Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 136
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآئِنَا١ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ مَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰى شُرَكَآئِهِمْ١ؕ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کیلئے مِمَّا : اس سے جو ذَرَاَ : اس نے پیدا کیا مِنَ الْحَرْثِ : کھیتی سے وَالْاَنْعَامِ : اور مویشی نَصِيْبًا : ایک حصہ فَقَالُوْا : پس انہوں نے کہا ھٰذَا : یہ لِلّٰهِ : اللہ کیلئے بِزَعْمِهِمْ : اپنے خیال میں وَھٰذَا : اور یہ لِشُرَكَآئِنَا : ہمارے شریکوں کے لیے فَمَا : پس جو كَانَ : ہے لِشُرَكَآئِهِمْ : ان کے شریکوں کے لیے فَلَا : تو نہیں يَصِلُ : پہنچتا اِلَى : طرف۔ کو اللّٰهِ : اللہ وَمَا : اور جو كَانَ : ہے لِلّٰهِ : اللہ کیلئے فَهُوَ : تو وہ يَصِلُ : پہنچتا ہے اِلٰي : طرف (کو) شُرَكَآئِهِمْ : ان کے شریک سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کرتے ہیں
اور ٹھہرایا ان لوگوں نے اللہ کے لیے اس میں سے جو پیدا کیے ہیں اللہ نے کھیتی اور مویشی ایک حصہ پھر انہوں نے کہا یہ اللہ کا حصہ ہے اپنے خیال سے اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے پس وہ حصہ جو ان کے شریکوں کا ہوتا ہے ، پس وہ نہیں پہنچنا اللہ کی طرف۔ اور جو اللہ کا حصہ ہوتا ہے پس وہ پہنچتا ہے ان کے شریکوں کی طرف ۔ بہت بڑا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں
گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا رد اور قیامت کے محاسبے کا ذکر فرمایا تھا اور یہ کہ جنوں اور انسانوں سے باز پُرس ہوگی اور انہیں جواب دینا پڑے گا۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ اچھا انجام ایمان اور نیک اعمال پر منحصر ہوتا ہے ، اور ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پا سکتے ۔ چونکہ ظلم میں سر فہرست کفر اور شرک ہے ، اس لیے اللہ نے اس سورة مبارک میں کفر و شرک کی خاص طور پر تردید فرمائی ہے گذشتہ درس میں اعتقدی شرک کی تردید کی گئی تھی اور اب اس درس میں عملی شرک کی مذمت بیان کی گئی ہے زمانہ جاہلیت میں مشرکوں نے بہت سے شرکیہ اعمال و عقائد وضع کرلیے تھے جن پر وہ عمل پیرا تھے ان میں سے بعض رسمات جاہلیت کی تردید کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وجعلو اللہ اور ٹھہرایا ہے ان مشرکین نے اللہ کے لیے مما ذرا من الحرچ والا انعام اس میں سے جس کو اللہ نے پیدا کیا ہے کھیتی اور مویشیوں میں سے ۔ نصیبا ایک حصہ کھیتی بھی اللہ کی پیدا کی ہوئی ہے اور مویشی بھی اس نے پیدا کیے ہیں۔ تخلیق صرف اللہ جل جلالا ، کا کام ہے۔ اناج ، پھل ، سبزیاں ، ہر قسم کے نبا تات پیدا کرنے والی وہی ذات ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انسانی معاشز اور اتفاق کی یہ صورت عام ہے اور اللہ نے اس کی مثالیں قرآن پاک میں بکثر ت بیان فرمائی ہیں۔ مثلا ” و انزلنا من السماء مائ “ اور ہم نے آسمان سے پانی نازل فرمایاّ (مومنون) سورة عبس میں ہے ” انا صبینا السماء صبا ثم شققناالارض شقاہ فانبتنا فیھا حبا و عنبا وقضبا وزیتونا ونخلا وحدائق غلبا “ وفاکھۃ وابا “ ہم نے کس طرح آسمان سے پانی بہایا پھر زمین کو ہم نے پھاڑا ، پھر ہم نے اس میں اناج اگایا ، اور انگور اور تر کاریاں اور زیتون اور کھجوریں ، گھنے باغ اور میوے اور چارا پیدا کیا۔ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ اور آگے اسی سورة میں انعام یعنی مویشیوں کا ذکر بھی آگیا کہ وہ بھی اللہ نے پیدا فرمائے ہیں۔ فرمایا اللہ کی پیدا کردہ ان اشیاء میں سے مشرک لوگ ایک حصہ اللہ کے لیے ٹھہراتے ہیں یعنی اس کی نیاز کے طور پر الگ کرتے ہیں فقا لوا اور زبان سے یہ کہتے ہیں ھذا اللہ بزعمھم یہ حصہ اللہ کے لیے ہے۔ یہاں پر لفظ بزعمھم خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے خیال سے ایسا کہتے ہیں یہ اللہ کا حصہ ہے۔ کسی حکم خداوندی یا باقاعدے قانون کی رو سے نہیں بلکہ محض اپنے پروہتوں اور کاہنوں کے بنائے ہوئے تخیل کی بنا پر اللہ کا حصہ الگ کرتے ہیں اور اللہ کی نیاز اس لیے نکالتے تھے کہ مشرک لوگ بھی اللہ تعالیٰ ہی کو بڑا مانتے تھے۔ تاہم وہ مخلوق میں سے بھی بض کو معبود مانتے تھے کہ یہ خدائے برحق کی ماتحت ہوتے ہوئے یہ بھی ہماری حاجت رائی اور مشکل کشائی کرتے ہیں۔ اور اسی مقام پر آکر شرک کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جس سے نکلنا محال ہوجاتا ہے۔ بہر حال اپنی کھیتی اور مویشیوں کی پیداوار میں سے اور دوسرے حصے کے متعلق کہتے وحذ الشرکا ئِنا یہ ہمارے شریکوں یعنی دوسرے معبودوں کا حصہ ہے۔ اور ان شرکاء میں کسی کا لات تھا اور کسی کا مناۃ ، کسی کا سبل تھا اور کسی کا غریٰ تھا۔ ہر مشرک اپنے معبود باطل کی نیاز کا حصہ علیحدہ کرتا تھا۔ غرضیکہ مشرکین اللہ کی نیاز بھی دیتے تھے اور شرکاء کی نیاز بھی مگر وہ لوگ اللہ کی نیاز کی نسبت غیر اللہ کی نیاز کا زیادہ خیال رکھتے تھے۔ اور اس کے لیے زیادہ اہتمام کرتے تھے اور پھر اس نیاز کی تقسیم اس طرح تھی کہ جو حصہ اللہ تعالٰ کی نیاز کا ہوتا تھا ، وہ غریبوں مسکینوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیتے تھے اور جو حصہ غیر اللہ کا ہوتا تھا وہ ان بتوں اور استھانوں پر موجود کاہنوں اور پروہتوں کے سپرد کردیتے تھے۔ انعام سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں عام طور پر لوگ پالتے ہیں اور وہ انسانوں سے مانوس ہوتے ہیں۔ یہ آٹھ جوڑے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے حلال فرمائے ہیں ۔ یعنی اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری ، یہ تمام جانور نر اور مادہ ہر دو حلال ہیں۔ بھینس بھی گائے ہی کی ایک قسم ہے تاہم یہ مرطوب جگہوں پر پائی جاتی ہے۔ عرب چونکہ خشک خطہ ہے ، اس لیے وہاں بھینس نہیں ہوتی اور باقی جانور پائے جاتے ہیں۔ یہ مویشی اللہ نے خاص طور پر انسان کی خدمت کے لیے پیدا فرمائے ہیں لوگ ان کا دودھ ، گوشت ، گھی ، کھال اور اون استعمال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ اپس نے انہیں انسان کا مطیع بنا دیا ہے بڑے طاقتور ہونے کے باوجود یہ انسان کے اشارے پر چلتے ہیں اور انہیں ہر قسم کی خدمت مہیا کرتے ہیں۔ ان جانوروں کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ اونٹ سے سواری اور بار برداری کا کام لیا جاتا ہے عرب کے خشک اور وسیع ریگستانوں میں اونٹ ہی سواری اور باربرداری کا کام دیتا ہے۔ اس کے علاوہ میدانی علاقوں میں اونٹ ہی سواری اور باربرادری کا کام دیتا ہے۔ اس کے علاوہ میدانی علاقوں میں اونٹ اور بھینس سے کھیتی باڑی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ ان کے ذریعے کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے اور ہل میں بھی جو تتے ہیں۔ غرضیکہ یہ جانور انسان کے قریبی دوست اور اعلیٰ قسوم کے خدام ہیں۔ اللہ نے انہیں انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔ ان کے دلوں میں یہ ڈال دیا ہے کہ تمہیں ہر صورت می انسان کی خدمت کرنا ہے سو اونٹ کی قطار ہو تو ایک دس سال کا بچہ نکیل پکڑ کر سب کو اپنے پیچھے چلا لیتا ہے۔ وگرنہ جنگلی جانور بڑے خطرناک ہوتے ہیں اور ایک ہی وار میں آدمی کا کام تمام کردیتے ہیں۔ جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے انسان کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ جب جا کر وہ قابو میں آتے ہیں اور پھر انہیں باندھ کر یا پنجرے میں بند کرکے رکھنا پڑتا ہے ۔ مگر یہ انعام ایسے جانور ہیں جو اللہ نے انسان کی محض خدمت کے لیے مامور کردیئے ہیں۔ بہر حال مشرکین عرب اپنی پیدا وار میں سے اللہ کا حصہ بھی نکالتے تھے اور شرکاء کا حصہ بھی۔ البتہ وہ شرکاء کے حصے کو اللہ کے حصے کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اس کا زیادہ خیال رکھتے تھے۔ ارشاد ہے فما کان لشرکاء ھم فلا یصل الی اللہ جو حصہ ان کے معبودوں کا ہوتا تھا ، وہ اللہ کی طرف نہیں پہنچتا تھا۔ وما کان للہ فھو یصل الیٰ شرکاء ھم اور جو حصہ اللہ کا ہوتا تھا وہ اگر ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتا تو کہتے کوئی بات نہٰں۔ اللہ کو کس چیز کی کمی ہے۔ وہ غنی ہے ۔ برخلاف اس کے معبود ان باطلہ کے حصہ میں سے اگر ایک دانہ بھی دوسری طرف چلاجاتا تو فورا واپس کردیتے۔ اس طرح وہ غیر اللہ کے حصے کو اللہ کے حصے کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے ۔ یہاں بھی وہ حماقت کا اظہار کرتے تھے جب وہ اپنے معبودوں کو بےنیاز نہیں سمجھتے تھے ، تو پھر ان کے نام کی نیاز کیوں دیتے تھے نیاز تو صرف اس کو سزا وار ہے جو بےنیاز ہے۔ ادھر اللہ کو بےنیاز سمجھتے ہیں مگر اس کو اہمیت نہیں دیتے ۔ فرمایا ساء ما یحکمون کتنا برا فیصلہ جو وہ کرتے ہیں۔ وہ رب العزت جس نے کھیتی اگائی اور مویشی پیدا کیے اس کی نیاز کو کچھ اہمیت نہیں دیتیھ اور معبودان باطلہ جو عاجز اور مھتاج ہیں ان کے لیے بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔ آج بھی رسومات کے پجاری پرانے مشرکین کے نقش قد پر ہی چل رہے ہیں نماز اور زکوٰۃ کی تو چنداں فکر نہیں ہوتی مگر پیران پیر کی گیارہویں کے لیے بڑا اہتمام کرتے ہیں کہ کہیں وہ نہ رہ جائے۔ ہر سال عرس کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ عید میلاد کے لیے جھنڈیاں اور بلب لگانے کے لئے سار ا سال پیسے جمع کرتے ہیں۔ امام جعفر (رح) کو نڈے خاص شرائط کے تحت بھرے جاتے ہیں کہ گھر سے باہر نہیں نکالنا ، چھت کے نیچے ہو اور پھر طلوع آفتاب سے پہلے پہلے کام ختم ہوجانا چاہئے ، مزاروں پر چادریں چڑھانے اور عرس منانے کے لیے بڑی تگ و دود ہوتی ہے۔ بڑے بڑے پروگرام بنتے ہیں ، خوب سجاوٹ ہوتی ہے۔ قبروں کو عرق گلاب سے غسل دیا جاتا ہے۔ سونے کا دروازہ لگایا جاتا ہے۔ آخر یہ سب کچھ کس حکم خداوندی کے تحت کیا جاتا ہے ؟ افسوس کا مقام ہے کہ اب حکومت بھی ایسی بدعات میں شامل ہوگئی ہے۔ عرس کا افتتاح اور رسم چادر پوشی کسی وزیر یا مشیر سے کرائی جاتی ہے قیمتی چادریں زیب قبر کی جاتی ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (رح) نے ساری عمر اپنے لیے جھونپڑی تک بنانا پسندنہ کیا مگر آج ہماری حکومت دو لاکھ روپے مالیت کی چادر ان کی قبر پر چڑھانے کے لیے سینکڑوں افراد پر مشتمل سرکاری وفد کے ذریعے بھتیجی ہے۔ کیا دین اور اسلام کا یہی کام رہ گیا ہے ؟ آخر وہ فرائض واجبات ، سنن اور مستحبات کہاں گئے جن کو ان بزرگوں نے زندگی بھر سینے سے لائے رکھا۔ آج ہم سب کچھ بھول کر ان کی محبت میں بدعات کو رواج دے رہے ہیں اور پھر ان سے محبت کے دعوے بھی کر رہے ہیں۔ بہر حال اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، کہ وہ لوگ اللہ کے حصے یعنی اس کے احکام کی تو کچھ پروا نہیں رکتے تھے۔ مگر غیر اللہ کی نیاز کا بڑا اہتمام کرتے تھے وہ بھی خودساختہ بدعات کے عاشق اور احکام الٰہی سے روگردان تھے۔ ہمارے ہاں فوتیدگی کی رسومات کا بھی یہی حال ہے۔ شریعت کے احکام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ، بدعات کی بھرمار ہے۔ تیسرا ، ساتواں اور چالیسواں بڑے اہتمام سے ادا کیا جاتا ہے۔ برادری اکٹھی ہوتی ہے اور مرنے والے کا مال کا خوب اڑایا جاتا ہے پوچھو تو کہیں گے کہ ایصال ثواب ہو رہا ہے اللہ کے بندو ! اگر میت کے ساتھ واقعی ہمدردی ہے اور ایصال ثوابمطلوب ہے تو وہی طریقہ اختیار کرو جو اللہ کے رسول نے بتایا ہے ۔ اس کے لیے کسی دن اور تاریخ کی قید نہیں۔ حلا مال سے غریبوں اور محتاجوں کو کھانا کھلائو۔ کپڑے پہنائو ان کی دوسری حاجت براری کرو تو مرنے والے کو بھی فائدہ ہوگا۔ محض رسم کی شکل میں صرف رشتے داروں اور دوستوں کو کھلا دینے سے کتنا ثواب ہوگا ؟ ان بدعات کی ترویج اور رسومات باطلہ کو اختیار کرنے سے ثواب کی بجائے گناہ کا زیادہ احتمال ہے۔ اہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ مشرک لوگ اپنے مویشیوں کے بچوں میں سے معبود ان باطلہ نیاز نکالتے تھے۔ انہوں نے تعداد مقر ر کر رکھی تھی کہ جس مادہ کے اتنے بچے پیدا ہوجائیں گے تو ان میں سے ایک بچہ بتوں کے نام پر قربان کردیا جائے گا۔ انہیں قربانی کا محتاج بھی سمجھتے تھے اور پھر ان سے مدد کے طالب بھی ہوتے تھے ، کتنی جہالت کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اسی غلط تقسیم کا رد فرمایا ہے۔ مشرکین ایک اور حماقت یہ بھی کرتے تھے کہ معبودان باطلہ کے نام پر اچھی چیز وقف کرتے تھے جب کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر کم تو چیز پر اکتفا کرلیتے تھے ان کے اس عملی شرک کا بیان آگے بھی اسی سورة میں آئے گا۔ فرمایا وکذلک زین لکثیرمن المشرکین قتل اولادھم شرکا ئوھم اسی طرح ان کے شرکاء نے بہت سے مشرکین کے لیے ان کی اولادوں کے قتل کو مزین کر رکھتا تھا ۔ یہاں یہاں پر شرکاء سے مراد وہ پروہت کا ہن اور مولوی ہیں جو انسانی بچوں کی قربانی کو ان کے سامنے بڑا خوبصورت بنا کر پیش کرتے تھے۔ انہیں بتا تے تھے کہ بتوں کے نام پر بچوں کو قربان کرنے کا کتنا بڑا فائدہ حاصل ہوگا ، اور وہ جاہل لوگ ان کا کہا مان کر اپنے بچوں جیسی غریز متاع کو معبودان باطلہ کے نامر پر قربان کردیتے تھے۔ گرمایا ان کے پروہتوں کا مقصدیہ ہوتا تھا لیردوھم تاکہ وہ اپنے پیرو کاروں کو ہلاک کرسکیں انہیں پھیلنے پھولنے کا موقع نہ مل سکے اور وہ اس طرح ان کے دست نگر بن کر رہیں۔ اور دوسری وجہ یہ تھی ولیلبسوا علیھم دینھم اور تاکہ ان پر ان کی دین کو متلبس کردیں ، یعنی دین کے معاملات کو اس قدرخلط ملط کردیا جائے کہ انہیں حق و باطل کی پہچان ہی نہ ہو سکے اور وہ لوگ اس طرح اندھیرے میں بھٹکتے رہیں اور ہر معاملہ میں انہی کے محتاج بن کر رہیں۔ قتل اولاد کی کئی صورتیں قرآن پاک میں مذکور ہیں۔ مشرکین عرب اور بعض دوسری قومیں بھی بچی کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیتی تھی لڑکی کی پیدائش کو وہ باعث ننگ تصور کرتے تھے کہ بڑی ہوگی تو اس کا نکاح کرنا پڑے گا ، پھر ہمارا داماد بنے گا وغیرہ وغیرہ ، وہ ظالم نہیں سمجھتے تھے۔ کہ آخر وہ بھی تو کسی ماں ہی کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں اور کسی کے داماد بنے ہیں۔ اگر بچیوں کو زندہ نہ چھوڑا ہوتا تو خود وہ کیسے پیدا ہوتے اور آئندہ نسل انسانی کیسے بڑھے گی ۔ اس کے علاوہ وہ اقتصادی مسئلہ کا سہارا بھی لیتے تھے کہ بچی جو ان ہو جائیگی تو اس کی شادی کے لیے جہیز کہاں سے لائیں گے۔ اگر خرچ کریں گے تو مال میں کمی آجائیگی۔ وہ بچوں کی پیدائش کو اپنے آرام و راحت میں مخل بھی سمجھتے تھے۔ مطلقا قتل اولاد اسی فلسفے پر مبنی تھا۔ کہ اولاد ہوگی تو ان کی پرورش کا کیا بندوبست ہوگا ۔ ان کے لوازمات زندگی کے حصول کے لیے سخت محنت کرنی پڑیگی ، لہٰذا ان کا ابتداء میں ہی خاتمہ کردیا جاتا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا نسل کشی کا ایک طریقہ بچوں کی قربانی بھی تھا۔ بتوں کو خوش کرنے کے لیے بچوں کو ان کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ شیطان نے یہ سبق پڑھا دیا تھا۔ کہ آخر حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے بھی تو اپنے لخت جگر کو قربانی کے لیے پیش کردیا تھا۔ لہٰذا یہ بہت بڑا عمل اور فوز و فلاح کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اس قسم کا زعم ہندوستان کے ہندوئوں میں بھی پایا جاتا تھا۔ کلکتے والی کالی دیوی کے نام پر انسانی بچوں کو قربان کیا جاتا تھا۔ ہزاروں لاکھوں بچے اس بہت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مثال کے طور پر جس شخص کے دس بچے پیدا ہوجاتے وہ ایک بچے کو بت کے نام پر قتل کردیتا یا پانی میں غرق کردیتا اور اسے بہت بڑی عبادت سمجھتا تھا۔ اس زمانے میں بھی اس قسم کے اکاد کا واقعات پیش آتے ہیں کہ کسی شخص نے کہا کہ مجھے خواب آیا ہے کہ بچے کو قربان کر دوں اور پھر اس نے ایسا کردیا۔ فرمایا کہ ان کے نام نہاد متبوع ان کو پٹی پڑھاتے ہیں کہ ایسا کرنے میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ لہٰذا سادہ لوگ ان کے جھانسے میں آکر گزرتے ہیں۔ یہ نہایت قبیح اور ظالمانہ عقیدہ ہے ۔ ایسا کرنے والے اللہ کے ہاں صریح قتل ناحق کے مجرم ہیں۔ ان کا بچہ بھی ضائع ہوجاتا ہے اور وہ اخلاقی طور پر بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ اگلی آیات میں اللہ نے اس مسئلہ کی مزید وضاحت فرمائی ہے۔ رسومات باطلہ کی ترویج کے لیے وسیع پراپیگنڈا کیا جاتا ہے جھوٹی کہانیاں سنا کر لوگوں کو شرک ، کفر اور بدعات پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ لالچی پیر اور مولوی لوگوں کو باطل رسومات میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ صحیح دین ان تک نہ پہنچ سکے کیو ن کہ اگر صحیح بات واضح ہو جائیگی تو باطل کے اندھیرے چھٹ جائیں گے جاء الحق وزھق الباطل ایک مسلمہ اصول ہے۔ جب حق آجاتا ہے تو باطل اس کے مقابلے میں قدم نہیں جما سکتا۔ لہٰذا پیٹ پرست دین کے ٹھیکیدار لوگوں کو غلط باتیں مزین کر کے دکھاتے ہیں ، انہیں اپنے مکرو فریب کے جال میں پھنسائے رکھتے ہیں۔ اور دین کو خلط مط کر کے پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو تسلی دی ہے اور فرمایا ہے ولو شاء اللہ مافعلوہ اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے ۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ برائی اور مکروفریب کی قوت ہی سب کرسکتا ہے مگر یہ بات اس کی حکمت کے خلاف ہے وہ ہر شخص کے سامنے حق و باطل کے راستے واضح کر کے انہیں ان کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیتا ہے اور کسی پر جبر نہیں کرتا کیونکہ اسے جبری ایمان قبول نہیں ہے۔ فرمایا اے پیغمبر ! ﷺ فذرھم وما یفترون آپ ان کو بھی چھوڑدیں اور جو کچھ یہ افتراء کرتے ہیں اس کو بھی چھوڑدیں۔ آپ ا ن کی اسلام دشمنی اور بےدینی کی وجہ سے زیادہ فکر مند نہ ہوں۔ جو کچھ غلط عقائد رکھتے ہیں اور باطل رسومات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ انہیں من مانی کرنے دیں۔ ایک وقت آنے والا ہے جب ان کا محاسبہ ہوگا اور پھر یہ خود اپنے جرموں کا اقرار کریں گے ، اس وقت ہم خود ان سے نپٹ لیں گے ، آپ دل برداشتہ نہ ہوں۔
Top