی بیشی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ مواخذہ نہیں کریں گے بعض اوقات ایک چیز پوری پوری تول کردی جاتی ہے مگر وہی چیز جب دوبارہ تولی جاتی ہے تو اس میں کمی واقع ہوجاتی ہے ۔ فرمایا ایسی باتیں غیر اختیاری ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے کیونکہ اس کا ارشاد ہے ” لا تکلف نفسا الاوسعھا “ ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے لہذا انسان کو اس معاملے میں خلوص نیت کے ساتھ حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے اس کے باوجود اگر کوئی خامی رہ جائے تو عند اللہ ماخوذ نہیں ہوگا تو ساتویں حکم میں اللہ تعالیٰ نے ماپ تول میں کمی کو حرام قرار دیا ہے۔ ادائیگی فرض میں کوتاہی : حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) اپنی تفسیر عارف القرآن میں فرماتے ہیں کہ ماپ تول میں کمی پر وعید کا اطلاق ہر شخص کے اپنے فرائض منصبی پر بھی ہوتا ہے جس طرح ماپ تول میں کمی کرنا حرام ہے اسی طرح کسی شخص کی طرف سے ادائیگی فرض میں کوتاہی بھی حرام ہے۔ اگر کوئی مزدور مقررہ وقت تک کام نہیں کرتا ، کوئی ملازم پورا دن اپنی سیٹ پر نہیں بیٹھتا ، کوئی افسر ، جج یا سپاہی اپنی ڈیوٹی کا پابند نہیں ہے تو وہ بھی اسی حکم کے تحت آتا ہے اگر کسی شخص نے اپنی ڈیوٹی کی طرف ہمہ وقت توجہ نہیں دی اور اس میں کمی کا مرتکب ہوا ہے تو وہ بھی یہاں پر موجود وعید کا نشانہ بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں تو یہ برائی اتنی عام ہوچکی ہے کہ اسے برائی تصور ہی نہیں کیا جاتا۔ دفتروں اور کارخانوں کا حال دیکھ لیں ۔ کہیں بھی آپ کو پوری حاضری نہیں ملے گی بلکہ اکثریت اس جرم میں ملوث ہوتی ہے۔ اللہ کا کوئی خال خال بندہ ہی ایسا ہوتا ہوگا جو اپنی ڈیوٹی پر پورا اترتا ہو۔ ورنہ معاملہ بہت ہی خراب ہے موطا امام مالک (رح) میں روایت موجود ہے ” لاکل شی وفاء و تطفیف “ یعنی ہر چیز میں وفا (پورا ہونا) اور کمی ہوتی ہے جو شخص نماز کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتا ، نماز کے ارکان میں تعدیل کا خیال نہیں رکھتا وہ نماز میں کمی کرنے کا مرتکب ہوتا ہے اور یہی حرام ہے غرضیکہ جس طرح ماپ تول میں پورا پورا لینا دینا ضروری ہے اسی طرح اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی بھی لازمی ہے ، ان میں کسی قسم کی تقریط نہیں ہونی چاہئے ۔ ایسا کرنا عند اللہ جرم شمارہو گا۔ اگے فرمایا واذا قلتم فاعدلوا “ جب بات کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ولو کان ذا قربیٰ “ اگرچہ تمہارا قرابتدار ہی کیوں نہ ہو یہاں پر قول سے مراد فیصلہ بھی ہو سکتا ہے اور شہادت بھی ، اور مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی معاملے میں حکم مقرر کئے گئے ہو تو تمہارا فیصلہ حق و انصاف پر مبنی ہونا چاہئے اور ناانصافی کی بات نہیں ہونی چاہئے خواہ فریق مقدمہ تمہارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو یہاں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے وہ ناانصافی ہے کوئی عام بات ہو یا فیصلہ ہو ، انصاف کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے اور اگر کسی معاملہ میں آپ کی شہادت درکار ہو تو پھر بھی واقعات کے مطابق یا اپنے علم کی رو سے صحیح صحیح گواہی دو ۔ اس میں بھی کوتاہی حرام ہے اگرچہ تمہارا رشتہ دار ہی کیوں نہہو غلط بانی ، کذب ، واقعات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا جس سے کسی کا نقصان مطلوب ہو یا کسی کو نفع پہنچانا مقصود ہو ، اس حکم کے تحت حرام ہے اللہ کا حکم ہے ” واقیموالشھادۃ للہ “ ہمیشہ حق کی گواہی دو اور بات کرو تو انصاف سے کرو اس کے خلاف کرنا حرام ہے۔ نواں حکم یہ ہے وبعھد اللہ اوفوا “ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو اس عہد سے مراد عہدالست بھی ہو سکتا ہے وہی عہد جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے پہلے تمام انسانی روحوں کو جمع کر کے لیا تھا ” الست بربکم “ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب نے بیک زبان اقرار کیا تھا ” قالو بلیٰ “ مولا کریم ! کیوں نہیں۔ بیشک تو ہی ہمارا پروردگار ہے اس عہد کی یاد دہانی اللہ کے نبی اور اس کی کتابیں کراتی رہی ہیں اس عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی واحدانیت پر قائم رہو۔ مفسر قرآن امام ابوبکر حصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اس حکم میں تمام اموامر و نواہی آتے ہیں اور تمام فرائض و واجبات کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کے علاوہ بندہ از خود بھی بعض چیزوں کو اپنے اوپر لازم قرار دے لیتا ہے۔ مثلاً جب وہ کوئی جائز منت یا نذر مانتا ہے تو اس کو پورا کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے ” یوفون بالنذر “ (سورۃ دہر ) وہ اپنی نذروں کو پورا کرتے ہیں۔ بہرحال عہد ، عہدالست ہو یا اوامرو نواہی یا نذر کا ، ان سب کو پورا کرنا ضروری ہے اور اس کے خلاف کرنا حرام ہے۔ یہاں تک نو حکم بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ذالکم وصکم بہ “ اللہ تعالیٰ اس کا تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے تعلکم تذکرون “ تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اصولی بات بیان فرمائی ہے۔ وان ھذا صراطی مستقیما “ اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے جو قرآن پاک بیان کرتا ہے اور جس کے بعض اصول یہاں بیان کئے گئے ہیں اور یہی راستہ میری رضا اور خوشنودی کے مقام تک پہنچانے والا ہے ۔ فاتبعو “ لہذا اسی کا اتباع کرو اور دسواں اصول یہ ہے۔ ” ولا تتبعواسبیل “ اور مختلف راستوں پر مت چلو وجہ یہ ہے کہ فتفرق بکم عن سبیلہ کہ یہ ختلف راستے تمہیں اللہ کے راستے سے جدا کردیں گے ان راستوں سے گمراہی کے وہ تمام راستے مراد ہیں جن سے عقیدے اور عمل میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ تمام گمراہ فرقے ، رافضی ، خارجی ، معتزلہ ، جبریہ ، قدریہ اور منکرین حدیث عقیدے میں خرابی کی پیداوار ہیں اور عمل میں خرابی سے مراد یہ ہے کہ انسان بدعات پر عمل کرنے لگے جب صراط مستقیم کی وضاحت خدا تعالیٰ کے کلام اور نبی کے فرمان سے ہوچکی تو اب اس کے خلاف چلنے والے مدعات پر عمل پیرا ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے گمراہی عقیدے میں ہو یا عمل میں یہ بہرحال ناقابل برداشت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے دسویں نمبر پر صراط مستقیم سے انحراف کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ بعض حضرات فقہائے کرام کے باہمی اختلاف کو سبل میں داخل کرتے ہیں اور کہت ہیں ائمہ کرام حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی کا اختلاف بھی اس آیت کی زد میں آتا ہے یہ بات درست نہیں بلکہ تمام امہ کرام کلھم علی الھدی ہدایت پر ہیں۔ ان کے درمیان اختلاف نہ تو عقیدے کا اختلاف ہے اور نہ عمل کا ۔ یہ ایسا اختلاف ہے جسے خود حضور ﷺ نے برداشت کیا ہے۔ اس کی مثال حدیث شریف میں موجود ہے۔ آپ نے بنو قریظہ کے ساتھ جہاد کے لئے جو لشکر روانہ فرمایا تو اسے دایت کی لا یصلین اں حدکم الا فی بنی قریظۃ تم میں سے کوئی شخص نماز نہ پڑھے مگر قریظہ میں جا کر۔ لشکر روانہ ہوگیا۔ چار میل کی مسافت تھی ، راستے میں نماز کا وقت ہوگیا۔ اب نماز کی ادائیگی کے سلسلے میں صحابہ ؓ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ بعض کا خیال تھا کہ وقت ہوگیا ہے راستے میں ہی نماز ادا کر لینی چاہئے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ حضور ﷺ کے ارشاد مبارک کا مقصد یہ تھا کہ کوئی شخص پیچھے نہ رہے۔ فوراً چلے جائو۔ اور قریظہ میں جا کر نماز ادا کرو۔ چناچہ انہوں نے راستے میں ہی نماز پڑھ لی۔ بعض دوسرے صحابہ ؓ نے ظاہر الفاظ پر محمول کرتے ہوئے راستے میں نماز ادا نہ کی بلکہ قریظہ پہنچ کر اس فرض سے سبکدوش ہوئے جب معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے کسی گروہ کا برا نہیں منایا بلکہ فرمایا کلا کما علی الحق “ یعنی دونوں گروہ حق پر ہیں جنہوں نے نماز راستے میں پڑھی وہ بھی حق پر ہیں اور جنہوں نے قریظہ پہنچ کر ادا کی ان کا موقف بھی درست ہے۔ بہرحال ائمہ دین کا اختلاف بھی اسی نوعیت کا ہے اور کسی کو بھی غلط قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، ظواہر وغیرہ سب حق پر ہیں بعض اسے بڑھا چڑھا کر فرقہ بندی پر محمول کرتے ہیں جو کہ ٹھیک بات نہیں ہے سب کا بنیادی عقیدہ صحیح ہے البتہ بعض اوقات سنت کی تشریح میں اختلاف ہوجاتا ہے بعض ائمہ ایک چیز کو ضروری قرار دیتے ہیں اور بعض غیر ضروری سمجھتے ہیں بعض کسی عمل کو مستحب خیال کرتے ہیں اور بعض اسے مکروہ سمجھتے ہیں ، یہ فروعی اختلافات ہیں اور کسی کے متعلق بدگمانی نہیں ہونی چاہئے۔ البتہ جو شخص کفر ، شرک یا بدعات میں ملوث ہوگیا وہ بلا شبہ گمراہ ہوگیا۔ بہرحال فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن ہوجائو اور گمراہی کے راستوں سے بچ جائو اگر گمراہی کے راستے پر چلو گے تو منزل مقصود کو نہیں پا سکو گے ۔ ذالکم وصکم بہ اللہ تعالیٰ یہ حکم تمہیں تاکیدی طور پر دیتا ہے۔ لعلکم تتقون تا کہ تم بچ جائو “ یعنی اس راستے پر چل کر ضلالت سے بچ جائو تمہاری خود ساختہ محرمات درست نہیں ہیں بلکہ اصل محرمات وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ان کی تشریح کردی گئی ہے اور حلت و حرمت کا اصول بھی بیان کردیا گیا ہے یہ وہی چیزیں جن کو اللہ کا قرآن بیان کرتا ہے اور اللہ کا نبی اس کی تشریح کرتا ہے۔ اس پر عمل کرو گے تو ناکامی سے بچ جائو گے۔
Top