Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 138
وَ قَالُوْا هٰذِهٖۤ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ١ۖۗ لَّا یَطْعَمُهَاۤ اِلَّا مَنْ نَّشَآءُ بِزَعْمِهِمْ وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَ اَنْعَامٌ لَّا یَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا افْتِرَآءً عَلَیْهِ١ؕ سَیَجْزِیْهِمْ بِمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا هٰذِهٖٓ : یہ اَنْعَامٌ : مویشی وَّحَرْثٌ : اور کھیتی حِجْرٌ : ممنوع لَّا يَطْعَمُهَآ : اسے نہ کھائے اِلَّا : مگر مَنْ : جس کو نَّشَآءُ : ہم چاہیں بِزَعْمِهِمْ : ان کے جھوٹے خیال کے مطابق وَاَنْعَامٌ : اور کچھ مویشی حُرِّمَتْ : حرام کی گئی ظُهُوْرُهَا : ان کی پیٹھ (جمع) وَاَنْعَامٌ : اور کچھ مویشی لَّا يَذْكُرُوْنَ : وہ نہیں لیتے اسْمَ اللّٰهِ : نام اللہ کا عَلَيْهَا : اس پر افْتِرَآءً : جھوٹ باندھتے ہیں عَلَيْهِ : اس پر سَيَجْزِيْهِمْ : ہم جلد انہیں سزا دینگے بِمَا : اس کی جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : جھوٹ باندھتے تھے
اور کہا ( مشرکوں) نے یہ مویشی اور کھتی ممنوع ہیں۔ نہیں کھائے گا اس کو مگر وہ جس کو ہم چاہیں اپنے خیال کے مطابق۔ اور کچھ مویشی ہیں جن کی پشتوں پر سواری کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور کچھ مویشی ایسے ہیں کہ جن پر وہ اللہ کا نام نہیں کرتے ، اللہ پر افتراء کرتے ہوئے ضرور ان کو بدلہ دیگا اللہ ان باتوں کا جو کچھ جھوٹ باندھتے
گذشتہ آیات کی طرح یہ آیات بھی شرک ہی سے متعلق ہیں ان آیات میں بھی عملی شرک ہی کا بیان ہے۔ مشرکین عرب نے جو رسومات باطلہ ایجاد کر رکھی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا ہے ، وہ لوگ دو طرح کے نذر و نیاز دیتے تھے ، ایک اللہ کے نام پر اور دوسری معبودان باطلہ کے نام پر اور پھر اللہ کے حصے کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے تھے مگر غیر اللہ کی نذر کے لیے خاص اہتمام کرتے تھے اور اس پر کسی قسم کی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ قتل اولاد کا ذکر بھی ہوچکا ہے۔ کہ وہ لوگ اولاد کو مختلف حیلوں سے قتل کردیتے تھے۔ کبھی ننگ و ناموس کے نام پر اور کبھی معاشی تنگدستی کے پیش نظر گر سب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ وہ بچوں کو معبودان باطلہ کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے اور ان کی خوشنودی کیلئے بچوں کو قتل کردیتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام قبیح رسوم کا رد فرمایا ہے۔ اب آج کی آیات میں بھی عملی شرک کی بعض صورتوں کا تذکرہ ہے۔ وہ اپنی پیداوار کا کچھ حصہ خاص لوگوں کے لیے رکھ لیتے تھے اور اس میں سے ان کی مرضی کے خلاف کسی کو کھانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بعض جانوروں کی سواری ممنوع قرار دیتے تھے اور بعض جانوروں کا گوشت مردوں کے لیے حلال اور عورتوں کے لیے حرام قرار دے دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خود ساختہ شریعت کی تردید فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وقالوا ھذہ انعام وحرث حجر اور مشرکوں نے کہا کہ یہ کچھ مویشی اور کچھ کھیتی ہے جو کہ ممنوع ہے ، ہم نے اس کو روک رکھا ہے لایطعمُھا الا من نشاء بزعمھم اس کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے اس کے کہ جسے ہم اپنے خیال کے مطابق چاہیں یہ رسم انہوں نے اپنے مذہبی راہنموں کے ایمان پر قائم کر رکھی تھی کیونکہ ایسی چیزیں صرف انہی کے لیے مخصوص ہوتی تھیں۔ عام آدمی ، غریب محتاج یا فقیر اس کو استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ یہ صرف گدی نشینوں کا حق تصور کیا جاتا تھا۔ اس قسم کے رسوم مشرکین عرب کے علا وہ بعض دوسری اقوام میں بھی پائی جاتی تھیں۔ یہاں ہندوئوں میں بھی اس قسم کے عقائد پائے جاتے ہیں کہ بعض چیزیں صرف برہمن ہی استعمال کرسکتے ہییں ، کوئی دوسرا ان کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ ان کی دیکھا دیکھی یہ چیزیں مسلمانوں میں بھی آگئی ہیں ، چناچہ دہلی والے حضرت بی بی فاطمہ ؓ کی صحنک کے نام سے نیاز دیتے ہیں۔ اس کا ذکر حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید (رح) نے اپنی کتاب تقریۃ الایمان میں بھی کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ بی بی کی صحنک پر یہ پابندی ہے۔ کہ اسے نہ تو مردکھا سکتے ہیں ، نہ لونڈی اور نہ دوخصمی عورت۔ یہ بالکل ویسی ہی پابندی ہے۔ جیسے مشرکین عرب نے از خود قائم کر رکھی تھی۔ اسی طرح 22 رجب کو امام جعفر صادق (رح) کے نام پر پکائے جانے والوں کو نڈوں پر بھی بعض پابندیاں عائد ہیں مثلاً کہ اس کا کھانا سورج نکلنے سے پہلے پہلے ضروری ہے۔ اور یہ چھت کے نیچے ہونا چاہئے۔ کھلی جگہ پر کھانا درست نہیں ہے۔ اور اس کھانے کو گر سے باہر بھی نہیں نکال سکتے۔ بلکہ جس کسی کو کھلان مقصود ہے اسے گھر بلا کر کھلانا ضروری ہے۔ یہ سب خود ساختہ پابندیاں ہیں اور ان مشرکین کا اتباع ہے جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ مشرکین نے جس طرح بعض اشیاء کا کھانا اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا اس طرح بعض جانوروں پر سواری بھی نہیں کرتے تھے۔ چناچہ ارشاد ہے اونعام حرمت ظھور ھا اور بعض جانوروں کی پشتوں پر سواری حرم قرار دے رکھی تھی۔ وہ بھی نیاز کے جانور ہوتے تھے جن پر سواری نہیں کرتے تھے سورة مائدہ میں اس کا تفصیل سے ذکر آچکا ہے ” ماجعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ ولا و صیلۃ ولا حام یعنی اللہ تعالیٰ نے کوئی بحیرہ سائبہ ، وصیلہ اور حام مقرر نہیں کیے بلکہ یہ مشرکین کی اپنی ذہنی اختراع ہے ۔ بحیرہ اس مادہ جانور کو کہتے تھے جس کا دودھ نذر کے طور پر وقف کردیتے تھے اور اس کو کوئی عام مرد و زن نہیں پی سکتا تھا۔ سائبہ وہ اونٹ یا بیل وغیرہ ہوتا تھا جسے معبودان باطلہ کی نذر کے طور پر آزاد کردیا جاتا تھا۔ اس جانور پر نہ تو سوری کرتے تھے اور نہ کسی دیگر کام میں لاتے تھے۔ یہ اپنی مرضی سے حسب خواہش چلتا پھرتا رہتا تھا اور جہاں سے چاہے کھاتا رہتا تھا ، کوئی اس کو روکتا ٹوکتا نہ تھا کیونکہ وہ نیاز کا سانڈھ کہلا تھا ۔ اس قسم کا وہم ہندوئوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ وہ بھی بھیوانی دیوی کے نام بیل کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی شخص اس سے تعرض نہیں کرتا ۔ وصیلہ ایسے مادہ جانور کو کہتے تھے جو ایک مقررہ تعداد میں لگا تار مادہ بچے جنے۔ جب وہ تعداد پوری ہوجاتی تھی تواسے نیاز کے طور پر کھلا چھوڑ دیتے تھے اور اس سے کوئی کام نہیں لیتے تھے۔ حام کا معنی بچانے والا ہوتا ہے اور اس سے مراد یہ ہوئی تھی کہ اس جانور نے اپنی پشت کو سواری سے بچا لیا ہے۔ اب کوئی شخص اس پر سواری نہیں کرسکتا۔ ، مثلاً جس اونٹ کی جفتی سے دس بچے پیدا ہوجائیں ، اس کے بعد اس کو سواری کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ اس آیت کریمہ میں بھی یہی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ بعض جانوروں پر سواری حرام قرار دے دی گئی ہے۔ فرمایا وانعام لا یذکرون اسم اللہ علیھا بعض جانور ایسے تھے کہ مشرکین ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے تھے۔ نہ دودھ دوہتے وقت اللہ کا نام لیتے تھے ، نہ سواری کرتے وقت اور نہ ہی ذبح کرتے وقت البتہ غیر اللہ کا نام ضرور لیتے تھے جیسے لات ، مناۃ ، عزٰی وغیرہ یعنی یہ ان کی نذر و نیاز ہے۔ ہندوستان میں بھی اس قسم کا تخیل پایا جاتا ہے جیسے شیخ سدھو کا بکرا مشہور ہے۔ حضرت سالار مسعود غازی (رح) بڑے بزرگ ہوئے ہیں ، جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے ، ان کے مزار پر ان کے نام کی گائے نذر کی جاتی ہے اسی طرح پیر ان پیر کی گیارہویں کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے ۔ ان کے نام پر دودھ ، کھانا ، جانور وغیرہ ان کے تقرب اور خوشنودی کے لیے دیا جاتا ہے۔ تاکہ کسی ممکنہ نقصان سے بچ جائیں۔ اگر یہ نیاز دی تو کھیتی یا پھلوں یا مویشیوں میں نقصان ہوجانے کا خطرہ محسوس کیا جاتا ہے یہی شر ک ہے کہ نفع نقصان کا مالک اللہ کی بجائے ان بزرگوں کو سمجھ لیا جاتا ہے اور پھر انکی رضا کے لیے ان کے نام پر نیاز دی جاتی ہے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ جن چیزوں کو پیدا کرنے والا اللہ وحدہ لاشریک ہے ان چیزوں پر اسی کا نام لینے سے بچتے تھے اور غیر اللہ کا نام لیتے تھے۔ اور اس سے بڑا ظلم یہ تھا کہ وہ اس چیز میں اللہ کی رضا کے دعویدار تھے۔ گویا اللہ کی بجائے غیر اللہ کا نام لینے کا حکم خود خدا تعالیٰ نے دیا ہے افتراء علیہ یہ تو اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افتراء ہے۔ اس نے تو ایسا حکم نہیں دیا اور نہ وہ ان باتوں سے راضٰ ہوتا ہے بلکہ یہ تو صریحا شرک ہے۔ جس کی عدم معافی کا اللہ نے واضح اعلان فرما دیا ہے ایسے شرکیہ عقائد کو اللہ کی طرف منسوب کرنے والا مفتری ہے ، اللہ نے فرمایا سیجزھم بما کانو یفترون ایسے لوگوں کو اللہ تعالٰ ضرور سزا دیگا جو اس پر افتراء باندھتے ہیں۔ اس کے نام پر جھوٹی باتیں منسوب کرتے ہیں۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے۔ مذہبی راہنمائوں نے سادہ لوح لوگوں کو اس قسم کے توہمات میں جکڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور عذاب میں مبتلا کریگا۔ آگے اللہ نے مشرکین کا ایک اور خود ساختہ مسئلہ بھی بیا فرمایا وقالوا وہ کہتے ہیں۔ مافی بطون ہزہ الانعام خالصۃ لذکورنا یعنی ان جانوروں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے۔ و محرم علی ازواجنا اور ہماری عورتوں کے لیے حرام ہے اور وہ خاص جانور وہ ہوتے تھے جنہیں بحریہ ، سائبہ وصیلہ اور حام وغیرہ کی صورت میں آزاد کردیا جاتا تھا۔ ان سے پیدا ہونے والے بچوں کا گوشت صرف مرد کھا سکتے تھے ، عورتوں کے لیے ممنوع تھا۔ ہاں البتہ اتنی رعایت دے رکھی تھی وان یکن میتۃ اگر مردہ بچہ پیدا ہوتا فھم فیہ شرکاء تو اس کی حلت مرد زن سب شریک ہوتے ۔ یہ بھی ایسی ہی پابندی تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہ تھی اور نہ اس میں اس کی رضا شامل تھی ، بلکہ یہ محض مشرکین کی خود ساختہ شریعت کا حصہ تھا۔ اکثر رسومات باطلہ اور بدعات اسی قبیل سے ہوتی ہیں ۔ اللہ نے فرمایا سیجزیھم وصفھم ہم انہیں اس بیان کا ضرور بدلہ دیں گے۔ انہوں نے از خود نئی شریعت وضع کی ہے۔ غلط رسوم کو رواج دیا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھا انہیں اسکی لازماً سزا ملیگی۔ اللہ نے تو فرمایا ہے کہ اللہ کا نبی مومن ” علی بصیرۃ “ بصیرت پر ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی طرف سے بغیر ماخذ اور سند کے اختراعات ایجاد کرلی ہیں ۔ انہیں اس دیدہ دلیری کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ اسی سورة میں آگے بھی آرہا ہے ” ھل عند کم من علم فتخرجوہ لنا کیا تمہارے پاس کوئی ایسا علم ہے جسکی بناء پر شریعت نکالتے ہو ۔ علم کا قطعی ذریعہ تو وحی الٰہی ہے جو انبیاء کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی دلیل ہے یا تم نے کسی صاحب عقل آدمی سے کوئی چیز حاصل کی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی اخترعات کے پیچھے دلیل نہیں ہوتی۔ نہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہوتی ہیں اور نہ یہ ائمہ مجتہدین کی کسی دلیل پر مبنی ہوتی ہیں۔ فقہ کے ماخذ تو چار ہی ہیں قرآن ، سنت اور اجماع اور قیاس جب پہل تین ماخذ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر اہل علم قیاس کے ذریعے اس کا حل بتاتے ہیں اور ساتھ وہ آیت یا حدیث رسول بھی بتاتے ہیں جس سے وہ دلیل پکڑتے ہیں۔ مگر تمہارے رسومات اور بدعات تو بلا دلیل اور خود ساختہ ہیں۔ یہ محض آبائو اجداد کی اندھی تقلید کے سواء کچھ نہیں ۔ تم کہتے ہو ” وجد نا علیہ آبائنا “ ہم نے اپنے آبائو اجداد کو ایسا ہی پایا ، مگر اللہ تعالیٰ نے بھی جواب دیدیا ” اولو کان ابائو ھم لایقلون شیئا ولا یھتدون “ (البقرۃ) اگر ان کے ابائو اجداد بےعقل اور راہ ہدایت سے محروم ہوں۔ اس سے زیادہ بےوقوفی کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ محض آبائو اجداد کے افعال کو دلیل پکڑا جائے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اس بیان کی وجہ سے ضرور سزادے گا۔ انہ حکیم علیہم وہ حکیم ہے ۔ حکمت کے ساتھ مہلت دیتا ہے اور جلدی گرفتار نہیں کرتا ۔ وہ علیم بھی ہے ۔ اس کو علم ہے کہ کون شخص کیا کرتا ہے۔ وہ ہر باطل رسوم کے پجاری اور غیر اللہ کی نذر و نیاز کے حامی کو جانتا ہے۔ اس سے کوئی چز پوشیدہ نہیں ہے۔ قتل اولاد کا ذکر گذشتہ درش میں ہوچکا ہے۔ کہ مشرکین کی مذہبی پروہت اسے مزین کر کے دکھاتے تھے جس کی وجہ سے وہ اولاد کو معبودان باطلہ کے نام پر قربان کردیتے تھے۔ اس کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے۔ قد خسر الذین قتلو اولادھم سفھام بغیر علم نقصان میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو قتل کیا بیو قوفی سے اور بغیر علم کے ۔ ننت و ناموس کی خاطر بچیوں کا زندہ درگور کرنا یا معاشی بنیاد پر بچوں کا مطلقا قتل یا ان کو معبودان باطلہ کے نام پر بھینٹ چڑھا دینا انتہا درجے کی بیوقوفی اور علم سے بےبہرگی کا نتیجہ تھا۔ اس کا نقصان بالکل واضح ہے۔ اولاد سے محرومی ظاہری دنیا میں عظیم نقصان ہے اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ ایک غلط کام اچھا اور نیکی سمجھ کر کر رہے ہیں۔ ایسے کاموں سے اللہ تعالیٰ خوش کیو ہوگا ؟ وہ تو سخت ناراض ہوتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ایسے لوگ خسارے میں پڑگئے۔ ایک اور نقصان یہ بھی ہے وحرمواما رزقھم اللہ جو رزق اللہ نے انہیں دیا ہے اسے اپنے آپ پر حرام قرار دے لیا ہے۔ اللہ کی عطاکی ہوئی روزی سے محروم رہنا بھی کتنی بڑی بد نصیبی اور کتنا بڑا نقصان ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ لوگ گھاٹے میں پڑگئے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ وھر مو اما رزقھم اللہ سے اولاد بھی مرد لی جاسکتی ہے۔ یعنی جو اولاد اللہ تعالیٰ کسی شخص کو دیتا ہے یا دنیا پر چاہتا ہے۔ اس کو اپنے آپ پر حرام قرار دے لیتے ہیں اور اولاد کی پیدائش میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انفرادی سطح پر بھی ہوتا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی برتھ کنٹرول کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ سے عطا ہونے والی اولاد کو لینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کسی سکیم کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ اور لاد اعلیٰ کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ پیدائش روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کبھی عورت کو مانع حمل گولیاں کھلا کر اور کبھی بچہ دانی کا آپریشن کر کے حمل کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ عمل ایک طرف سے آیت کریمہ کی زد میں آتا ہے اور دوسری طرف بےحیائی کو فروغ دیتا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے۔ کہ کثیر آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری نہیں کی جا سکتیں ، حالانکہ رزق کے تمام ذرائع اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھے ہیں۔ ان پر کسی کو تصرف کا اختیار نہیں دیا۔ سرۃ الذٰریٰت میں ارشاد ہے ” ان اللہ ھوالرزق ذوالقوۃ المتین “ مضبوط طاقت کا مالک وہی رزاق ہے۔ تمہارا فرض یہ ہے کہ اس کے دیے ہوئے رزق کو صحیح طریقے سے خرچ کرو۔ ادھر ایک طرف تو برتھ کنٹرول کی ترغیب دی جاتی ہے اور دوسری طرف دن میں چھ چھ مرتبہ جانوروں کی طرح بےتحاشا کھایا جاتا ہے۔ تم الل کی گدی پر بیٹھ کر رزاقیت کے مالک بنتے ہو اور سمجھتے ہو کہ ہماری جاری کردہ سکیموں کے ذریعے رزق حاصل ہوگا۔ یہ تو حماقت ہے تمہارے پاس جو کچھ ہے اسے منصفانہ طریقے سے تقسیم تو کرو اور پھر دیکھو کہ وسائل رزق کس طرح مہیا ہوتے ہیں۔ اچھی تعلیم اور اچھی ملازمتیں بڑے لوگوں کے لیے مخصوص کردی جائیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے غریب طلبا کو محروم کردیا جائے۔ با صلاحیت بچوں کے داخلے پر قدغن لگا دی جائے تو روزگار کا بہائو نیچے کی طرف کیسے آسکتا ہے۔ یہ اسی امتیازانہ سلوک کا نتیجہ ہے کہ امیروں کے بد کار بچے ڈگریاں حاصل کر کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ اور غریب آدمی کو مزدوری تک نہیں ملتی۔ یہ سب غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے۔ اللہ نے تو واضح طور پر فرما دیا ہے ” وکاین من دابۃ لا تحمل رزقھا “ کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق اپنی پشت پر اٹھائے نہیں پھرتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ یرذقھار “ (عنکبوت) ان کو رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ دیکھیں یہ چرند ، پرند ، درند ، کیڑے مکوڑے کہاں سے روزی حاصل کرتے ہیں ، اللہ نے سب کے لئے انتظام کر رکھا ہے اور تمہاری روزی کے اسباب بھی وہی پیدا فرماتا ہے۔ جہاں تک قتل اولاد کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے ” ولاتقتلوا اولادکم من الاق “ (الانعام) اپنی اولاد کو رزق کی کمی کی وجہ سے قتل نہ کرو۔ حقیقت یہ ہے ” نخن نرزقکم وایاھم (الانعام) رزق ان کو بھی لازمی ہم دیتے ہیں اور تمہیں بھی لہٰذا اس بناء پر اولاد کو قتل کرنا یا اولاد کی پیدائو میں رکاوٹ ڈالنا اللہ تعالیٰ کے تصرف میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ اللہ جل جلالہ ، اپنی حکمت کے مطابق ہر ذی جان کو رزق پہنچاتا ہے کسی کو کم دیتا ہے اور کسی کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ ” ولوبسط اللہ الرزق لعباد لبغوا فی الارض “ (الشوریٰ ) اگر سب کا رزق اللہ تعالیٰ کشادہ کردیتا تو یہ سب دنیا میں فتنہ و فساد کا بازار گرم کرتے ۔ یہ اللہ تعالٰ کی حکمت ہے کہ کسی کو رزق میں وسعت دیتا ہے اور کسی کا روک لیتا ہے تاکہ دنیا میں امن وامان قائم رہ سکے۔ فرمایا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیز کو اپنے آپ پر حرام قرار دے لیا ” افترء علی اللہ “ اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتے ہوئے۔ بچوں کی بھینٹ کو خدا تعالیٰ کی خوشنود پر محمول کرتے تھے جو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے ، فرمایا قد لو ا یہ گمراہ ہوگئے وما کانو ا مھتدین اور یہ ہرگز ہدایت پر نہیں ہیں بلکہ گمراہی میں پھنسے ہوئے ہیں آگے چل کر ان کو ان کی کارکردگی کا ضرور بدلہ مل جائیگا۔
Top